اتحاد اسلام ہے، انتشار کفر ہے!

علامہ اقبال نے اپنے اشعار، تقاریر اور تحریرات سے امت مسلمہ کو ایک اور متحد رہنے کی پر اثر نصیحتیں کی ہیں:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
علامہ اقبال یہ بھی فرماتے ہیں کہ اتحاد اور اجتماعیت کے نہ ہونے سے امت کی رسوائی ہوئی ہے:

آبرو باقی تری ملت کی جمعیت سے تھی
جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا
اپنی اصلیت پر قائم تھا تو جمعیت بھی تھی
چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروانِ بو ہوا
اس کی دلیل بھی پیش فرماتے ہیں :
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
ہمارے بیشتر علماء کرام ، وعظین اور مبلغین اپنی تقریروں اور تحریروں میں علامہ اقبال کی ان باتوں کو بڑے اچھے انداز سے پیش کرتے ہیں مگر دیکھا جائے تو علامہ اقبال کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی ہے کہ :
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
اہلِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
بہت سارے افراد اتحادو اجتماعیت کے حق میں مقالے اور مضامین بھی لکھتے ہیں انتہائی اچھے اور پُراثر ، قرآن اور حدیث کے نہ صرف حوالے دیتے ہیں بلکہ صحابہ اکرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعین ، ائمہ اربعہ اور سلف صالحین کی وسعت نظری اور ان کے معاشرتی پہلو کو بیان کرتے ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ان حضرات کے رویوں اور کچھ باتوں کو محض اس لئے نقل کریں کہ ایک بار پھر غور وفکر کریں کہ وہ کتنی اچھی اور سچی باتیں ہیں۔ اس پر بھی سوچیں کہ اگر ان کو مان لی جائیں تو کیا تفرقے باقی رہیں گے ؟ اور یہ بھی فیصلہ کریں کہ آخر ہمارے درمیان کون لوگ ہیں جو قرآن واحادیث کے احکامات پر، بڑوں اور بزرگوں کے رویوں کے اثرات پر پانی پھیر دینے میں کامیاب ہیں ؟
m امام شافعیؒ کا معروف قول ہے’’میری رائے صحیح ہے جس میں غلطی کا امکان بہر حال موجود ہے ،جب کہ دوسرے کی رائے غلط ہے مگر اس میں صحت کا امکان موجود ہے‘‘ (ادب الا ختلاف، ڈاکٹر جمال نصار)۔ ایک جگہ پر وہ فرماتے ہیں ’’جب کسی مسئلے پر میری کسی سے بحث ہوتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس کی زبان سے حق ظاہر کردے تاکہ میں بھی اس حق کی اتباع کروں۔‘‘(ایضاً)
m مدینہ منورہ کے سات اہم ترین فقہا میں سے ایک کا نام القاسم بن محمدؒ تھا۔ ان کی وسیع الظرفی اور دور اندیشی دیکھئے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ امام کے پیچھے مقتدی کو فاتحہ پڑھنی چاہئے یا نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا:’’امام کے پیچھے اگر مقتدی فاتحہ پڑھ لے تو رسول اکرمﷺ کے صحابہ کرامؓ کی اتباع کرے گا اور اگر نہیں پڑھے گا تب بھی رسول اکرمﷺ کے صحابہ کرامؓ کی اتباع کرے گا۔‘‘(جامع بیان العلم)
m امام مالک ؒ نے مشہو رزمانہ کتاب الموطا جب تحریرکی تو وقت کے حاکم نے اس خواہش کااظہار کیا کہ اس کتاب کو کعبۃ اللہ میں رکھا جائے اور تمام مسلمانوں کے لئے اس کو مرجع قرار دیا جائے۔ امام مالک نے ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا : امیرالمومنین ایسا نہ کیجئے، ایک ہی رائے پر عمل کرنا مسلمانوں کے لئے شاق ہوگا۔‘‘(ادب الاختلاف)
m امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے : ’’یہ میری رائے ہے اور میں نے بہتر رائے دینے کی کوشش کی ہے۔ اگر کسی کے پاس اس سے بہتر رائے ہے تو اسے قبول کرنے میں ہمیں کوئی عار نہیں۔‘‘(قوعد حاکمہ فی الاختلاف الرشید،فتحی عبدالستار)امام مالکؒ کہا کرتے تھے :’’میں انسان ہوں، میری رائے غلط بھی ہوسکتی ہے، لہٰذا میری رائے کو کتاب وسنت کی کسوٹی میں کسا کرو۔‘‘ امام شافعیؒ سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے:میری رائے کے خلاف اگر صحیح حدیث ہو تو میری رائے کو دیوار پر دے مارو۔اگر صحیح قول جس کی بنیاد پر صحیح حدیث پر ہوتو، تمہیں راہ چلتے کسی شخص سے مل جائے تو اس پر عمل کرو اور سمجھو یہ میری رائے ہے۔‘‘ (ایضاً)
m ائمہ اربعہ سے یہ بھی منقول ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی تقلیدکرنے سے منع کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ’’کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ہمارے قول پر عمل کرے تاوقتیکہ اسے معلوم ہو کہ ہماری رائے کی بنیاد کیا ہے۔‘‘(ایضاً)۔ ائمہ اربعہ سے یہ بات بھی معروف ہے کہ جب وہ کسی دوسرے امام کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اپنی رائے کے بجائے ان امام کی رائے پر عمل کرتے تھے۔ دوسرے امام کے احترام میں وہ ایسا کرتے تھے۔ امام شافعیؒ : فجر کی نماز میں دعائے قنوت کو واجب قراردیتے تھے مگر جب وہ عراق گئے تو امام ابوحنیفہؒ کی رائے کا احترام کرتے ہوئے فجر کی نماز میں قنوت نہیں پڑھتے تھے، حالانکہ امام ابوحنیفہ اس وقت انتقال کرچکے تھے ۔(ایضاً)اختلاف رائے اپنی جگہ، مگر احترام اور عزت وتوقیر اپنی جگہ۔یہ تھے ہمارے ائمہ کرام جنہوں نے ہمارے لئے روشن مثالیں چھوڑی ہیں۔
حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے ابن ماجہ میں منقول ہے۔ آپ نے صلہ بن زفر سے کہا: ’’اسلام کی تعلیم عام ہوتی رہے گی یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جس میں لوگوں کو معلوم نہیں ہوگا کہ نماز، صدقہ اور دیگر عبادات کیا ہیں ، حتیٰ کہ قرآن مجید کی آیات تک لوگوں کو یاد نہیں رہیں گی۔ پھر جو بچے بوڑھے اور خواتین ہوں گی، وہ کہیں گے:ہمارے باپ دادا، لاالہ الااللہ‘ کہا کرتے تھے، لہٰذا ہم بھی اسی کلمے کااقرار کرتے ہیں۔‘‘ اس پر صلہ بن زفر نے کہا: ’’محض ’لاالہ الااللہ‘ کہنا ان کے کس کام کا، جب کہ انہیں نماز روزہ اور دیگر عبادات کا علم ہی نہیں۔‘‘یہ سن کر حضرت حذیفہؓ نے ان سے منہ پھیر لیا۔ بار بار دہرانے کے بعد حضرت حذیفہؓ نے جواب دیا’’یہ کلمہ انہیں آگ سے بچانے کے لئے کافی ہوگا‘‘ (حاکم) گویا اس کلمے کا اقرارا نہیں جہنم کی آگ سے بچاسکتا ہے۔ اس سے ملتی جلتی صورت حال کا مشاہدہ سقوط اندلس کے بعد اور سوویت یونین کے دور میں دیکھاجاچکا ہے جب حکومت نے اسلام اور اس کے تمام شعائر پر پابندی لگادی تھی۔ وہاں کے لوگوں کو اتنا علم تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور لاالہ الااللہ کا اقرار کرتے ہیں۔ محض اس کلمے کی وجہ سے ان شاء اللہ وہ جہنم سے بچا لئے جائیں گے۔
ان باتوں سے معلوم ہوا کہ اسلام ایک وسیع الظرف دین ہے اور یہ وسعت ظرفی ہمیں اپنے اندر بھی پیدا کرنی چاہئے۔ اختلافات رکھنے کے باوجود ہمارے اندر بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو ہمیں متحد کرسکتی ہیں۔ اس اتحاد کے بغیر ہم اپنے دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
علمائے امت نے اختلاف رکھنے کے باوجود تعاون کرنے کا ایک زریں اصول وضع کیا جس کے الفاظ ہیں :’’اتفاق رائے آپ ایک دوسرے سے تعاون کریں اور اختلاف رائے پر ایک دوسرے کی رائے کا جواز تسلیم کریں۔‘‘ اس قاعدے وکلیے کو یوں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے کہ ’’متفقہ مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور مختلف فیہ مسائل میں ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ کریں۔
امام ابن تیمیہ ؒ کا کہنا ہے ’’ کوئی بھی امام اجتہادی مسائل میں رسول اکرمﷺ کی صریح حدیث سے عمداً اختلاف نہیں کرتا۔ اختلاف میں وہ معذور ہوتا ہے جس کے بنیادی طور پر تین اسباب ہیں:ایک یہ کہ اس کا گمان ہوتا ہے کہ یہ حدیث رسول اکرمﷺ نے نہیں فرمائی۔ دوم یہ کہ اس حدیث کا اس معاملے پر انطباق نہیں ہوتااور سوم یہ کہ اس کا خیال ہوتا ہے کہ حدیث میں بیان کیا جانے والا حکم منسوخ ہے‘‘(فتاویٰ ابن تیمیہ،ج۲۰،ص۲۳۲)امام ابن تیمیہ ؒ کا ایک اور جگہ پر یہ قول بھی منقول ہے :’’اسلام کا کوئی بھی مسئلہ جس میں علماء کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا ہو مگر اس اختلاف کی وجہ سے تفرقہ ، دشمنی اور منافرت پیدا نہ ہوئی ہو تو یہ مسئلہ اسلام کے عین مصلحت کے مطابق ہے، جب کہ جس مختلف فیہ مسئلے میں تفرقہ پیدا ہو، لوگوں کے درمیان دشمنی اور عداوت پیدا ہونے لگے تو جان لو کہ اس مختلف فیہ مسئلے کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘(الاختلاف بالتی ھی احسن، رجب ابوملیح)
ہرشخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس مکتب فکر سے چاہے رجوع کرے، جس کی چاہے تقلید کرے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہی حق پر ہو اور باقی سب کو گمراہ قراردے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’’ پس اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو،وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے‘‘ (النجم ۵۳:۳۲) خود کو برحق اور دوسرے کو گمراہ قرار دینے والا امت میں تفرقہ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس عمل کی مذمت کی گئی ہے۔ تفرقہ بندی اور لسانی اور گروہی تعصب جاہلیت کے نعرے ہیں۔ قرآں مجید میں اس کی صریح ممانعت ہے۔
ہجرت نبویﷺ سے پہلے مدینہ منورہ میں اوس اور خزرج کے درمیان طویل جنگیں ہوئی تھیں۔ اسلام کی برکت سے وہ ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے۔ اخوت اور مودت کا یہ ماحول یہودیوں کو کھٹکتا رہا، لہٰذا وہ ان کے درمیان تفرقہ پیداکرنے کی کوشش کرنے لگے۔ مدینہ منورہ میں انصار کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والا پہلا شخص یہودی تھا جس کا نام شاس بن قیس تھا جسے انصار کی اخوت اور محبت کھٹکتی رہی۔ اوس کے پاس جاکر انہیں خزرج کے بارے میں اکساتا اور شعر پڑھ کر انہیں ان کی خونی تاریخ یاد دلاتا۔ اسی طرح خزرج کے پاس جاکر انہیں اوس کے بارے میں اکساتا یہاں تک دونوں گروپ اس کے بہکاوے میں آگئے اور پھر وہ موقع آیا جس میں اوس اور خزرج آمنے سامنے آگئے۔ اوس کے لوگوں نے نعرہ بلند کیا’’اوس لے لوگو! اپنے قبیلے والے کی حمایت کرو‘‘ اور خزرج نے نعرہ لگایا’’اے خزرجیو! اپنے قبیلے کے لوگوں کی مدد کرو۔‘‘ قریب تھا کہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے ساتھ بھڑ جاتے مگر عین وقت پر رسول اکرؐم تشریف لائے اور دونوں گروہوں کی سخت سرزنش کرتے ہوئے فرمایا : جاہلیت کے نعرے بلند کرتے ہو حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔‘‘ آپﷺ نے انہیں قرآن مجید کی آیات سنائیں یہاں تک کہ دونوں گروہ رو پڑے اور ایک دوسرے سے معانقہ کیا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی یہ آیات نازل فرمائیں ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم ان اہل کتاب میں سے اک گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔ تمہارے لئے کفر کی طرف جانے کا اب کیا موقع باقی ہے، جب کہ تم کو اللہ کی آیات سنائی جارہی ہیں اور تمہارے درمیان اس کا رسول ﷺ موجود ہے ؟ جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہ راست پالے گا۔‘‘(آل عمران۳:۱۰۰۔۲۰۱)
غور کیا جائے تو شاس بن قیس کسی نہ کسی صورت میں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے جو امت کے افراد کے درمیان تفرقہ ڈالنے پر تلا ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ امت تفرقہ میں پڑ جائے تاکہ اندر سے کھوکھلی ہو اور اس پر حملہ کرنا آسان ہو، جب کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ ’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں،ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔‘‘ (الانفال۸:۴۶) ۔ اسی طرح کی ہدایت رسول اکرمﷺ سے ملتی ہے: ’’آپس میں اختلاف نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے امتوں کے اختلاف ہی نے انہیں ہلاک کیا‘‘ (بخاری)۔ شاس بن قیس جیسے لوگ امت کو گروہوں میں بانٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کبھی ان کا نعرہ سنی شیعہ کا ہوتا ہے تو کبھی حنفی، مالکی کہتے ہیں۔ کبھی مقلد اور غیر مقلد کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو کبھی دیوبندی اور بریلوی کی صدا لگاتے ہیں۔
یورپی ممالک ہمارے لئے مثال ہیں۔ آج یورپی ممالک آپس میں متحد ہیں، جبکہ ان کی خونی تاریخ کافی طویل ہے۔ یورپی ممالک نے ماضی کو بھلاکرمتحد ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا ایک امت سے تعلق رکھنے والے لوگ یکجا نہیں ہوسکتے۔ ایک ایسی امت جس کا رب ایک ، رسول ایک، قرآن ایک اور کعبہ ایک ہے۔ یہ امت کیوں ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہے۔ یورپی ممالک میں کوئی قدر مشترک نہیں اس کے باوجود وہ متحد ہیں، جب کہ امت مسلمہ خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو، وہ کیوں متحد نہیں ہوسکتے حالانکہ ان کے درمیان کئی مشترکہ اقدار ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جس میں امت کے افراد جو لاالہ الااللہ کا اقرار کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اختلاف کے باوجود متحد رہیں تاکہ دشمنوں کو اقتراق وانتشار پھیلانے کا موقع ہاتھ نہ آئے۔
آخر ان سب باتوں کا اثر ہمارے معاشرہ اور سماج پر کیوں نہیں ہوتا ایک بات تو وہی ہے کہ شاس بن قیس کسی نہ کسی صورت میں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے جو امت کے افراد کے درمیان تفرقے ڈالنے میں تلا ہوا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ خدا خوفی ہمارے معاشرہ سے غائب ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے شیطان کی پیروی بے حیائی کے ساتھ کی جاتی ہے اور اس کا نام دین ومذہب ، شریعت اور مسلک بتایا جاتا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ معاشرہ کا یا مسلمانوں کی زندگی کا اجتماعی طور پر کوئی اعلیٰ نصب العین یا اعلیٰ مقصد نہیں ہے اور نہ ہی دعوت کی طرف معاشرہ یا مسلمانوں کی رغبت یا رجحان ہے اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جب خود ہی برسرپیکار ہیں تو دوسروں کو اللہ کی طرف بلانے کی فرصت کہاں ؟
چوتھی وجہ یہ ہے کہ سورہ الحجرات کی آیت۹؂ جس میں مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ ’’اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو اور انصاف کرو اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘سے توجہ مکمل طور پر ہٹ گئی ہے۔ مضمون نگار ، مقالہ نگار اور وعظین کرام بھی اس طرف قولاً و عملاً توجہ دلانے سے قاصرہیں۔ اس موضوع پر بہت ساری کتابوں اور تحریروں کو پڑھنے کا موقع ملا ہے بہت سارے عالموں اور دانشوروں کو سننے کا موقع ہاتھ آیا ہے مگر یا تو لوگ بھول گئے ہیں یا کسی وجہ سے بولنا نہیں چاہتے ۔ شاید کسی اصول پر عمل نہ کرنے سے اصول نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے محض تلاوت سے یہ باتیں یاد نہیں رہتیں ۔ تلاوت برائے تلاوت ہی ہوا کرتی ہے نیت ثواب کا ہوتا ہے کچھ ثواب ہاتھ آجاتا ہے بس اسی پر اکتفا مسلمانوں کی روش ہوگئی ہے اس سے نہ تلاوت کا حق ادا ہوتا ہے اور نہ جس کام کیلئے اس کا نزول ہوا ہے وہ کام پورا ہوتا ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے۔
پہلی بات اس آیت سے یہ مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کی اپنی ملت کے دو گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں اور وہ بیٹھے پرایا کی لڑائی سمجھ کر تماشا دیکھتے رہیں۔ بلکہ یہ افسوسناک صورتحال جب بھی رونما ہو تمام اہل ایمان کو اس پر بے چین ہوجانا چاہئے اور ان کے باہمی معاملات کے اصلاح کیلئے جس کے بس میں جو کوشش بھی ہو وہ اسے صرف کرڈالنی چاہئے ۔ تلقین و نصیحت کے ساتھ خدا سے ڈرایا جائے۔ با اثر لوگ فریقین کے ذمہ دارآدمیوں سے جاکر ملیں۔نزاع کے اسباب معلوم کریں اور اپنی حدتک ہر وہ کوشش کریں جس سے ان کے درمیان مصالحت ہوسکتی ہو۔
دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ ظلم کرنے والوں کو ظلم کرنے دیں بلکہ ظلم کرنے والوں کا ہاتھ پکڑنے کی پوزیشن میں ہوں تو ہاتھ پکڑ لیں اس وقت جو فریق زیادتی پر آمادہ ہو حق وانصاف کی باتیں نہ سنتا ہو۔ حق کی طرف اسے موڑے جانے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہوں اس سے سب ملکر اخلاقی اور جمہوری طریقہ سے لڑیں اس کا سماجی بائیکاٹ کریں۔ اور اس طرح کریں کہ وہ معاشرہ میں نکو ہوجائے تاکہ پھر کسی کو کسی گروہ پر زیادتی کرنے کی ہمت نہ ہو۔ تیسرا اور ضروری اصول یہ بتایا گیا ہے کہ عدل وانصاف کے ساتھ صلح کرایا جائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ صلح کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے جو حق وباطل کے فرق کو نظر انداز کرکے محض لڑائی روکنے کے لئے کرائی جائے۔ جس میں برسرحق گروہ کو دباکر زیادتی کرنے والے گروہ کے ساتھ بے جا رعایت برتی جائے۔ صلح وہی صحیح ہے جو انصاف پر مبنی ہو۔ اس سے فساد ٹلتا ہے۔ فساد کی مکمل سرکوبی ہوتی ہے۔ورنہ حق والوں کو دبانے اور زیادتی کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہوتا ہے کہ خرابی کے اصل اسباب جوں کے توں باقی ہوتے ہیں بلکہ ان میں اور اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اس سے بار بار فساد برپا ہونے کی نوبت آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے ان اصولوں پر اگر مسلم معاشرہ عمل پیرا ہوجائے تو تنازعات کم ہوجائیں بلکہ ختم بھی ہوسکتے ہیں۔ نصیحتوں اور تلقینیوں کا اثر تو اچھے لوگ فوراً قبول کرلیتے ہیں مگر برے اور شری افراد پر نصیحتوں اور تلقینوں کا اثر نہیں ہوتا وہ ان کے کانوں سے ٹکرا کر واپس آجا یا کرتی ہیں۔ شری اور برے افراد کو لڑائی اور جھگڑے ہی سے دلچسپی زیادہ ہوتی ہے وہ امن اور صلح کے دشمن ہوتے ہیں۔ معاشرہ کوایسے دشمنوں پر نظر رکھنی چاہئے ۔ ایسے ہی لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بڑی آسانی سے اپنا دوست بنالیتے ہیں اور وہ ہر موقع پر کچھ ایسا کرگذرتے ہیں کہ مسلمان برسوں تک ان زخموں سے کراہتا رہتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم سب کو مل جل کر دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلیں جب ہی دوسروں پر ہمارا رعب ودبدبہ ہوسکتا ہے اور ہم بھلے کاموں میں منہمک ہوسکتے ہیں اس حقیقت کو یاد رکھنا چاہئے کہ:
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ اِلہام بھی اِلحاد
مفکر اسلام شاعر مشرق علامہ اقبال نے اہلِ ایمان کو وصیت کی ہے کہ :
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

تبصرے بند ہیں۔