دینی رسائل کی صحافتی خدمات

حفیظ نعمانی

زندگی کی آخری منزل بڑھاپا ہے اور بڑھاپا کمانے کے لئے نہیں پس انداز اگر ہو تو پھونک پھونک کر خرچ کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ 65  سال کی عمر تک تو احباب کا حلقہ نہیں فوج تھی لکھنؤ کے چپہ چپہ اور کونے کونے میں دوست تھے الہ آباد ایسا تھا جیسا دوسرا لکھنؤ کہ جب جائو تو کوئی آنے ہی نہیں دیتا تھا اور یہی حال کلکتہ کا تھا۔ نسیم بک ڈپو کے مالک سلطان ایسے پیارے ثابت ہوئے کہ انہوں نے اور ان کے حلقہ ٔ  احباب نے کلکتہ اور لکھنؤ کو اتنا قریب کردیا جیسے بارہ بنکی ۔ اور پھر جو انااللہ و انا الیہ راجعون پڑھنا شروع ہوا ہے تو اس وقت ختم ہوا جب پورا کلکتہ اور دو کو چھوڑکر پورا الہ آباد اور لکھنؤ خالی ہوگیا۔

یہ تو نوکِ قلم کی کوہ کنی کا ثمرہ ہیں جنہیں سید وقار رضوی، اسم بامسمیٰ عالم نقوی، سہیل انجم اور ندیم صدیقی کے نام سے بھی دنیا جانتی ہے۔ سہیل انجم پورے حلقہ میں 60  برس پرانے دوست شارب رُدولوی کے بعد دوسرے مصنف ہیں جنہوں نے میرے مقابلہ میں بہت کم عمر ہوتے ہوئے کتابوں کا ڈھیر لگا دیا ہے اور ہر سال ایک ضخیم کتاب اہل علم کے ہاتھوں میں آرہی ہے۔ 2017 ء میں 1600  صفحات کی کتاب جسے ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے مرتب کیا ہے یعنی ’’تحریر بے عدیل‘‘ قاضی محمد عدیل عباسی کے مضامین اور ان پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ میرے پیش نظر تھی کہ سہیل انجم نے ’’دینی رسائل کی صحافتی خدمات‘‘ دہلی سے بھیج دی۔ انتہائی خوبصورت بہت عمدہ کاغذ بہت معیاری طباعت بہت خوبصورت کور اور جلد۔ اگر میرے سر پر تحریر بے عدیل اپنے پورے وزن کے ساتھ سوار نہ ہوتی تو سب کچھ چھوڑکر اسے پڑھتا، میں نے دیکھا، سونگھا پیار کیا اور رسید بھیج دی۔

آج وہ کتاب ختم کی ہے۔ سہیل انجم کو معلوم ہے کہ میں کتاب دیکھتا یا پڑھتا نہیں ہوں بلکہ پیتا ہوں اور اس کے بعد لکھتا ہوں اس میں وقت لگتا ہے جو میرے پاس بہت ہے۔ جس موضوع پر سہیل انجم نے کام کیا ہے وہ سو برس پر پھیلا ہوا ہے اور جتنا بڑا ہندوستان ہے اتنا ہی لمبا چوڑا ہے۔ اسی لئے انہیں سات برس لگے تب بھی اسے دیکھنے کے بعد یاد آیا کہ ابھی کافی باقی ہے۔

زیرنظر کتاب میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ، قادیانی مسلک ہی نہیں عیسائی، ہندو اور سکھ مذہب کے پرچوں پر بھی سہیل نے محنت کی ہے۔ اور صرف یہ نہیں بتایا ہے کہ کس نے کس موضوع پر کیا لکھا ہے بلکہ ان رسالوں اور اخبارات کے مضامین کی جھلکیاں دے کر پورا تعارف کرایا ہے۔ اس محنت کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت قریبی تعلق کے باوجود میرے لئے یہ نئی بات ہے کہ دارالعلوم دیوبند سے کبھی الرشید اور القاسم دو رسالے بیک وقت نکلتے تھے اور آج کی طرح دارالعلوم اصلی اور دارلعلوم وقف نہیں تھا بلکہ ایک ہی تھا۔ یا الہلال صرف مولانا آزاد نے ہی نکالا تھا اس کے بعد بھی ایک الہلال نکلا جس کے مدیر بھی دوسرے حامد الانصاری تھے جن کے نام کے بعد وہ تخلص غازی نہیں تھا۔ سہیل نے مولانا عامر عثمانی کے رسالہ تجلی کا تعارف کھل کر کرایا ہے اور اسے بہت جگہ دی ہے اور یہ واقعہ ہے کہ وہ ایسا ہی پرچہ تھا اور مولانا عامر عثمانی جو مجذوب المزاج تھے بہت گہری نظر رکھتے تھے۔ ایک بات اب کسی کو بھی معلوم نہیں ہوگی کہ انہوں نے مولانا محمد منظور نعمانی کی معرکۃ الآرا کتاب معارف الحدیث کی ایک جلد میں دو جگہ نشان لگاکر لکھا تھا کہ دوسرے محدثین نے اس سے اختلاف کیا ہے اور ان کی بات زیادہ وزن رکھتی ہے۔ کتاب ان کے پاس تبصرہ کے لئے بھیجی نہیں گئی تھی۔ مولانا میرے والد تھے۔ انہوں نے معارف کی باقی جلدیں مولانا عامر عثمانی کو بھیجی تھیں اور یہ فرمائش کی تھی کہ اپنے قیمتی وقت میں سے وقت نکال کر ہر جلد پر نظر ڈال لیں اور بے تکلف اپنی رائے دیں ۔ والد ماجد ان کے شکر گذار تھے۔ مولانا عامر عثمانی کے بارے میں میں جانتا ہوں کہ اگر دارالعلوم میں اختلاف نہ ہوتے تو وہ استاذ ہوتے اور ان کی شہرت ہوتی اللہ مغفرت فرمائے۔ سہیل انجم کی یہ کتاب بھی 376  صفحات کی ہے ہر مسلک کے پرچوں کا اندازِ تحریر اور اکثر اہم رسالوں کا ایک ایک اداریہ جس سے اندازہ تو کیا ہوتا تعارف ہوگیا کہ وہ کیا سوچتے ہیں ۔

یہ حقیقت ہے کہ ہر مدرسہ کی دینی دعوت الگ نہیں ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر رسالے وہ ہیں جو صرف مدرسہ کے تعارف اور مالی مدد کی اپیلوں کے لئے نکلتے ہیں ۔ ان کے پیش نظر صحافت نہیں ہوتی اسی لئے ان کو صحافت کے معیار سے نہیں ناپنا چاہئے۔ ان کی ادارت بھی کسی استاذ کے سپرد کردی جاتی ہے اور ضروری نہیں کہ جو استاذ درسی کتابیں پڑھاتا ہو وہ ادیب انشا پرداز اور صحافی بھی ہو ایسے ہی جیسے صحافی سہیل انجم یا راقم السطور حفیظ نعمانی کو اپنی بات لکھنے کا سلیقہ آتا ہو تو وہ کسی مدرسہ میں درسی کتابیں بھی پڑھاسکیں ۔

مدارس کی اب اکثریت کاروباری ہوگئی ہے۔ ہر کسی کا ایک ہی دعویٰ ہے کہ زکوٰۃ، صدقات، قربانی کی کھالیں اور عطیات کا مستحق ہمارا مدرسہ ہے۔ ہم نے 40  برس سے زیادہ اپنے پریس کی ذمہ داری سنبھالی ہے ہم سے زیادہ کوئی ہمارے پریس سے بڑے پریس والا ہی جانتا ہوگا کہ دینی مدرسوں کے نام پر کتنا فراڈ ہورہا ہے۔ ہمارے پاس چھپوانے کے لئے ایسی روداد بھی آئی ہے جس میں عطیہ دینے والے دلیپ کمار اور جانی واکر کا نام پہلے تھا۔ اور مہتمم صاحب نے ہم سے کہا کہ اگر 100  صفحات میں  یہ نام کم پڑیں تو خط لکھ دیجئے گا میرے پاس بہت نام ہیں میں اور لادوں گا مگر روداد 100  صفحات کی ہونا چاہئے۔ جب برداشت کی طاقت نہیں رہی تو میں نے کہا کہ فوراً چلے جائیے ورنہ میں مارکر باہر نکال دوں گا۔ اور ایسے بھی آتے تھے کہ ہمارا مدرسہ تو پچھلے سال تھا اب جامعہ ہوگیا ہے اور آپ کے پاس تو رودادیں چھپنے آتی ہی ہیں کسی بھی روداد کی 25  کاپی پر ہمارے جامعہ کا نام چھاپ دیجئے۔ اللہ کا شکر ہے اس نے جہاں رکھا عزت سے رکھا اور حلال رزق دیا اور ممکن حد تک واقعی مدرسوں کی روداد چھاپی۔

سہیل انجم نے میڈیا کو موضوع بنا لیا ہے اور اب تک دس سے زیادہ کتابیں اس موضوع پر آچکی ہیں ۔ بہت باصلاحیت اور تیز قلم ہیں جو کچھ لکھتے ہیں بہت پڑھ کر لکھتے ہیں اور کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑتے۔ زیرنظر کتاب اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس کے ذریعہ ایسے ایسے رسائل اور اخباروں سے واقفیت ہوگئی جن کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ سہیل انجم نے جتنا بھی لکھا ہے اس میں کہیں ان  کے قلم سے جانبداری نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے ہر مسلک کو اس کے اعتبار سے جگہ دی ہے۔ انہوں نے مولانا مودی کے ترجمان القرآن کو الندوہ و معارف کو برہان کو اور سچ و صدق اور صدق جدید کو پانچ اور چھ صفحات دیئے ہیں اور ان کا پورا تعارف کرایا ہے۔ یہ کتاب مدارس اہل علم و اہل دانشور اور ہر صحافی کے پاس رہنا چاہئے۔ جس کی قیمت 395  روپئے ہے۔ اور ملنے کا پتہ : قاضی پبلشر اینڈ ڈسٹری بیوٹرز، بی- 35 نظام الدین ویسٹ نئی دہلی۔ 110013

تبصرے بند ہیں۔