راہ دکھا کر دم لیں گے ہم!

عالم نقوی

حالی نے شکوہ کیا تھا کہ :

کوئی ہمدم نہیں ملتا جہاں میں

مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں

اور جوش نے اپنی ایک مشہور نظم ’’اپنا مرثیہ ‘‘ میں جو انہوں نے اپنے بچپن کے دوست حکیم صاحب عالم کی موت پر کہی تھی۔ یہ شعر بھی لکھا کہ :

 جہاں سو سال بعد آنا تھا مجھ کو۔ وہاں سو سال پہلے  آگیا ہوں۔ ۔

بظاہر دونوں  شکووں کی نوعیت الگ ہے لیکن دونوں شخصیتوں کے تضاد اور دونوں کے حالات کے اختلاف سے قطع نظر سچ پوچھئیے تو مقصود و مطلوب دونوں کا ایک ہے اور ہمارا المیہ بھی نوعیت کے مختلف ہونے کے باوجود بعینہ وہی ہے۔ ہم بتانا  چاہتے ہیں کہ دنیا پر موجودہ  غالب  تہذیب، تمدن اور ثقافت چونکہ بے خدا (ملحد )یا کثرت اِلٰہ والے (مشرک)نظاموں کی بنیاد پر استوار ہیں اس لیے مرحلہ قیامت و آخرت سے پہلے اُن کا فنا ہونا ضروری ہے لیکن، کوئی نہیں سنتا۔ اُلٹے ہم پر ’طلسم ِہوشربا‘ سنانے کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ جو معرکہ خیر و شر دنیا میں جاری ہے اس میں خیر ِ کامل صرف اسلام راستین یا قرآنی اسلام ہےجس سے دنیا کے سوا یا ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی اکثریت تک بے بہرہ ہے۔ انہوں نے قرآن کو عملاً مہجور بنا رکھا ہے۔

ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ امریکہ و برطانیہ وغیرہ اصلاً صہیونی مملکتیں ہیں وہاں حکومت اوباما کی رہے یا ٹرمپ کی، کنزرویٹو ہوں یا لیبر والے اسرائل اور صہیونیت کے مفادات کی خلاف ورزی کوئی نہ کرتا ہے نہ کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر بین اقوامی تجارت تنظیم (ڈبلو ٹی او )تک جتنے بھی نام نہاد عالمی ادارے ہے سب کے سب بلا استثنا   صہیونی مفادات کے نگراں ادارے ہیں لیکن کوئی توجہ نہیں کرتا۔ اور متوجہ ہوتا بھی ہے تو یقین نہیں کرتا۔ ہم انہیں بتاتے ہیں سماجی انصاف اور امن کا قیام یرقانی و صہیونی قارونوں اور فرعونوں کے  موجودہ نظام  کے بس کی بات نہیں۔

جس طرح سوشلزم اور  بے خدا اشتراکیت صہیونی مایا جال کا حصہ تھے اُسی طرح یہ  فری مارکٹ اکنامی اور بے لگام سرمایہ داریت بھی قارونیت ہی کے خوشنما  نام ہیں۔ پہلے سامراجیت اور اشتراکیت کے دو قطبوں کے ذریعے جن مقاصد کا حصول پیش نظر تھا اب نیو ورلڈ آرڈر اور گلوبلائزیشن سے وہی مقاصد حاصل کیے جارہے ہیں بظاہر سپر پاور امریکہ ہے اور برطانیہ اس کا حلیف، لیکن حقیقتاً تمام ابلیسی طاقتوں سے مسلح سپر پاور اگر کوئی ہے تو وہ صرف اسرائل ہے جس نے بھارت اور  کچھ  عرب  ممالک تک کو اپنے قابو میں کر رکھا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ تو صہیونی بڑوں کی  Hierarchy   میں با لترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔

امریکہ کو پہلے نمبر پر رکھنے کا ڈرامہ تو محض حقائق پر  پردہ ڈالنے کی صہیونی ابلیسی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ آخر یہ سامنے کی بات لوگوں کو کیوں نظر نہیں آتی کہ پہلی اور دوسری جنگ عراق، افغانستان  اورموجودہ  سبھی خلیجی جنگوں کے نام نہاد اتحادیوں میں امریکہ کی طرح  اسرائل بھی  براہ راست کیوں شامل نہیں ؟ اس لیے کہ اسرائل ہی آقا ہے اور باقی سب اس کے غلام ! تو غلاموں کے ہوتے ہوئے اسرائل براہ راست کیوں جوکھم اٹھائے ! یہ اور بات ہے کہ اسرائل پچھلے چند برسوں کے دوران سیریا کے سرکاری فوجی ٹھکانوں اور بشار حامیوں کے علاقوں پر کم از کم  ایک درجن  مرتبہ بمباری، راکٹ باری یا میزائل باری کر چکا ہے !تازہ ترین صہیونی دہشت گردی  وسطی شام کے حمص علاقے میں سرکاری اسلحہ ڈپو پر بدھ یکم نومبر ۲۰۱۷ کو ہونے والی بمباری ہے !

 یاد رہے کہ یہ سبھی  اسرائیلی حملے صرف بشار ا لا اسد  کی فوجوں اور  اُن کے حامی شہری علاقوں پر ہوئے ہیں، خوارج کی تنظیموں  داعش وغیرہ  کے ٹھکانوں پر نہیں جن کا  مددگار ہی نہیں پشتیبان  بھی    اسرائل ہے  ! چونکہ  وہ باہر سے  مسلمانوں کو حسب دل خواہ نقصان پہنچانے میں ناکام ہو چکا ہے اِس لیے اُس نے  اندر سے پھوٹ ڈالنے کی اپنی  پرانی آزمودہ حکمت عملی میں مزید شدت پیدا کرتے ہوئے  بیک وقت  متعدد محاذ  کھول دئیے ہیں جس کا نشانہ مسلمانوں کے سبھی فرقے ہیں۔ مختلف طرح کی عقائدی  انتہا پسندیوں  کے مظاہرے، فرقوں کے اندر فرقے اور مسلک کے اندر مسلک کے کھیل اور کفر سازی اور کافر سازی  کے کارخانے   اِسی کی مختلف شکلیں ہیں !ل

یکن صہیونی قارونی مقتدرہ اور اُن کے چاکروں کی ہر ممکن کوشش کے باوجود خوارج اور اُن کے سرپرست ہر محاذ پر ناکامی کا منھ  دیکھ رہے ہیں عراق و شام، یمن و لبنان اور افغانستان ومصر و ایران کہیں بھی اُن کو وہ کامیابی نہیں ملی جسے وہ اپنے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھ رہے تھے۔ شام و یمن میں خوارج کی بتدریج پسپائی اس کا ثبوت ہے !اخوان، حماس اور حز ب ا للہ کو دہشت گرد قرار دینے کا دہشت گردوں کا کھیل اُلَٹ گیا ہے !

حماس  نے فتح کے ساتھ تزویری مصالحت کر کے اور غزہ کی کمان فتح کو سونپ کر ، بظاہر، صہیونی سازشوں کی کمر توڑ دی ہے! امریکہ کے پاگل حکمراں  نے اگر   شمالی کوریا پر حملہ کرنے کی غلطی کی  تو دنیا انشااللہ ایک نیا اور ناقابل تصور منظر نامہ دیکھے گی  جو دوسری جنگ عظیم سے بالکل مختلف ہوگا ! مکروا و مکر ا للہ و ا للہ خیر ا لماکرین !

شہر کا شہر ضمیروں کا خریدار ہے آج۔ ۔ساتھیو ! آبروئے لوح و قلم رکھنا ہے !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ہمارے نزدیک سرمایہ داروں اور مارکسٹوں میں وہی جھگڑا ہے جو شیعہ اور سنی مسلمانوں میں ہے. یعنی بنیاد ایک ہے، منزل بھی ایک ہے، اگر اختلاف ہے تو جزئیات میں اختلاف ہے.
    دوسری بات !! اسلام اور ملت روم پہلے دن سے حالت جنگ میں ہیں. اسلام کو وجود میں آتے ہی بیک وقت دو محاذوں پے لڑنا پڑا. ایک طرف ایرانی سلطنت اور دوسری طرف سلطنت روم… ایک طرف جنگ قدسیہ تو دوسری طرف جنگ یرموک. ساسانی سلطنت تو مسلمانوں کے آگے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی مگر سلطنت روم ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں اسلام سے مد مقابل رہی اور اس میں مختلف ادوار آتے رہے. کبھی مسلمانون نے اسپین فتح کر لیا تو کبھی اسی اسپین سے آخری مسلمان کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا. کبھی مسلمانوں نے مشرقی سلطنت روم کے مرکز قسطنطنیہ (Consantinople) کو فتح کیا تو کبھی اسی قسطنطنیہ کو فتح کرنے والی خلافت عثمانیہ کو ختم کیا گیا. اسی طرح صلیبی جنگوں میں کبھی مسلمان تو کبھی صلیبی غالب آتے رہے. دوسری طرف روس کے زار بھی خلافت عثمانیہ سے حالت جنگ میں رہے.
    یہ بات باالکل درست ہےکہ کمیونزم کا ظہور خود سرمایہ داری کا رد عمل تھا. اس کے نتیجے میں اسلام اور روم کے درمیان صدیوں سے چلنے والا تصادم وقتی طور پے ضرور رک گیا اور سرمایہ داری کو اپنی توجہ کمیونزم کی جانب مبذول کرنی پڑی. مگر یہ تصادم کبھی ختم نہیں ہوا.
    اس بات سےاتفاق کرناہوگاکہ”کمیونزم کی شکست کے بعد سرمایہ داری نے نظریاتی سطح کا تصادم قائم رکھنے کے لئے اسلامی انتہا پسندی کو فروغ دیا”. وہ اس لئے کہ وہ تصادم تو کبھی ختم ہوا ہی نہیں تھا. کمیونزم نے وقتی طور پے اس تصادم کو ٹال ضرور دیا مگر ختم نہیں کیا. اس دور میں بھی جب سرمایہ داری اور اشتراکیت میں نظریاتی کشمکش جاری تھی تب بھی اسلام اور ملت روم کے درمیان وہ تصادم کبھی سن 1857 کی جنگ آزادی تو کبھی لیبیا کی سنوسی تحریک توکبھی اٹلی کے خلاف مسلح مزاحمت کی شکل میں نظر آتا رہا. اور اس تصادم کی آخری انتہا افغانستان بنا جہاں مغربی تہذیب کے ایک نمائندہ نظام کو حتمی شکست کا سامنا کرنا پڑا.
    صدیوں پر محیط یہ تصادم اب بھی جاری ہے اور کمیونزم کے انہدام کے بعد اس تصادم کا ابھرنا ایک فطری عمل تھا.

    البتہ اب اس کشمکش کی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے. مغرب میں سرمایہ داری کے عروج عیسائیت کی شکست کے بعد ملت روم اور اسلام میں صدیوں سے چل رہے تصادم کا تناظر تبدیل ہو چکا ہے.
    وہ جنگ جو کبھی اسلام اور عیسائی پیروکاروں (عیسائیت نہیں) کی جنگ تھی وہ جنگ اب دو لائف سٹائل کی جنگ بن چکی ہے. یہ بات درست ہےکہ:
    "نہ تو اسلام میں کوئی فکری تبدیلی آئی نہ ہی مسلمان کوئی اقتصادی قوت بنے”. تو پھر مسئلہ کیا ہے آخر ؟ مسئلہ لائف سٹائل ہے. امریکا کو ملا عمر سے کوئی مسئلہ نہیں تھا….. مسئلہ ملا عمر کا وہ لائف سٹائل تھا جو سرمایہ داری کو اب کسی صورت قبول نہیں. بقول Francis Fukuyama کے;
    we may be witnessing is not just the end of the Cold War، or the passing of a particular period of post-war history، but the end of history as such … That is، the end point of mankind’s ideological evolution and the universalization of Western liberal democracy as the final form of human government.
    آخری سطور بہت معنیٰ خیز ہیں. یعنی مغربی طرز فکر انسان کا نظریاتی ارتقا ہے (اس سے آگے کچھ نہیں اور نہ ہی اس کے مد مقابل کچھ ہے) اور مغربی لبرل جمہوریت ہی انسانوں کی حکومت کی آخری شکل ہے(اس سے آگے کچھ نہیں).

    ملا عمر سے مسئلہ یہ تھا کے اس کے پاس بی ایم ڈبلیو یا مرسڈیس کیوں نہیں؟ وہ کچے مکان میں کیوں رہتا ہے ؟ وہ اپنے ملک کی معیشت سرمایہ دارنہ قوانین پے استوار کیوں نہیں کر رہا ؟ وہ لبرل جمہوریت کیوں نہیں چاہتا ؟ وہ اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجیکل آسائشوں سے دور کیوں ہے ؟
    یہ سب باتیں مغربی سرمایہ داری کو اب کسی صورت منظور نہیں کے آپ کے پاس سمارٹ فون نہ ہو، آپ کے پاس گاڑی یا موٹر سائیکل نہ ہو(اگر نہیں بھی ہے تو کم سے کم خواہش ضرور ہو)، آپ کی زندگی کا مقصد سرمایہ کا ارتکاز نہ ہو، آپ کا جمہوریت پہ ایمان نہ ہو اور آپ مغربی طرز فکر کو انسانی شعور کی انتہا نہ سمجھیں.

تبصرے بند ہیں۔