ذی الحجہ کے دس دن

محمدجمیل اختر جلیلی ندوی

 رحمتِ خداوندی مغفرت اوربخشش کابہانہ ڈھونڈھتی ہے، بندہ ہی پیچھے ہٹ جاتاہے اوراپنے گناہوں کی بخشش میں ٹال مٹول اورسستی و کاہلی سے کام لیتاہے، کتنے ایسے مواقع ہمیں میسرہوتے ہیں، جن میں تھوڑی سی کی گئی عبادت کاثواب دس گناسے بھی زیادہ ملتا ہے؛ لیکن پھربھی اس تھوڑی سی عبادت کی ادائے گی میں نہ صرف یہ کہ ہم تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں؛ بل کہ کنی ہی کاٹ لیتے ہیں اوراس طرح اپنے پیرپرخودہی کلہاڑی مارلیتے ہیں۔

 ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن بھی بخششِ رحمانی کااعلیٰ نمونہ ہے، جن کی قسم اللہ تبارک وتعالیٰ نے کھائی ہے، ارشاد ہے:

وَالْفَجْرِ ٭وَلَیَالٍ عَشْرٍ ٭وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (الفجر:1-3)

’’قسم ہے صبح کے وقت کی، قسم ہے (ذی الحجہ کے)دس رات(ودن)کی اورقسم ہے قربانی کے دن(شفع) اورعرفہ کے دن(وتر) کی‘‘، اللہ تبارک وتعالیٰ کایہ قسم کھانا ان اوقات اوردن کے احترام اورتقدس کی وجہ سے ہے، نیز قسم بات کے اندرزوراورقوت پیداکرنے کے لئے کھائی جاتی ہے، گویاذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ایسے مبارک ہیں ، جن کااحترام ہم پرلازم ہے۔

دس دنوں کے فضائل

 ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن بڑے فضائل والے ہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓنبی کریم ﷺکاارشادنقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:

مامن أیام العمل الصالح أحب إلی اللہ فیہن من ہذہ الأیام، قالوا: ولاالجہاد فی سبیل اللہ، قال:ولاالجہاد فی سبیل اللہ؛ إلارجلاً خرج بنفسہ ومالہ، ثم لم یرجع من ذلک بشئی۔(ابوداود، حدیث نمبر:2440،بخاری، حدیث نمبر:969)’’

(ذی الحجہ کے ان)دس دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال اللہ تعالیٰ کے نزدیک دوسرے دنوں کے اعمال کے مقابلہ میں بہت ہی زیادہ محبوب ہیں ، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں ؟آں حضرت ﷺنے جواب دیا: جہادبھی نہیں ؛ البتہ اگرکوئی شخص جان ومال کے ساتھ (جہاد) میں جائے اورواپس نہ آئے(بل کہ شہید ہوجائے) تووہ اللہ کے نزدیک بہت محبوب ہے‘‘۔

  حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

 صیام یوم منہا یعدل صیام سنۃ، وقیام لیلۃ منہایعدل قیام لیلۃ القدر، فأکثروا من التسبیح والتکبیروذکراللہ۔(مسندبزار، حدیث نمبر: 7816)

’’ان میں سے ایک دن کاروزہ ایک سال کے برابراورایک رات کاقیام لیلۃ القدر(شب قدر)کے قیام کے برابرہے، لہٰذا تسبیح وتکبیراورذکرواذکارکثرت سے کرو‘‘۔

دس دنوں کے اعمال

  اس قدر فضائل والے ایام کویوں ہی گزارناعقل مندی کی بات نہیں ؛ بل کہ پورے اہتمام کے ساتھ ان ایام کوگزارناچاہئے، ان ایام میں ہمیں کون کونسے اعمال کرنے چاہئیں، آیئے دیکھتے چلیں:

 1-  خیرکے کام: تمام طرح کے خیرکے کام ہمیں زیادہ سے زیادہ انجام دیناچاہئے؛ کیوں کہ ان ایام میں کئے ہوئے خیرکے کام اللہ تعالیٰ کوبہت پسندہے؛ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺکاارشادہے:

مامن أیام العمل الصالح أحب إلی اللہ فیہن من ہذہ الأیام۔ (ابوداود، حدیث نمبر:2440)

’’(ذی الحجہ کے ان)دس دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال اللہ تعالیٰ کے نزدیک دوسرے دنوں کے اعمال کے مقابلہ میں بہت ہی زیادہ محبوب ہیں ‘‘، خیرکے کام میں غریبوں کی مدد، یتیموں کی دیکھ بھال، پڑوسیوں کاخیال اورکم ازکم لڑائی جھگڑے سے دوررہ کرلوگوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملناوغیرہ سب شامل ہے؛ اس لئے ان کی طرف جلدمتوجہ ہوناچاہئے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَاسْتَبِقُواْ الْخَیْرَاتِ(البقرۃ:148)

’’خیرکے کاموں کی طرف جلدی کرو‘‘۔

2-  روزہ کااہتمام: ان ایام میں اہتمام کے ساتھ روزہ رکھناچاہئے؛ کیوں کہ ان ایام میں ایک دن روزہ رکھنے کاثواب سال بھرروزہ رکھنے کے برابرہے،  اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

صیام یوم منہا یعدل صیام سنۃ۔(مسندبزار، حدیث نمبر: 7816)

’’ان میں سے ایک دن کاروزہ ایک سال کے برابرہے‘‘۔

   3-  عرفہ کے دن روزہ کااہتمام: سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے نوتاریخ تک روزہ کااہتمام کرے؛ لیکن اگرکوئی شخص کسی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتاتوکم ازکم عرفہ کے دن ضرورروزہ رکھنے کااہتمام کرے، خودآں حضرت ﷺکابھی اس دن روزہ رکھنے کامعمول تھا، ازواج مطہرات سے روایت ہے کہ:

کان رسول اللہ ﷺ یصوم تسع ذی الحجۃ، ویوم عاشوراء، وثلاثۃ أیام من کل شہر أول اثنین من الشہروالخمیس۔(ابوداود،حدیث نمبر: 2439)

’’اللہ کے رسول ﷺنوذی الحجہ، یوم عاشوراء اورہرمہینے کے تین دن، شروع مہینے کے دودن اورجمعرات کوروزہ رکھتے تھے‘‘،

4-  قیام لیل: ان ایام میں کرنے کاایک اہم کام’’ قیام لیل‘‘بھی ہے، رات میں جاگنااورعبادت کرنایوں بھی بہت فضیلت کاکام ہے، آں حضرتﷺ نے زندگی بھر اس کااہتمام فرمایاہے؛ تاہم ذی الحجہ کے دس دنوں میں قیام لیل کااہتمام سے شب قدر میں عبادت کرنے کاثواب ملتاہے، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

وقیام لیلۃ منہایعدل قیام لیلۃ القدر۔(مسندبزار، حدیث نمبر: 7816)’’

ایک رات کاقیام لیلۃ القدر(شب قدر)کے قیام کے برابرہے‘‘،اورلیلۃ القدر میں عبادت کرناہزارمہینے(تقریباًتراسی سال)عبادت کرنے کے برابرہے، قرآن مجیدمیں ہے:

 لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْر(القدر:3)

’’لیلۃ القدر ہزارمہینوں سے بہترہے‘‘، گویاذی الحجہ کے ان ایام میں اگرقیام لیل کیاجائے توتقریباً تراسی سال قیام لیل کرنے کاثواب ملے گا۔

5-  اذکارکی کثرت: ان ایام میں ذکرواذکارکی کثرت ہونی چاہئے کہ یہ اعمال بھی اللہ تعالیٰ کے محبوب اعمال میں سے ہیں، مزیدیہ کہ ذکرواذکارسے دل کی صفائی ہوتی ہے اوراللہ تعالیٰ کااستحضارحاصل ہوتاہے، اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے ان ایام میں کثرت سے ذکرکرنے کاحکم فرمایاہے، ارشاد ہے:

فأکثروا من التسبیح والتکبیر وذکر اللہ۔ (مسندبزار، حدیث نمبر: 7816)

’’ا تسبیح وتکبیراورذکرواذکارکثرت سے کرو‘‘۔

6-  قربانی: یہ ہمارے جدامجدحضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کے سعادت مندفرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یادگارہے، جوہمیں دین کی خاطرجانی ومالی کے علاوہ بوقت ِضرورت آل واولادکی قربانی کی بھی ترغیب دیتاہے، قربانی ہر اس شخص پر ہے، جوصاحب نصاب(جس کے پاس  612 گرام 360 ملی گرام چاندی یااس کی قیمت ہو) ہو، خواہ قربانی کے کسی بھی ایام میں وہ صاحب نصاب بن جائے، قربانی کی بھی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: بکل شعرۃ حسنۃ۔(المستدرک، حدیث نمبر: 3395)’’ہربال کے بدلہ ایک نیکی ہے‘‘، جانورکے جسم میں ان گنت بال ہوتے ہیں ، لہٰذا اس حدیث سے صاف طورپریہ معلوم ہوا کہ قربانی کرنے کاثواب بھی بے شمارہے۔

7-  بیت اللہ کاحج: ذی الحجہ کے انھیں دس دنوں میں حج جیسی عظیم الشان عبادت کوبھی انجام دیاجاتاہے، یہ اس شخص کے لئے ضروری ہے، جواس کی استطاعت رکھتا ہو، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

وَلِلّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْْہِ سَبِیْلاً(آل عمران: 97)

’’اللہ کے لئے قادرشخص پربیت اللہ کاحج کرناہے‘‘، حج کی بھی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیث میں ہے:

من حج، فلم یرفث، ولم یفسق، رجع کیوم ولدتہ امہ۔(بخاری، حدیث نمبر:1521)

’’جس نے حج کیا اوردوران حج نہ توفحش کام کئے اورناہی فسق کیاتوایسے لوٹتاہے، جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیداہواہو‘‘۔

یہ وہ کام ہیں، جوذی الحجہ کے دس دنوں میں انجام دینے کے ہیں، اب ہمیں اپناجائزہ لیناچاہئے کہ کیاہم ان ایام کومذکورہ اعمال کی انجام دہی میں گزارتے ہیں یا ’’وہی رفتاربے ڈھنگی، جوکل تھی، سواب بھی ہے‘‘کے مصداق ان مقدس اوربابرکت ایام کورواروی میں گزاردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطافرمائے، آمین!!!

تبصرے بند ہیں۔