رجب طیب اردگان

سہیل بشیر کار

55سے زائد مسلم ممالک ہونے کے باوجود امت مسلمہ دنیا میں بے وزن ہوچکی ہے۔ ان کی کوئی آواز نہیں۔ غالب اکثریت اس بے وزنی کے سبب مایوسی کا شکار ہے۔ عالم اسلام میں چند ہی ایسے قائد ہیں جن سے مسلمانوں نے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ ان میں سرفہرست جو نام آتا ہے وہ ہے ترکی کے ہردلعزیز لیڈر رجب طیب اردگان کا نام۔۔۔ یہ شخصیت نام ہے شجاعت کا،دوراندیشی کا، لیاقت کا، درد دل کا،قابلیت کا۔ اردگان ہر بے کس کی آواز بنا ہے۔ ترقی کا نشان بنا ہے۔ آپ بہترین مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین منتظم اور قابل رہبر بھی ہیں۔۔آپ کی زندگی پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ آج سے کچھ سال پہلے آپ کی زندگی کے مختلف اہم گوشوں پر لکھی گئی کتاب کے مطالعے کا گزشتہ دنوں موقع ملا۔

’’رجب طیب اردگان‘‘ ڈاکٹر راغب السرجانی کی 327صفحات پر مشتمل کتاب ہے جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی نے کیا ہے، بقول مصنف ’’رجب طیب اردوغان، اس مرد آہن کی داستان ہے جو ترکی کو نئی دنیا کی بلندیوں تک لے گیا، جس نے مرکز خلافت کی عظمت اور امت مسلمہ کے جذبات کا ادراک کیا، جو ترکی کو اس کے ماضی سے مربوط کرنے کے لیے کوشاں ہے‘‘۔

اس کتاب کی ضرورت کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں: ’’یہ ایسے شخص کی داستان ہے جو انقلاب کی علامت بن گیا، چنانچہ اس کے معاملے میں اغماز اور چشم پوشی ممکن نہیں ہے، اس نے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا اور وہ ساری دنیا میں موضوع گفتگو بن چکا ہے، لہذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اردگان کی حقیقت کیا ہے؟ ان کی داستانِ زندگی کی جڑیں کہاں پیوست ہیں؟ ان کے اہداف اور مقاصد اور ترجیحات کیا ہیں؟ ترکی اور مسلمانوں کے لیے کس طرح یہ ممکن ہوسکے گا کہ وہ اس قائد کے زیر قیادت و حکومت باقی رہ سکیں؟ انہی سوالات کا جواب دینے کی اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے ‘‘۔ مصنف نے کتاب میں نہ صرف اردوغان کی شخصیت سے متعلق تفصیلی بحث کی ہے بلکہ ترک معاشرہ کے اکثر پہلووں پر بھی بات کی ہے‘‘۔

پہلے باب میں مصنف نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ کن حالات میں ترکی میں خلافت اسلامیہ کا سقوط ہوا اور ترکی میں کس طرح مصطفی کمال اتاترک نے قومی حکومت قائم کی، اور کس طرح اسلامی شعائر کی توہین کی گئی، نہایت جامعیت کے ساتھ مصنف نے ان تمام موضوعات پر روشنی ڈالی ہے۔

دوسرے باب میں مصنف نے اس عزیمت کی داستان رقم کی ہے جس عزیمت کے ساتھ اسلام پرستوں نے انتہائی دین بے زار، لادین اور سخت حالات میں احیائے اسلام کے لیے کوششیں کی۔باب سوم میں مصنف نے ان حالات پر روشنی ڈالی ہے جن میں اردوگان کی ولادت ہوئی، اور ان کے بچپن اور تعلیم کا تذکرہ کیا ہے۔

باب چہارم میں عظیم اسلامی اسکالر نجم الدین اربکان کی تحریک اور ان کی داستان عزیمت پر روشنی ڈالی گئی ہے، اربکان کی ہی پارٹی کے ٹکٹ پر اردگان استنبول کے میئر منتخب ہوئے تھے۔ استنبول کے میئر ہونے کی وجہ سے آپ ترکی کی اقتصادی پالیسی سے خوب اچھی طرح واقف ہو گئے تھے، کیونکہ ترکی کی اقتصادی پالیسیاں استنبول سے ہی ریلیز ہوتی تھیں۔

 پانچویں باب میں مصنف نے بحیثیت میئر استنبول کے اردگان کے ان کارناموں کا تذکرہ کیا ہے، جن کی وجہ سے شہر اقتصادی ترقی میں بہت آگے چلا گیا۔ ایسا وہ اس وجہ سے کرگئے کیونکہ انہیں اس شہر سے محبت تھی۔ صحافی فہمی ہویدی لکھتے ہیں: ’’وہ اس شہر کے عاشق تھے اور ان کے ذہن کے پردے پر شہر کا نقشہ، اس کے آثار اور راستے سب نقش تھے‘‘۔ بقول مصنف کے اس شہر نے محض چار سال میں وہ ترقی کی جو کسی معجزہ سے کم نہ تھی، لکھتے ہیں:’’اردگان کی ان کامیابیوں نے چنندہ سیاسی شخصیات کو مجبور کیا کہ وہ تسلیم کریں کہ شہر کے مسائل کو حل کرنے اور نظم و نسق چلانے میں اسلام پسندوں کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، درحقیقت ان کو تسلیم کرنا چاہیے تھا کہ اسلام پسند حکومت میں توازن قائم رکھتے ہیں، لوگوں کی مشکلات حل کرتے ہیں، وہ محض مسلمانوں کے لیے خوش کن نعرے نہیں لگاتے، صرف ان کو جنت کے سبز باغ نہیں دکھاتے اور جہنم سے خوف نہیں دلاتے۔ اگرچہ ان چیزوں کی اپنی اہمیت ہے، مگر اسلام پسند ان امور کے ساتھ ساتھ زندگی اور معیشت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی منصوبہ بنانے کی قابلیت بھی رکھتے ہیں اور عملی اقدام بھی کرتے ہیں، چنانچہ اردگان نے ان مشکلات کو حل کرکے دکھایا‘‘،لیکن فوجی حکمرانوں کو کیسے یہ برداشت ہوتا، لہٰذا انہوں نے اردگان کو قید کر دیا۔

چھٹے باب میں مصنف نے قید تنہائی کا ذکر کیا ہے، اور نجم الدین اربکان سے الگ ہونے کی وجہ بھی بتائی ہے۔ اس طرح انہوں نے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی قائم کی۔ ساتویں باب میں مصنف نے ان احوال کا تذکرہ کیا ہے جو اردگان کی حکومت میں آنے سے پہلے ترکی کو درپیش تھے، مثلاً معاشی مشکلات، یورپین کسٹم یونین میں دخول، اسراف، تبذیر، اور حکومتی کرپشن، فوج کا حد سے بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ، حجاب کا قضیہ، کردوں کا مسئلہ،، ای ایم ایف، یورپی یونین کی رکنیت، عراق اور امریکہ بحران، صیہونی ریاست سے تعلقات، ان موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ آٹھویں باب میں مصنف نے بحیثیت حکمران اردگان کے کاموں کا جائزہ لیا ہے، کہ کس طرح انہوں نے ترکی کو معاشی ترقی دی اور پوری دنیا میں ایک مقام عطا کیا ہے۔ جی ڈی پی ٹرلین ڈالر کے قریب پہنچ گئی، کردوں کا مسئلہ حل کیا، مسئلہ فلسطین پر ترکی کے رول کو لے کر بھی مفصل بحث کی گئی ہے۔

 نویں باب میں عرب انقلاب اور اس میں ترکی کے رول پر بات کی گئی ہے۔ دسویں باب میں 2011 کے پارلیمانی انتخاب پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح ایک بار پھر اردگان نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ دسویں باب میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ دنیا کی نظر میں اردگان کی کیا حیثیت ہے۔ اس باب میں ان اعزازات کا تذکرہ بھی قاری کو ملتا ہے جن سے اردگان کو مختلف ممالک نے نوازا ہے۔ مثلاً روس کی طرف سے وسام التتار،پاکستان کی طرف سے نشان امتیاز اور سعودی عرب کی طرف سے شاہ فیصل ایوارڈ، کویت کی طرف سے اسلامی شخصیت ایوارڈ۔

گیارہویں باب میں دنیا کی بالعموم اور عالم اسلام کی بالخصوص ترکی سے وابستہ امیدوں کو نمایاں طور سے پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں مترجم کی طرف سے دو ضمیمے بھی کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ضمیمہ نمبر ایک میں ترکی کے کئی سارے امور پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دوسرے ضمیمہ میں جسٹس اور ڈیولپمنٹ پارٹی کے دستور ولائحہ عمل کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔

کتاب کا ترجمہ نہایت ہی سلیس ہے، پڑھنے کے دوران ذرا بھی یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ اصل کتاب دوسری زبان میں لکھی گئی ہے، البتہ کتاب میں فتح اللہ گولن سے رجب طیب اردگان کے اختلافات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہوتی تو کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اردگان کے مداح نے تصنیف کی ہے، اس لیے کہ تنقیدی پہلو کتاب میں عنقا ہے۔

کتاب 2012 میں لکھی گئی ہے،تب سے اب تک اردوغان کی زندگی اور سیاست میں کئی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اردوغان پہلے سے زیادہ مضبوط شخصیت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھر کر آئے ہیں۔ان تبدیلوں کو سامنے رکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ لکھی جاچکی کتاب حصہ اول ہے اور حصہ دوم آرہی ہوگی۔(کتاب ہدایت پبلشرز،نئی دہلی سے (موبائیل اور وہاٹس اپ نمبر:9891051676 ) حاصل کی جاسکتی ہے۔)

تبصرے بند ہیں۔