رحمان و رحیم

ابوفہد

جب ہم قرآن پڑھنا شروع کرتے  ہیں تواللہ کی جن صفات عالیہ سے ہم سب سے پہلے روبرو ہوتے ہیں، وہ ’رحمان‘ اور’رحیم‘ ہیں۔ ایک مسلمان قرآن کی آیت’’ بسم اللہ الرحمان الرحیم‘‘ کو اتنی بار دہراتا ہے جتنی بار شاید ہی کسی  دوسری آیت کو دوہراتا ہوگا۔پھر ان  صفات کے مماثل اللہ کی دوسری بہت ساری صفات  جیسے غفار، ستار، توّاب  وغیرہ  بھی ہیں ، جن سےتلاوت قرآن کے دوران  گاہے بگاہے سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ اللہ کی صفت رحمت اس قدر وسیع و ہمہ گیر ہے کہ تنہا ایک لفظ اس کا احاطہ نہیں کرسکتا تھا ، اس لیے خود اللہ نے اس کے لیے دو لفظ رحمان اور رحیم کا انتخاب کیا۔ اردو میں ان کا ترجمہ عموما’’ نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘ اور انگریزی میں’’ the Entirely Merciful, the Especially Merciful

کیا جاتا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ان صفات کا ترجمہ تقریبا ناممکن ہے۔

اسم علم کا ترجمہ نہیں کیا جاتا تاہم صفاتی ناموں کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ’’اللہ‘‘ اسم علم ہے ، اس کا آج تک کوئی ترجمہ نہیں کیا گیا۔ اور رحمان ورحیم صفاتی نام ہیں ،ان کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ مگر درست بات یہی ہے کہ کسی بھی زبان میں ان  کا جو ترجمہ  کیا گیا ہے وہ ان صفات کے تمام ابعاد کو اور ان کی تمام وسعت وگیرائی کو نہیں ناپ سکتا۔ اس لیے ’’رحمان ورحیم‘‘ کو رحمان و رحیم ہی لکھنا اور بولنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔’’تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے (2) رحمان اور رحیم ہے‘‘(الفاتحہ: ترجمہ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ)

قرآن نے اپنے آپ کو’’ رحمۃ للمؤمنین‘‘ کہا ہے اور حضورﷺ کو ’’رحمۃ للعالمین‘‘۔ قرآن کہتا ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿یونس:٥٧﴾’’اے لوگو! تمہارے لیے تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے، اس میں دلوں کے امراض کے لئے شفا ہے، اور مؤمنین کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔‘‘ یہ مضمون قرآن میں دوسری جگہوں پر بھی آیا ہے۔ اورکہتا ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿الانبیاء۔ ١٠٧﴾’’ اے محمد! ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘مذکورہ دونوں آیتوں سے قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی سب سے عظیم پہچان اور شان’’رحمۃ للمؤمنین‘‘ اور’’رحمۃ للعالمین‘‘  کی وضاحت ہوتی ہے۔

 قرآن اورآپﷺ دونوں ہی پوری انسانیت کے حق میں سرتاپا رحمت ہیں۔یہاں تک کہ اسلام میں  جوفوج داری قوانین بیان کئے ہیں، ان کے پس پردہ بھی اللہ کی صفات رحمان ورحیم اور رسو ل اللہﷺ کی صفت رحمۃ للعالمین ہی کام کر رہی ہے۔قرآن میں ہے: وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿البقرۃ:١٧٩﴾ ’’اور اے عقل والو! تمہارے لیے قصاص(قتل کے بدلے قتل) میں ہی زندگی ہے تاکہ تم مزید خونریزی سے بچ سکو‘‘۔’’لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‘‘کے یہ معنیٰ ’’ کہ تم مزید خونریزی سے بچ سکو‘‘ اپنے آپ میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ قصاص کا مطلب لوگوں کو فساد اور خون خرابے سے بچانا ہے، نہ کہ فی نفسہ قاتل کو سزادینا۔نہ اللہ اپنے بندوں کو سزادینا چاہتا ہے اور نہ ہی اس کے رسولﷺ ایسا چاہتے ہیں۔سزاؤں کا نفاذ تو محض معاشرے کو بیمار اور بد طینت ذہنیت سے بچانا ہے اور کمزروں اور غریبوں کے کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔

اللہ کا وجود رحمت ہے، نبیﷺ کی ذات رحمت ہے، قرآن رحمت ہے اور دین اسلام کی ایک ایک بات رحمت ہےتو پھر معاصر دنیا میں مسلمانوں کی بھی سب سے اچھی، بڑی اورعظیم صفت اورپہچان بلکہ شان وہی ہونی چاہئے تھی جو اللہ کی اور رسول اللہ ﷺ کی ہے،قرآن کی ہے اور دین اسلام کی ہے۔

ہونا تو یہی چاہئے کہ اللہ کی صفتِ رحمت و ربوبیت اور قرآن ورسول اللہ  ﷺ کی صفت رحمت کا ذکرزیادہ سے زیادہ ہو اور مسلسل ہو۔ عوامی حلقوں میں ہمارا بیانیہ انہیں صفات کے ارد گرد گھومنا چاہئے اور حدود وتعزیرات کا بیان مخصوص حلقوں تک محدود رہنا چاہئے۔ اسی طرح جو نزاعی مسائل ہیں ، ان میں جو اختلافات  ہیں اور ان کے جو دلائل ہیں  ان سب کا بیان  بھی مخصوص حلقوں تک محدود رہنا چاہئے۔ یہ اس لیے بھی ضروی ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کے خوف پر اس کی رحمت حاوی رہے، جیسا کہ خود اللہ نے فرمایا : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ ﴿الاعراف: ١٥٦﴾’’ اللہ کی جو رحمت ہے وہ کل کائنات کی کل اشیاء کو محیط ہے‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کی پہلی ہی سورت میں سب سے پہلے اللہ کی صفات رحمان ورحیم کا بیان ہے۔ اور بندہ ٔ مؤمن اللہ کی انہیں  صفات کا حوالہ دے کر کہتا ہے:( الحمد للہ رب العالمین) اللہ جو تمام جہانوں کا رب ہے تمام تعریفیں بس اسی کے لیے سزاوار ہیں۔ ایک مسلمان اپنی زندگی میں سب سے زیادہ مرتبہ اللہ کی انہیں دوصفات کا ورد کرتا ہے کیونکہ اللہ نے قرآن کی ترتیب کچھ اسی طرح رکھی ہے۔بسم اللہ میں بھی یہی دو صفات ہیں اورسورہ فاتحہ میں بھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ انسان کو فطر ت کے سخت ترین قوانین سے ہر وقت واسطہ پڑتا رہتا ہے، فطرت کسی پر رحم نہیں کھاتی،سردی اور گرمیاں  نہیں دیکھتیں کہ کون ہلاک ہورہا ہے ،معصوم یا بوڑھا۔ وہ جس کو زیادہ کمزور پاتی ہیں اسی کو پہلے ہلاک کرڈالتی ہیں، یہی حال فطرت کے تقریبا تمام اصولوں اور قوانین  کا ہے۔ ایسی صورت حال میں  فطرت کے  ساتھ رات دن رابطے میں رہنے والے انسان کے دل میں خالق فطرت کے حوالے سے بھی یہ خیال جاگزیں ہوسکتا تھا کہ خود خالق فطرت بھی   محض قہار وجبروت ہے، شاید اسی خیال کے بند کے توڑنے کے لیے اللہ نے مومنوں کی زبان پر رحمان ورحیم کے الفاظ ہمہ وقت کے لیے جاری فرمادئے۔ اب ایک مسلمان اٹھتے بیٹھتے، کام کرتے اورقرآن و  نماز پڑھتے  ہوئے ہر وقت اللہ کی صفات رحمان ورحیم کا ورد کرتا رہتا ہے۔ اور دل وزبان  سے یہ اقرار کرتا ہے  بلکہ اعلان کرتا ہے کہ  بظاہر جو نظر آتا ہے وہ نہیں  ہے۔ فطرت کی تعزیریں خواہ کتنی بھی سخت کیوں نہ ہوں، خود خالق کائنات کی  بنائی ہوئی جہنم  بھی خواہ کتنی ہی  ہولناک کیوں نہ ہو مگر اللہ فی نفسہ ارحم الراحمین ہے۔اور جو کچھ بظاہر سخت نظر آرہا ہے وہ بھی صفت رحمان ہی کا مظہر ہے۔

تبصرے بند ہیں۔