دینی طلبہ اور ان کی ذمہ داریاں

محمد عرفان شيخ يونس سراجی

طلبہ لفظ ”طالب“ کی جمع ہے، جس سے مراد ملک وقوم کا زیر تعلیم فر د ہے۔ دینی طلبہ پاکیزہ سماج و معاشرے کی تشکیل اور اس کی تعمیر وترقی میں نہایت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں جوقوم کاقیمتی سرمایہ اوربیش بہا اثاثہ ہوتے ہیں نیز ملک وقوم کی ترقیات، فلاح وبہبود کے بنیادی ستون ہوتے ہیں جن کے زور بازوسے وطن کی عمارت مضبوط ہوتی ہے۔طلبہ اس ثمرآور شجر کی مانند ہوتے ہیں جو اپنی ذات سے دوسروں فا ئدہ پہونچاتے ہیں۔ یہ قو م کے معمار بھی بن سکتے ہیں اور اسے مسمار بھی کرسکتے ہیں۔ یہ مصلح کا بھی رول ادا کرسکتے ہیں اور مخرب کا بھی۔ ان پر منحصر ہے کہ وہ پھیلی ہوئی برائیوں، باطل خیالات ونظریات کے قلع قمع کے لیے شرعی رو سے مناسب اور روا قدامات کریں گے یا خاموش تماشائی بنے اپنی چشم بے آب سے سارا ماجرا مشاہدہ کریں گے۔

آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ دینی طلبہ کے قول وفعل میں تضاد نظر آتا ہے، کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور۔ ہونا یہ چاہیے کہ وہ اپنی کہی ہوئی باتوں کو تمام لوگوں سے پہلے اپنی حیات میں نافذ کرتے تاکہ لوگوں پر اس کا مثبت اثر رونما ہوتا، لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ سردست دیکھا جائے تو چہار جانب یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ دینی طلبہ بذات خود اسلامی تعلیمات اور ارشات نبوی سے پر ے ہیں اور دوسروں کو نصیحت کررہے ہیں۔ اور یہ بات متحقق نظر آتی ہے۔ کسی کو دینی و اسلامی احکامات، اخلاقی وانسانی آداب نیز شرعی اور عقدی مسائل کے روشناس کرنے سے پیشتر طلبہ کو بذات خود دینی آداب اوراسلامی احکامات سے آراستہ وپیراستہ ہونے، اخلاق نبوی اور اسلوب نبوی کو بروئے کار لانے، عقدی اور منہجی اصول پر عمل پیرا ہونے کی غایت درجہ ضرورت ہے، تاکہ ان کی رہنمائیاں اور ارشادات حقیقی طور سے لوگوں میں مقبول ہوں۔ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کے اوراق کو کنگھالے تو یہ معلوم ہوگا کہ وہ دین اسلام کی خاطر مر مٹنے والے نبی کریمﷺ سے سیکھے ہوئے تعلیمات وارشادات، ازبر کیے ہوئے فقہی مسائل پر اول وہلہ میں خود عمل درآمد ہوتے تھے، بعدازاں ان کی تبلیغ اورنشر واشاعت کے لیے کوشاں نظر آتے تھے۔ یہی طریقہ اہل السنہ والجماعہ کا ہے۔

ایک دور تھا جب طالبان علوم نبوت علم دین کے حصول کی خاطر، منہل صافی اور منبع خالص سے اپنی تشنگی مٹانے کے لیےنہایت ہی تنگ اور دشوار ترین ادوار سے گذرتے تھے، نہ جانے کن ناگفتہ حالات سے دوچار ہوتے تھے اور کن مصیبتوں اور مشکلات کا سامناکر تے تھے، با پیادہ میلوں میل نا ہموار راستوں پرسفر کرتے تھے، نوع بہ نوع اشیاءخورد ونوش کو تر س جاتے تھے۔ امام المحدثین بخاری رحمہ اللہ جنہوں نے اللہ کی ودیعت کردہ ذکاوت وذہانت کے باوجود اپنی کتاب "الجامع الصحیح ” کی تدوین کے لیے سولہ سال کی لمبی مدت کھپادیں، اوران مرحلوں میں کن کن مصائب اور آلام کا سامناکیا ان کے ذکر سے کتابیں سیاہ موجود ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں علم حدیث کے حصول کی تڑپ اس قدر تھی کہ جب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو معلوم ہواکہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے ایک حدیث سنی ہے۔ چنانچہ ابو ابوب انصاری رضی اللہ عنہ نے محض ایک حدیث کو حاصل کرنے کے لیے”مدینہ منورہ“سے مصر کا سفر کیا۔ قابل ذکر بات یہ ہےکہ ہنوز ہمارے سامنے آیات قرآنی اور احادیث نبویہﷺ واشگاف موجود ہیں۔ ساری نصوص ہماری نظروں کے سامنے بالکل واضح ہیں۔ ہمیں کہیں دور دراز، سات سمندر پار ایک ایک حدیث کے لیے سفر نہیں کرنا ہے بلکہ ایک جگہ بیٹھے منہل صافی سے سیراب ہونا ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حصول علم دین میں خودغرضی اور مادیت پرستی، دنیوی اغراض ومقاصدکی تکمیل، ریا ونمود، شہرت طلبی وناموری در آئی ہے۔ مادیت پرستی اور مال ودولت کی حرص ولالچ نے طالبان علوم نبوت کی آنکھوں کو اس درجہ اندھا کردیا کہ جائزاور نا جائزکی تمیز کیے بغیر آغاز تعلیم میں ہی ہاتھ پیر مارنا شروع کریتے ہیں، حلا ل وحرام کی تفریق کیے بغیر دین بیزاری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا مطمح نظر حصول علم دین نہیں بلکہ حصول مال ودولت بنالیتے ہیں۔ تف ہے ایسی ثروت وبضاعت پر۔طلبہ وہ ہے جن سے قو م وملت، معاشرےاور دیگر افرادکی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالى کے خاص احسانات اور انعامات ہیں طلبہ پرکہ بےشمار اور متعدد لوگوں میں سے دین اسلام کی خدمت کے لیے انہیں منتخب کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرما ن ہے:

”مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ، وَاللهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللهِ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتّى يَأتِيَ أَمْرُ اللهِ“.(صحیح بخاری، ح:۷۱)

ترجمہ: ”جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا کرتاہے، اور میں تو تقسیم کرتا ہوں اور اللہ مجھےنوازتا ہے، اور برابر یہ امت اللہ کے حکم پر ثابت قد م رہے گی، اور ان کی مخالفت کرنے والے انہیں نقصان نہیں پہونچاسکیں گے تا اینکہ قیامت نہ قائم ہوجائے“۔

دینی طلبہ کی ذمہ داریاں :

جب اللہ تعالى نے ان گنت لوگوں میں سے خدمت دین کے لیے طلبہ کاخصوصی طور سے انتخاب کیا ہے تو ان کی بھی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں جو ذیل کے سطورمیں مذکور ہیں :۔

1۔ طلبہ کی سب سے اہم ذمہ داری اخلاص وللاہیت کے ساتھ علم دین کا حصول ہےجس کے لیے خاطر خواہ محنت ومشقت اور جوش وجذبہ درکا ر ہے۔ بغیر محنت ومشفت کے کسی بھی بامقصد چیز کی طلب ناممکن ہے، لہذا اسے حاصل کرنے کے لیےسچی لگن، عمدہ ذوق وشوق اور پیہم جاں فشانی کی ضرورت ہے۔کسی شاعر نے یوں نقشہ کھینچا ہے :۔

نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا

سوبار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا

2۔ علم دین کے حصول کے بعد ایک طالب علم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ اپنی پڑھی ہوئی اسلامی تعلیمات کی روسے بدعات وخرافات کی بیخ کنی اورسوسائٹیز میں پنپ رہی دقیہ نوسی و فرسودہ روایات کے انسد اد کے لیے عملی اقدام اٹھائے۔ توحید کے مفہوم اور ”لا إلہ إلا اللہ“کے ارکان اور مقتضیات سے مسلمانوں کو باخبر کریں کیوں کہ مسلمانوں کی کلمہ گو کثیر تعداد شرک وبدعات، ضعیف وموضوع روایات پر عمل پیرا ہیں اور اپنے عمل کی انجام دہی میں نہایت ہی مست ومگن نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں ایک طالب علم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ صحیح معتقدات کے فروغ کےلیے، منہج سلف کی ترویج واشاعت کے لیے مناسب اور لائق تنفیذ عمل انجام دیں جس سے آپسی چشمک اور بدظنی نہ پیداہونے پائےنیز صحیح عقائد کی تبلیغ بھی ہوجائے۔

3۔ طلبہ پر فرض ہے کہ وہ اپنے والدین کی قدر دانی کے ساتھ اپنے اساتذہ کرام کی عزت وتوقیر میں حسب استطاعت دقیقہ فروگذاشت نہ چھوڑیں کیوں کہ والدین اپنی اولاد کی جسمانی پرورش کرتے ہیں جبکہ اساتذہ اپنے شاگردان کی ذہنی، اسلامی، اخلاقی، تعلیمی اور روحانی تربیت کرتے ہیں۔ اساتذہ کی قدراورتوقیر کیے بغیر علم کاحصول مشکل ہی بلکہ ناممکن ہے کیوں کہ اخذ علم کا پہلا زینہ ادب ہے۔

4۔ ایک طالب علم کے اخلاق وکردار، عادات واطوار، چال چلن، وضع قطع میں اسلامی اقدار وروایات کی جھلک نمایاں ہونی چاہیے۔اور اسے بری صحبت سے کنارہ کش اور اچھی اور مفید صحبت کو لازم پکڑناچاہیے۔

5۔ یہ بات صحیح ہے کہ دینی طلبہ کو گندی سیاست سے دور رہنا چاہیے تاہم ملکی اور بین الاقوامی واقعات وحادثات کے مطالعے سے دلچسپی ضروری ہے، تاکہ دنیا میں انجام پا رہے سیاہ کارناموں اورمسلمانوں کے خلاف ہورہی دسیسہ کاریوں اور ریشہ دواونیوں سے سبق حاصل کیا جاسکے۔

6۔ ایک طالب علم کے لیے سب سے اہم بات یہ ہےکہ اسے دوران تعلیم ذہنی انتشار کی باعث اشیاءنیز مادیت پرستی اور ریا ونمود سے کوسوں دور رہنا چاہیےاور خصوصی طور سے حرام خوری کی طرف لے جانے والی راہ کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے ورنہ ایک مرتبہ حرام خوری اور باطل طریقے سے دوسروں کےمال کھانے اور حقوق غصب کرنے کی لت لگ جائے تو اس سے گلو خلاصی مشکل ہوجاتی ہے۔

7۔ قو م وملت کی تعمیر وترقی اور ارتقائی ادوار کے عبور میں نوجوان نسل (دینی طلبہ)کی مساعدت نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے۔کیوں یہ وہ افراد ہیں جو قوم کے مقدر کا ستارہ بن سکتے ہیں، سماج اورمعاشرے میں جگنو کی طر ح روشنی اور تابناکی بکھیر سکتے ہیں، شاہین پرندے کی طرح لمبی پرواز بھر سکتے ہیں، جیسا کہ علامہ اقبال نے اپنے شعر میں یوں نقشہ کھینچا ہے:

ہر فردہے ملت کے مقدر کا ستارہ

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

مذکور ہ تحریر کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ واقعی دینی طلبہ درخشاں و تابند ہ سماج کے ضامن ہیں، ان کے زور وقوت سے قوم وملت، سماج اور معاشرے میں آب تاب ہے۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں دین کا سچا پکا سپاہی بنائے نیز دین اسلام کی خدمت کی توفیق ارزانی عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔