رام مندر ایشو: کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے!

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

اب جب کہ 6؍دسمبر ہے، 25برس قبل 6دسمبر 1992 کو کارسکیوں نے ایودھیا میں بابری مسجد ڈھائی تھی، ویشو ہند پریشد ( وی ایچ پی ) اعلان کر چکی تھی کہ وہ متنازعہ مقام پراکتوبر 2018سے رام مندر کی تعمیر شروع کردے گی، اسی دران مرکز اور اور اتر پردیش سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار ہے، 30دسمبر 2010کو الہ باد ہائی کورٹ کی فل بنچ نے تاریخ فیصلے میں 2  تہائی اراضی ہندؤں اور ایک تہائی مسلمانوں کو دے دی تھی، دونوں اس پر احتجا ج کیا تھا، جس کے نتیجہ میں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے،  6 دسمبر مسلمان ’’یوم سیاہ ‘‘ مناتے ہیں، جب کہ بے جی پی اور اور اور اس کی ذیلی تنظمین ویشو ہند پریشد بطور ’’یوم شجاعت ‘‘ مناتے ہیں، بی جے پی کا ہمیشہ الیکشن کے موقع سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ کسی مذہبی اورحساس مسئلہ کو ایشوبنا کر، ملک کے باسیوں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرکے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے درپے ہوتی ہے، ابھی یوپی الیکشن کے موقع سے گاؤ کشی کامسئلہ بڑے زور وشور سے اچھالا گیا، کئی ریاستوں میں جز مدتی یا کل وقتی گاؤ کشی پر پابندی لگائی گئی، کئی ایک مسلمانوں کو گاؤ کشی کے الزام میں جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا،دادری میں گاؤ کشی کے تناظر میں اخلاق وغیرہ کے قتل کے واقعہ نے پوری دنیا میں ملک کی شبیہ اور ساکھ کو متاثر کیا، لیکن بی جے پی کا یہ حربہ کام آیا اور یہ یوپی میں کامیابی سے دو کنار ہوگئی، اور بی جے پی جو کہ آر یس یس کی پروردہ ہے، اس کے پاس سوائے ملک کے باسیوں کے مذہبی جذبات کو ہوا دینے کے سوا کوئی اور ایشو ہو ہی کیا سکتا ہے ؟

ابھی گجرات کے الیکشن قریب ہیں، ، بی جے پی نے اپنی سابقہ روش پر فرقہ وارنہ جذبات کو ہوا دے کر اپنے لئے زمین کو ہموار کرنے پر جٹ گئی ہے، اس کے لئے اس نے رام مندر جیسے حساس مسئلہ کو موضوع بحث بنایا ہواہے، ابھی کچھ روز قبل مندر کی تعمیر کے لئے راجستھان سے پتھر لائے گئے، اور شیلا جن پوجا ہوا، اسی روز کچھ بی جے پی ممبران نے اسپیکر لوک سبھا سمترا مہاجن کا جب وہ ایوان کی کاروائی کے لئے جیسے ہی ایوان میں داخل ہوئیں تو ان کااستقبال جئی شری رام کے نعرے سے کیا،اور یہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے وی ایچ پی کی جانب سے ملک بھر سے پتھروں کے جمع کرنے کی مہم کے اعلان قریب 6ماہ بعد یہ پتھروں سے لدے ٹرک شہر میں داخل ہوئے، اس وقت وہاں کے مہنت نرتیہگوپال بتایا تھا کہ مودی حکومت سے اشارے ملے ہیں کہ مندر کی تعمیر اب کی جائے گی، رام مندر کے تعلق سے یہ سب سرگرمیاں جاری ہیں، جب کہ یہ مسئلہ بابری مسجد اور رام مندر مسئلہ عدالت میں زیر دوراں ہے، اس کے علاوہ ابھی چندروز قبل بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرانیم سوامی نے بھی دعوی کیا کہ اس سال کے اخیر تک رام مندر کی تعمیر شروع ہوجائے گی، اور اس حساس موضوع بی جے پی کے راہنما نے دہلی یونیورسٹی میں منعقدہ سیمنار بنام’’ شری رام جنم بھومی مندر، ابھرتا پس منظر ‘‘ میں کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی رام مندر کی تعمیر کے حق میں آئے گا، بلکہ اس پر ہی انہوں نے اکتفا نہیں کیا ؛ بلکہ سیمنار کے دوسرے دن انہوں نے اس سے بھی متنازعہ، قانون مخالف بیان دے دیا کہ اور انہوں نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ تین مندر ہندؤں کو دے کر 39997 مساجد اپنے پاس رکھ لیں، سوامی جی کی بھگوا گردی پر مبنی اس تجویز پر دل ماتم کرنے کو چاہتا ہے کہ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں مندر ہے ہی نہیں اور اگر ہیں تو اس پر مسلمان قبضہ کئے ہوئے ہیں، اور مساجد کی بھر مار ہے،  اور یونیورسٹی میں اس کانفرس کے انعقاداور اس کے ذریعے بابری مسجد اور رام مندر جیسے ایشو کو زیر بحث لانے کے لئے اس کا انعقاد اروندھتی وششٹھ تحقیق بنچ نے کیا، جس کے بانی وی ایچ پی کے سرپرست اشوک سنگھل رہے تھے۔ اس متنازعہ اور کانفرس کا انعقاد ہفتہ اتوار کا ہوا تھا جس کی کانگریس اور بائیں باز جماعتوں سے وابستہ اسٹوڈنٹس یونینوں نے بھر پور مخالفت کی تھی اور اس کے خلاف مظاہر ے کئے تھے، اور بی جے پی کی طلبہ تنظیم نے اس کانفرس کے حق میں مظاہرے کئے تھے، سوامی نے مزید یہ بھی متنازعہ بیان دیا تھا کہ ملک میں 40ہزار سے زیادہ مندریں مسمار کردی گئی ؛ لیکن ہندوں نے کبھی ان کی تعمیر کا مطالبہ نہیں کیا، انہوں نے کہاکہ اجودھیا میں رام مندر، متھرا میں کرشن مندر اور کاشی وشوناتھ میں مندر پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ابھی سنگ اور مہنت وغیرہ کہہ رہے ہیں کہ مندر کی تعمیر کا کام شروع کردیا جائے گا۔

وزیر اعظم نریندر مودی سب کا ساتھ سب کا وکاس کی بات کرتے ہیں، ملک کو روحانیت اور امن وآشتی کی جگہ بتاتے ہیں، تر قی کے دعوے کرتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انہی ترقی کے وعدوں پر بی جے پی برسر اقتدار آئی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ترقی کے دعوے محض دعوے رہ گئے، حقیقت کا ترقی سے کوئی دور تک نام ونشان نظر نہیں آتا، البتہ بی جے پی کے برسر اقتدار لیڈران کی جانب سے متنازعہ، فرقہ وارنہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے والے، عدم روادی پر مبنی بیانات کاسلسلہ روز بروز آگے بڑھتا جارہ ہے، جس پر وزیر اعظم کچھ بھی لب کشائی نہیں کرتے، مختلف ایشوز کو زیر بحث لا کر مسلمانوں اور ملک کے باسیوں کو دست وگریباں کر کے، ان کے مذہبی جذبات کو ہوا دے کر اپنے سیاسی روٹی کو سینکنے کی کوشش کی جارہی ہے، بابری مسجد کامسئلہ جو کہ عدالت میں زیر دوران ہے، گجرات انتخابات کے موقع سے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے پـتھروں کی کھیپ کی آمد اور اس کی پوجا اور اس موقع سے وہاں کے مہنت کا یہ ادعا کا وزیر اعظم نے یہ کہہ دیاہے کہ رام مندر کی تعمیر کا وقت قریب آگیا ہے اور بی جے پی کے سینئر قائد کی جانب سے رام مندر کے ایشو پر متنازعہ اور عدالت مخالف اور مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے والا مندر مسجد کے مسئلہ پر بیان بازی، یہ ساری چیزیں سب کا ساتھ سب کا وکاس اور ملک کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، اس سے تو ملک کے باسیوں کے ایک دوسرے سے دست وگریباں ہونے اور ان کے درمیان منافرت، عدم روادی، اور عدم تحمل وبرداشت جیسے جذبات کے پنپنے کا ذریعہ ہوگا، اور بی جے پی چاہتی بھی یہی ہے کہ اس طرح مسلمانوں اور ہندوں کو دوخانوں میں بانٹ کر ہندوں کے ووٹ بٹوریں جائیں، اس کے ساتھ ابھی کل وی ایچ پی کے ترجمان کی جانب سے یہ اعلان کے ہر موضع میں ایک رام مندر تعمیر کیا جائے گا، جس کے لئے 1؍لاکھ 25 ہزار مواضعات کی احاطہ کی بات کہی گئی، یہ سب برسر اقتدار لیڈران کی جانب سے متنازعہ بیان کے بعد یہ شدت پسندی او ر گروہ واری بیانات سامنے آتے ہیں۔

رام مندر کے اس ایشو پر بحث یہ در اصل گجرات انتخابات کے پیش نظر ہے اس کی تائید اس بھی ہوتی ہے کہ پارٹی کے اشاروں پر مرکزی حکومت نے درجنوں پھر وزراء کی ڈیوٹی یوپی کے مختلف ڈویزن میں لگائی ہے جو یوگجرات کے مختلف اضلاع کا دورہ کر کے مرکزی اسکیموں کے نفاذ کے تعلق سے عوام سے بات چیت کریں گے، اس کے بہانے دراصل مقامی عوام اور کارکنوں سے قربت اور حکومت کی پالیسیوں وغیرہ کو ان تک پہنچانے، ساتھ ہی زمینی سطح پر کام کر کے کارکنوں کو فعال کرنے کی ہے، اس کے علاوہ 7566  کروڑ کی لاگت والے 14لین کے دہلی – میرٹھ ایکسپریس ہائی وے کی نذر بھی اتر پردیش کو کچھ ایسی ہی نہیں کی گئی، اس کا سنگ بنیاد بھی خود وزیر اعظم نے رکھا، اس کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ حکومت یوپی کی ترقی کے تئیں پرعزم ہے۔ بہر حال ترقی کے نام پر او ر مذہبی جذبات سے کھیل کر کسی طرح گجرات نتخابات میں جیت کاپانسہ اپنے پلڑے میں کرنے کے لئے بی جے پی حکومت سرگرم نظر آتی ہے۔ لیکن حقیقت پر مبنی ترقی سے عوام خوش ہوسکتی ہے، ورنہ یہ ملک کی عوام کو بے وقوف بنانے کے وطیرے یہ زیادہ دن تک کام نہیں آسکتے، جس کا مشاہدہ بی جے پی حکومت گجرات میں ہونے والے انتخابات سے کر لے گی لیکن بی جے پی کی یہ کمزوری ہے کہ وہ مذہبی جذبات کو ہوا دے کر ہی اقتدار کے مزے لوٹ سکتی ہے، وہ نہ چاہ کر بھی مذہبی ایشوز کو اچھالنے پر مجبور ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔