رزق حلال

نسیم صباء

حلال رزق کے تعلق سے عوام میں رحجان ہے کہ ذبح شدہ گوشت کھانا ہی حلال ہے۔ ہمارا حلال رزق صرف گوشت تک ہی محدود ہے کیونکہ ہم مسلمان جو ہیں، ایک مسلمان کے لیے ذبح کیا گیا گوشت کھانا حلال ہے یا کوئی بھی جانور ہواسکو بغیر ذبع کیا نہیں کھایا جا تا۔ حلال کی جو بات ہے یہاں تک تو بلکل صحیح ہے لیکن کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ہماری زندگی میں ہم کس حدتک حلال چیزوں کو استعمال کر رہے ہیں اگر ہم کسی بھی ہوٹل یا رسٹورینٹ جاتے ہیں اگر  ہم نے وہاں کھانے کا آرڈر دیا  اور پھر پتا چلا کہ وہاں حلال گوشت نہیں بلکہ بغیر ذبع کیا گیا گوشت ہے تو پھر ہم اسطرح سے نکل چلتے ہیں کہ پوچھومت کے کیا ہو گیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لکتے ہیں ہم لوگ کھانے سے بچ گئے اور اپنے آپ میں ایک طرح کی خوشی محسوس کرتے ہیں مانوکے کوئی فتح حاصل کر لی ہو اس طرح سے ہم مطمئن  ہوتےہیں۔ ۔ ۔ مگرکیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچاہے کے ہمارا کاروبار یا تجارت کس حدتک حلال ہے۔

آج کل ہمارے درمیان جو حالات ہیں اس میں زیادہ تر ایسے ہیں جس میں ہم بے ایمانی میں ملوث ہیں جب ہمارا اٹھنا بیٹھنا تجارت لین دین حرام یا خلاف شریعت ہو تو ہماری دعائیں کیسے قبول ہونگی ہم نماز تو با وضو ہو کراپنے آپ کو پاک کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں لیکن روح کی پاکیزگی کا خیال کیوں نہیں کیا جا تا۔  سورۃ المائدۃ آیت نمبر 87  میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے”  اے ایمان والو اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزہ چیزیں تمارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حد سے آگے مت نکلو۔ بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کر تا”۔  لیکن کسی کا حق مار کر کھانا ضرورت مندوں کی ضرورتوں کا خیال نہ کر تے ہوئے ان کے حقوق چھیننا بھی حرام کے زمرے میں آتا ہے آج کل یہ دیکھا جا رہا ہے کہ بعض لوگ دین کے نام پر حقوق العباد ادا نہیں کر رہے ہیں اور اللہ کے نام پر اللہ کے بندوں کو دھوکہ دے کر ان کی حق تلافی کرتے ہیں ایسے میں جو مال وہ اپنی آمدنی سمجھتے ہیں وہ کسی بھی طرح سے حلال نہیں۔

موجود دور میں لوگ ایسی چیزوں  کو نظر انداز کر تے ہیں جس سے ہمارایمان خطرے میں پڑسکتا ہے۔ چین کے ایک تاجر نے اپنی زندگی کا واقعہ بتا تے ہوئے کہا تھا کہ اس کے پاس ایک مسلمان گاہک آیا تھا، اس چینی تاجر کے پاس جو مال تھا وہ نقلی تھا لیکن مسلمان تاجر نے اس چینی تاجر کو بتایا کہ وہ نقلی مال کو اصلی بنا کر دیگا تو وہ سارا مال خریدے گا چینی نے اسے خلاف اخلاق بتایا تو مسلمان گاہک نے اس پر دبائو ڈالتے ہوئے اسے آخر کار منالیا۔ اس سودے کے مکمل ہونے کے بعد مسلمان کو بھوک لگی تو اس نے چینی تاجرسے کھانے کا ہوٹل پوچھا اور کہنے لگا کہ اسے حلال کھانا ہی چاہئے مسلمان کی اس بات کو سن کر چینی نے جھٹ سے کہا کہ واہ جناب آپ تجارت تو بےایمانی سے کرتے ہو اور کھانا حلال تلاش کرتے ہو۔ بےایمانی سے کمائے جانے والا رزق کہا سے حلال ہو گا؟۔

ہمیں حلال اور حرام میں فرق نہیں پتاچلتا کیونکہ آج کل کا ماحول ہی اس قدر عام ہو  چکا ہے کہ ہر ایک شخص اپنے آپ کو کسی سے بھی کمتر نہیں سمجھتے بس اسی کوشش کو لے کر حرام وحلال کی تمیز کھوچکے ہیں چاہتے تو ہیں حلال کھائے لیکن اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لے ہم حدسے تجاوز کر رہے ہیں اور حرام کو بھی متبادل نام دے کر اسکا استعمال کررہے ہیں۔ کبھی  خود سوچیں کہ ہم کس حدتک حلال روزی کو استعمال کر رہے ہیں اور ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ہماری صبح کی شروعات روزی کے تلاش سے شروع ہو تی ہے اور غروب آفتاب تک چلتی ہے اس دوران ہم جو کماتے ہیں اس میں اس کی ٹوپی اُس کے سر اُس کی ٹوپی اس کے سر ہو تی ہے اور ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے انسانوں کو کیسے بےوقوف بنایا  اور اس خوشی میں کسی کی مجبوری ہو یا کسی کی نا راضگی ہو ہمیں کیا ہمارا مقصد صرف نفع حاصل کرناہوتا ہے اور ہم بات صرف ذبح گوشت کی کرتے ہیں اور ہم حلال رزق تلاش کرتے ہیں۔

 اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں بار بار فرمایا ہے کہ حلال چیزوں کو تلاش کرو اور حرام چیزوں سے بچو۔ ایک مومن پر فرض ہے کہ وہ حلال تلاش کریں آج    حرام چیزوں نام بدلے جانے لگے ہیں، سود کانام بدل کر ہم نے اسے انٹرسٹ بنادیا۔ شرطیہ طورپر لیے جانے والے فنڈ کو ہم نے منافع بنالیا، اسی طرح سے ہم کتنے چیزوں جانے انجانے میں استعمال کرتے ہیں۔  جو روٹی محنت کی کمائی حاصل کی جاتی ہے وہ  اگر باسی بھی ہو جائےحلا ل ہی ہے اور اسکی لذت کم نہیں ہوتی، جبکہ حرام کمانا، کسی کا منہ مارنا، سودی کاروبار کرتے ہوئے ہر وقت تازہ ہی کھانا کیوں نہ پکایا جائےوہ حرام ہی ہے۔

ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کو بھی حلال اور حرام میں فرق معلوم کروائیں، جب ہمارا رزق ہی حرام ہو تو ہماری دعائیں کہا ںسے قبول ہونگی اور کہتے ہیں کہ ہماری کوئی بھی دعا قبول نہیں ہورہی ہے اگر ہم رزق حلال استعمال کرے تو بیشک ہماری دعا بھی قبول ہوگی اور دعا میں اثر بھی ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کی دعا کو بیکار نہیں کر تا۔

تبصرے بند ہیں۔