راہ تکتی ہے تری، میری نظر شام کے بعد

احمد کمال حشمی

راہ تکتی ہے تری، میری نظر شام کے بعد
اور ہوجاتی ہے پھر چشم یہ تر شام کے بعد

اجنبی لگتے ہیں دیواربھی در بھی چھت بھی
میرا گھر لگتا نہیں ہے مرا گھر شام کے بعد

اک سفر ختم سرِ شام ہوا کرتا ہے
اور ہوتا ہے شروع ایک سفر شام کے بعد

تُو کہیں کل کی طرح آج نہیں آیا تو؟
لگنے لگتا ہے مرے دل کو یہ ڈر شام کے بعد

شام کے بعد جدھر جاتے تہے ہم دونوں کبھی
اب اکیلے نہیں جاتا ہوں اُدھر شام کے بعد

صبح ہوتے ہی میں جی اٹھتا ہوں یہ بات الگ
یہ مگر سچ ہے کہ میں جاتا ہوں مر شام کے بعد

ہم سے مت پوچھ، سبب ہم نہ بتا پائیں گے
کیوں نکل جاتے ہیں ہم چھوڑ کے گھر شام کے بعد

ابھی کچھ دیر رکوں اور کہ گھر جاؤں کماؔل
سوچتا ہوں میں سرِ راہ گزر شام کے بعد

تبصرے بند ہیں۔