دیدِ سعید (پہلی  قسط)

سید شجاعت حسینی

یہ کوئی سفر نامہ نہیں،  بلکہ منتشر اور مختصر مشاہدات کا البم ہے۔ از حرم تا حرم۔ سفر نامہ سمجھ کر پڑھیں تو راقم پر زیادتی ہوگی، اور قاری کے حصے میں مایوسی آئیگی۔ بے ربط تصویروں کا کولاج سمجھ کر بلاتکلف ٹٹولتے چلئیے، آپ لطف بھی پائیں گے اور شائد کچھ انمول  ذرات بھی۔ ۔

تاریخ ساز گھر

سفر کی تھکان، احرام کی بندشیں، مانسون کی ٹھنڈک سے چل کر ریگزاروں کی حدت،  جدہ ایر پورٹ پر بیورو کریسی کے عظیم الشان جلوے، نیند سے لمبی دوری، پھر مکۃ المعظمہ  کی سمت انتطار، تجسس اور تڑپ سے بھر پورسست سفر۔ ۔۔!!

رات 1:30 بج رہے تھے۔ ہم نے  ہوٹل میں قدم رکھا۔ یہاں کا ٹھنڈا ماحول اور آرام دہ بیڈس بھرپور نیند کی دعوت دے رہے تھے۔ عام سفر ہوتا تو شائد قدم رکھتے ہی نیند کی آغوش میں پہنچ جاتے۔ لیکن یہاں سب کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ عمر بھر کی تمنا جو بر آئی۔ یقین نہیں آتا کہ ہم حرم کعبہ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ سالہا سال جسکی سمت رخ کرکے عبادات، دعا ومناجات کا اہتمام کرتے رہے، آج اسی مرکز روح و جاں سے کچھ پل کی دوری پر کھڑے ہونے کا احساس ہی سب کو نیند اور تھکن بھلا کر ریفریش کردینے کے لئیے کافی تھا۔

رات دو بجے حرم کعبہ کی سمت روانہ ہوئے۔ مکہ کلاک ٹاور کی رونقیں دور سے نظر آرہی تھیں،  لیکن نہ انھیں دیکھ کر کوئی حیرت نہ نظروں کو اس چکاچوند سے کوئی سروکار۔۔

نظریں تو بس مادی چکا چوند سے پاک، کالے غلاف سے ڈھکی، ظاہری حسن سے دور،  کالے پتھروں کی چھوٹی سی منفرد عمارت کے دید کی منتظراور متمنی تھیں۔ دل میں خیالات اور احساسات کا طوفان بپا تھا۔

کیا میں واقعی اس منفرد عمارت کی جاذبیت سمیٹ  پاؤں گا؟  کیا میری نظریں اس دید کوسمو سکیں گی؟  کیا میں اس نظارہ کے ساتھ امڈ  پڑنےوالے جذبات پر قابو رکھ پاؤں گا؟  کیا، مجھے یاد بھی رہے گا کہ میں نے اپنی جھولی میں کن کن دعاؤں کے ذخیرے کو پچھلے کئ ماہ سے سمیٹ سمیٹ کر جمع کر رکھا تھا کہ پہلی نظر کے ساتھ اس جھولی کو الٹ دینا ہے۔

دھیرے دھیرے خود کوسنبھالتے ہم آگے بڑھ رہے تھے۔ پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ایک قافلہ ہے جن میں ہر دیس کے باسی شامل ہیں۔ چال ڈھال اور چہرے پر چھائے تاثرات کم وبیش مشترک ہیں۔ بات صاف ہے، ہم سب ایک ہی گروہ میں شامل ہیں۔ اپنے رب کے گھر کے اولین دیدار کامتمنی گروہ۔

ہر قدم اٹھانے سے پہلے یہ سوچتے ہوئے کہ اب دوسرا قدم اٹھایا جائے یا کچھ دیر ٹھہر لیا جائے تاکہ دل کی دھڑکنیں نارمل ہوجائیں۔بالآخر نظریں جم گئیں۔ بیت اللہ آنکھوں کے سامنے جلوہ فرما تھا۔۔ اور میری حالت ممتاز مفتی کے الفاظ کے عین مطابق۔۔

” میرے وجود کے فیتے میں گویا چنگاری دکھادی گئ اور زوں سے راکٹ کی طرح فضاء میں اڑ گیا۔ میرے قلب میں ایک دھماکہ ہوا۔ میرے وجود کی دھجیاں بکھر گئیں۔ وہ عظیم الشان مسجد معدوم ہوگئ۔ زائرین کا بے پناہ ہجوم چیونٹیوں میں بدل گیا۔”

اب نظروں کے سامنے رہ گیا، بس بیت اللہ، اسکی بزرگی، اسکی عظمت، عزت اور دبدبہ !

اللهم زد هذا البيت تعظيماً وتشريفاً ومهابة۔

ائے اللہ اس کعبہ کی بزرگی، عظمت، عزت اور دبدبہ میں اضافہ فرما۔ ۔ آمین۔

عبادت، خدمت، ندامت، اخوت

 مطاف کے اندرونی حصے میں طواف بڑا مشقت کا کام ہے۔ سانس لینے کے لئیے  جگہ ڈھونڈنی پرتی ہے۔  پسلیاں تک دبی جاتی ہیں، گرمی شباب کو چھورہی ہے۔

افریقی، یوروپی، عربی، ہندی ہر قومیت کے  لوگ پسینے سےنہائے اور نہلائے جاتے ہیں۔ اس شدید کیفیت میں کہیں سے ٹھنڈے پانی کی پھوار راست چہرے پر پڑتی ہے۔ کچھ لوگ ہاتھوں میں اسپرے تھامے عبادت و خدمت ساتھ ساتھ انجام دے رہے ہیں۔  زیادہ پریشان حال لوگوں کو دیکھ کر انھیں ٹھنڈے پانی کے اسپرے سے نہلا بھی دیتےہیں۔ ۔ چہرے اور سر پر پڑنے والی اچانک اور غیر متوقع پھوار کا مِنی غسل انھیں پہلے بوکھلائے دئیے دیتا ہے اور جب سمجھ آئی  تو  پھر خوش کردیتا ہے۔

عین مطاف میں ایک عدد لڑائی اور مار پیٹ بھی دیکھی اور اگلے ہی لمحہ ندامت، معافی اور پشیمانی۔

ففرواالی اللہ

طواف رب سے ملاقات کی دوڑ ہے۔ یہاں سمت طئے نہیں۔ رخ بدلتا رہے گا لیکن انداز نہیں۔

استلام (حجر اسود کی سمت ہاتھ بڑھانا) سے طواف شروع ہوا۔ اسے صرف ہاتھ کا اشارہ مان لیں تو جذبات کا دھارا بھی بدستور سکون سے بہتا رہے، لیکن اس تصور کے ساتھ ہاتھ اٹھائیے کہ یہ رب کائنات سے مصافحہ کامقام ہے، مقام بیعت اور توبہ کا عہد ۔ یہ تصوربھی لرزا دینے کے لئیے کافی ہے کہ اگر یہ عہد ٹوٹ جائے تو کیسی بد نصیبی۔ ۔!

طواف، بندوں کے ہجوم سے گذر کر خدا تک رسائی کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ یہ ایک پیغام بھی ہے کہ قرب الہی کا انعام پانا ہوتو بندوں کے ہجوم سے گذرنا سیکھو۔ انکے دھکے کھاکر انکی خدمت کا جذبہ بیدار کرو۔

مردم بیزار لوگ یہاں ہمت ہار جاتے ہیں۔ وہ مطاف کے بجائے حرم کا کوئی خاموش گوشہ عبادت کے لئیے ڈھونڈھ لیتے ہیں۔

طواف، مقام ابراہیم سے گذر کر "ابراہیمی مقام” تک پہنچنے کی راہ ہے۔ یہاں صرف نقش قدم کا نظارہ نہیں، نقش قدم کی تقلید کا عہد بھی ہوتا ہے۔ براہیمی سیرت کے نقوش دیکھ کر براہیمی نظر (ویژن)  کی تمنا امڈآتی ہے۔

مگرانسان کی کمزوری یہ ہے کہ۔ ۔

براہیمی نظر  پیدا مگر مشکل  سے  ہوتی ہے

ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں

طلب کی ٹھوکر

رحمٰن کی ضیافت کے ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔

 عین مطاف میں اپنے مہمانوں کے لئیے توانائی کا چشمہ جاری کردیا۔ جسے نہ سوکھنے کی اجازت ہےنہ کثافتیں قبول کرنے کی۔ براہیمی مقام اور براہیمی نظر سے گذر کر براہیمی پاکیزگی اور براہیمی توکل بھی دیکھیئے۔

شفاف زمزم کے دو گھونٹ جسم کو ریچارج کرنے کے لئیے کافی ہیں۔

پانی کی یہ بوندیں خاموش پیام کا ایک سمندر ہیں۔

ظاہری اسباب کے خاتمہ پر غیر متوقع رحمتوں کا پیام۔

مایوسی کی تاریکیوں میں امید کی کرنوں کا پیام

تمام سہاروں کے چھوٹ جانے پر ایک بیکس و ناتواں انساں کا مضبوط ترین سہارےپر توکل کا پیام

آج جب مایوسی کی فضا عام ہوئی جارہی ہے۔ اچھے بھلے لوگ بھی بات بات پر ڈھلکتے نظر آئیں۔ کام شروع کرنے سےپہلے آنکھوں کے سامنے ناکامیوں کے بھوت منڈلائیں۔ مخلص تحریکات بھی ناکارہ پلندہ لگیں۔ ابلیس کے معمولی چیلے  ناقابل شکست طاغوت محسوس ہوں۔ ہر فرد "امید میں مایوسی کی کرن” کا رول ادا کرتا پھرے، تب یہ لگتا ہے کہ اس مایوس انسانیت کو زمزم کے دو گھونٹ پلا تا چلوں تاکہ سیرت ہاجرہ کا وہ روشن سبق دل و دماغ پر انمٹ نقش بن کر چھا جائے۔

"توکل” تو طلب کی راہ میں ایک ایسی ٹھوکر ہے

کہ جس سے زندگی کی ریت میں زمزم ابلتے ہیں۔

محبت کا داغ

 ساتھ چل رہے افریقی احباب نے کچے اورگہری رنگت کے رنگ برنگے کپڑے پہن رکھے ہیں جو پسینے کے ساتھ دھنک کی رنگینی میں ڈھل رہے تھے اور ہر پڑوسی کو رنگا رنگ کیے جارہے تھے۔ عام حالت میں  رنگینی کا یہ ٹرانسمیشن کسی کوبھی آگ بگولا کرنے کے لے کافی ہے۔ لیکن یہاں لوگ اس سچوشن کو بھی خندہ پیشانی سے انجوائے کررہے تھے۔ ۔میں نے بھی لائٹ کریم کلر کا شرٹ پہن رکھا تھا، اس لیے اس رنگا رنگ سیلاب سے بچتا رہا، لیکن بالکل آخر میں ایک افریقی بھائی  نے آگے بڑھ کر عملا کہہ ہی دیا کہ۔۔۔

داغ کیا کم ہے محبت کا یہی یاد رہے۔  ع

رنگین داغ سے بچ کر چلنا فطری امر تھا لیکن آج یہی داغدار پہناوا نجانے کیوں مجھے قیمتی کپڑوں سے عزیز تر محسوس ہوتا ہے۔

کیرالا، ہے ہی نرالا 

اب حجاج کے قافلوں کی آمد تیز تر ہوگئ۔ ۔ ترک، افریقی، اورانڈونیشائی حجاج ایک لیڈر کی رہنمائی میں داخل ہورہے جو انھیں بلند آواز میں تلبیہ و تکبیر پڑھاتا ہے۔ ۔

شناخت کے لئیے کسی نے احرام پر لوگو پرنٹ کر رکھا،  کو ئ بیگس پر، کوئی مخصوص چھتریاں سنبھالے ہے،  کہیں خواتین کے اسکارف یا، سر پر رنگ برنگی پٹیاں۔ ۔ ادھر ایک افریقی گروپ نے اوپری احرام کے تکلف سے خود کو آزاد کرلیا اورزیادہ نمایاں ہوگیا۔

ہندوستانی حجاج ہمیشہ کی طرح آزاد پنچھی ہیں۔ جب تک پوچھ نہ لیں پتہ ہی نہ چلے۔ صرف کیرالا ممتاز ہے۔ ویسے ہی منظم، وہی اجتماعیت، وہی بارعب اجتماعی ڈرل ، اور چال ڈھال میں بھی نرالا پن، اپنے تعلیم یافتہ ہونے کا خاموش اظہار

 حج کا اجتماع  نہیں بلکہ ان معاشروں کا نمائندہ عکس ہے۔ مجھے لگا یہ محض

معلاۃ کا دامن

حرم کے مشرقی دروازہ باب السلام سے ہوکر مکۃ المکرمہ کی قدیم حدود میں داخل ہوجائیے۔ یہاں پہاڑ کے علاوہ کو ئی اسٹرکچر قدیم حالت میں نہیں۔ لیکن خوشی اس بات کی ہوگی کہ آپ عین ان راستوں سے گذررہے ہیں جن کے گوشہ گوشہ پر نبی کریم (ص) نے قدم  رکھا۔

 یہ معلاۃ ہے، یعنی پہاڑی کے دامن میں مشرقی شہر۔

مکہ کا یہی وہ حصہ ہے جہاں آپ(ﷺ) کی ولادت ہوئی۔ جہاں حضرت حمزہ، حضرت عباس (رض) اور کئ اہل معلاۃ کی مبارک زندگی بیتی۔ جہاں کی چٹانیں ابو جہل کے شر و فساد کی گواہ ہیں اور جہاں کی خاک، مکہ کی تپش میں صحابہ کی عزیمت کی تاریخ سموئے ہے۔۔

نظروں کا ہر دائرہ سیرت کے ان تمام مبارک لمحات کو  ذہن کے گوشے گوشے سے کھینچ لاتا ہے، جنھیں کتابوں میں پڑھ کر اور بچپن میں بڑوں سے سنکر اپنے ذہن میں محفوظ کررکھا تھا۔۔

معلاۃ کا دامن اور سرحد پر کھڑی چٹیل پہاڑیاں     خشکی اور بنجر پن کی آخری  حدوں کو چھوتی ہیں۔ رب کائنات بھی اسے   بواد غیر ذی زرع  ( بے آب و گیاہ وادی )  قرار دیتا ہے۔ لیکن حیرت یہ کہ ان چٹیل پہاڑیوں کی دامن میں سکون پانے کے لئیے   جولوگ چلے آتے ہیں  وہ تعداد ان سے سیکڑوں گنا  زیادہ ہوتی ہے جو برفیلی چوٹیوں، سبزہ زاروں، اور آبشاروں میں سکون ڈھونڈھتے  نگر نگر بھٹکتے ہیں۔

خزاں نہیں خزاں نہیں، بہار ہے بہار ہے     

بگولے راہ شوق کے بلند ہوکے بول اٹھے 

 ناصحا مت کر نصیحت

بر صغیر کے روایت پسند معاشروں سے آئےحجاج کو حرم کے کئ مناظر جا بجا پریشان کرتے ہیں۔ ۔حرم میں چپل کا بلا تکلف استعمال، خواتین کی "بے پردگی”، نمازیوں کے سامنے سے بلا تکلف گذرنا، صحن میں جابجا بڑے اسکرینس پر صفائی اور دیگر امور سے متعلق اشتہارات،

اقامت  اور صلوۃ الجنازہ کے الگ انداز وغیرہ۔ ۔۔

یہاں ہر فرد اپنی فقہ پر عمل کرنے کے لئے آزاد ہے ( صرف شرک و بدعات پر مشتمل غیر ضروری حرکتوں کو جبرا روکا جاتا ہے)۔ لوگ بھی اسی کلچر میں ڈوب جاتے ہیں۔ جو لوگ اپنے ملک میں مسجد میں کسی کا کھلا سر دیکھتے ہی بورئیے کی تاجپوشی عین ایمان کا تقاضہ سمجھتے ہیں ان کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ کیا، اوپری احرام سے آزاد کسی افریقی کو نیا کرتا سلا کر پہنائیں ؟  یا شالیں اڑھائیں ؟

اسکے باوجود اپنے مسلک کو زبردستی منوانے کا جذبہ ہمیں دیر تک چین سےبیٹھنے بھی نہیں دیتا۔ یوں لگتا ہے کہ پوری ملت کو ہم مسلک بنانا اور  فقہ کی اپنی چوائس کے مطابق پوری دنیا کی تربیت فرمانا ہمارا مشن اور بس ہمارا اعزازہے۔ ہم نے اپنے ہموطنوں کو غیر ضروری نصیحتوں کے تحفوں سے نوازتے دیکھا۔ ۔ ان نصیحتوں کے جواب میں بس حیران کن نظریں ملتی ہیں،  گویا کہہ رہی ہوں۔ ۔

ناصحا مت کر نصیحت دل مرا گھبرائے ہے

میں اسے سمجھوں ہوں کب جو تجھ سے سمجھا جائے ہے۔ ۔

ترکوں کو اردو نصیحت

کسی کو اعتراض کہ مطاف میں موزے کیوں پہن رکھے، ایک اور صاحب ایک ترک جوڑے کو اردو میں سمجھا رہے تھے کہ تمھیں  آپس میں کتنا محفوظ فاصلہ (سیف ڈسٹنس) قائم رکھنا چاہئیے، استلام پر ایک انڈونیشائی  نے دونوں ہاتھ بلند کئے تو کسی نے انکے طواف کی قبولیت کے نیک جذبہ سے سرشار ہوکر لپک کر بایاں ہا تھ نیچے کھینچ ڈالا، عین مطاف میں ایک محترم نما ز ادا فرمارہے تھے اور انکی ٹیم سترا سجا کر اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے زنجیر بنا کر انکی نماز کی حفاظت پر معمور تھی کہ کوئی سامنے سے گذر کر نماز فاسد نہ کر پائے۔ خواہ طوا ف کرنے والے اس مقام پر پہنچ کر دب کر ہی رہ جائیں۔

عین مطاف میں جذبہ عشق کے  تلاطم پر اس مصنوعی بند کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔ ۔ اس بند پر جب ایک بندہ  خداکو مجبورا رک جانا پڑا تو وہ یوں بیچارگی سے دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو۔۔

میں بتاؤں فرق ناصح جو ہے مجھ میں اور تجھ میں

میری زندگی تلاطم، تیری زندگی کنارہ۔ ۔

حرم میں زخم 

حرم میں نماز، طواف اور سعی کا انداز بھی منفرد ہے اور اس کا مینیجمنٹ بھی بڑا خو بصورت ہے۔ ۔

عام مساجد یک رخی ہوتی ہیں۔

پر فرش کا پلان، علحیدہ سیکشنس وغیرہ آسان ہوتے ہیں۔  گردش نہیں ہوتی۔ ایسے لے آؤٹ  یہاں کوئی مستقل

حرم کم و بیش دائروی شکل میں ہے۔ہر کچھ میٹر کے فاصلے پر قبلہ بدلتا رہتا ہے، نماز سے قبل اور بعد حرم کے بیشتر حصے پر طواف کی گردش جاری رہتی  ہے۔ ایک اور ہمالیائی  مسئلہ زبان سے جڑا ہے۔ یہاں بہت کم لوگ والنٹیرس کی زبان اور ہدایات  سمجھ پاتے ییں۔ یہ تمام امور ملکر حرم کے مینیجمنٹ کوعام مساجد سے الگ اور چیلنجنگ بنادیتے ہیں۔

حرم کے فرش کی ڈزائننگ اندرونی سمت دائروی صف بندی میں مددگار ہوتی ہے۔ طواف کے دوران نماز سے 15 منٹ قبل درجہ بہ درجہ کعبہ کی سمت سے صفیں،  بنا کسی انسٹرکشن بننی شروع ہوجاتی ہیں اور طواف کرنے والے خود ہی طئے کرلیتے ہیں کہ انھیں صفوں میں شامل ہونا ہے یا بیرونی دائروں کی سمت بڑھ کر طواف تکمیل کرنا ہے۔ یہ اس بنیاد پر کہ انکا طواف کس مرحلہ (شوط)  میں جاری ہے۔ ۔

والنٹیرس، عملہ اور پولس ہر پل واکی ٹاکی پر یہ طئے کرتا ہے کہ بھیڑ کے بہاؤ کو پہلے کس سمت موڑنا ہے۔ نیچے فلورس خالی ہیں لیکن ہمیں اوپر چڑھادیا گیا، بعد میں نیچے احوال دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ کیوں ضروری ہے۔ حرم کے بیرونی دائروں میں خواتین کے لئے نمازگاہوں کی حدود (مصلی النساء)  طئے ہیں۔ لیکن اندرون مطاف بھی بڑی آسانی سے خواتین کی علحیدہ صفیں ترتیب پاجاتی ہیں۔۔ بہت کم یوں ہوتا ہے کہ کوئ خاتون صفوں کے درمیان رہ جائے اور درمیان میں نماز ادا کرنے پڑے۔۔

ہر داخلی دروازے پر ایل ای ڈی اسکرینس لگے ہیں جو اس زون میں بھیڑ کی شدت ہائ لائٹ کرتے ہیں۔ ۔جوں ہی بھیڑ متعینہ حد (تھرشولڈ) تک پہنچ جائے اسکرین سرخ ہوجاتے  ہیں اور مسلسل "پرہجوم علاقہ ” (کراؤڈیڈ زون)  ڈسپلے کرتے ہیں۔ بھیڑ کا بہاؤ یک رخی ہوتا ہے ایک بار داخل ہونے کے بعد مخالف سمت چلنے کا کوئ امکان نہیں ہوتا، اس صورت میں یہ اسکرینس بڑے مددگار ہوتے ہیں۔ لوگ ایسے گیٹس میں قدم بھی نہیں رکھتے اور یوں ہجوم کو منظم کرنا آسان ہوتا ہے۔۔

یوں لگا کہ حرم کی آفیشیل زبان عربی، انگلش اور اردو ہے۔ ہر جگہ ہدایات اور ناموں کی تختیوں پر یہی تین زبانیں علی الترتیب لازما نظرآئیں۔ عربی اور انگلش کا ہونا لازمی ہے لیکن اردو کے اس ترجیحی مقام کو سمجھنا مشکل ہے۔ ۔ لیکن زبانی انسٹرکشنس کی زبان صرف عربی ہے۔ ۔

آج ہم یہاں تاخیر سے آئے۔داخلہ کے ساتھ ہی ہماری مرضی اب ہجوم کے بہاؤاور اسکیلیٹرس سے وابستہ ہے۔ ۔ بڑی تیز اسکیلیٹرس ہیں۔۔ ہم احتیاط سے اوپر چلے جارہے ہیں۔ کل اسکیلیٹر کی ایک ابھار نے تیزی سے رگڑ کر میری انگلی کاٹ دی تھی، کچھ خون بہا۔ اس چھوٹی سی تکلیف سے میر کے الفاظ یاد ائے۔۔

ائے صید حرم تجھ کو ایک زخم تو کھانا تھا۔

حرم شناسی کا آسان نسخہ 

حرمین کی توسیع کے بعد یہ مکمل کیمپس انتہائ وسیع وعریض تو بن ہی چکا ہے ساتھ ہی گراؤنڈ پلان کے حوالے سے انتہائ پیچیدہ بھی۔ ملک فہد توسیع (مغربی سمت ) اور جنوب کی طرف  ملک عبدالعزیز توسیع، اس کیمپس کی پیچید گی میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔

جمعہ کے روز نماز کے لئیے ہم باب السلام سے داخل ہوئے لیکن بہاؤ کے ساتھ بہتے رہے اور اوپری فلور پر پہنچادئے گئے۔ کچھ احباب ہمارے کہنے کے مطابق باب فہد سے باب السلام تک پہنچ گئے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ اسکیلیٹرس اور اس بہاؤ نے ہمیں باب السلام کے قریب نہ رکھا بلکہ بہت دور باب فہد کے قریب تیسرے فلور تک پہنچادیا جس کا ہمیں اندازہ ہی نہ ہوا۔۔ اس عجیب انکھ مچولی نے دونوں کو خوب دور تک چلایا اور بالاخر عین اتنے ہی فاصلہ پر لاکھڑا کردیا جتنا پہلے تھا۔ ہمیں بڑا افسوس ہوا کہ ہم نے غیر ضروری انھیں دوڑادیا۔۔ (نیویگیٹر اور جی پی ایس درون حرم بالعموم کام نہیں کرتے)۔۔

کل اس کا آسان حل معلوم ہوا۔ ۔آپ جہاں کہں بھی ہوں،  قریب ترین اسکیلیٹر تھام کر بنا رکے چھت پر پہنچ جائیں۔ یہاں مکمل حرم آپکی نگاہ میں ہے۔ ۔ تمام ابواب (گیٹس )  یہاں نظر آتے ہیں۔ بڑے گیٹ ( کنگ فہد، کنگ عبداللہ اور کنگ عبدالعزیز گیٹس )  دیگر چھوٹے گیٹس (باب علی،  باب اسماعيل،اور باب عمر وغیرہ ) انکی سمت اور اہم نشانیاں ( بلند مینار، صفا، مسعی وغیرہ ) ذہن میں نقش کرلیں۔

چھت پر کسی بھی سمت سیدھے یا ترچھے (ڈائگونل) چلنا ممکن ہے۔ کوئ رکاوٹ نہیں،  دیگر فلورس کی طرح نہ ہی لوگوں کو ہجوم کے بہاؤ کی سمت موڑاجاتا ہے، بہت اسانی سے مطلوب جگہ پہنچ جائیں گے۔۔ نہ کسی والنٹیر سے پوچھنے کی حاجت نہ پو لیس سے اشاروں میں گفتگو

کل تک قدم قدم پر جن سیے معلوم کرنا پڑ رہا تھا، مبارک ہو اب ان پرانے راہنماؤں  کی  کو ئی  ضرورت باقی نہ رہی۔۔۔۔۔

سفر نصیب رفیقو قدم برھائے چلو

پرانے راہنما لوٹ کر نہ دیکھیں گے

وی آٰئ پی ازم کے جلوے 

ادھر فرصت چل رہی ہے۔ کل سب منی روانگی کی تیاری کے لئیے ہوٹل میں ہی رکے رہے۔

فرصت میں ہونے والی گفتگو کے پیر نہیں ہوتے۔ ۔ بس چل پڑتی ہے۔ روکنے کے لئیے کبھی "مضبوط بریک”لگانے پڑتے ہیں۔

پرہجوم میس میں  گفتگو کا ایک تھریڈ کھل گیا۔کسی نےکہا میرا ڈیلیکس پیکیج ہے، کسی اور نے کہا میرا پریمیم ہے، اور کوئی اکانومی پیکیج کو لیکر نالاں تھا۔ کسی نے مجھ سے بھی پوچھا میں نے کہا، بس سوچ رہا ہوں کہ جب ابو بکر(رض)  کی قیادت میں رسول (صلعم)  نے صحابہ کو حج کے لئیے روانہ کیا تھا تو کس صحابی کا کونسا پیکیج رہا ہوگا۔ ۔ ؟

ہم ہوتے تو عباس، و عثمان ( رض)  کو ڈیلکس پیکیج میں بھیجتے اور شائد بلال (رض) کے لئیے کوئی اکانومی پیکیج۔ بس ۔

معلوم ہوا کہ  کچھ وی آئی پی حجاج منی میں ٹینٹ میں ٹھہرنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ ان کے لئے عالیشان عمارت ہے جہاں سے جمرات کی وی آئی  پی کنکٹویٹی ہے۔

بھائیو یہ بحث ہی فضول ہے۔ حرم کی ایک خاص دعا یہ بھی ہونی چاہئیے کہ اللہ ہمیں دنیا کے وی آئی  پی ازم سے بچا اور جنت کا عیش عطا فرما۔

گفتگو کا یہ تھریڈ یہیں منقطع ہوگیا۔ پھر اس موضوع پر آگے بات نہ ہوئی۔

کرنسی مشینوں کا سالانہ نزول 

کل دن کابیشتر حصہ فری تھا۔

ابھی تک ہماری آمدورفت صرف حرمین تا ہوٹل رہی۔اور یہ راستہ نہایت بارونق مارکیٹ سے گذرتا ہوا حرم پہنچتا ہے۔ اصل معاشرہ کی جھلک کہیں نظر نہیں آتی۔۔ کل ہم نے سوچا کہ ایک نظر اس محلہ  کے گلی کوچوں پر ڈال لیں۔ جہاں ہم کچھ دنوں سے مقیم ہیں۔

مکہ ایک صاف ستھرا شہر ہے۔ عام کچرا اور تہذیبی نجاست۔ دونوں گندگیوں سے پاک۔ یہاں بڑی کمرشیل ہورڈنگس ضرور نظر آتی ہیں لیکن ان پر بھی حرمین کی خوبصورت تصاویر۔ پراڈکٹس کو بھی خوبصورت نعروں (کیپشنس)کے ذریعے حرمین سے منسوب کرکے مشتہر کیا جاتا ہے۔ ہوٹل کے قریب ڈیٹال ہورڈنگ یہ بتلاتی ہے کہ ڈیٹال سے غسل کیسے آپ کو مطاف میں فریش رکھتا ہے وغیرہ۔ ۔

گندگی پسند جانور یہاں ایک نظر نہ آیا۔۔ان سب کی جگہ بلیوں نے لے رکھی ہیں۔ ۔ہر جگہ بلیاں دوڑتی نظر آتی ہیں۔ حرم بھی کئ بلیوں کا مستقل مسکن ہے۔ سب سے بڑے راوی حدیث کے لئے خیرالانام(صلعم) نے جو محبت بھرا نام عنایت فرمایا تھا اس حوالے اور اپنی اعزازی نسبت کو شائد یہ بلیاں بھی خوب سمجھتی ہیں۔ ۔ تبھی حرم کو اپنا مسکن بنانے میں انھیں کوئ خوف نہیں۔

رہائشی علاقے شہری طرز کے اپارٹمنٹس پر مشتمل ہیں۔ عام نوعیت کے گھر بہت کم دکھائ دئیے۔ عام طور پر لوگ متمول ہیں،  لیکن کہیں کہیں کچھ پرانے، بنا پلاسٹر کے گھر بھی پہاڑیوں پر اور عام جگہوں پر  دکھائ دئیے، جس سے پتہ چلتا یے کہ کچھ لوگ اوسط معیار بھی رکھتے ہیں۔ ڈپارٹمنٹل اسٹور نصف سے زیادہ کھانے پینے کی اشیاء سے بھرے ہوتے ہیں۔ نت نئے فروٹس اور ڈبہ بند غذاؤں کی بھر مار ہے۔  یوں محسوس ہوا کہ  انڈیا کے مقابل فروٹس سستے ہیں۔ البتہ ترکاریاں مہنگی۔ دو پہر ظہر تا عصر مارکیٹ بند ہوتا ہے، تپش عروج پر ہوتی ہے اور مارکیٹ میں سناٹا۔ نماز کے اوقات میں دکانیں ڈھانپ دی جاتی ہیں۔

فی الحال ہر جگہ مقامی لوگوں سے زیادہ عازمین نظر آرہے ہیں۔ عازمین حج کے لئیے گلی کوچوں اور مارکیٹ میں بڑی عزت ہوتی ہے۔ سوائے چند ٹیکسی والوں کے۔ انکے لئیے حجاج سالانہ نازل ہونیوالی کرنسی مشینیں ہیں۔ ۔

عام کرایوں کو 25 تا 30 گنا بڑھا کر وصول کرنے میں انھیں کوئ عار نہیں ۔ کئ عازمین کے لئیے  اسی سبب مکہ میں رہ کر حرم پہنچا مشکل ہوجا تا ہے ۔

جنکے جذبات ہوں نقصان نفع کی زد میں

انکے دل میں کئ "بازار ” سجا کرتے ہیں

مسجدیں صاف اور کشادہ اور علحیدہ مصلی النساء سے آراستہ ہوتی ہیں۔ مسجد کے باہر مِنی مارکیٹ سجا ہوتا ہے جہاں کئ ہاکرس ٹوپی، تسبیح سے لے کر آئ فون (ڈپلیکٹ)  بیچتے نظر آئے۔ مارکیٹ میں محسوس ہوا کہ اکثر لوگوں کی انگریزی اتنی ہی پختہ ہے جتنی ہماری عربی۔  لہجہ بھی خالص عربی ٹون میں دھلا ہوا۔ ایک دکان میں ایک ہندوستانی اورعربی کی تکرار نظر ائ۔ وہ تین ریال مانگ رہا تھا جبکہ اس کا کہنا تھا کہ میں تین ریال دے چکا ہوں پھر بھی یہ تین تین کی رٹ لگا ئے ہے۔ ۔ پتہ چلا کہ وہ "ٹین (10) ” کہہ رہا ہے اور اسے بقیہ سات مطلوب ہیں۔

کچھ دیسی بھا ئ جو چند سالوں سے یہاں مقیم ہیں، دکھنی عربی کے ذریعے عازمین کے قافلوں کو مرعوب کرتے نظر آئے۔ ۔ایسی ہی ایک روداد ہمارے ایک ساتھی کے ساتھ پیش آئ، انکے اردو سوال کے جواب میں ڈرائیورس اپنی شکستہ دکھنی عربی میں مسلسل رہنمائی  فرمارہے تھے، جب ان کا صبر چھلک گیا تو انھوں نے شستہ عربی میں ڈانٹ پلائ۔ تب اچانک معاملہ صحیح ٹریک پر آگیا۔ پھر انکے درمیان جو رواں دواں گفتگو شروع ہوئ تو یوں لگا جیسے ہم کسی شیرنگ آٹو میں ریتی باؤلی سے گچی باؤلی کا سفرکررہے ہیں۔

جنوں کی تفسیر 

بیت اللہ کے سائے میں امڈتے اپنے احساسات کو ہمارے ایک  رفیق محترم ( جناب  سرفراز فلاحی بزمی)  نے منظوم شکل دی اور روانہ کیا۔ مجھے لگا، ہم سب ان احساسات میں شامل ہیں۔

حرم کی تنویر میرے آگے کرم کی تصویر میرے آگے 

جو مدتوں  سے  تھے  خواب  دیکھے ھے ان کی تعبیر  میرے آگے 

کبھی  تصور  میں دیکھتا تھا  حرم کی چوکھٹ سنہری جالی

میرے مقدر کی یہ بلندی  یہ میرے آگے  وہ میرے آگے 

وہ دار ارقم  سے  دار ندوہ صفا سے مروہ  حرا سے کعبہ

ھے نور افشاں ہر ایک جلوہ ہرایک تنویر میرے  آگے 

یہ کیسی منزل ھے میرے مولی میں  کس بلندی  پہ آگیا ہوں

کہ دست بستہ کھڑی  ہوئ ھے یہ میری  تقدیر میرے آگے 

میں ایک مجرم ہوں رب کعبہ تری نگاہ  کرم  کا طالب 

قصور سارے نگاہ میں ہیں تمام  تقصیر  میرے آگے 

مطاف کعبہ  غلاف کعبہ حطیم و میزاب و باب کعبہ 

یہ سنگ اسود پہ لمحہ لمحہ جنوں کی تفسیر میرے آگے 

جبین بزمی کی حیثیت کیا بس ایک تیرا کرم ھے مولیٰ 

کہ سایئہ خانئہ خدا میں  سجود  تکبیر  میرے آگے 

سرفراز بزمی۔ مکۃ المکرمہ

پیادوں کی مستانہ روی 

عرفات، منی اور مزدلفہ کے درمیان سفر  پیدل طئے کرنا ایک انتہائ غیرمعمولی تجربہ ہوتا ہے۔ ۔انتہائ روح پرور مناظر۔ ۔ حالانکہ پیدل راہیں بڑی عمدہ اور انتہائی چوڑی ہیں۔ جہاں ٹھنڈے پانی کی سہولت، جابجا واش  رومز اور واٹر اسپرنکلرز لگے ہیں۔ اور یہ عین وہ راہ جس سے رسول اللہ (ص)  اور صحابہ کے قافلہ حجاج گذرا کرتے تھے۔ بسیں بالکل علٰحیدہ راستوں سے طویل چکر کاٹتی گذرتی ہیں۔ ٹرین کی پٹریاں بھی دور پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئیں۔

بیشتر حجاج پیدل سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن ہندوستان کے حجاج کی اکثریت اے سی بسوں کی منتظر نظر آئ۔

آج منی قیام کا آخری دن ہے۔ ابھی کچھ وقت ہے۔ ۔بعد از زوال ہم لوگ ایک مرتبہ پھر جمرات جائیں گے، تینوں شیطانوں کی شامت رہے گی پھر یہاں سے لوٹ چلیں گے۔

جمرات کے لئیے صرف پیدل جانا ہوتا ہے( ایک وی آئی پی کنکٹوٹی کے متعلق سنا ہے لیکن اسے دیکھنے کا موقعہ نہ مل سکا) ۔ لوگ ہمارے ٹینٹ پر رشک کرتے ہیں کہ اس کا جمرات سے فاصلہ صرف 1.5کلو میٹرس ہے۔ لیکن یہ محض جمرات کا داخلہ ہے۔ تینوں جمرات طئے کرنے تک یہ فاصلہ ڈھائ کلو میٹر ہوجاتا ہے۔ لیکن واپسی طویل تر ہے۔ جمرات جاکر آنا کم از کم ساڑھے 5 کلو میٹر ہے۔ ۔۔

حج کی اہم خصوصیت پیدل سفر ہے۔ بے انتہا چلنا ہوتا ہے۔ کچھ پیدل سفر لازمی ہے ( جمرات، اور منی کا اندرون سفر اور طواف زیارت کے لئے حرمین اور وہاں سے واپسی۔ طواف، سعی وغیرہ)

۔منی میں سواریاں نہیں چلتیں، پیدل چلنا لازمی ہے۔ کچھ طویل تر پیدل سفر اختیاری ہے ( عرفات، مزدلفہ اور منی) ۔ ۔ لیکن یہ اختیاری پیدل سفر زندگی کا سب سے روح پرور اور انتہائ یادگارہوتا ہے۔ اسے کھونا نہیں چاہئیے۔

ہمارے ایک مقامی ساتھی کہہ رہے تھےکہ انھوں نے چھوٹے بچوں سمیت بھی پیدل سفر کوترجیح دی۔ یہی حال کئ حجاج کا تھا جن میں اکثریت غیر ہندی تھی۔ ماؤں کو دیکھا کہ کاندھوں پر بچوں کو اٹھائے دسیوں کلومیٹر چلی جارہی ہیں۔ کئ ضعیف لوگ بھی ساتھ تھے۔۔ایک صا حب اپنے زخمی پیر کو منوا کر دوڑے چلے جارہے تھے۔ انکی مستانگی بھی سب کے لئیے قابل رشک تھی۔

دید کے قابل ہے تو سہی مجروح تری مستانہ روی

 

عرفات کی  معرفت

میدان عرفات یعنی مقام معرفت!

یہی وہ مقام ہے جہاں ابراہیم (ع)  نے حج اوراسکی حکمتوں کی معرفت پائی ۔ جہاں آدم (ع)  نے قبولیت دعا کا عرفان اور رحمت الٰہی کا تحفہ پایا۔ اور جہاں سے دنیا نے انسانی وقار، عظمت و حقوق کی پاسداری کادرس، حجۃ الوداع کے بین الاقوامی چارٹر سے سیکھا۔ یہ اپنے مشن کی پہچان، زندگی کے مقصد سے آگہی، واقفیت ذات، علم وعرفاں،  سیکھنے اور جاننے کا مقام ہے۔ یعنی مقام معرفت!

عرفات کا قیام مساوات انسانی کا کھلا درس بھی ہے۔ بعثت نبی (ص)  سے قبل جاہلیت نے انسانوں کو قبیلوں اور خاندانوں سے آگے جغرافیائی اور شہری  عصبیت میں بھی باندھ رکھاتھا۔ عرب کو عجمی سے بیر، اہل حرم دیگر عربوں سے بلندتر،  حرم کے باشندے بھی اہل معلاۃ اور اہل مسفلہ کی اونچ نیچ میں بٹے۔

اسی عصبیت نے حرم کے رہنے والوں میں یہ تکبر پیدا کردیا تھا کہ اہل حرم حدود حرم سے آگے (مزدلفہ کے پرے)  کیوں جائیں۔ دیگر مقامات کے قافلے شوق سے عرفات جائیں لیکن ہمارا مقام ( حرم)  عرفات سے بلند تر ہے۔ اسی جاہلی فکر کے بت کو سرور عالم (ص) نےتوڑا۔ سب کو مقام عرفات میں جمع ہونا لازمی قرار دیا۔ اور یہاں انسانی مساوات کا عظیم چارٹر دیا اور فرمایا کہ "وقوف عرفات ہی حج ہے۔ "جس نے اعراض کیا وہ حج سے محروم ہوگیا۔

سوچتا ہوں ہم نے بھی اپنی انا کے کیسے کیسے "حرم ” کھڑے کر رکھے ہیں۔ شہری عظمتوں کی خودساختہ فصیلیں۔ جسکے پرےایک  نامعلوم دنیا ہے۔ چھوٹے قرئیے، گاؤں اور اضلاع  بس۔ وہاں قدم رکھنا ہم میں سے اکثر ” اہل حرم ” کی شان نہیں۔

جس نے میدان عرفات میں اپنی زندگی کے مشن کو سمجھا اور اس مشن کی خاطرعلاقائی اور  جغرافیائی انا کو قربان کرنے کا عزم کیا گویا اس نے قیام عرفات کے ایک اہم سبق کو پایا۔

دھرتی پر ملکی وے

آج دوبارہ حدود حرم میں داخل ہونا ہے۔ عرفات سے مزدلفہ۔

جنھوں نے پیدل چلنے کا فیصلہ کیا، بہت جلد انھیں احساس ہوا کہ یہ انکی زندگی کا خوبصورت ترین فیصلہ تھا۔ غروب آفتاب کے ساتھ عرفات کی سرحدوں سے  ایک  سیلاب امڈ پڑا۔ جیسے کسی بندھ ( ڈیم ) کے دروازے اچانک کھول دئیے گئے اور  شفاف پانی کا ریلا   دودھیا رنگ  کے دھارے میں ڈھل کر پوری قوت سے چل پڑا۔

رات کی تاریکی میں ایک سفید دھارا بہتا چلا جارہا ہے۔  جیسے کہکشاں کی جھرمٹ، ملکی وے آسمان چھوڑ زمین پر اترآئی ۔ مزدلفہ پہنچتے پہنچتے یہ دھارا پھیلتا جاتا ہے، ویسے ہی جیسے فوارے کی پھوار اپنی بلندی تک پہنچ کر مہین قطروں میں بٹ جاتی ہے۔ ملکی وے کے یہ دودھیا ستارے بھی مزدلفہ کی کائنات میں پھیل رہے ہیں۔ کسی نے مشعرالحرام کے قرب میں میدان منتخب کیا اور کسی کو چٹیل پہاڑ کی چوٹی شعور وتدبر کا گہوارہ لگی۔

عرفات میں جو سیکھا اور جو کچھ مانگا اسے رات کی تنہائی  میں شعور کی گہرائی کا حصہ بنانا، یہی مشعرالحرام کے سائے تلے ہم سب کا کام ہے۔

 شیطان سے پنجہ آزمائی کے لئیے ہتھیار (کنکر)  بھی آج رات مزدلفہ میں جمع کرنے ہیں۔ باریک کنکریاں ابھی سمیٹ ہی رہا تھا کہ ابلیس نے اکسایا، میری فرعونی طاقت کے مقابل تمھاری معمولی کنکریاں ؟ ہوش میں آؤ، چلو اپنے نفس کوہی   ٹٹول لینا  ،   خوب جان لوگے کہ میرے  ترکش میں کیسے کیسے تیر ہیں۔ تم جانتے بھی ہو میرے بازو کیسی کیسی ہلاکت خیزیوں سے لدے ہیں،  بھلا یہ کنکروں کا مجھ سے کیسا مقابلہ؟

ابلیسی وسوسہ نے شعور کے پردے کھولے۔ دل نے گواہی دی،  اسی مزدلفہ کے دامن میں وادی محسر میں پھیلی کنکریاں شیطانی اکساہٹوں کا کرارا جواب ہیں۔ یہ وادی گواہ ہے، یہی کنکریاں رب کے حکم سے کبھی گائڈیڈ میزائلوں کا کام بھی کرچکی ہیں۔ جس نے ابرہہ کے تکبر کو خاک میں ملادیا۔ قلب کی اس گواہی نے  ابلیس کو ذلیل کرنے کے جذبات کو مزید  بڑھادیا ۔

تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ

جو ان پر کھنگر کی پتھریاں پھینکتے تھے

فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ

تو ان کو ایسا کر دیا جیسے کھایا ہوا بھس

خاکی احرام 

حج کی ایک اور اہم مشقت گرمی کی شدت ہے۔ ہم لوگ گرم خطہ ( ہندوستان ) کے ضرور ہیں،  لیکن ہماری گرمی بھی ان پہاڑوں کے درمیان شائد شرماتی پھرے۔ میں نے اتنی شدید حدت کبھی محسوس نہیں کی۔ احرام کی پابندی سر کھلا رکھنے کا حکم دیتی ہے۔ چھتریاں بھی سر کو گرم تپش سے مشکل سے ہی بچا پاتی ہیں۔ ہر فرد منٹوں میں پانی کی بوتل مسلسل ختم کئے جاتا  ہے،   جو کچھ ہی دیر میں پسینہ کی صورت نکل آتا ہے۔ اسپرنکلرز ماحول کو کسی قدر ٹھنڈا ضرور کرتے ہیں،  لیکن راہیوں کی حالت ہی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ کئ والنٹیرس اورپولیس ملازمین مسلسل اسپرے بھی کرتے رہتے ہیں۔

سفید احرام، تین دن مٹی اور گرد سے آلودہ ہوچکا ہوتا ہے، کئ احراموں پر سفید کے بجائے خاکی ہونے کاگمان  ہورہا ہے ۔ پسینہ، مٹی، گرد، اور پانی کے بخارات، کل ملاکر احرام کے وزن کو دوگنا کئے دیتے ہیں۔ جنھوں نے موٹے کپڑے کا احرام پہن رکھا ہے ان کے لئے دوہری آزمائش۔۔

ٹی شرٹ اور ٹریک کے عادی نوجوانوں کے لئے احرام کی پابندیاں بڑی چیلنجنگ ضرور ہوتی ہیں، لیکن ذوق خدائی اور اسوہ نبی کی پابجائی کے جذبہ سے سرشار ان بندوں کو ان میلے کچیلے لباسوں میں شاہی پیرہن کا لطف اٹھاتے دیکھا۔

یہ "حاجی” یہ تیرے پراسرار بندے 

جنھیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی 

 جمرات کے راستے پر شیطان کو ذلیل کرنے کے جذبہ سے معمور قافلے دوڑرہے ہیں۔ اب احرام کی پابندیاں ختم ہوچکی ہیں۔ رنگا رنگ سیلاب بھی لوٹ آیا ہے۔ ۔ محبت کا ایک اور داغ شائد آج ناگزیر ہے۔۔

انا کا قبرستان 

حج براہیمی قربانیوں کا پاکیزہ استحضار ہے۔ دنبہ اور بالوں کی قربانی تو ضروری  ہے لیکن ایک اور قربانی جو عملی  مناسک کا حصہ نہ سہی لیکن عملا ناگزیر ہے وہ ہے

 انا کی قربانی۔۔۔

جنکے تن برینڈس سے سجے ہوتے ہیں آج پسینہ کی بو اور  خاک وگرد سے اٹے احرام انکا پیرہن ہیں۔ ۔

ماسٹر بیڈرومس کے کشادہ ماحول میں جنکی آنکھ نیند سے ہمکنار ہوتی ہے انکے لئے عین اتنا ہی اسپیس موجود ہے جتنا قبر کی صورت میں انکے مقدر میں لکھا ہے۔ ۔

جنھیں شوز کے پسندیدہ برینڈ کی معمولی تبدیلی سے پیروں کے پھٹے جانے کاڈر ہوتا ہے ان پر لازم یے کہ دو پٹی چپل کی حد نہ پھلانگیں۔جنکی موجودگی محفل کو پیرس کے پرفیومس کی مہک سے مہکانے کے لئیے کافی ہے، آج بہتے پسینے کے ریلے انکے لئے مشک و عنبر ہیں۔

منی کی بستی شیطانی انا کا قبرستان بھی ہے۔ یہاں داخل ہوتے ہی ہر شخص اپنی انا کو یہاں کی اڑتی خاک تلے گہرائ میں دفناتا ہے ۔ جس نے کوتاہی کی اسے اس مشقت میں ہارتے بھی دیکھا۔ کبھی کبھی انھیں خاک آلود احرام میں ملبوس کوئ فرد  بیڈ کی چوڑائ پر شکایت کرتا نظر آئے،  مزدلفہ میں آسمان تلے رات بتانے پر چیں بہ جبیں ہوا جائے اور، رہ رہ کر حج پیکیج اور پیمنٹس کی دہائی دینے لگے تو یوں لگتا یے کہ شائد انا کی تدفین میں اب بھی کچھ کسر رہ گئ۔ ۔

منیٰ کے خضر 

منی کی بستی کو طائرانہ نگاہ سے دیکھیں۔ اب ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ اس قدر پیچیدہ کیوں کہلاتی ہے۔

تقریبا20 مربع کلومیٹر تک پھیلی منی کی حدود طئے ہیں۔ یہ ایسا شہر نہیں کہ آس پڑوس کی بستیوں کو نگل کر آنافاناًگریٹر بن جائے۔ یہ شہر عارضی اور محدود ہوکر بھی ہمیشہ "گریٹ” رہا۔

یکساں خیموں کی یہ وسیع بستی  غیر توسیع پذیر ہے۔ لیکن ہر سال دس تا بیس فیصد زائد ضیوف الرحمان کا استقبال کر انھیں اپنی میزبانی سے  نوازتی ہے۔  نہ یہاں اسکائی اسکریپرس کی گنجائش ہے اور نہ ہی کاروں کو دوڑنے کی اجاز ت۔ ہر سال اسکا ڈزائین مزید پیچیدہ ہوا جاتا ہے۔

پہلے ہی دن ہم نے دیکھا کہ لاتعداد بزرگ وجوان حجاج بھٹک کر کڑی دھوپ میں پسینہ بہارہے ہیں۔ مسجد خیف اور مسجد کویتی، بے شمار پریشان حال بزرگوں کا آسرا بنی ہوئ ہیں۔  کسی قریبی خیمہ میں سستانے کے لئیے بھی داخلہ ممنوع ہے ( انتظامی لحاظ سے یہ ضروری ہے)۔ پولس بھی انھیں گائیڈ کرنے سے لاچار تھی۔

دوسرے دن اچانک بے شمار والنٹئیرس کے قافلے منی پہنچے۔ فلوروسسنٹ جیکٹس پہنے یہ والنٹیرس منی کے گوشے گوشے میں پھیل گئے۔ انکی اکثریت ملیالی بھائیوں پر مشتمل تھی۔  بھرپور ٹریننگ، فورم کے تیار کردہ بڑے سائز کےرنگین نقشے، اپنے روایتی پروفیشنلزم اور اجتماعی اسپرٹ سے آراستہ ہمارے ان بھائیوں نے منظر ہی بدل ڈالا۔ دوسرے دن کوئ فرد بھٹکتا نظر نہ آیا۔ حیرت یہ کہ مقامی پولیس بھی انکی مدد لیتی نظر آئی ۔ راہنمائی  کا سلیقہ بھی بڑا پروفیشنل تھا۔ روایتی خوش مزاجی نے بھی اس خدمت کو حسن بخشا۔

انگریزی، اردو، ملیالی وعربی تو انکے لئیے رہنمائ کی حد تک بڑا مسئلہ نہیں تھیں۔ لیکن کسی اور زبان میں رہبری مطلوب ہو تو وہ دوڑ کر راہ چلتے کسی مترجم کو بھی ڈھونڈھ لیتے، اور پوری رہبری فرماکر ہی دم لیتے۔ اگر طویل راستہ کی رہنمائ مطلوب ہو تو اگلے جنکشن کی وضاحت کردیتے اور اس جنکشن پر کھڑے اپنے ساتھی سے بات کروادیتے اس وضاحت کے ساتھ کہ فلاں گروپ جو ابھی میرے ساتھ ہے کچھ دیر بعد تمھیں خدمت کا موقعہ دے گا، سو اگلا محاذ سنبھال لینا۔ مسکراہٹ، اور چہروں پر ٹھندے پانی کی بوچھار کے تحفہ کے ساتھ انھیں روانہ کرتے۔ آخری دن جب رہبری کی زیادہ ضرورت باقی نہ رہی، یہ والنٹیرس صفائ کے کام میں جٹ گئے۔ یہ وہ سیلف انسپائرڈ روحیں ہیں جنھیں نہ احکامات کا انتظار ہوتا ہے نہ ڈیڈ لائنس کی  خبر۔ ۔۔

نرم دم گفتگو گرم دم جستجو

اپنے جیکٹس پر جلی حرفوں میں انگریزی میں ” انڈیا”  نمایاں کرتے ان والنٹیرس نے اپنے لئیے اجر اور ملک کے بہت نیک نامی سمیٹی۔

ہمارے ملک کے تمام گوشوں میں ٹیلنٹس اور جذبہ خدمت کی کمی نہیں لیکن جو چیز کیرالا کو نمایاں کرتی ہے وہ انکی اجتماعی اسپرٹ۔ یہی اسپرٹ انکے کاموں کے نتائج کو ضرب(ملٹیپلائ)  کئے دیتی ہے۔ ۔اور پھر ملٹپلائیڈ نتیجہ خیزی انھیں مختلف جگہ مقام بھی دلاتی ہے جسکے وہ حقدار بھی ہیں۔

منیٰ اس کی جو پہلے پہنچے

دنیا کی سب سے بڑی عارضی بستی "منیٰ” اب اپنے مکینوں کو، الوداع کہہ رہی ہے۔

 سوچ رہا ہوں اس کے مکینوں کا زمین کے اس چھوٹے سے خطہ سے کونسا جغرافیائ تعلق ؟ اس شہر نے انھیں کونسے چکا چوند "کیریر” سے نوازا؟  کیا، انھیں موٹی تنخواہوں اور فارن ایکسچینج کے چھوٹ جانے کا غم کھائے جارہا ہے۔ ۔ کچھ نہیں۔ ۔

پھر یہ مکین اتنے بوجھل کیوں ہیں ؟؟ کیوں ان کی نگاہیں ان خیموں کو ٹٹولتی ہیں ؟  کیوں انھیں یہ عارضی ٹینٹ اپنے  ہوٹلوں کےعالیشان کمروں سے زیادہ عزیز ہوگئے۔ کیوں یہاں کی سخت گرمی جھیلنا۔ دیوانہ وار چل کر اپنے تلووں کی جلد کھرچ  دینا اور خا ک آلود کپڑوں میں شب وروز بتانا سب کچھ انھیں گوارہ ہی نہیں بلکہ شوق تمنا بن چکا تھا۔ ۔

اس لئے کہ اس بستی نے انھیں بس چند دنوں میں دو جہاں کی دولت سے نوازا ہے۔ یہ ایک عظیم تر احساس کی دولت ہے۔ یہ وہ دولت ہے جسے نہ کرنسی مشینیں کاؤنٹ کرسکتی ہیں نہ ویئنگ مشین اسکے وزن کو سنبھال سکتی ہیں۔

ہماری بس چلی جارہی ہے۔ہم اس بستی کے حدود سے بس کچھ ہی دیر میں باہر ہوجائینگے۔ لوگ کھڑکیوں سے چند مربع فیٹ کے خیموں کو تکے جارہے ہیں کہ جو کچھ مناظر دماغ کے جن گوشوں میں سماسکتے ہوں انھیں وہاں محفوظ کرلیں۔

مادی چکا چوند کی مجسم تمثیل، مکہ ٹاورز پر بھی  اتنی متجسس نگاہوں کو تکتے میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ان حسرتناک نگاہوں کی بس ایک آرزو۔۔

اب ائے نگہ شوق نہ رہ جائے تمنا

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اس بستی کے بارے میں فرمایا۔

منیٰ اس شخص کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے جو پہلے پہنچے۔ ” (ترمذی، ابن ماجہ)”

یعنی منیٰ ایسی جگہ ہے جہاں کوئ بڑا یا چھوٹا نہیں۔ دولت، رتبہ، دستار فضیلت  اور بزرگی کے عماموں کی بنیاد پر خیموں کو بانٹنے کی یہاں کوئی اجازت نہیں۔ جو یہاں پہنچنے میں سبقت لے جائے منی کی وادیاں بس اسی کا مسکن  ہیں۔ اسی لئیے میں اس خوبصورت بستی کو ابلیسی انا کا قبرستان بھی کہتا ہوں۔

مگر کیا واقعی ہم نے محسن اعظم (ص) کی اس نصیحت کا پاس رکھا۔ کیا واقعی منیٰ کے ٹینٹس مساوات کی تصویر پیش کرتے ہیں ؟ یہ سوال مایوس کئیے دیتا ہے۔

ٹراویل ایجنسیاں اور ٹورآپریٹرس نے جونہی حج کی آڑ میں بزنس ڈھونڈھ لیا، ڈیلیکس، پریمیم اور اکانومی پیکیجس کے نام پر  اس خوبصورت بستی کو بھی اونچ نیچ میں بانٹ کر رکھ دیا۔ کسے فکر کہ رحمت عالم (ص) کی بیش قیمت نصیحت کو بھی یاد رکھے۔

ہمیں تمھاری غلامی پہ فخر ہے لیکن 

بھلادیا کہ غلامی کا مدعا کیا ہے 

وفا کو ایک تخیل بنالیا ہم نے 

ہمیں شعور نہیں مقصد وفا کیا ہے۔

کل تک جو والنٹیرس بڑی محبت سے جنھیں گائیڈ کررہے تھے، ٹھنڈے پانی کی بوچھار اور خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ انھیں تازہ دم کررہے تھے۔ آج بڑی حسرت سے انھیں مکینوں کو مبارکبادکے ساتھ الوداع کہہ رہے ہیں۔ ۔ کچرہ صاف کرنیوالی نت نئ مشینیں اپنی مہم پر جٹ گئ ہیں۔ مختلف سہولتوں کو اب ایک سال کے لئیے سیل کیا جارہا ہے۔ ٹھیک ایک سال بعد اس بستی کی رونقیں دوبا رہ لوٹ آئینگی۔ اس مرتبہ اپنے لاکھوں نئے مکینوں کے استقبال کے لئیے۔

خدا کرے، وہ تمام احباب جو اس روح پرور بستی کے مکین بننے کا، عزم رکھتے ہیں،  رب کعبہ انھیں اپنی میز بانی کا شرف بخشے۔ ۔

آمین۔۔

1 تبصرہ
  1. سید مصباح الدین ھاشمی کہتے ہیں

    مشاہدات حج کا ایک فقید المثال اور قابل تقلید مظہر
    اللہ آپ کے حج کو قبول فرمائے ۔

تبصرے بند ہیں۔