دین پر استقامت اور اعمال پر مداومت

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

ماہِ رمضان پورے آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہوااوردیکھتےہی دیکھتےآناًفاناً ہم سےرخصت بھی ہوگیا، مہینےبھرکے اس عرصے میں ہمیشہ کی طرح فرزندان توحید نے غیرمعمولی دلچسپی کےساتھ عبادات وطاعات میں حصہ لیا،ہرطرف نیکیوں اور بھلائیوں میں سبقت کاماحول رہا،مسجدیں مصلیوں سے آباد ومعموررہیں ،انفاق فی سبیل اللہ کا دوردورہ رہا،کلام مجیدسننےاورسنانےکامعمول رہا اور یہ سب اعمال  چاند رات تک  پورے اہتمام سے انجام پاتےرہے۔

لیکن یہ کیاکہ ہلال عید کے ساتھ ہی ساری فضاء بدل گئی ،اچانک مسجدیں ویران ہوگئیں ،مصلے سنسان ہوگئے،مصاحف غلافوں میں لپیٹ کر طاقوں میں سجادئیے گئے،کل تک جو بندگان خدا تہجد ونوافل تک کا التزام کرتے تھے آج بے دریغ فرائض و واجبات سے غفلت برتنے لگے،ان حالات کو دیکھ کرایسامحسوس ہونےلگاکہ مسلمان خدائے واحد کے بجائےرمضان کی عبادت کرتےہیں ،ان کا ایمان اتنا کمزور ہوچکاہے کہ حالات و تغیرات کا سیل رواں اسے بہالےجاتاہے،نہ ایمان میں استحکام و مضبوطی ہے نہ اعمال پراستقامت ودوام !

  استقم، استقامۃ  کا لفظی مطلب‘‘ سیدھا ہونا’’ہے۔ کہا جاتا ہے ’استقام لہ الامر‘ معاملہ اس کے لیے سیدھا ہو گیا۔

اسی طرح جب یہ لفظ نصوص میں استعمال ہو تو یکسو ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ نیز مداومت اور استمرار کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔

عام فہم الفاظ میں استقامت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت پر انسان ڈٹ جائے، فرائض و واجبات کی ادائیگی کرے اور حرام کاموں سے بچ کر رہے۔

 ‘‘استقامت’’ قرآن مجید کی روشنی میں :

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دین پر استقامت  کا حکم دیا ۔

چناں چہ ارشاد ربانی ہے:

یقیناً جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (الأحقاف)

اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا:

(واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعده دیئے گئے ہو۔(فصلت)

ایک اور مقام پر حضوراکرمﷺکومخاطب کرتےہوئے فرمایا:

آپ ثابت قدم رہیے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے۔اور وہ بھی (ثابت قدم رہے) جس نے آپ کی معیت میں (اﷲ کی طرف) رجوع کیا ہے اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرو۔ جو کچھ تم کر رہے ہو اس پر تمہارا رب نگاہ رکھتا ہے۔(سورۃ ہود)

ایمان پرثابت قدم رہنےوالوں کےلئےاپنے انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی، ہاں ناانصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے (ابرہیم)

اسی طرح میدان جنگ  وغیرہ میں استقامت کی تعلیم دیتےہوئےارشادفرمایا:

اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو(انفال)

‘‘استقامت’’ احادیث مبارکہ کی روشنی میں :

نبی اکرم ﷺ نے بھی متعددفرامین میں ایمان و اعمال پرجمے رہنےکی تلقین ووصیت فرمائی۔

حضرت سفیان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں سے کہا اے اللہ کے رسولﷺ ! مجھے اسلام کی ایک ایسی بات بتلائیں کہ پھرآپ کے بعد کسی سے اس کے متعلق سوال نہ کروں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کہو میرا رب اللہ ہے اور اسی پر قائم رہو۔(رواہ مسلم)

شعیب بن رزیق طائفی بیان کرتے ہیں کہ میں ایک صاحب کے ہاں بیٹھا جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی ۔ انہیں حکم بن حزن کلفی کہا جاتا تھا ۔ وہ ہم سے بیان کرنے لگے کہ میں ایک وفد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہوا ۔ میں سات میں سے ساتواں یا نو میں سے نواں فرد تھا۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول!ہم آپ کی زیارت کے لیے آئے ہیں ،ہمارے لیے دعائے خیر فرمائیے ۔ آپ نے ہمارے لیے کسی قدر کھجوروں کا حکم دیا،حالت ان دنوں بہت کمزور تھی ۔ ہم آپ کے ہاں کئی دن مقیم رہے ۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھنے کا موقع بھی ملا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لاٹھی یا کمان کا سہارا لیے ہوئے کھڑے ہوئے ۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، آپ کے الفاظ مختصر،پاکیزہ اور بابرکت تھے ۔ پھر فرمایا ” لوگو !جو احکام تمہیں دیے جاتے ہیں تم ان سب کی طاقت نہیں رکھتے ہو ، یا انہیں ہرگز نہیں کر سکتے ہو؛لیکن استقامت و اعتدال اختیار کرو اور خوش ہو جاؤ ۔ “(رواہ البخاری)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے آیت {إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا} ( فصلت:30) پڑھی، آپ نے فرمایا:’ بہتوں نے تو ‘ربنا الله ‘ کہنے کے باوجود بھی کفرکیا ، سنو جو اپنے ایمان پر آخروقت تک قائم رہ کر مرا وہ استقامت کاراستہ اختیار کرنے والوں میں سے ہے۔(رواہ الترمذی)

حضرت ابن مسعودﷺسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے بعد صبر کا زمانہ آئے گا جو شخص اس زمانے میں دین سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا اس کو تم میں سے پچاس شہیدوں کے برابر اجر و ثواب ملے گا۔

 فائدہ : رحمت ِ خداوندی کی وسعت دیکھئے کہ پُر فتن زمانے میں استقامت ِ دین پر پچاس شہداء صحابہ کے برابر اجر و ثواب کی خوشخبری دی جا رہی ہے۔(کنزالعمال)

 استقامت علماءامت کی نظر میں ؟

قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ استقامت سے مراد میانہ روی اختیار کرنا اور حق سے منحراف نہ ہوناہے خواہ اعتقادات میں یا اخلاق میں یا اعمال میں ۔ اسی وجہ سے حق کے راستہ کو صراطِ مستقیم کہتے ہیں کہ وہ ایسا راستہ ہے جو اپنے سالک کو مطلوب تک پہنچاتا ہے۔ پس اس لفظ مختصر میں جمیع شرائع شامل ہیں یعنی امتثالِ اوامر و اجتناب عن المعصیات علیٰ سبیل الدوام و الثبات، یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کا بجالانا اور معاصی سے پرہیز کرنا دائمی طور پر اور گناہ کے صادر ہونے کے بعد استغفار و توبہ کرنے کا التزام دوام کے خلاف نہیں ہے یعنی خطاؤں کی تلافی کا ذریعہ ہے۔(تفسیر مظہری)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

 استقامت دنیا میں ایسا مشکل امر ہےجیسے کہ پل صراط پر گزرنا اور یہ دونوں بال سے بھی باریک اور تلوار سے بھی تیز ہیں تو جو بھی اس دنیا میں اس پر چلے گا  بدرجۂ اولیٰ وہ  پل صراط پر چل سکے گا کیوں کہ مشق کرنے کے بعد کام کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

اسی طرح صوفیا فرماتے ہیں :اَ لْاِسْتِقَامَۃُ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ کَرَامَۃٍ یعنی استقامت ہزار کرامت سے بہتر ہے۔

بزرگان دین استقامت کو عمل صالح کی طرح  درخت ایمان کا پھل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مضبوط ایمان انسان کو دین میں استقامت  سے کام لینےاور شیطان کی پیروی نہ کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ قرآن کی نگاہ میں استقامت کی اعلی ترین قسم راہ خدامیں استقامت ، حفظ ایمان اور معنویات میں اضافہ کرنا ہے۔ انسان اگر گناہوں کو ترک کر کے، شیطانی وسوسوں کے مقابل استقامت سے کام لیکر انسانیت اور تقرب الہی کے اعلی مرتبہ پر فائزہو جائے تویہ قرآن کی نظر میں محترم ہے اور اس کے مقابل باطل اورناجائز اہداف تک پہونچنے کے لئے  کوشش کرنےوالا  انسان  کی گمراہی و ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔

اخیر میں ہم حضرت خواجہ عزیزالحسن مجذوب علیہ الرحمہ کےان اشعارپرقلم روکتےہیں جن میں ہرمسلمان کےلئے استقامت کی تعلیم اوراس کا طریقۂ کار مذکورہے :

سارا جہاں خلاف ہو پروا نہ چاہیے

پیش نظر تو مرضیٔ جانانہ چاہیے

پھر اس نظر سے سوچ کے تو کر یہ فیصلہ

کیا کیا تو کرنا چاہیے کیا کیا نہ چاہیے

تبصرے بند ہیں۔