رانی پدماوتی: آخر اتنا ہنگامہ کیوں؟

نازش ہما قاسمی

ملک میں ان دنوں رانی پدماوتی اور علاء الدین خلجی کے معاشقے کا تزکرہ زبان زد عام ہے میڈیا نے اسے اتنی شدت سے اچھال رکھا ہے کہ تاریخ سے نابلد انسان بھی ان دونوں کی فرضی اور دیومالائی کہانیوں پر اعتبار کرچکا ہے اور تجسس میں مبتلا ہے کہ آخر سنجے لیلا بھنسالی بینر تلے بنی اس فلم میں کیا ہے؟ کیا واقعی اس سے اکثریتی فرقے کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں ۔ ۔ ؟  یا پھر کوئی اور وجہ ہے جو اسے اتنا اچھالا جارہا ہے۔ ۔ ۔ اس سے قبل بھی سنجے لیلا بھنسالی نے باجی راو مستانی فلم پروڈکٹ کی تھی لیکن اس پر کچھ بھی ہنگامہ و واویلا نہیں مچایاگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا اس لیے کہ اس میں مستانی (جو کہ ایک مسلم شہزادی کا کردار تھا) ایک ہندو راجہ پر فریفتہ تھی۔ ۔ ۔ ؟ اسی لیے اس پر ہندوستانی تہذیب سمجھ کر خاموشی اختیارکی گئی۔ ۔ ۔ ۔ اور اس فلم پدماوتی میں علاء الدین خلجی رانی پدماوتی کے حسن کے جال میں دل گرفتہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ اسی لیے اس پر ہنگامہ مچایا جارہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بھنسالی کو تھپڑ مارے جارہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہندو تنظیمیں چراغ پا ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ فلم کی ہیرئوین دیپکا پڈکون  کی ناک کاٹنے پر انعامات کا اعلان کیا جارہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ یا پھر وجہ کچھ اور ہے۔ ۔ ۔ میڈیا کی تشہیر کے ذریعے اس بڑے بجٹ کی فلم کو کامیابی سے ہمکنار کرانا ہے۔ ۔ ۔ یا پھر ملک کی گرتی معیشت اور اقلیتیوں پر ہورہے مظالم اور گجرات الیکشن سے عوام کا رخ موڑ کر حکومت کو خوش کرنا مقصد ہے۔ ۔ ۔ ۔ خواہ کچھ بھی مقصد ہو لیکن سنجیدہ فکر کے حامل افراد میڈیا کے دام فریب سے آگے ہیں انہیں معلوم ہے کہ دیومالائی کہانیوں پر دھیان دینے سے ہماری بھلائی نہیں ہونے والی یہ زرخرید میڈیا اپنے آقا کا حکم بجائے ہم اپنے ملک کی ترقی کیلیے فکر مند رہیں گے۔

بی بی سی اردو پر شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ہندوستانی عہد وسطی کے ماہر تاریخ داں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر سید علی ندیم رضوی اس متعلق رقم طراز ہیں کہ ” اس فلم میں علاء الدین خلجی کو اس طرح پیش کیا گیا ہے جیسے وہ کوئی وحشی، سفاک، جنگلی اور ظالم حکمراں ہو، نوچ نوچ کر کھاتا ہو، عجیب و غریب کپڑے پہنتا ہو۔ لیکن درحقیقت وہ اپنے دور کے بہت مہذب انسان تھے جنھوں نے کئی ایسے اقدامات کیے جن کے اثرات آج تک ملک میں نظر آتے ہیں "-

  فلم میں علاء الدین خلجی کو مبینہ افسانوی کردار پدماوتی کے حسن سے متاثر دکھایا گيا ہے- پروفیسر رضوی کہتے ہیں : علاء الدین خلجي ایک تاریخی کردار ہے، ان کی زندگی کا مکمل ریکارڈ موجود ہے، ان کا شمار ہندوستان کے سب سے روشن خیال حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ پروفیسر رضوی کہتے ہیں : ‘خلجی سلطنت سے پہلے دہلی پر حکومت کرنے والے سلاطین التمش، غیاث الدین بلبن اور رضیہ سلطان نے حکومت میں مقامی لوگوں کو شامل نہیں کیا تھا۔ صرف ترکوں کو ہی اہم عہدے دیے جاتے تھے اس لیے اسے ترک حکومت بھی کہا جاتا تھا۔  پروفیسر رضوی کا کہنا ہے کہ ‘جلال الدين خلجی کے دہلی کا سلطان بننے کے ساتھ ہی ہندوستانی لوگوں کو حکومت میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسے خلجی انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔ علاء الدین خلجی نے اس کام کو آگے بڑھایا اور مقامی لوگوں کے حکومت میں شمولیت کے پیش نظر یہ صرف ترکوں کی حکومت ہی نہیں رہ گئی تھی بلکہ ہندستانیوں کی حکومت بھی تھی۔  وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘جس گنگا جمنی تہذیب کے لیے ہندوستان مشہور ہے اور جسے بعد میں اکبر نے آگے بڑھایا اس کی ابتدا علاء الدین خلجی نے ہی کی تھی۔

ویسے فلم پدماوتی تنازعے میں حکومتی عہدیداران اور سیاسی لیڈران کا کودنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے دال میں کچھ کالا ضرور ہے؛ نہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ ملک میں اتنے بڑے بڑے حادثات ہورہے ہیں ان پر ان کی چپی لگی ہوئی ہے عمر خان کو دن دہاڑے گولیوں سے چھلنی کیا گیا خاموش رہے؛ دکتوں کو پیٹا گیا انہوں نے منہ بند رکھے؛ گزشتہ کل یوپی کے باغپت ضلع مین علمائے کرام پر لوہے کی راڈ سے حملہ کیا گیاکوئی ٹوئٹ نہیں آیا کوئی بیان نہیں داغا گیا؛ کہیں سے ہمدردی کے دو بول نہیں بولے گئے لیکن میڈیا کے افراد  سیکسی درگا کے مقابل اہل نعوذ باللہ اہل بیت اور صحابیات اور مقدس مریم  کے تعلق سے ٹوئٹ کرتے نظر آتے ہیں ؛ یہی اگر کسی مسلم رہنما یا صحافی کی طرف سے اکثرہتی فرقے کی مقدس شخصیات کے بارے میں کہا گیا ہوتا تو ملک جل رہا ہوتا اقلیتوں کی املاک تباہ ہوچکی ہوتیں لیکن نہیں اتنا سب کچھ  ہونے کے باوجود بھی مسلمان خاموش پھر بھی مجرم مارے وہی جائیں جرم بھی ان کا عمر، اخلاق، جنید، پہلو خان کے اہل خانہ انصاف کو ترس رہے ہیں اپنے ہی ملک میں بے گانے ہیں لیکن ان کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں عدلیہ کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے ہیں شاید وہاں سے انصاف مل جائے لیکن حالیہ سہراب الدین معاملے سے یہ امید بھی ختم ہوتی جارہی ہے کہ کہیں منصف ججوں کو بھی ان کے پیشرو کی طرح کاشوں کے سودا گر موت کی نیند نہ سلادے۔ خیر بات چل رہی تھی فلم پدماوتی کی اس پر اتنا ہنگامہ مچاکر پتہ نہیں کونسا معرکہ حل کرنا مقصود ہے۔  جب کہ اس فلم کے ڈائریکٹر، ایکٹر، پروڈیوسر سبھی غیر مسلم ہیں لیکن اسے اس طرح اچھالا جارہا ہے ایسا لگتا ہے کہ کسی مسلم نے اسے وجود میں لایا اور ہندوستان کی تہذیب کو اس سے خطرہ لاحق ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔