جگر مرادآبادی کی ایک فارسی غزل کا منظوم اردو مفہوم

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

یار کے پاؤں پہ کل رات کو کعبہ دیکھا
کیا کہا تونے جگرِ پھر سے بتا کیا دیکھا

حسن پنہاں ہے مگر اس کے ہیں جلوے پُرجوش
اصل خاموش ہے پر فرع کو گویا دیکھا

لا مئے ہوش ربا تاکہ کروں میں آغاز
جادۂ شوق میں بتلاؤں کہ کیا کیا دیکھا

بے خبر چل کے تو یہ دیکھ کہ مستی میں ہے ہوش
ہوش میں رہ کے بھی بیہوشی کا جلوا دیکھا

کیف و مستی میں بیاں میں نے کی اپنی روداد
تونے کیوں ہوش میں یہ میرا فسانا دیکھا

قاضیا ایک نظر سوئے جگر دیکھ ذرا
تیرا خادم ہے تجھے جس نے سراپا دیکھا

تبصرے بند ہیں۔