طُرفۂِ معجونی

منیر احمد خلیلی

 شاعر ی اگر ایمان سے مستنیر نہ ہو، ایمان کی روشنی میں اسے اگر عمل کی صحیح جہت نہ ملی ہو اور شاعر کے دل کی کھیتی اگر اپنے رَب کی یاد سے سیراب نہ ہوتی ہو تویہ کجی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس میں یکسوئی اور ٹھہرائو نہیں ہوتا ہے۔ مختلف وادیوں میں بھٹکتی اور بہکتی اور بھٹکاتی اور بہکاتی ہے۔ مجرّد شعر و ادب کو رہنما بنانے والوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ خواہ دانش کی کتنی ہی بلندیوں کو چھو رہے ہوں مگر ان کے فکر و عمل میں کہیں نہ کہیں کوئی ٹیڑھ موجود رہتاہے۔ یہ معاملہ ان کی ذات اور فکر تک محدود نہیں رہتا۔ شاعروں اور ادیبوں کے مداح ان کی فکر کی کجی کو دلیل بنا لیتے ہیں۔ یوں فکر کا یہ بگاڑ پہلے حجت بنتا ہے، پھر اسے نظریہ کی شکل دی جاتی ہے۔ اجتماعی شعور اگر اس نظریے کی گرفت میں آ جائے تو پھر اس نظریے کو لائحہ ِ عمل بنانے اور پوری زندگی پر مسلط کرنے کی کوشش ہونے لگتی ہے۔

شاعر اور ادیب اکثر اپنی کاہلی اور بے عملی کی وجہ سے خود اس قابل نہیں ہوتے کہ کسی نظام میں ڈھال کر اس ٹیڑھ زدہ فکر کو لائحہ عمل کا درجہ دلا سکیں لیکن اس کا پرچار جاری رکھتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اقبالؒ شعر و ادب کی اس صف میں نہیں تھے۔ نکالنے والے ان کی شاعری اور نثری افکار سے اپنے مطلب کی باتیں نکالتے رہتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبالؒ کی شاعری پر قرآن کا رنگ غالب ہے۔ اسلام اللہ کا دیا ہوا دینِ حق اورنظامِ ہدایت ہے۔ اس کی روح  میں آفاقیت ہے۔ یہ حدودِ عرب و عجم اور جوانب ِشرق و غرب سے آزاد ہے۔ اقبال ؒ نے جس کے بارے میں اور جس وجہ سے بھی ’عجم ہنوز ندانندرموز دین۔ ۔ ۔ ‘ والی بات کی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہیں احساس تھا اور اس کے عملی نظائر کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں کہ عجم کے فہمِ دین نے صرف وطنیت اور قومیت کے فلسفے میں نہیں بلکہ اسلام کے بہت سے معاشرتی، معاشی، معاملاتی اور اخلاقی پہلووں سے بھی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ نجی اور سماجی زندگی میں اپنے مفادات اور ضرورتوں کے تحت اسلامی فکر میں من پسند آمیزشیں کی گئیں۔ اسلام کو زبردستی ’مقامی‘ بنانے کی کوشش ہوئی تو انجام کار یہ اجنبی بن کر رہ گیا۔ جب اس کے شفاف چہرے پر مقامی رسوم و رواج کاردّا چڑھ جاتا ہے اور اپنے مرغوب تصورات و بدعات اور رسوم و رواج سے آلودہ اسلامی چہرے میں لوگوں کو کشش محسوس ہونے لگتی ہے تو پھر ان کے سامنے اسلام کی اصل اور حقیقی شکل پیش کریں تو وہ الٹا اس اصل شکل کو بدعت اور نقل قرار دیتے ہیں۔

 آج کل ترکی سے حکومتی سطح پر بھی رومانس چل رہا ہے اور صحافیوں اور دانشوروں کی ڈاروں کی ڈاریں بھی ترکی یاترا پر جاتی اور وہاں سے اپنے اپنے ذوق کی حکایتیں لاتی ہیں۔ بات بات پر ترکی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ درویشانِ قونیہ کے رقص کی لذتوں کا نشہ پی کر آتے ہیں تو پھر حکایتوں کی صورت میں اس کے جام پر جام یہاں بانٹے جاتے ہیں۔ مجھے اس وقت یاد نہیں کہ فکری، اخلاقی اور عسکری زوال کا شکار ہو جانے کے بعد سترھویں یا اٹھارھویں صدی کے کس عثمانی خلیفہ کے عہد میں اہم ملکی اور سرکاری مہموں کا آغازکرتے وقت بخاری شریف کے ختم کی روایت قائم ہوئی تھی۔ ایک بار بحری جہاز کو سمندر میں اتارنے کا مرحلہ آیا تو اسی روایت کے مطابق بخاری شریف کاختم کرایا گیا۔ کسی مغربی حریف نے یا اپنے ہاں کے کسی صاحبِ عقل نے طنزیہ طور پر کہا تھا کہ بحری جہاز بخار (steam)سے چلتے ہیں بخاری سے نہیں۔ یہ مثال میں نے اس لیے دی ہے کہ ترکی  کے اندردین میں عجیب عجیب بدعتوں کی آمیزش کئی سو سال پہلے سے شروع ہو گئی تھی۔ آج کل کسی ترک رہنماکی سیّد منور حسن یا مرحوم قاضی حسین احمد کو کہی ہوئی یہ بات بہت دہرائی جانے لگی ہے کہ نعوذباللہ ہم نے کمالزم کا مقابلہ بدعتوں کے ذریعے کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے رفع کرو۔ ۔ ۔ ‘ لیکن یہاں لذّت چشیدگان عجم کا موقف ہے کہ کیوں کہ ہمارے دوست ترکوں نے کمالزم کی برائی کو بدعتوں کی برائی سے دفع کیا اس لیے ان کے کہے کو ایک دائمی اصول کا درجہ دے کررسول اللہ ﷺ کی کُلُّ بِدْعَۃٌ ضَلَالَۃٌ  کی تنبیہ سامنے ہونے کے باوجود ’ترکی سنّت‘کو دین کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ میرے پاس بدیع الزماں نورسی ؒ کے ’رسائل‘ اور دیگر ملفوظات کے جتنے مجموعے ہیں ان میں وہ رجوع اِلی القُرآن کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔

حالیہ عرصے میں کچھ انوکھے مباحث سامنے آرہے ہیں۔ ہم عصر قائدین میں سرسیّد عقل کی علامت بتائے جا رہے ہیں، اعلیٰ حضرت احمد رضا بریلوی کو’ ؒ مذہب ِعشق‘کا موسس قرار دیا گیا اور حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ علم کو نمائندہ ثابت کیا جا رہا ہے۔ دِین میں عشق، عقل اور علم باہم متغائر و متصادم اکائیاں نہیں ہیں لیکن ایک ہی دور کی یہ تینوں ہستیاں اعتقادی اور عملی میدان میں تین مختلف سمتوں میں امت کی رہنمائی کر رہی تھیں۔ معاشرتی قدروں میں رکھ رکھائو اور رواداری اور احترام کے رویوں کی وجہ سے انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف کوئی بڑا محاذ کھڑا نہیں کیا تھا لیکن ہمیں یہ کہیں نظر نہیں آتا کہ یہ تینوں نقطے یگانگت اور ہم آہنگی کے خط کھینچ کر ایک مثلث کی شکل میں جوڑ دیے گئے ہوں۔ یہ تین اپنی اپنی آب و ہوا والے تین جدا جزیرے تھے۔ تینوں کے مسلمانانِ ہند پر اپنے اپنے انداز میں احسانات ہیں۔ ان کے اثرات کے الگ الگ حلقے بن گئے۔ ہر ایک کی افتادِ طبع اور اندازِ اظہار نے معتقدات و مسالک کے الگ الگ مکتبِ فکر پیدا کیے۔ حضرت احمد رضا بریلوی ؒ تفقّہ اور علمیت اور’ واردات ِ عشقِ رسول ؐ‘کے اعتبار سے خواہ کتنی ہی اعلیٰ و ارفع حیثیت کے مالک تھے، مولانا قاسم نانوتوی ؒ کے لیے ان کے سارے مذہبی تصورات قابلِ قبول نہیں تھے۔ یہی معاملہ دوسری طرف بھی تھا۔ پلوں کے نیچے سے ڈیڑ ھ پونے دو سو سالوں کا پانی گزر چکنے کے باوجود سرسیّد کی ’جدیدیت‘ کے جزیرے کی آب و ہوادوسرے دونوں مسلکوں کے لیے سازگار نہیں ہے۔

اللہ کے محبوب نبی، سرورِعالَم، امامُ الانبیاء، سیّدُالابرار جناب محمد مصطفیٰ ﷺ سے عشق محبت پر نہ کسی کا اجارہ ہے اور نہ حضورؐ کی سنّت و سیرت کی پیروی کے سوا اور کوئی پیمانہ ہے جس سے یہ ناپا جا سکے کہ کون بڑا عاشقِ رسول ؐ ہے اور کون چھوٹا عاشق ہے۔ لفظ ’عشق‘ کو تو اردو اور فارسی شاعری نے حُب کی جگہ مستعمل عام بنا دیا اور ان شاعروں کے اپنے محبوب کے بارے میں اظہار کے جو سستے قرینے تھے اس لفظ کی وجہ سے وہی عشقِ رسول ؐ کے اظہارات میں بھی جھلکنے لگے۔ کسی شخص کامسلمان ہونے کا دعویٰ اللہ کے حضور قابلِ قبول نہیں جب تک کہ اس کے دل میں رسول اللہ ﷺ سے اپنے والدین، اپنی اولاد اور دنیا کے ہر رشتے اور ہر چیز سے بڑھ کر محبت نہ ہو۔ ان کے فہم دِین پر تعجب سے بڑھ کر رونا آتا ہے جو اس فلسفے کا پرچار کرتے ہیں کہ توحید پر بہت زیادہ زور دینا رسالت یا عشقِ رسولؐ کی نفی ہے۔ اگر دینِ حق اور ہدایت وہ ہے جو دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ؐ کو بھیجا تو اس کی اساس توحید ہے۔ قُرآن پاک کا کوئی صفحہ اس عقیدۂ ِ توحید کے ابلاغ سے خالی نہیں اور خود رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور اسوہ کا کوئی پہلو توحید کی تلقین و تعلیم سے خالی نہیں ہے۔

اوپر جن تین شخصیات کا ذکر ہوا ہے ان کی جلالتِ علمی کو ہم سلام پیش کرتے ہیں لیکن یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ دین کو مدرسہ و خانقاہ کی تنگنائیوں سے نکال کر اگر کسی نے اسے اس کی کامل صورت میں دنیا کے سامنے رکھا تودین کی کئی صدیوں پر محیط اجنبیت کے بعد یہ کارنامہ بیسویں صدی میں آ کر سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ادھر عالَمِ عرب میں حسن البنا شہید ؒ نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ علم و عشق اورعقل کی دنیا یہ بھول ہی چکی تھی کہ یہ دین ایک نظام، زندگی اور ضابطۂ ِ حیات ہے۔ یہ تقریباً ساتھ ساتھ برپا ہونے والی وقت کی سب سے بڑی ان اسلامی تحریکوں نے دین کی اس حقیقی صورت کو اجاگر کیا۔ ہماری نگاہ میں تو حسن البنا ؒ اور مودودیؒ سے بڑھ کر کوئی عاشقِ رسول ؐ نہیں ہے۔ پچھلی زوال زدہ کئی صدیوں کا اس امت پر قرض تھا جودین ِ نبی ؐکا سچا کھراتصور اجاگر کر کے  انہوں نے چکایا۔ سارے عالِم اور سارے عاشق مل کر بھی کریں تو ان کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکتے۔ شعر و ادب اور فکر و فلسفہ کے آمیزے سے الجھی ہوئی بے ترتیب باتوں اور عبارتوں کا طُرفۂ ِ معجونی تیار کرنے والوں کو اس زاویے سے غور کرنا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔