ذرا نزدیک تو آ یار میرے
عبدالکریم شاد
ذرا نزدیک تو آ یار میرے
کھلیں گے تجھ پہ سب اسرار میرے
…
وہ کہتا ہے دعا کافی نہیں ہے
دوا بھی چاہیے بیمار میرے
…
مری بنیاد میں کچھ نقص تو ہے
گرے جو گنبد و مینار میرے
…
تمھی اے دشمنو! آئینہ لاؤ
تکلف کر رہے ہیں یار میرے
…
تعصب تھا مرے منصف کے دل میں
دلائل ہو گئے بے کار میرے
…
برابر دل نہیں لگتا ہے اس پار
ابھی کچھ دوست ہیں اس پار میرے
…
نشانے پر وہ خود آتا ہے شاید
نہیں جاتے ہیں خالی وار میرے
…
کبھی پھر حاجت مینا نہ ہوگی
پلا دیں گے اگر سرکار میرے
…
مری چھت کا نہیں کوئی بھروسا
شکستہ ہیں در و دیوار میرے
…
وہ فرماتے ہیں میرا دل پھنسا کر
سنوارو گیسوئے خم دار میرے
…
دلِ غم گیں! ذرا ہشیار ہو جا
چلے آتے ہیں وہ غم خوار میرے
…
جواباً کچھ نہ کہ پایا زباں سے
مگر آنسو گرے دو چار میرے
…
تمھارا ہی فسانہ کہ رہے ہیں
پڑھو دل تھام کر اشعار میرے
…
یہی موقع ہے مل لوں شاد خود سے
"ابھی سوئے ہیں پہرے دار میرے”
تبصرے بند ہیں۔