قومی حالت میں سدھار کا ایک حل

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

ہرپڑھے لکھے شخص کویہ معلوم ہے کہ امتحان میں کامیاب وہی شخص ہوسکتاہے، جوپوچھے گئے سوال کاصحیح صحیح جواب دے، کوئی شخص علامۂ دہرہو، جواب کے تمہیدمیں ہی وہ پوری ایک کتاب تیارکرسکتاہو؛ لیکن اگروہ پوچھے گئے سوال کاجواب نہ دے توایک انصاف پسندممتحن اس کی تمہیددیکھ کرنمبرنہیں دے سکتا؛ کیوں کہ حاصل ِاورمقصودِسوال کی تکمیل نہیں ہوپارہی ہے۔

بعض حضرات جوابی کاپی کوگل بوٹے سے بھی سجاتے ہیں ، اس کے لئے رنگ برنگ کے اسکیج پن کااستعمال بھی کرتے ہیں ، یقیناًاس کی وجہ سے جوابی کاپی کے حسن میں اضافہ ہوجاتاہے اورممتحن کاجی بھی خوش ہوجاتاہے؛ لیکن اگرگل بوٹے سے سجائے ہوئے کاپی میں سوال کاجواب درج نہ ہوتوکیاممتحن حسن کادیوانہ ہوکربغیرجواب کے نمبردے دے گا؟ ظاہرہے کہ اس جواب نفی ہی میں ملے گا۔

بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات کایقین ہے کہ یہ دنیاہمارے لئے امتحان گاہ ہے، ہماراامتحان لینے کے لئے ہمیں اس دنیامیں بھیجاگیاہے، جب ہمارے امتحان کاوقت ختم ہوجائے گا تو ہمیں یہاں سے اٹھالیاجائے گا، پھرہماری کاپی کی چیکنگ ہوگی، اگرہماراجواب صحیح نکلا توہمیں فرسٹ کلاس سے کامیاب قراردے کر’’جنت‘‘ میں بھیج دیاجائے گا؛ لیکن اگرجواب صحیح نہیں نکلاتوہمیں ناکام قراردے کر’’جہنم‘‘ میں پھینک دیاجائے گا۔

امتحان کے سلسلہ میں یہ اصول مسلم چلاآرہاہے کہ امتحان دینے والے کوپہلے سے سوالات معلوم نہ ہوں ؛ لیکن ہماری کمزوریوں کودیکھتے ہوئے ہمارے سوالات آوٹ کردئے گئے ہیں ، جودرج ذیل ہیں (دیکھئے: سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۲۴۱۶):

          ۱-  عمرکن چیزوں میں صرف کی؟

          ۲-  جوانی کن چیزوں میں گنوائی؟

          ۳-  مال کہاں سے کمایا؟

          ۴-  مال کن چیزوں میں خرچ کیا؟

          ۵-  جان نے کے بعدکتناعمل کیا؟

اب اس شخص سے بڑا بے عقل کون ہوگا، جوسوالات جان لینے کے بعدبھی کسی قسم کی تیاری نہ کرے اورامتحان دینے کے لئے چلاجائے؟ ظاہرہے کہ ایسی صورت میں ناکامیابی ہی نصیب ہوگی، جب کہ وہ شخص سے بڑاعقل مندہوگا، جوسوالات جاننے کے بعداچھی طرح سے تیاری کرے اورامتحان ہال میں داخل ہو، ایسا شخص تمام سوالوں کے ٹھیک ٹھیک جواب لکھے گا، جس کے نتیجہ میں اسے ’’جنت‘‘ کاانعام دیاجائے گا۔

مدارس اسلامیہ کے قیام کابنیادی مقصد مذکورہ سوالوں کا ہی حل ہے، جس میں وہ کامیاب ہے یا نہیں ، اس کافیصلہ قارئین خودکرسکتے ہیں ، مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ؛ البتہ ’’حسن‘‘ ایک پسندیدہ عمل ہے، جس کی رعایت ہرحال میں ضروری ہے؛ کیوں کہ یہ اضافی نمبرکاباعث ہوتاہے، اکبرالٰہ بادی کہہ گئے ہیں :

قرآن ہے شاہد کہ خداحسن سے خوش ہے

کس حسن سے؟ یہ بھی توسنو! ’حسنِ عمل‘ سے

موجودہ زمانہ کے لحاظ سے مدارس سے فارغ التحصیل کے لئے علوم عصریہ حسن کادرجہ رکھتے ہیں ، اگروہ ان علوم سے لیس ہوجائیں توسونے پرسوہاگہ ہوجائے، ایک ساتھ دینی ودنیاوی دونوں قومی حالت میں سدھارہوسکتی ہے؛ کیوں کہ جولوگ خالص علوم عصریہ کے تعلیم یافتہ ہیں ، وہ دینی اعتبارسے کمزورہوتے ہیں ، لہٰذا اس کی طرف بھرپور رہنمائی نہیں کرسکتے، اسی طرح جوخالص مدرسی تعلیم یافتہ ہیں ، وہ زمانہ کے لحاظ سے لوگوں کی رہنمائی سے قاصر ہیں، ایسی صورت حال میں یاتوعلوم عصریہ والے مدارس کارخ کریں ؛ تاکہ دین مضبوط ہوجائے؛ لیکن مادیت کے اس دورمیں اس کاامکان کم ہے، یاپھرمدارس والے علوم عصریہ کی طرف توجہ دیں، یہ زیادہ ممکن ہے؛ لیکن ان کے لئے ضروری ہے کہ اس دینی تشخص کوباقی رکھیں، جومدارس سے انھیں حاصل ہوئے ہیں ، ورنہ ان کے اورخالص علوم عصریہ والوں کے مابین امتیاز ہی کیارہے گا؟

مدارس اسلامیہ کوہمیشہ کی طرح اس وقت بھی قومی حالت کودیکھتے ہوئے پیش قدمی کرنی چاہئے اوراپنے اداروں میں رکھ کرہی اس کے لئے طلبہ کوتیارکرناچاہئے؛ کیوں کہ باہرآکرتیاری کرنے کاسب سے بڑانقصان یہ ہورہاہے کہ مدرسی جامہ ہی سانپ کی کینچلی کی طرح اترجارہاہے اورجوخود اپنے تشخص کوباقی نہ رکھ سکے، اس سے قومی حالت سدھارنے کی امیدبھی کم کی جاسکتی ہے؛ کیوں کہ ایسے طلبہ دراصل مذبذبین بین ذلک، لاالیٰ ہؤلاء ولاالیٰ ہؤلاء کے زمرہ میں رہتے ہیں ، انھیں اپنی تعلیم پرپورااطمینان ہی نہیں ہوتاتوپھردوسروں کواس کی طرف رہنمائی کیسے کرسکتے ہیں ؟ اس لئے ذمہ داران مدارس کو ’’لیمن‘‘ اور’’صراحی مئے‘‘ کے بیچ ’’میٹھے انگور‘‘ ڈھونڈنکالنے کی کوشش کرنی چاہئے، جس کی صورت اپنے ہی ماحول میں حسن یعنی علوم عصریہ کی تعلیم کابندوبست کرناہے، اگرایسا ہوجائے توقومی حالت کے سدھرنے دیرنہیں لگے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔