رسول اللہ ﷺ  پر جادو کا اثر اور اس کی حقیقت

جمشید عالم عبد السلام سلفی

 علامہ البانی رحمہ اللہ نزولِ معوذتین اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کیے جانے کے متعلق سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث اس طرح نقل فرماتے ہیں:

’’ایک یہودی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے مطمئن تھے۔ اس نے (آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کرنے کے لیے) رسی میں گرہیں ڈالیں اور اس عمل کو ایک انصاری آدمی کے کنویں میں رکھ دیا۔  چناں چہ اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کچھ دنوں تک بیمار رہے، [سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق چھ مہینے تک بیمار رہے] آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عیادت کے لیے دو فرشتے آئے، ان میں سے ایک آپ کے سر کے پاس اور دوسرا پیروں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا: کیا تمھیں معلوم ہے کہ انھیں کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: فلاں (یہودی) آپ کے پاس آتا تھا، اس نے آپ کے لیے رسی میں گرہیں لگائی ہیں اور اس عمل کو فلاں انصاری کے کنوئیں میں رکھ دیا ہے، لہٰذا اگر آپ اس کنویں کے پاس کسی آدمی کو بھیجیں اور وہ گرہ کو نکال لے تو کنویں کے پانی کو زرد پائے گا۔ پھر جبرئیل (علیہ السلام) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس معوذتین لے کر تشریف لائے اور کہا: یہودیوں کے ایک آدمی نے آپ پر جادو کیا ہے اور جادو کا عمل فلاں کنویں میں ہے۔ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےایک آدمی [ایک روایت کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ] کو بھیجا تو انھوں نے دیکھا کہ پانی زرد ہو چکا تھا۔ پھر انھوں نے سحر زدہ رسی نکال لی اور واپس آگئے۔ پھر (جبرئیل علیہ السلام) نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا  کہ ایک آیت پڑھ کر ایک گرہ کھولتے جائیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک گرہ کھولی ، پھر ایک ایک آیت پڑھ کر گرہیں کھولنے لگے، جوں جوں گرہیں کھلتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی وجہ سے تخفیف محسوس فرماتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحت یاب ہوگئے، اور ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسے کھڑے ہوئے گویا کہ آپ کو بندھن سے آزاد کردیا گیا ہو۔ اور وہ یہودی اس حادثے کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتا تھا مگر آپ نے اس کے سامنے کسی چیز کا ذکر نہیں کیا اور نہ کبھی اس کی سرزنش کی یہاں تک کہ وہ مرگیا‘‘۔ [سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ج:۶ ص: ۶۱۶ و بعدہ رقم الحدیث:۲۷۶۱]

معوذتین کی تفسیر کرتے ہوئے بعض مفسرین نے محض چند شبہات اور غلط فہمیوں کی بنا پر نزولِ معوذتین سے متعلق ثابت شدہ حدیثِ نبوی کا انکار کیا ہے اور وہ اپنے اس انکار کے لیے علم و اصولِ حدیث سے کوئی مستند دلیل بھی نہیں رکھتے ہیں۔ اس لیے یہاں اس مضمون میں حدیثِ سحر سے متعلق انھیں غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ إن شاء الله

حدیثِ سحر سے متعلق چند وضاحتیں

  • جس بدبخت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کا عمل کیا تھا حدیثوں میں اس کا نام لبید بن عاصم بتایا گیا ہے، اور اس کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ اس کا تعلق قبیلہ بنو زُرَیق سے تھا جو یہودیوں کا حلیف قبیلہ تھا اور لبید نے بظاہر اسلام قبول کرلیا تھا، اسی لیے بعض راویوں نے اُس کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے اسے منافق کہا ہے اور چوں کہ وہ جس قبیلے کا فرد تھا وہ یہودیوں کا حلیف تھا اور یہ جادو بھی انھیں کے ورغلانے کی وجہ سے کیا گیا تھا اس لیے اس معاملے کو دیکھتے ہوئے بعض راویوں نے اسے یہودی کہا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے یہودیت کو اختیار کر لیا ہو اس لیے اسے یہودی کہہ دیا گیا ہو۔

      اسی طرح یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ وہ اصلاً یہودی تھا اور بظاہر اسلام قبول کر لیا تھا اس لیے اس کی اصلی حالت کو دیکھتے ہوئے اسے ’’رجل من الیہود‘‘ کہا گیا ہے اور اس کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہوئے اسے منافق کہا گیا ہے۔ نیز چوں کہ اس کا تعلق یہودیوں کے جس قبیلے سے تھا وہ انصار کے ایک قبیلہ بنو زُریق کا حلیف تھا اس لیے بعض راویوں نے اس کی نسبت بنو زریق کی طرف کردی ہے اور اسے ’’رجل من الانصار‘‘ کہا ہے، اور یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اس کا قبیلہ بنو زریق کے محلے میں رہتا رہا ہوگا اس لیے اسے بنو زریق کی طرف منسوب کردیا گیا۔ واللہ اعلم بالصواب

  • ابن سعد کی روایت کے مطابق جادو کا سامان نکالنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عمار رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا، جب کہ بعض روایتوں کے مطابق سیدنا جبیر بن یاس زرقی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا، اور بعض روایتوں کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود تشریف لے گئے تھے۔ ان تمام کے درمیان جمع و تطبیق کی صورت یہ ہے کہ ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سبھوں کو بھیجا ہو اور پھر بنفس نفیس خود تشریف لے گئے ہوں یا یہ کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے گئے ہوں اور پھر بعد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کو بھیجا ہو اور ساتھ میں خود بھی گئے ہوں، اس لیے راویوں نے اس طرح کی مختلف بات کہی ہے۔

  • آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جادو میں مبتلا رہنے کا دورانیہ چھ ماہ تھا اور جب اس بیماری نے شدت اختیار کی تو اس کا دورانیہ صرف چند دنوں تک محدود تھا جسے بعض راویوں نے ایاماً کے لفظ یعنی چند دنوں سے تعبیر کیا ہے، اور جو بعض روایتوں میں چالیس دن کی بات کہی گئی ہے تو ان دونوں کے مابین تطبیق کی صورت یہ ہوگی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مزاج میں تبدیلی شروع ہونے اور جادو کیے جانے کی مکمل مدت تو چھ ماہ ہے لیکن بیماری کے بڑھنے اور اس میں اضافہ ہونے کی مدت چالیس دن ہے۔ [فتح الباری ۱۰/۲۲۶] اور اس میں بھی صرف چند دنوں تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بیماری کا شدید اثر رہا جیسا کہ بعض راویوں نے اسے ’’ایاماً‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اور مُصنَّف عبدالرزاق کی جس مرسل روایت میں جادو کا دورانیہ ایک سال بیان کیا گیا ہے تو وہ ضعیف ہے۔

  • بعض روایتوں سے بظاہر جادو والی اشیاء نکالنے کی نفی ہو رہی ہے جب کہ دیگر صحیح روایتوں میں صراحت سے یہ بات موجود ہے کہ جادو والی اشیاء نکالی گئیں۔ ان کے درمیان جمع و تطبیق کی صورت یہ ہوگی کہ جن روایتوں میں نہ نکالنے کی بات کہی گئی ہے اس سے ان اشیاءِ سحر کے نکالنے کی نفی نہیں مراد ہے بلکہ انہیں منظر عام پر لانے کی نفی کی گئی ہے تاکہ لوگوں میں کسی طرح کا شر و فساد نہ پھیلے جیسا کہ نفی والی روایتوں میں اس بات کی صراحت پائی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

      ’’أَمَا وَاللَّهِ فَقَدْ شَفَانِي، وَأَكْرَهُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ شَرًّا‘‘

ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دے دی ہے، اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا۔‘‘ [بخاری و مسلم وغیرہ]

 اسی طرح یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کنویں کے پاس پہنچے تو اس کا پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے واپس ہو گئے اور جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے جادو والی اشیاء نکالنے کی بات پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نفی کی، اور پھر دوبارہ سیدنا علی و عمار رضی اللہ عنہما وغیرھما کے ساتھ وہاں پہنچے اور پھر ان اشیاء کو نکالا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دونوں طرح کی روایتیں آئی ہیں۔ اس طرح مذکورہ تطبیق کی صورت میں روایتوں کے مابین کوئی تعارض و اضطراب باقی نہیں رہ جاتا ہے۔

  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کی جانے والی حدیث صحیح بخاری میں سات مقامات پر موجود ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے امام احمد بن حنبل، امام حمیدی، امام ابن ابی شیبہ اور امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ محدثین رحمہم اللہ نے بھی اس حدیث کو بیان کیا ہے، علاوہ ازیں امام مسلم، امام ابن ماجہ، امام نسائی، امام ابن حبان، امام ابو عوانہ، علامہ طحاوی، امام طبرانی، امام بیہقی، علامہ ابن سعد، امام طبری اور علامہ بغوی رحمہم اللہ وغیرہم نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں سحرِ نبوی والی حدیث کو بیان کر رکھا ہے۔

  • حدیثِ سحر کے ابتدائی راوی عروہ بن زبیر رحمہ اللہ پر تدلیس کا الزام لگانا بھی درست نہیں ہے، بلا شبہ وہ تدلیس سے بری ہیں۔ اسی طرح ہشام بن عروہ رحمہ اللہ پر تدلیس، اختلاط اور سٹھیانے کا الزام لگانا سراسر نادانی اور زیادتی ہے، ان کو امام ابو حاتم رازی، امام عجلی، امام محمد بن سعد، یعقوب بن شیبہ، امام یحییٰ بن معین اور امام ابن حبان وغیرہم نے ثقہ قرار دیا ہے، اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اختلاط کی سرے سے نفی کی ہے۔ اور بفرض محال اگر ان کا مدلس ہونا ثابت بھی مان لیا جائے تو انھوں نے صحیح بخاری کی ایک روایت (3175) میں سماع کی تصريح کر رکھی ہے، اسی طرح اگر بفرض محال ان کے مختلط ہونے اور سٹھیا جانے کی بات بھی صحیح مان لی جائے تب بھی جادو والی روایت مزعوم اختلاط سے پہلے کی ثابت ہوتی ہے کیوں کہ یہ روایت صحیح بخاری (6391) میں ہشام سے ابو ضمرہ أنس بن عیاض المدنی نے بھی بیان کر رکھی ہے۔ [دیکھیے: صحیح بخاری کا دفاع از محدث زبیر علی زئی متعلقہ صفحات]

  • حدیثِ سحر متفقہ طور پر صحیح ہے، محدثین کا اس کی صحت پر اتفاق ہے، سب سے پہلے معتزلہ اور متکلمین  نے اپنے مزعومہ وہم و گمان کی بنا پر اس حدیث کا انکار کیا ہے۔ ان منکرین کے پیش رو ابو بکر جصاص معتزلی حنفی صاحبِ ’’احکام القرآن‘‘ ہیں، انھوں نے جن اوہام اور خود ساختہ شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا محدثین و مفسرین پہلے ہی ان اعتراضات کا دنداں شکن اور تشفی بخش جواب دے چکے ہیں پھر بھی بعد کے ادوار میں انھیں شبہات کا سہارا لے کر صاحبِ ’’فی ظلال القرآن‘‘ سید قطب اخوانی، احمد مصطفیٰ المراغی، صاحبِ ’’دعوۃ القرآن‘‘ شمس پیر زادہ، صاحبِ ’’تدبر قرآن‘‘ امین احسن اصلاحی، ’’مذہبی داستانیں اور اس کی حقیقت‘‘ کے مؤلف حبیب الرحمان کاندھلوی، احمد سعید ملتانی اور تمنا عمادی وغیرہ نے حدیثِ سحر نبوی کا انکار کیا ہے، ان میں سے کچھ کا تعلق منکرینِ حدیث سے ہے۔ منکرین حدیثِ سحر کے شبہات و اعتراضات تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ بودے و کمزور ہیں، ان لوگوں نے محض اپنے وہم و گمان کی بنیاد پر ایک ثابت شدہ حقیقت کا انکار کرتے ہوئے ایسے شبہات پیش کیے ہیں جس کا اظہار کسی غیر مسلم دشمنِ اسلام نے بھی نہیں کیا ہے اور پوری اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کسی غیر مسلم کافر نے حدیثِ سحر کی بنیاد پر اسلام اور پیغمبر اسلام پر اعتراض نہیں کیا ہے اور حدیثِ سحر کسی کے اسلام قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ بھی نہیں بنی ہے۔

  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کا کیا جانا دراصل آپ کی نبوت کی صداقت کی واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دشمنوں کی کارستانیوں سے محفوظ رکھا اور جملہ حقیقتِ واقعہ سے آپ کو باخبر کردیا جس سے آپ کے دشمنوں کو ہمیشہ کی طرح منہ کی کھانی پڑی۔ مزید یہ کہ اس بات کی بھی صراحت ہوتی ہے کہ آپ جادوگر نہیں ہیں، کیوں کہ اگر آپ جادوگر ہوتے تو جادو آپ پر اثر انداز نہیں ہوتا، اس طرح اس واقعے سے لوگوں کے سامنے یہ بات کُھل کر آگئی کہ آپ جادوگر نہیں ہیں۔ اسی طرح ان دشمنانِ اسلام کے شبہات و اباطیل کا جواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بہت سی چیزیں چھپا لی تھیں، اگر معاملہ ایسا ہی ہوتا تو صحابہ کرام اس حدیث کو بیان نہ کرتے۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کے اثرات کی نوعیت

نزولِ معوذتین سے متعلق سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں یہ بات آچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اس کا اثر بھی ہوا تھا۔ اس سلسلے میں ان کے علاوہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایتیں آئی ہیں، چناں چہ ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں:

ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سمجھتے تھے کہ ازواجِ مطہرات کے پاس ہو آئے ہیں لیکن ان کے پاس جاتے بھی نہ تھے۔ [سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں: جب یہ حالت ہو تو جادو کا سخت اثر ہے۔] ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمانے لگے: اے عائشہ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ میں اپنے رب سے جو معلوم کرنا چاہتا تھا اللہ نے مجھے اس کی خبر دے دی ہے۔ میرے پاس دو شخص آئے، ان میں سے ایک میرے سرہانے بیٹھا اور ایک میرے پیر کی طرف بیٹھا، سرہانے والے نے دوسرے سے پوچھا: ان کو کیا ہو گیا ہے؟ دوسرے نے کہا: ان پر جادو کیا گیا ہے۔ پوچھا: کس نے جادو کیا ہے؟ کہا: لبید بن عاصم نے [جو یہود کے حلیف قبیلۂ بنو زُریق کا ایک منافق شخص تھا۔] پوچھا: کس چیز میں؟ کہا: سر کے بالوں اور کنگھی میں۔ پوچھا: کہاں رکھا ہے؟ کہا: نر کھجور کے درخت کی چھال کے اندر پتھر کے چٹان تلے ذروان کے کنویں میں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس کنویں کے پاس تشریف لائے اور اس میں سے اسے نکلوایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہی کنواں ہے۔ اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی، اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ چیزیں نکلوائیں۔ کہتی ہیں کہ میں نے کہا: آپ نے اس کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دے دی ہے، اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا۔‘‘ [بخاری کتاب الطب باب ھل یستخرج السحر؟ رقم الحدیث: ۵۷۶۶، مسلم کتاب السلام باب السحر رقم الحدیث: ۲۱۸۹]

جادو کا اثر عارضی اور محدود تھا

 معلوم ہوا کہ جادو کا عارضی و محدود اثر یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خیال گزرتا تھا کہ آپ اپنی بیویوں کے پاس سے ہو آئے ہیں حالاں کہ ایسا ہوتا نہیں تھا۔ یہی بات کچھ روایتوں میں اشارۃً بیان کی گئی ہے کہ آپ کو یہ خیال گزرتا تھا کہ کوئی کام کر لیا ہے حالاں کہ اسے آپ نے کیا نہیں ہوتا۔ جادو کے اثر سے متعلق حدیثوں میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:

’’كَانَ يَرَى أَنَّهُ يَأْتِي النِّسَاءَ وَلَا يَأْتِيهِنَّ‘‘ [حدیث مذکور]

’’كَانَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ صَنَعَ شَيْئًا وَلَمْ يَصْنَعْهُ‘‘ [بخاری]

’’يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ‘‘ [بخاری]

’’يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَأْتِي أَهْلَهُ وَلَا يَأْتِي‘‘ [بخاری]

      حدیث کے مذکورہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ناکردہ کاموں کے بارے میں یہ خیال گزرتا تھا کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالاں کہ وہ کام آپ نے کیا نہ ہوتا تھا۔ اور بطور خاص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خیال گزرتا تھا کہ آپ اپنی بیویوں کے پاس سے ہو آئے ہیں حالاں کہ ایسا ہوتا نہیں تھا۔ اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جادو کا اثر محض آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حافظے تک محدود تھا عقل و دماغ بالکل اس سے محفوظ تھے۔ اور اس بھول کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ احکامِ الٰہی کی نشر و اشاعت میں بھول ہوئی کیوں کہ جس چیز میں بھول ہوتی تھی حدیث کے الفاظ میں اس کی تعیین موجود ہے اور اس بھول کی نوعیت وہی ہے جس طرح کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز وغیرہ سے متعلق جزوی طور پر بھول ہوئی تھی۔

حدیثِ سحر منصبِ نبوت کے مُنافی نہیں

      جب یہ بات دلائلِ ساطعہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بشر تھے اور بشری خواص و لوازمات آپ کو بھی لاحق ہوتی تھیں، تو اُسی طرح آپ پر جادو کا بھی اثر ہوا اور یہ اثر آپ کی ذات تک محدود تھا، فرائض و منصبِ نبوت اس سے قطعاً متاثر نہیں ہوئی تھی۔ معاذ اللہ اگر ایسی بات ہوتی تو کفار و مشرکین اسی وقت آپ کے ہمنوا ہو گئے ہوتے، اور آپ کی تعلیمات میں ان کے عقائد و رسومات کی چھاپ نظر آتی، حالاں کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اور اگر جادو ہی کے ذریعہ آپ کو نبوت کے دعوے پر اُکسایا گیا ہوتا تو اتنی شد و مد کے ساتھ آپ کی مخالفت نہ کی جاتی۔ علامہ ابن القيم رحمہ اللہ قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

  ’’جادو ایک بیماری ہے اور اس کا تعلق ان بیماریوں سے ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مبتلا ہونا قابلِ تعجب نہیں۔ جس طرح دوسری بیماریاں آپ کو لاحق ہوتی تھیں ویسے جادو بھی آپ پر اثر کرتا تھا، اس سے مرتبہ نبوت میں کوئی نقص نہیں پیدا ہوتا۔ اور آپ کا یہ خیال گزرنا کہ آپ نے یہ کام کیا حالاں کہ آپ سے وہ عمل سرزد نہ ہوتا تھا، اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ آپ کی خبرِ نبوت کی صداقت میں بھی کسی طرح کی آمیزش ممکن ہے۔ کیوں کہ اس کی صداقت پر واضح دلائل شاہد ہیں اور آپ کی عصمت پر اجماع امت موجود ہے۔ یہ صورتِ سحر تو آپ کے دنیاوی معاملات میں پیش آئی جس کے لیے آپ کی بعثت نہ تھی اور نہ آپ کی برتری ان دنیاوی معاملات پر مبنی تھی۔ دنیاوی معاملات میں تو دوسرے انسانوں کی طرح آپ پر بھی اُفتاد آجاتی تھی۔ پھر اگر دنیاوی معاملات آپ کو ایسی صورت میں پیش کرنے کی جو حقیقت ہے اس کے برعکس آپ کا سوچنا اور خیال کرنا کچھ بعید نہیں۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد ہی آپ پر حقیقت آئینہ ہو جاتی تھی۔‘‘ [طب نبوی ص: 196]

اور اس احساس و خیال کا ادراک خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی ہوتا تھا اور آپ اس سے بخوبی واقف ہوتے تھے کہ یہ محض وہم ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اور بعض ازواج مطہرات بھی اس سے واقف تھیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وحی الہی کے سلسلے میں آپ کو اس طرح کی بھول ہوئی ہو یا عبادات کے سلسلے میں آپ کو ایسا خیال گزرا ہو کہ نہ کی ہوئی عبادت کے متعلق آپ نے سمجھ لیا ہو کہ اسے ادا کر لیا، غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت اور نبوی زندگی اس سے قطعاً متاثر نہیں ہوئی تھی اور دعوت و تبلیغ کے کاز میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو کفار و مشرکین، یہود و نصاریٰ اور منافقین اسے لے اڑتے۔ لہذا تاثیرِ سحر سے متعلق اپنی طرف سے کوئی بات گھڑنا اور اپنی اُس ظنی بات کو بنیاد بنا کر سحرِ نبوی والی روایتوں کو کسی دلیل و استناد کے بغیر انکار کرنا درست نہیں ہے اور نہ کوئی علمی طریقہ ہے۔ اور جب یہ بات خود احادیثِ سحر سے واضح ہے کہ جادو کے اثرات آپ کے جسم تک محدود تھے اور اس سے آپ کی روحانیت قطعاً متاثر نہیں ہوئی تھی تو پھر اپنی جانب سے اسے عصمتِ نبوت کے منافی قرار دینا کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ جب کہ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر بھی جادو کا وقتی اور محدود اثر ہوا تھا جیسا کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں کئی مقامات پر اس کا تذکرہ ہوا ہے۔

جادو کا اثر دنیاوی امور تک محدود تھا

 بعض لوگوں نے یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی لاحاصل گفتگو کی ہے کہ جادو کے اثر کو دنیاوی معاملات تک محدود ماننے کی کوئی دلیل نہیں ہے اس لیے کوئی بھی شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ جس طرح جادو سے متاثر ہونے کی وجہ سے دنیاوی معاملات میں آپ سے بھول ہوتی تھی ویسے ہی دینی معاملات میں بھی آپ سے بھول ہونے کا امکان ہے۔ جب کہ یہ حقیقتِ واقعہ کے برخلاف صرف ذہنی اختراع ہے کیوں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی عصمت اور دین کی حفاظت پر مسلمانوں کا اجماع قائم ہو چکا ہے۔ اس طرح کا اعتراض تو عام حالات میں ہونے والی بھول چوک کو بھی بنیاد بنا کر کیا جاسکتا ہے۔

حدیثِ سحر قرآن کے مخالف نہیں

 پہلی بات تو یہ حقیقت ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کریم کے مخالف نہیں ہو سکتی ہے، محدثینِ کرام کا یہی متفقہ فیصلہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انسانی ذہن کی کجی اور منکرینِ حدیث کی کوتاہ فہمی دونوں کے درمیان تطابق نہ پیدا کر سکے۔

کفارِ مکہ بطور استہزاء نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو ساحر پاگل دیوانہ کہنے کے ساتھ ساتھ مسحور بھی کہتے تھے اور کفار و مشرکین اس طرح کا الزام وحی و رسالت اور تشریعی امور سے متعلق لگاتے تھے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 {إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا} ترجمہ: ’’جب کہ ظالم کہتے ہیں کہ تم ایک جادو زدہ آدمی کی پیروی کرتے ہو۔‘‘ [بنی اسرائیل: 47]

منکرینِ حدیث نے سحرِ نبوی والی روایت کو بیجا طور پر قرآن کریم کی مذکورہ آیتِ کریمہ کے خلاف قرار دینے کی ناروا کوشش کی ہے۔ جب کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ’’مسحور‘‘ نہیں کہتا بلکہ کفارِ مکہ آپ کو بطور طنز و استہزاء مسحور کہتے تھے اور دیگر انبیائے کرام کے ماننے والے بھی اپنے اپنے نبی کو مسحور قرار دیتے تھے اور ان سبھوں کے کہنے کا مقصود یہی ہوتا تھا کہ وہ انھیں مجنون و مفتور العقل قرار دیتے ہوئے اللہ کے لائے ہوئے پیغام اور وحی و رسالت کو ان کا جوشِ جنون قرار دیتے تھے۔ چناں چہ قرآن کریم میں ان کے اسی بات کی نفی کی گئی ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جو جادو کیا گیا تھا وہ ایک الگ چیز تھی، اس جادو کی نوعیت ایسی نہیں تھی کہ آپ ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے بلکہ آپ کو جو خیال گزرتا تھا آپ اس کا بخوبی ادراک بھی رکھتے تھے۔ پورے قرآن کریم میں کہیں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ دنیاوی امور میں نبی کی ذات جادو سے متاثر نہیں ہوسکتی ہے بلکہ اس کے برخلاف سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے متعلق قرآنی بیانات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی ذات بھی وقتی طور پر جادو سے متاثر ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:

 ﴿قَالَ بَلۡ أَلۡقُواْۖ فَإِذَا حِبَالُهُمۡ وَعِصِيُّهُمۡ يُخَيَّلُ إِلَيۡهِ مِن سِحۡرِهِمۡ أَنَّهَا تَسۡعَىٰ ، فَأَوۡجَسَ فِي نَفۡسِهِۦ خِيفَةٗ مُّوسَىٰ ، قُلۡنَا لَا تَخَفۡ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡأَعۡلَىٰ﴾ ترجمہ: ’’(موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: نہیں بلکہ تمھیں لوگ پھینکو، پھر یکایک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں موسیٰ کے خیال میں ایسی آنے لگیں کہ وہ دوڑ رہی ہیں، پس موسیٰ اپنے دل میں ڈر گیا، ہم نے کہا: مت ڈرو، بے شک تم ہی غالب ہوگے۔‘‘ [طہ: 66تا68]

 معلوم ہوا کہ وقتی طور پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر جادو کا اثر ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ ڈر گئے تھے۔ اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرعون کا یہ قول نقل کیا ہے:

{إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا} ترجمہ: ’’اے موسیٰ! بے شک میں سمجھتا ہوں کہ تو ضرور سحر زدہ ہے۔‘‘ [الإسراء: 101]

  تو کیا ہم اِس آیت کی بنا پر اُن تمام آیات کا انکار کر دیں گے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر جادو کا محدود و وقتی اثر ہوا؟ یا پھر اِس کی بنا پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو مسحور قرار دیں گے؟ یا پھر ہم یہ بات تسلیم کر لیں گے کہ قرآن کریم کی دونوں طرح کی آیات میں کوئی تصادم و ٹکراؤ نہیں ہے؟ اگر ان میں ٹکراؤ نہیں ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو والی روایات اور مذکورہ بالا قرآنی آیات کے مابین بھی کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’کفار جو انبیاء کو ’’مسحور‘‘ کہتے تھے، چوں کہ ان کا مطلب نبوت کا ابطال اور یہ ظاہر کرنا تھا کہ جادو کے اثر سے ان کی عقل ٹھکانے نہیں رہی، گویا ’’مسحور‘‘ کے معنی ’’مجنون‘‘ کے لیتے تھے اور وحی الہٰی کو جوش جنون قرار دیتے تھے۔ (العیاذ باللہ) اس لیے قرآن میں ان کی تکذیب و تردید ضروری ہوئی۔ یہ دعویٰ کہیں نہیں کیا گیا کہ انبیاء (علیہم السلام) لوازمِ بشریت سے مستشنٰی ہیں۔ اور کسی وقت ایک آن کے لیے کسی نبی پر سحر کا معمولی اثر جو فرائضِ بعثت میں اصلاً خلل انداز نہ ہو، نہیں ہوسکتا۔‘‘ [قرآن کریم مع اردو ترجمہ و تفسیر عثمانی ص: 809]

انکارِ حدیث کے لیے ثابت شدہ خبر واحد کو رد کرنے کا شاخسانہ

  اکثر و بیشتر منکرینِ حدیث کی یہ عادت ہے کہ وہ من مانی طور پر جس حدیث کو انکار کرنا چاہتے ہیں اس کے بارے میں یہ راگ الاپنے لگتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے اس لیے اس سے استدلال درست نہیں ہے خواہ وہ روایت معیارِ صحت کے اعلیٰ درجے ہی پر کیوں نہ ہو۔ حالاں کہ یہ نظریہ غلط اور سراسر گمراہی کا باعث ہے، اور یہ اسلام میں دخیل غیر اسلامی نظریہ ہے، سلفِ صالحین محدثین اور علمائے اہلِ سنت میں سے کوئی اس کا قائل نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین کے بیشتر مسائل و احکام اور بہت سے عقائد کی بنیاد صحیح اخبار آحاد ہی پر ہے۔ محدثین رحمہم اللہ اسی بات کے قائل ہیں کہ صحیح اخبارِ آحاد حجت ہیں اور عقائد میں بھی ان سے استدلال کرنا واجب ہے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کی جانے والی احادیث کا یہ کہہ کر انکار کرنا کہ یہ متواتر نہیں ہیں بلکہ اخبار آحاد میں سے ہیں، درست نہیں ہے۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کا اثر ہونا یا نہ ہونا کوئی اعتقادی مسئلہ بھی نہیں ہے یہ محض ایک بیماری ہے جو دیگر عوارض کی طرح آپ کو لاحق ہوئی اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے شفایاب ہو گئے۔

اللہ ہمیں کتاب و سنت کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔