تِرے چہرے سے نظر اپنی ہٹا لوں کیسے

احمدصدیقی

 تِرے چہرے سے نظر اپنی ہٹا لوں کیسے
جوشِ بےتاب نگاہی کو سنبھالوں کیسے

کچھ حسیں خواب سنجوئے تھا محبت کے لیے
لوگ کہتے ہیں دٙبا لو تو دبالوں کیسے

کبھی خوشیوں میں بسر ہوتا تھا پٙل پٙل میرا
زندگی اب میں تجھے غم سے نکالوں کیسے

شوخ چہرے کی تمازت میں غزل لکھی ہے
اُن کو سنجیدہ خیالات میں ڈھالوں کیسے

عاشقوں کا تو سدا ہی رہی دشمن دنیا
میں محبت سے بھرے دل کو سنبھالوں کیسے

ربِّ کعبہ میں چھپا لوں گا جہاں والوں سے
رازِ دل تیری نگاہوں سے چھپا لوں کیسے

زندگی میری رواں جن کے لیے ہے احمد
نام ان کا دلِ ناداں سے نکالوں کیسے

تبصرے بند ہیں۔