تسلیمہ نسرین کی بھاجپا سے وفاداری- اپنے ملک بنگلہ دیش سے غداری

اس میں کوئی شک نہیں کہ تسلیمہ نسرین مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی کی پیداوار (Product) ہیں۔ جو لوگ اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی میں ساری اخلاقی اور دیانتداری کے حدود توڑنے میں مشہور اور معروف ہیں وہ تسلیمہ نسرین کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں کیونکہ اس وقت اسلام دشمنوں کی ان سے بہتر ان کے نزدیک کوئی اور ترجمانی نہیں کرسکتا۔ یہ د شمن حق اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ محترمہ متعدد شوہر دیدہ ہیں۔ بنگلہ دیش میں اپنے کئی شوہروں کو ایک بعد ایک کو چھوڑنے کے بعد آزادی رائے، آزادی نسواں کی چمپئن بن گئی ہیں۔ اپنے آپ کو دہریوں میں شامل کرتی ہیں مگر سوائے مذہب اسلام کے کسی اور مذہب اور دین پر وار نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ اگر ہندستان میں پناہ لینا ہے یا یورپ کے کسی بھی ملک میں عیش و عشرت کی زندگی سرکاری خرچ پر گزارنا ہے تو ہندو مت یا عیسائیت پر منہ بند رکھنا ہوگا۔
بنگلہ دیش کی رہنے والی تسلیمہ نسرین اپنے ملک کی جو حالت بیان کر رہی ہیں اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہندستان کے ہندو فرقہ پرستوں کو مشتعل کرنا اور ان سے داد و تحسین حاصل کرنا ہے۔ محترمہ فرما رہی ہیں کہ بنگلہ دیش کی ہندو آبادی 1947ء میں 31 فیصد تھی اور اس وقت (2016)میں 8 فیصد ہے۔ 2014ء میں راقم اپنے ایک ہندو دوست مسٹر سرتی رنجن بسواس کے ساتھ بنگلہ دیش کے دورہ پر گیا تھا۔ ہم دونوں کا مقصد تھا کہ بنگلہ دیش کی اقلیت کا حال اقلیت کے لیڈروں اور ان کے اداروں اور جماعتوں سے براہ راست معلوم کریں۔ ہم دونوں نے تقریباً دس چھوٹی بڑی ہندو تنظیموں کے لیڈروں سے ملاقاتیں کیں اور ان سے بحث و مباحثہ کیا۔ ان کی تیار کردہ رپورٹوں کو پڑھا۔ سیاسی تنظیموں کے لیڈروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ہندو بھائیوں نے بتایا کہ تقسیم ہند سے پہلے مشرقی بنگال کی آبادی 20 فیصد تھی مگر اس وقت 10 فیصد ہوگئی ہے۔ ایک وجہ تو اکثریت کی طرف سے تشدد بتایا اور دوسری وجہ یہ بتائی کہ بنگلہ دیش سے کہیں زیادہ مغربی بنگال سے ہندو بھائیوں کا پیار اور پناہ کی سہولتیں ہیں۔ کئی لوگوں نے بتایا کہ عام طور پر حکمراں جماعت کے سیاسی کارکنان ہندوؤں کی جائیدادوں کو قبضہ کرنے کیلئے فرقہ وارانہ فساد کراتے ہیں مگر یہ جب بھی کرتے ہیں رات کے اندھیرے میں کیونکہ دن میں اگر کرنا چاہتے ہیں تو مسلم اکثریت کی طرف سے مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم لوگوں کے جانے سے پہلے دو تین مقامات پر معمولی قسم کے فسادات ہوئے تھے۔ ان فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔ لوگوں نے بتایا کہ عوامی لیگ کے لوگ ایسی حرکت جائیدادوں کو ہڑپ کرنے کیلئے کرتے ہیں اور اپنے ظلم و جبر کو چھپانے کیلئے جماعت اسلامی یا بی این پی کے ورکروں کو ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں تاکہ موجودہ حکومت بدنام نہ ہو۔ میرے ہم سفر مسٹر سرتی رنجن بسواس کا تجزیہ تھا کہ ملک ہندستان میں جو اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا ہے اس کا 10 فیصد بھی بنگلہ دیش کی ہندو اقلیت یا دیگر اقلیتوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔
جہاں تک آبادی میں کمی ہونے کا معاملہ ہے اس میں تشدد اور فساد سے کہیں زیادہ ہندو آبادی کا بنگلہ دیش سے کہیں زیادہ مغربی بنگال کی طرف نظر جمائے رکھنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ وہاں کے اکثر پڑھے لکھے ہندو بنگالی جو سرکاری ملازم ہیں وہ اپنی فاضل رقموں کو کلکتہ کے بینکوں میں جمع کرتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کلکتہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ مشہور صحافی سونندا دتا رے نے اپنی ایک رپورٹ میں ایک پڑھے لکھے بنگالی ہندو کا بیان کوٹ کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر چہ وہ بنگلہ دیش میں رہتا ہے مگر اس کا دل ہندستان میں رہتا ہے۔ وہ بنگلہ دیش کا شہری ضرور ہے مگر اسے ہندستان کی شہریت سے زیادہ دلچسپی ہے۔ تسلیمہ نسرین نے آبادی کے گھٹنے کا جو قصہ بیان کیا ہے یہی کہانی بی جے پی کے لوگ بیان کرکے غیر مسلم آبادی کو مسلمانوں کے خلاف ورغلاتے ہیں۔ تسلیمہ نے بنگلہ دیش کی آبادی کو آزادی سے پہلے 30فیصد بتایا ہے اور فی الوقت 8فیصد کہا ہے جو بالکل غلط ہے۔
متنازعہ مصنفہ تسلیمہ نسرین نے ’’ہندستان ٹائمز‘‘ (16 مئی 2016) کو دیئے گئے انٹرویو میں یہ بھی کہا ہے کہ ہندستان کے ترقی پسند یا کمیونسٹ ہندو فرقہ پرستوں کی خبر تو لیتے ہیں مگر مسلم فرسہ پرستوں پر تنقید کرنا گوارا نہیں کرتے۔ موصوفہ کو معلوم ہے کہ اقلیت اگر فرقہ پرستی کی طرف قدم بڑھاتی ہے تو اس کا سب سے بڑا نقصان ہوتا ہے وہ تو ہر فرقہ پرستی اور فساد سے بچنے کی کوشش کرتی ہے۔ سرکاری محکمہ بھی اس کے خلاف ہوتے ہیں۔ پولس زیادتی کرنے میں ساری حدیں توڑ دیتی ہے۔ وہ خود بھی فرماتی ہیں کہ بنگلہ دیش کی اکثریت ظلم و زیادتی کرتی اور فرقہ پرستی پھیلاتی ہے تو پھر ان کا پیمانہ ہندستان کیلئے بھاجپا کے دباؤ کی وجہ سے بدل کیوں گیا ہے؟
موصوفہ بنگلہ دیش میں بلاگرس اور دہریوں کے قتل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کی تشویش اور فکر مندی صحیح ہے مگر ان کو اپنے بھائیوں کو بھی تعلیم اور تلقین کرنا چاہئے کہ وہ ان کی طرح مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ بدنام مانہ مصنفہ نے اپنی کئی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہراتؓ کو نشانہ بنایا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کو کلکتہ راس نہیں آیا۔ اگر بلاگرس بھی اپنے رویہ میں تبدیلی کریں تو بہتر ہوگا۔ اسلام یا مسلمانوں کے خلاف تنقید کرنا کوئی جرم نہیں ہے بلکہ مسلمان ایسی چیزوں کو خوش آمدید کہیں گے کیونکہ تنقید اور تحقیق سے ہی باتوں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے جو لوگ خواہ مسلمان ہیں یا نہیں تنقید کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ اسلام یا مسلمانوں کے حق میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ رہا تسلیمہ اور ان کے بھائیوں کی طرف سے گستاخانہ کلمات یا گالی گلوج یہ تو ہندستان میں مسلمان برداشت کرلیتے ہیں اور کرنا چاہئے مگر ایسے ملک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں برداشت کرنا لوگوں کیلئے مشکل ہے۔
تسلیمہ نسرین نے شیخ حسینہ واجد کی مذہبیت کا بھی رونا رویا ہے، حالانکہ وہ ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں کہ لادینیت کا بول بالا ہو اور اسلام پسندی کا مظاہرہ کریں تو ان پر تہمتوں کی بارش کرکے ان کی Judicial Killing (عدالتی قتل) کی جائے تاکہ بلاگرس اور دہریہ خوش ہوں۔ ان کی حکومت جو صرف 5 فیصد سے وجود میں آئی ہے۔ اسے استحکام حاصل ہو۔ بنگلہ دیش میں جمہوری طریقہ سے جو جماعتیں کام کر رہی ہیں جن کی حکومت رہ چکی ہے اور جو صاف و شفاف الیکشن کی حامی ہیں۔ ان کو بھی محترمہ شیخ حسینہ واجد صفحہ ہستی سے مٹانے کا پورا منصوبہ بنا چکی ہیں۔ باپ نے جتنے قضیئے اور تنازعے 1971ء سے تعلق رکھتے تھے اپنی زندگی میں ختم کر دیئے۔ بیٹی جو تنازعے نہیں بھی تھے اسے اپنے خانہ ساز ٹریبونل جس کی مخالفت دنیا بھر کی حقوق انسانی کی تنظیمیں کر رہی ہیں اس کے فیصلہ کو نافذ کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کے صف اول کے تمام لیڈروں کو قریب قریب قتل کرچکی ہیں۔ تسلیمہ نسرین کو تو اپنی وزیر اعظم صاحبہ سے خوش ہونا چاہئے مگر وہ چاہتی ہیں کہ حسینہ واجد قتل و غارت گری کرنے میں مزید تیزی دکھائیں۔ یہی چیز یہاں کی فرقہ پرست پارٹی بھی چاہ رہی ہے۔ محترمہ اس کی ترجمانی کر رہی ہیں ۔ واہ واہی بٹورنے اور مزید عیش و عشرت سے زندگی گزارنے کیلئے یہ سب کر رہی ہیں، مگر کب تک؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔