راجستھان  کے حالات کی عکاس ناول ’بھیکو کسان کا بھارت مہان‘ کا جئے پور میں رسم اجراء

راجستھان کے مخصوص سماجی و سیاسی تناظر میں لکھے گئے ڈاکٹر سلیم خان کے نئے ناول ’بھیکو کسان کا بھارت مہان‘  کا رسم اجراء جے پور کے پنک سٹی پریس کلب میں  جناب خورشید حسین (سرپرست، ادارہ ادب اسلامی، راجستھان) کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس تقریب کی صدارت ٹونک سے تشریف لانے والے  راجستھان کے مشہور و معروف شاعر و ناقد جناب صابر  حسین رئیس  صاحب نے فرمائی۔ آپ نے اپنی صدارتی تقریر میں اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ایک سائنسدان ناول نگار کیوں نہیں ہوسکتا؟  رئیس صاحب نے کہا ایک سائنسداں معروضی سوچ کا حامل ہوتا ہے۔ اس کا مطالعہ گہرا  اور مشاہدہ عمیق ہوتاہے  اور وہ شاعروں کی مانند خیالوں کی دنیا میں نہیں رہتا بلکہ حقیقت پسند ہوتا ہے۔ یہ تمام صفات ناول نگاری کے لیے بے حد مفید ہیں۔  یہی سبب ہے کہ مذکورہ ناول میں حقیقت بیانی پائی جاتی ہے۔ اپنے صدارتی کلمات میں آپ نے ڈاکٹر اسماء  مسعود کے  پرمغز مقالے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں  ناول کی تنقید حق ادا کردیا۔

بیکانیر سے تشریف لانے والے  ڈاکٹر محمدحسین، صدر شعبہ اردوگورنمنٹ کالج بیکانیر نے کہا کہ اس ناول کا نام اور سرِ ورق کی تصویر ساری کہانی بیان کردیتی ہے۔ اس مہان  ملک کا کسان پریشان ضرور ہے لیکن اس کے چہرے پر امید کی ایک کرن موجود ہے حالانکہ زمین کٹی پھٹی ہے۔ آپ نے مذکورہ ناول کو اس دور کی ایک تاریخی دستاویز قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ نسلیں اس کو پڑھ کر آج کے حالات کا اندازہ لگا سکیں گی اس لیے کہ اس میں گزشتہ چار سالوں کے سارے اہم سیاسی و سماجی واقعات  کا احاطہ کیا گیا ہے۔ آپ نے ناول پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا اس میں جہاں خارجی واقعات اور تہذیبی جارحیت کو بڑی جرأتمندی سے بیان کیا گیا وہیں  فردتنہائی کا کرب، شہری زندگی میں موبائل وغیرہ  کے سبب رشتوں کی دوری  اور اس کی داخلی کیفیات بھی موجود ہیں۔ اس  طرح کی تخلیق  مطالعہ کے ساتھ ساتھ وسیع مشاہدے کی طلبگار ہوتی ہے۔ آپ نے ناول میں داستانی رنگ کی جانب اشارہ کیا جس میں ایک کہانی کے اندر سے کئی کہانیاں  جنم لیتی ہے  نیز مکالمہ کی بہ نسبت بیانیہ کی کمی کی جانب اشارہ  کیا اور کرداروں  کی زبان و لہجے پر تنقید کی۔ اس دور زباں بندی میں ڈاکٹر حسن نے   اس دلیرانہ تحریر پر مصنف کو مبارکباد دی۔

ڈاکٹر اسماء مسعود، اسسٹنٹ پروفیسر، گورنمنٹ کالج، کشن گڑھ نے تفصیلی تحریری تبصرہ پیش کیا۔ آپ نے پہلے تو کہانی کا خلاصہ بیان کرنے کے بعد  مختلف کرداروں کا ان حالات کی روشنی میں  تجزیہ کیا جن سے وہ دوچار ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس ناول میں جہاں سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے ظلم و جبر کو بیان کیا گیا ہے وہیں ایسے کردار بھی موجود ہیں جو امن و بھائی چارے کے لیے اپنی جان قربان کردیتے ہیں۔ اسماء صاحبہ نے ناول کے ایک اہم کردار اشونی کے بارے میں بتایا کہ وہ  نہایت جری لڑکی ہے جو اپنی مرضی کے خلاف زبردستی برداشت نہیں کرتی اور بغاوت کردیتی ہے لیکن اپنے  گھر کی پناہ سے نکال کر ایک آشرم میں پھنس جاتی ہے۔ اس کے مقابلے بسنتی ایک خاموش طبع لڑکی ہے اس کے باوجود وہ قاتلوں کو گرفتار کروانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا کر یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمیں ظلم و جبر کے مقابلے خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائےاس کے خلاف سینہ سپر ہوجانا چاہیے۔

ادارہ ادب اسلامی کے راجستھان  اکائی کے صدر مولانا سرفراز بزمی صاحب نے فرمایاادب کرب ذات کا اظہار ہے۔ مصنف جب  اپنے سماج کا کرب محسوس کرتا ہے اور اسے بیان کرتا ہے تو وہ تصنیف حالات کی آئینہ دار بن جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا اس استحصالی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا امت ذمہ داری ہے اور یہ ناول اسی جدوجہد کی ایک کڑی ہے۔ ابتداء میں سکریٹری ادارہ  ادب اسلامی ڈاکٹر محمد نعیم فلاحی نے مصنف کا تعارف پیش کیا۔ ناول کے مصنف ڈاکٹر سلیم خان نے سرزمین  راجستھان پر اس  ناول کی تقریب رونمائی کا اہتمام کرنے کے لیے  اہلیان جے پور، انجمن احباب نظر اور ادارہ اداب اسلامی  کا شکریہ اداکیا۔ اس تقریب کی نہایت پروقار نظامت شہر کے معروف شاعر جناب شکیل جئے پوری صاحب نے کی اور اقبال صاحب کے شکریہ پر اس کا خاتمہ ہوا۔

تبصرے بند ہیں۔