رحمت عالمؐ کا ہمہ گیر انقلاب

تحریر: سید ابوبکر غزنوی ۔۔۔ ترتیب: عبدالعزیز
وہ انقلاب جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام لائے اس کی ابھری ہوئی خصوصیات کیا ہیں؟ اس روئے زمین پر جو انقلاب برپا ہوئے، ان کے تقابلی مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں سے بعض انقلاب محض سیاسی تھے، بعض اقتصادی تھے اور بعض ثقافتی تھے؛ مگر وہ انقلاب جو حضو ر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس روئے زمین پر برپا کیا وہ اخلاقی بھی تھا، روحانی بھی تھا، ثقافتی بھی تھا، سیاسی اور اقتصادی بھی تھا، طبیعاتی بھی تھا۔ لینن اور ماؤ کا انقلاب محض اقتصادی اور سیاسی تھا، اخلاقی اور روحانی نہ تھا۔ لینن اور ماؤ جدلیاتی مادیت (Dialectical Materialism) کے قائل ہونے کی وجہ سے ما بعد الطبیعات کے سر سے منکر ہیں۔ پس لینن اور ماؤ کے برپا کئے ہوئے انقلاب بھی ناقص اور ادھورے ہیں۔ مختلف انقلابوں کے تقابلی مطالعہ سے یہ بات مجھ پر منکشف ہوئی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انقلاب سے زیادہ جامع، ہمہ گیر اور بھر پور انقلاب اس روئے زمین پر آج تک برپا نہیں ہوا۔
محمدی انقلاب ابتدائی مرحلوں میں: یہ کہنا حقایق کی سراسر تکذیب ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو انقلاب لائے وہ ابتدائی مرحلوں میں صرف اخلاقی اور روحانی انقلاب تھا اور معاشی مسائل پر توجہ بہت بعد میں منعطف کی گئی۔ اگر ابتدائی مکی سوروں کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ابتدائی مرحلے میں جہاں نماز کی تلقین کی گئی، اللہ سے تعلق جوڑنے کی ترغیب دی گئی، معاشی انقلاب کا آغاز بھی اسی مرحلے میں ہوگیا تھا۔
سورہ ہمزہ مکی سورت ہے، جس میں فرمایا گیا ہے:
’’ہلاکت ہے ہر طعنہ زنی اور عیب چینی کرنے والے کیلئے جس نے مال سمیٹا اور گن گن کر (تجوریوں میں) رکھا۔ اس کا گمان ہے کہ اس کا مال اس کے ساتھ رہے گا، ہر گز نہیں، ہڈیوں کو چٹخا دینے والی دوزخ میں اسے جھونک دیا جائے گا‘‘۔
سورہ تکاثر دیکھئے: ’’مال کی بہتات کی ہوس نے تمھیں غافل کر دیا ہے اور یہ ہوس تمھیں مرتے دم تک لگی رہتی ہے۔ ہوش کرو (اس ہوس کا انجام تمھیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا)‘‘۔
ابو لہب بہت مالدار آدمی تھا۔ انقلاب کے ابتدائی مکی دور میں اس کا نام لے کر اعلان کیا گیا:
’’ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوا۔ اس کا مال اور دولت جو اس نے سمیٹی تھی اس کے کام نہ آسکی‘‘۔
پھر سورہ ماعون ملاحظہ فرمائیے: ’’کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو جھٹلاتا ہے ارتکاز دولت کی سزا کو، یہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو خود کھانا کھلانا تو درکنار اس کی ترغیب بھی نہیں دیتا‘‘۔
ایک دوسرے کی ضد میں ، ایک دوسرے کے ساتھ حریفانہ کشمکش میں ہم نے حقیقتوں کا چہرہ مسخ کیا، ہم نے اس انقلاب کا حلیہ بگاڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کو معاشی اعتبار س شدت سے جھنجھوڑا اور اس انقلاب کا آغاز اپنی ذات سے کیا ع
لوح بھی تو، قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
آغاز اپنی ذات سے کیا: اسبابِ راحت اور اسبابِ تعیش کا تو وہاں گزر نہ تھا، اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی بھی معاشرے کے حوالہ کر دیں، خود فقر و فاقہ کی سختیاں جھیلتے رہے اور غریبوں، مسکینوں اور بے نواؤں کی چارہ سازی کرتے رہے۔ حضرت فاطمہؓ کے ہاتھوں پر چکی چلانے سے گٹھے پڑ گئے تھے۔ خود جھاڑو دیتی تھیں اور گرد اُڑ کر ان کے کپڑوں پر پڑتی تھی۔ خود پانی بھرتی تھیں اور مشکیزے کے پٹے کے نشان ان کے کندھوں پر پڑگئے تھے۔ ایک دن اپنے باب سے خادمہ مانگا، تو حضورؐ نے فرمایا:
’’اے فاطمہ! اللہ سے ڈرتی رہو، اپنے رب کے فرائض ادا کرتی رہو اور اپنے گھر والوں کے کام کاج میں لگی رہو۔ خادمہ نہ ہونے سے یہ زندگی جو تم بسر کر رہی ہو تمہارے لئے بہتر ہے۔
اس انقلاب کا آغاز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اور گھر سے ہوا۔ انقلاب مارکس اور لینن کا ہو یا ماؤ کا ہو یا کسی اور کا ہو، یاد رکھئے کہ وہ ہمیشہ انقلابی کی ذات اور گھر سے شروع ہوتا ہے۔ تاریخ عالم اس بات کو جھٹلاتی ہے کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ انقلابی خود راحت اور تعیش میں ڈوبا ہوا ہو اور اس نے معاشی انقلاب برپا کیا ہو۔
محنت کش اور مزدور کو عزت بخشی: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جھوٹے وقار کے خلاف جہاد کیا۔ وہ گھر کا کام اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے۔ صحاحِ ستہ کی مختلف روایات جو حضرت عائشہؓ، حضرت حسن بصریؒ اور ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہیں سے پتہ چلتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بکری کا دودھ خود دوہ لیتے تھے، کپڑے کو پیوند خود لگالیتے تھے، اپنی جوتیاں خود گانٹھ لیتے تھے۔ گھر میں جھاڑو دینے میں بھی عار نہ تھا۔ بازار سے سودا سلف خود اٹھاکر لاتے تھے۔
مسجد قبا کی تعمیر شروع ہوئی تو صحابہؓکرام کے ساتھ آپؐ بھاری پتھر اٹھا کر لاتے تھے۔ صحابہ نے عرض کیا:
یا رسول اللہ! آپؐ رہنے دیجئے، ہم جو اٹھا رہے ہیں۔
مگر آپؐ برابر پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔ پھر مسجد نبویؐ تعمیر ہوئی تو آپؐ صحابہؓ کے ساتھ مل کر کچی اینٹیں بنانے کا کام کرتے رہے اور خود اینٹیں اٹھا اٹھاکر لاتے اور صحابہ کرامؓ یہ شعر پڑھتے تھے:
لئن فقد نا والنبی یعمل ۔۔۔ فذاک منا العمل المفصل
(اگر ہم بیٹھ جائیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کام کریں تو ہمارا بیٹھ جانا بہت ہی برا عمل ہوگا)۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: کسب معاش کرنے والوں میں سب سے بہتر محنت کش ہے جب وہ اخلاص سے کام کرتا ہے۔
حدیث میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ ’’وہؐ اپنے خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے‘‘۔ یہ اسلامی نظام حیات کی ابجد ہے۔ ایک المیہ ہے کہ جو لوگ معاشرے میں اسلام کی طرف دعوت دینے والے ہیں وہ عملی طور پر اس کی ابجد ہوز سے بھی محروم ہیں اور وہ نوکر کو اپنے دستر خوان پر بٹھانا تو ان کیلئے ناقابل تصور ہے۔ لاہور میں گزشتہ دنوں ایک ڈنر میں شرکت کا اتفاق ہوا جس میں بڑے بڑے حامیانِ دین اور مفتیان شرع متین شریک تھے، میں نے میزبان سے کہاکہ میرے ڈرائیور کو اندر بلالیجئے، وہ کھانا میرے ساتھ کھائے گا۔ میرے ڈرائیور کو تو انھوں نے ذرا سی پیش و پس کے بعد بلالیا مگر بیسیوں ڈرائیور، چپراسی رات گیارہ بجے تک باہر بھوکے بیٹھے رہے۔ میرے ڈرائیور نے مجھے بعد میں بتایا کہ سب ڈرائیور اور چپراسی ان اسلام کے علمبرداروں کو گالیاں دیتے رہے اور ان پر لعنتیں بھیجتے رہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہم اسلام کا نام محض Slogan کے طور پر بولتے ہیں اور اس ملک میں سوشلزم کا لفظ بھی محض سلوگن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ؂
رخ پر نقاب مصلحتوں کے پڑے ہوئے ۔۔۔ لب پر زمانہ سازی کی مہریں لگی ہوئیں
جیسے زبان و دل میں کوئی ربط ہی نہیں۔ ؂
آشنا بھی اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا ۔۔۔ دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
اپنی نظم ’’سرمایۂ محنت‘‘ میں کہا : ؂
دست دولت آفریں کو مُزد یوں ملت رہی ۔۔۔ اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ
اور اپنی نظم ’’الارض‘‘ میں جاگیر داروں کو شدت سے جھنجھوڑا: ؂
وہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں ۔۔۔ تیرے آباء کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں
اپنے ایک مضمون میں یوں رقمطراز ہیں:
’’مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ انھیں معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔
فاصبحتم بنعمتہٖ اخوانا (اس کی نواز ش سے تم بھائی بھائی ہوگئے)‘‘۔
میرا اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے اخوان نہیں ہوسکتے۔ جب تک کہ وہ ہر پہلو سے ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں اور اس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں، جس کا مقصود سرمایہ کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق اور تولید ہو۔ (علامہ اقبال ۔زمیندار ، 24جون 1923ء)۔
قرآن مجید بار بار دولت مندوں سے کہتا ہے کہ تمہارے مال میں غریبوں کا حق ہے یعنی تم ان پر کوئی احسان نہیں کرتے ہو۔
ارض و سما کے مالک ہم ہی ہیں اور نحن نرزقکم و ایاہم اور ہم ہی ہیں کہ تمھیں بھی اور انھیں بھی رزق دیتے ہیں۔ اسی لئے قرآن و حدیث میں بار بار کہا گیا ہے کہ تمہارے مال میں غریبوں کا حق ہے۔
ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے اور فرمایا: یعنی یتیموں اور مسکینوں کا حق انھیں دے دو۔
اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: یقیناًمال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ’’حق‘‘ ہی استعمال فرمایا۔ ساری دقتیں اور دشواریاں دولت کو گردش میں لانے کے سلسلے میں اسی لئے ابھرتی ہیں کہ ہمیں اس بات کا یقین نہیں آتا کہ ہمارے مال میں غریبوں کا حق ہے۔ حقدار کو حق دلانا ہر حکومت کا فرض ہوتا ہے اور جب بھی کوئی حق غصب کرتا ہے تو حکومت جبراً حقدار کو حق دلاتی ہے۔ اگر ہمیں یہ یقین آجائے کہ غریبوں اور مزدوروں کا ہمارے مال میں حق ہے تو منطقی اعتبار سے ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ اگر غاصبانِ حق برضا و رغبت حقداروں کو ان کا حق دینے پر آمادہ نہ ہوں تو حکومت جیسے دوسرے حق، حقداروں کو جبراً لاتی ہے۔ یہ بھی غریبوں کو جبراً دلائے۔ ’’تشکیل الٰہیات جدیدہ‘‘میں علامہ محمد اقبالؒ نے امام ابن حزمؒ کا چھ بار ذکر کیا ہے۔ امام ابن حزم بہت بڑے محدث تھے۔ المحلی کی چھٹی جلد میں لکھتے ہیں کہ ایک دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ سے فرمایا کہ:
’’تم میں سے جس کے پاس فاضل سواری ہو وہ اسے لوٹا دے، جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس اپنی ضرورت سے زائد غذا ہے وہ ان لوگوں کو لوٹا دے جن کے پاس غذا نہیں ہے‘‘ (ص:157)۔
آپ غور کیجئے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں فرمایا کہ عطا کردیجئے یا بخش دیجئے بلکہ لوٹانے کا لفظ استعمال فرمایا۔ اس لفظ کے استعمال سے یہ وضاحت فرما دی کہ تم حقداروں کو ان کا حق لوٹا رہے ہو، کوئی احسان تو نہیں کر رہے ہو۔ ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے ایک ایک جنس اور مال کی ایک ایک قسم کا جدا جدا ذکر کیا، حتیٰ کہ ہمیں یقین آگیا کہ فالتو مال پر ہمارا کوئی حق نہیں رہا۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ نے ایک سال جب غلے کا شدید قحط ہوا، احکام صادر کئے کہ میں نے غلہ اسٹاک کرنے کے مختلف مراکز بنا دیئے ہیں اور وہ تمام لوگ جن کے گھروں میں غلہ پڑا ہے ان مرکزوں میں اس غلے کو اکٹھا کردیں۔ حضرت ابو عبیدہؓ ہر گھر کے تناسب کے اعتبار سے اس غلے کو مساوی طور پر تقسیم فرماتے رہے۔
میں پوچھتا ہوں کہ ابو عبیدہ بن جراحؓ نے ان جاگیر داروں کو اس غلے کا کون سا معاوضہ دیا تھا۔ بلال بن حارث المزنی کو ایک بہت بڑا رقبہ حضورؐ نے عطا کیا۔ حضرت عمرؓ نے جب زرعی اصلاحات شروع کیں تو زمین کا وہ تمام حصہ جسے وہ کاشت نہ کرسکے ان سے چھین لیا اور مسلمانوں میں اسے بانٹ دیا۔ یہ واقعہ ’’کتاب الخراج‘‘ میں بھی لکھا ہے اور ’’کنزالعمال ‘‘ میں بھی ہے۔ میں پھر اس بات کی وضاحت کرتا ہوں کہ بلال بن حارثؓ کو حضرت عمرؓ نے اس چھینی ہوئی زمین کا کوئی معاوضہ نہیں دیا تھا۔
بعض دوستوں نے کہاکہ یہ باتیں تو درست ہیں لیکن ان باتوں کو ذاتی انتقام کیلئے استعمال کیا جائے گا، اس لئے ان باتوں کا اظہار نہ کرنا ہی مناسب ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ذاتی انتقام کیلئے تو تمام تعزیرات کو استعمال کیا جاسکتا ہے تو کیا اس خدشے کی بنا پر تمام تعزیرات میں تحریف اور تاویل کی جائے۔ اگر کوئی احکام الٰہی کو ذاتی انتقام کی خاطر استعمال کرتا ہے تو وہ اللہ اور معاشرے کے سامنے جواب دہ ہے اور اللہ کے قانون جزا و سزا سے نہ بچ سکے گا۔
سب کچھ لُٹا دیا: ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حجاز کی ممتاز، متمول خاتون تھیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے مال سے تجارت کرتے تھے۔ جب اس ہمہ گیر اور بھر پور انقلاب کو برپا کرنے کاکام آپؐ نے شروع کیا تو ان کا کاروبار مندا پڑنے لگا۔ جب آپؐ نے یہ آواز بلند کی کہ تمام انسان اللہ کی نظر میں برابر ہیں۔ بلال حبشیؓ سرداران قریش سے افضل ہے تو عربوں کی حمیت جاہلہ کو سخت دھچکا لگا۔ پھر ہمہ تن انقلاب کے کام میں مصروف ہوجانے کی وجہ سے حضورؐ کو تجارت کا کام بند کرنا پڑا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام اور حضرت خدیجۃ الکبریؓ کے پاس جس قدر اندوختہ تھا اسلام پھیلانے کی خاطر خرچ کر ڈالا۔ تمام اثاثہ اس راہ میں لٹا دیا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام طائف تشریف لے گئے تو ان کیلئے سواری کیلئے کوئی جانور بھی نہ تھا۔
سردارنِ قریش نے جب اس تحریک کو شدت سے ابھرتے ہوئے اور جھوٹی قدروں کو مسمار ہوتے دیکھا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حجاز کا حکمران بنانے کیلئے تیار ہوگئے اور کہاکہ ہم آپؐ کو اپنا فرماں روا بنالیں گے، ہم عرب کی حسین ترین عورت آپؐ کے نکاح میں دینے کیلئے تیار ہیں۔ ہم دولت کے ڈھیر آپ کے قدموں میں لگا دیں گے بشرطیکہ آپ اسلامی نظریۂ حیات کے پرچار سے باز آجائیں، مگر اس انسان نے جو تمام کائنات کی فلاح و بہبود کیلئے اٹھا تھا اور جو دونوں جہاں کی سعادتیں بنی نوع انسان کی جھولی میں ڈالنا چاہتا تھا، ان تمام پیشکشوں کو ٹھکرا دیا اور گالیاں اور پتھر کھانے پر راضی ہوگیا۔
قریش اور عرب کے سرداروں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا: ’’ہم تمہارے پاس کیسے آکر بیٹھیں، تمہاری مجلس میں ہر وقت غریب، مفلس اور نچلے طبقے کے لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹاؤ تو ہم آکر بیٹھیں‘‘۔
مگر وہ انسان جو رنگ، نسل، خون اور خاک کے بتوں کو توڑنے کیلئے آیا تھا، اس نے اس نے ان سرداروں کی خاطر غریبوں کو دھتکارنے سے انکار کردیا۔
اس تحریک کی ابھری ہوئی خصوصیت یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ملک، اپنی قوم، اپنے قبیلے اور اپنے خاندان کے مفاد کو بنی نوع انسان کے مفاد پر ترجیح نہیں دی۔ آپ ہر قسم کی کنبہ پروری اور اقربا نوازی سے برتر رہے۔ اسی بات سے دنیا والوں کو یقین دلایا کہ آپ تمام اقوام کیلئے سراپا رحمت بن کر آئے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کی آواز پر ہر قسم کے انسانوں نے لبیک کہا۔ اگر آپ اپنے گھرانے کی برتری کیلئے کام کرتے تو غیر ہاشمیوں کو کیا پڑی تھی کہ آپؐ کا ساتھ دیتے؟ اگر آپ کو یہ فکر لاحق ہوتی کہ قریش کی برتری اور اقتدار کو تو کسی طرح بالوں تو غیر قریشی عربوں کو کیا دلچسپی ہوسکتی تھی کہ وہ اس کام میں شریک ہوتے۔ اگر آپ عرب کا بول بالا کرنے کیلئے اٹھتے تو بلال حبشیؓ، صہیب رومیؓ اور سلمانؓ فارسی کو کیا پڑی تھی کہ آپ کا ساتھ دیتے۔ وہ بات جس کی وجہ سے تمام بنی نوع انسان آپ کی طرف کھنچتے چلے آئے۔ وہ آپ کی بے لوث خداپرستی تھی اور آپ کا تمام ذاتی، خاندانی اور نسلی مفاد اغراض سے بلند و برتر ہونا تھا۔
جب آپؐ نے یہ آوازہ بلند کیا کہ بلال حبشیؓ سردارانِ عرب سے افضل ہیں اور ہر طرح کی فضیلت اور شرف تقویٰ اور پرہیزگاری کی بنا پر ہے اور قریشی اور ہاشمی ہونے کی بنا پر تمھیں کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے تو قریش اور عرب کے سردار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ آپ کے قتل کی سازشیں کرنے لگے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مکہ مکرمہ کو خیر باد کہنا پڑا۔ جب آپؐ مکہ سے جارہے تھے تو آپ نے حضرت علیؓ سے کہا:
’’علی! تم یہیں رہ جاؤ، یہ لوگ جو میرے قتل کے درپے ہیں، ان کی امانتیں میرے پاس ہیں۔ تم ان میں سے ایک ایک کی امانت لوٹا دینا‘‘۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں کی امانتیں بھی لوٹا دینے والے اور ہم سیاست کی بنیادیں غنڈہ گردی اور شُہدا پن پرقایم کرنے والے، ہمیں ان سے کیا نسبت؟
جب مکہ فتح ہوا تو آپؐ کی راہ میں کانٹے بچھانے والے، آپ پر اوجھڑیاں پھینکنے والے، آپ کے قتل کی سازشیں کرنے والے سب سر جھکائے ہوئے کھڑے تھے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’جاؤ؛ میں تم سب کو رہا کرتا ہوں، آج کے دن کے بعد تم پر کوئی ملامت نہیں ہے، آج بات ختم ہوگئی اور میں نے تم سب کو معاف کیا‘‘۔
بات بات پر اپنے مسلمان بھائیوں سے یہ کہنا کہ ’’میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا‘‘ حد درجہ غیر اسلامی بات ہے۔ یہ فقرہ ابوجہل اور ابولہب کہتے تھے کہ ہم تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ پس ہر وہ شخص جو بار بار مسلمان بھائیوں سے یہ کہتا ہے کہ میں تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔ ابوجہل اور ابولہب کی روح اس کے اندر حلول کرگئی ہے۔
منتشر اجزاء کو مرتب کیا: محمدیؐ انقلاب کی ایک ابھری ہوئی خصوصیت یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معاشرے کے منتشر اجزاء کو مرتب اور مربوط کیا اور اسے باطل سے ٹکرا دیا۔ انھوں نے یہ نہیں کیا کہ جوانوں کو بوڑھوں سے ٹکرا دیا ہو۔ اور Generation Gap کا سوال پیدا کردیا ہو۔انھوں نے یہ نہیں کیا کہ مزدوروں کو صنعت کاروں سے اور کسانوں کو زمینداروں سے ٹکرا دیا ہو اور معاشرے کے مختلف طبقوں کو آپس میں گتھم گتھا کر دیا ہو، جیسا کہ کارل مارکس اور لینن نے کیا۔ آپ نے جوانوں سے کہاکہ بوڑھوں کے سفید بالوں کا خیال کرو۔ آپ نے بوڑھوں سے کہاکہ بچوں پر شفقت کرو۔ حضورؐ نے اپنا سب کچھ معاشرے کی فلاح و بہبود پر لگا دیا۔ اپنے قائد کے اس ایثار کو دیکھ کر معاشرے کے متمول افراد کے اندر غریب پروری کا جذبہ خود بخود ابھرنے لگا اور کسی جبر اور تشدد کے بغیر بلکہ شدید رضا و رغبت کے ساتھ معاشرے کی خوشحالی پر بے دریغ خرچ کرنے لگے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے امیروں سے کہاکہ تمہارے پاس جو کچھ مال و منال ہے، سب اللہ کا بخشا ہوا ہے اور غریبوں کا تمہارے مال میں حق ہے ان کا حق لوٹادو۔ اور یوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معاشرے کے مختلف طبقوں کو باہم متحد اور منظم کیا اور حق کی حمایت میں باطل کے خلاف سب کو صف آرا کر دیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’خدا کی قسم دعوتِ اسلام کا جو کام شروع ہوا ہے پایۂ تکمیل کو پہنچ کر رہے گا، یہاں تک کہ صنعا یمن سے حضر موت تک مسافر چلا جائے گا اور اسے کسی کا کھٹکا نہ ہوگا‘‘۔
عدی بن حاتمؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’وہ وقت یقینی طور پر آنے والا ہے جب قیصر و کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں پر ڈھیر ہوں گے۔ حضورؐ نے جب یہ الفاظ فرمائے، مسلمانوں کی بیچارگی کا یہ حال تھا کہ خود ان کے وطن کے دروازے بھی ان پر بند تھے، قیصر و کسریٰ کے خزانوں کا نام سن کر متعجب ہوئے۔ عدی بن حاتمؓ ضبط نہ کرسکے۔ حیران ہوکر پوچھا: کون کسریٰ؟ کسریٰ بن حرمذ شہنشاہِ ایران؟ فرمایا : وہاں وہی اور کون ۔ آپ نے فرمایا: عدی!
یعنی عدی تمہیں اس پر تعجب کیوں ہے، اگر تم زندہ رہے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے کہ اسلامی معاشرے کی خوشحالی کا یہ حال ہوگا کہ ایک شخص مٹھی بھر سونا لے کر صدقہ و خیرات کیلئے نکلے گا مگر کوئی لینے والا نہ ہوگا، سب آسودہ حال ہوں گے۔ عدیؓ کہتے ہیں کہ میں زندہ رہا اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھوں نے فتح ایران کے بعد کسریٰ کا خزانہ کھولا اور صحابہؓ نے اسلامی معاشرے کی خوشحالی کا وہ دور دیکھا کہ صدقہ و خیرات لینے والا کوئی شخص نہ ملتا تھا۔
محمدیؐ انقلاب امن اور سلامتی، آسودگی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔ ایک لمحہ کیلئے غور کیجئے کہ اپنے آقاؐ سے بے وفائی کرکے ہم نے کیا پایا ہے، چوریاں اور ڈکیتیاں جن کے تذکرے سے آدھا اخبار بھرا ہوا ہوتا ہے۔ افلاس، بھوک، چیتھڑے اور دھجیاں۔
ساتھیو! وقت کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ اس ملک میں محمدیؐ انقلاب برپا کرنے کیلئے ہم اپنا مال، اپنا وقت، اپنی توانائی، اپنی تمام جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو کھپا دیں۔ نتائج تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ تمام عواقب اور نتائج سے بے پروا ہوکر اس عظیم مقصد کیلئے جسم و جاں کی بازی لگا دینا چاہئے۔ اس انقلاب کو برپا کرنے کیلئے اگر میں اور آپ سب پھانسیوں پر بھی لٹک جائیں تو میں یہ سمجھوں گا کہ ہماری زندگیاں کام آگئی ہیں ۔ ؂
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے ۔۔۔ یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی تو کوئی بات نہیں

تبصرے بند ہیں۔