دینی رسائل کی صحافتی خدمات

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

موقع تھا طبی کانفرنس کے سالانہ اجلاس کا۔ وہاں مشہور صحافی سہیل انجم اپنی کتاب ’’دینی رسائل کی صحافتی خدمات‘‘ کے ساتھ مل گئے۔ کتاب بھی ایسی جسے دیکھ کر کسی بھی اہل ذوق کا پڑھنے کو جی چاہے۔ پھر میری تو اس موضوع میں خاص دلچسپی رہی ہے۔ زمانہ طالب علمی میں برسوں اسی دشت کی سیاحی میں گزرے۔ دینی مدارس کا دورہ کر  انہیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ عام طورپر مدارس کو علوم دینیہ کی ترویج اور اسلامی مضامین کی تدریس کا مرکز مانا جاتا ہے۔ لیکن اردو زبان کے حوالے سے ان کے رول پر ایسی توجہ نہ ہو سکی جو ان کا حق تھا چہ جائیکہ صحافت۔ جبکہ کتنے ہی اردو کے صحافی ایسے ہیں جنہوں نے مدرسہ سے فراغت کے بعد اس پیشہ کو اختیار کیا اور خوب نام کمایا۔ گو کہ سہیل انجم مدارس کے تربیت یافتہ نہیں ہیں اس کے باوجود انھوں نے مدارس کی صحافت کے حوالے سے جو کام کیا ہے وہ قابل قدر ہے اور یہ ان کی بڑی کامیابی ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں مدارس کے رسائل کے ساتھ مسلم تنظیموں کے رسائل کو شامل کرکے کتاب کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ اس سے کتاب کی معنویت اور بڑھ گئی ہے۔ ممکن ہے اس موضوع پر کچھ صحافیانہ مضامین لکھے گئے ہوں لیکن ہندوپاک میں باضابطہ طور پر اس پر کوئی علمی یاتحقیقی کام نہیں ہو سکا ہے۔ اس انتہائی دقت طلب کام کو کردکھانے کا سہرا سہیل انجم کے سرجاتا ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ان کی کئی برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔

سہیل انجم ان صحافیوں میں سے ہیں جنہوں نے نہ صرف صحافت کے مختلف میدانوں  کی سیر کی  بلکہ میڈیا کے روپ بہروپ کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا اور اس موضوع پر کتاب لکھ کر صحافتی دنیا میں مقبولیت حاصل کی۔ وہ ایک طرف روزنامہ’ قومی آواز‘ سے وابستہ رہے تو دوسری طرف انہوں نے متعدد اخباروں میں ایک طویل عرصہ تک صحافت کی قلمی خدمات انجام دی ہیں ۔اس وقت وہ وائس آف امریکہ کے دہلی میں نمائندہ ہیں ۔ ان کے مضامین اردو کے بیشتر روزناموں ، ماہناموں اور ہفت روزہ اخباروں میں نظرآتے ہیں ۔ ان کی تقریباً ڈیڑھ درجن اور صرف صحافت کے مختلف موضوعات پر ایک درجن کتابیں شائع ہوکر داد وتحسین حاصل کرچکی ہیں ۔

تین سو پچانوے روپے قیمت والی یہ کتاب انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز نئی دہلی کے زیراہتمام قاضی پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز نظام الدین ویسٹ نئی دہلی نے شائع کی ہے۔ 376 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں چھ باب ہیں ۔ ابتدا میں ہندوستان میں مذہبی صحافت منظر پس منظر، مذہبی صحافت۔ اسباب وآغاز، عیسائیوں کے ہندوستانیوں کے مذاہب پر یلغار اور حملوں کے جواب میں مسلمانوں ہندوئوں ، سکھوں نے اپنے مجلات شائع کئے۔ اس طرح ہندوستان میں مذہبی صحافت کا آغاز ہوا۔ پہلے باب میں پہلا مذہبی اخبار اور دیگر مذاہب کے رسائل پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں دینی صحافت کے تاریخی تناظر میں مسلکی رسائل وجرائد کا جائزہ لیاگیا ہے۔ تیسرا باب ہندوستان میں اسلامی صحافت کے نقوش زریں ابھارنے کیلئے وقف کیاگیا ہے۔ اس میں مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال والبلاغ، مولانا ثناء اللہ امرتسری کے اخبار اہل حدیث، مولانا حبیب الرحمن کے الرشید اور القاسم، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے ترجمان القرآن، مولانا سید سلیمان ندوی کے الندوہ و معارف، مفتی عتیق الرحمن عثمانی اور سعید احمد اکبرآبادی کے برہان، مولانا عبدالماجد دریاآبادی کے سچ ، صدق اور صدق جدید، مولانا عامر عثمانی کے تجلی، خواجہ حسن نظامی کے منادی اور مولانا عبدالسلام بستوی کے الاسلام کی زبان وبیان، موضوعات فکرونظر اور رجحانات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ اسلامی صحافت کیلئے اسے دور زریں سے تعبیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ہمعصر دینی رسائل وجرائد نقدونظر کی روشنی میں ، مسلکی مضامین، فروعی مسائل، مناظرانہ رجحانات کی حوصلہ افزائی، سیاسی معاملات کی کوریج، اندرون مسلک اختلاف کی جلوہ نمائی، مسلکی رجحانات کی شدت، رسوم ورواج اور خواتین، بین الاقوامی اموروسیاست، زبان وبیان اور ادبی ذوق کی مثالوں کو چوتھے باب میں سمویاگیا ہے۔ سہیل انجم نے سبھی مکاتب فکر  یہاں تک کہ  ہندو ،عیسائی ، سکھوں ،جینیو ں اور مسلمانوں کے رسائل وجرائد کے اداریوں ، اہم مضامین کے اقتباسات کو پیش کر ان کے مزاج ومعیار کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے جہاں ان جرائد و مجلات پر تحقیقی نگاہ ڈالی ہے وہیں ان کی جانچ پرکھ میں معروضی اور غیر جانبدارانہ نکتہ نگاہ اپنایا ہے اورکسی کی تنقیص نہیں کی ہے بلکہ جہاں جو چیز نظرآئی اسے من وعن بیان کردیا ہے۔ خوبی ہے تو اس کا بھی ذکر ہے اور کوئی خامی ہے تواس کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔ رسائل وجرائد کے عیوب ومحاسن کو بغیر کسی لاگ لپیٹ کے بیان کیا ہے جو اصول صحافت کے عین مطابق ہے۔ عصبیت پرست تحریریں صحافت سے انحراف کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔

پانچواں باب: موجودہ منظر نامہ، اسلامی مجلات اپنے افکار کے آئینے میں ہے۔ اس باب کو چار ذیلی حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ پہلے میں دیوبندی مکتبہ فکر کے رسائل وجرائد کو رکھا گیا ہے تودوسرے میں اہلحدیث کے رسائل کو، تیسرا حصہ بریلوی رسائل پر مشتمل ہے تو چوتھا شیعہ رسائل پر۔ آخری باب ششم میں اختتامیہ، آخری بات، کچھ اہم دینی رسائل کے ٹائٹل کے عکس پیش کئے گئے ہیں ۔ یہ باب مدارس سے شائع ہونے والے مجلات کے مدیران کی سرد مہری پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ مصنف کی رائے کے مطابق ایسے چیف ایڈیٹروں کی بھی کمی نہیں ہے جو خود اپنے پرچے کے مشمولات سے بے خبر اور ناواقف ہوتے ہیں ۔’’جب کوئی قاری ان کی توجہ کسی خاص مضمون کی جانب مبذول کراتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ابھی میں نے رسالہ دیکھا نہیں ہے، ہمارے مدیر کو معلوم ہوگا، میں دیکھنے کے بعد کچھ کہہ سکوں گا۔ جب بے خبری کا یہ عالم ہو تو ان سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ دوسرے مجلات اور دوسرے مکاتب فکر کے جریدوں اور دنیائے صحافت میں رونما ہونے والی انقلاب آفریں تبدیلیوں سے باخبر ہوں گے یا اپنے پرچوں کو زمانے سے ٹکر لینے کے قابل بنانے کی کوشش کریں گے۔‘‘اس باب میں قارئین کی رائے اور دینی مجلات اور اردو کے حوالے سے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو زبان کے تحفظ اور بقا میں مدارس کا سب سے بڑا رول ہے۔ اگر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اردو کی تعلیم کا سلسلہ بند بھی ہوجائے تب بھی اردو کو کوئی ختم نہیں کرسکتا۔

کتاب میں کئی ایسے اخباروں کا ذکر بھی ہوا ہے جو کسی مذہبی ادارے یا شخصیت کے مرہون منت نہیں تھے بلکہ قومی جذبہ رکھنے والے پڑھے لکھے حضرات نکالتے تھے ان میں ہفت روزہ اخبار جعفر زٹلی، کرزن گزٹ وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کسی مدرسہ سے جاری ہونے والے پہلے رسالہ’’تحفۂ حنفیہ‘‘ کا ذکر کیا ہے اور اس کا سنہ اشاعت بھی دیا ہے جس سے دینی رسائل کی ابتدائی تاریخ کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کام تھا۔ پورے ملک سے بڑی تعداد میں دینی رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں ۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہر شخص کی رسائی تمام رسائل تک ہو جائے یا تمام رسائل کسی ایک شخص تک پہنچ جائیں صاحب تصنیف نے نہ  کلیت  کا دعویٰ کیا ہے اور نہ یہ ممکن ہے کہ کوئی اکیلا شخص اپنے وسائل سے تمام رسائل و جرائد تک پہنچ سکے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سہیل انجم نے بہت سے رسائل پر عمداً گفتگو نہیں کی ہے

ان میں مدرسہ جامعۃالرشاد کا مجلہ الرشاد ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع شدہ تہذیب الاخلاق و فکر ونظر،کانپور سے شائع  ہونے والا استقامت ، سید محمد جیلانی کا المیزان ، قاری محمد میا ں مظہری کا ماہنامہ قاری ،دعوت القرآن ، الحسنات ، نور ، ہلال ، خواتین کے لئے شائع ہونے والے بتول و حجاب،دختران اسلام ،لکھنئو اور سائنس و اسلام پر اکلوتہ پرچہ آیات وغیرہ کا ذکر نہیں آسکا ۔ کیونکہ اس سے کتاب کی ضخامت کے بہت زیادہ بڑھ جانے کا اندیشہ تھا۔ تاہم کسی بھی کتاب کے تعلق سے یہ گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے کہ اس کے اگلے ایڈیشن کی اشاعت کے موقع پر اس پر نظرثانی کی جائے۔ امید ہے کہ سہیل انجم اس تعلق سے نظر ثانی کریں گے اور ان کے خیال میں جو باتیں اور جو رسائل کتاب میں آنے سے رہ گئے ہو ں گے ان پر بھی گفتگو ہوگی۔

یہ کتاب اپنے موضوع پر اکلوتی کتاب ہے جس میں اہل علم اور صحافت پر کام کرنے والے طلبہ کیلئے انتہائی اہم معلومات موجود ہیں ۔ یقین جانئے یہ کتاب مدارس کی صحافت کو نہ صرف نیا موڑ دے گی بلکہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی توجہ بھی مدارس کی طرف مبذول کرائے گی۔اس کتاب سے یہ یقین ہو گیا ہے کہ مدارس کی صحافتی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سہیل انجم اس اہم علمی وتحقیقی کام کیلئے مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ قدرت ان کی اس گرانقدر خدمات کو قبول فرمائے۔ توقع ہے کہ اہل علم وذوق اس کتاب کو اپنی لائبریری میں رکھنا پسند کریں گے۔

تبصرے بند ہیں۔