مطالعۂ کتب: اہمیت و فوائد

 محبوب عالم عبدالسلام

  مطالعہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی غور و فکر اور توجہ و دھیان کے ہیں، کسی چیز کو جاننے اور اس سے واقفیت پیدا کرنے کی غرض سے اسے دیکھنا، پرکھنا اور سمجھنا، کسی تحریر یا کتاب کو غور سے پڑھنا اور استاد سے سبق پڑھنے سے پیشتر طالب علموں کا سبق کے معنی مطلب پر غور کرنا اور عبارت کے معنی و مفہوم کو سمجھنا مطالعہ کہلاتا ہے۔ اور عرفِ عام میں مطالعہ کا اطلاق کتاب بینی اور کتاب کی ورق گردانی پر بھی ہوتا ہے۔ اس طرح مطالعہ کا مفہوم یہ ہوا کہ آدمی کتابوں کو پڑھ کر اُن کے مضامین اپنے ذہن ودماغ میں اتار لے اور اُن کے مشمولات کو ہضم کر لے۔

موجودہ دور میں اگر چہ ٹی۔وی، انٹرنیٹ اور موبائل نے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کر لیا ہے، مطالعے کے لیے نئے نئے ذرائع متعارف ہو چکے ہیں اور ورقی کتابوں کی جگہ لوگ پی ڈی ایف کتابوں کے اسیر ہورہے ہیں، لیکن پھر بھی پریس سے چھپی ہوئی کتابوں کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلَّم اور برقرار ہے۔ اگرچہ جدید ٹیکنالوجی ای بُک اور پی ڈی ایف سے بہت آسانی ہوئی ہے، لیکن یہ ورقی کتاب کا نعم البدل ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ورقی کتابوں کے مطالعہ سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ پڑھی ہوئی باتیں آدمی کے ذہن پر مرتسم ہو جاتی ہیں اور دیر پا ثابت ہوتی ہیں، پڑھے ہوئے مواد پر بھی بوقت ضرورت آسانی سے نگاہ ڈالی جا سکتی ہے اور ورقی کتابوں کے مطالعہ سے انسان کے ذہن و دماغ کی ورزش بھی ہوتی ہے، اور اس کے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ بھی ہوتا ہے، جب کہ موبائل اور لیپ ٹاپ وغیرہ پر مطالعے سے بہت جلد تھکن کا احساس ہونے لگتا ہے مزید اس سے ہماری صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔

مطالعۂ کتب کے بے شمار فوائد ہیں، جس طرح غذائیت سے بھرپور غذا انسانی صحت کے لیے ناگزیر ہوتا ہے، اسی طرح روحانی اور فکری ارتقا کے لیے اچھی کتابوں کا مطالعہ جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے۔ آدمی کتابوں کے مطالعہ سے ہزاروں سال قبل کے لوگوں سے گویا ملاقات کر لیتا ہے اور تصورات کی دنیا میں جا کر تاریخ کے بلند پایہ انسانوں کی صحبت میں بیٹھ کر ان سے تبادلۂ خیال کرنے کا شرف حاصل کر لیتا ہے۔ متعدد و متنوع افکار و خیالات سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے۔

  مطالعۂ کتب سے ذہن میں وسعت اور سوچ و فکر میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے، نیک و بد میں تمیز کرنے کا ہنر پیدا ہوتا ہے، شعور و احساس بیدار ہوتا ہے اور یہی شعور و احساس انقلاب آفریں کارنامے انجام دینے پر ابھارتا ہے، اگر انسان کا شعور مرجائے، احساس پژمردہ ہوجائے، فکر و سوچ منجمد ہو جائیں تو انسان تندرست و توانا ہونے کے باوجود بھی زندہ لاش کی مانند ہوجائے گا۔

مطالعہ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان مطالعے میں منہمک ہوکر غلط قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچ جاتا ہے، فحش اور بدبودار مجلسوں سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیتا ہے۔ اس لیے کتابوں کی اہمیت اور مطالعۂ کتب کی افادیت کو سمجھتے ہوئے ہمیں مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہیے، ہمارا رشتہ کتابوں سے مضبوط ہونا چاہیے، سفر ہو یا حضر کتابیں ہماری ہمدم، ہم سفر اور ہم نشین ہونی چاہییں۔ کیوں کہ کتابیں ہماری محسن اور غم خوار ہیں، ہماری زندگی کی سب سے اہم اور باوفا دوست ہیں، کتابیں ہمیں تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتیں، اکتاہٹ کو ہمارے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتیں، ہمارے حوصلوں کو بلند کرتی ہیں، ہماری ذہن سازی کرتی ہیں، ہمیں جینے کا سلیقہ سکھاتی ہیں، ہمارے حزن و ملال اور قلق و اضطراب کو دور کرتی ہیں، ہمیں خوش مزاج اور خوش اطوار بناتی ہیں، کتابیں تنہائی کی بہترین ساتھی اور رفیق ہیں۔ مطالعہ سے مشاہدہ کا سلیقہ آتا ہے، مشاہدہ سے اخذ و استنباط کی حس بڑھ جاتی ہے اور روز مرہ کے عام مشاہدے سے آدمی حالات و واقعات کا تحلیل و تجزیہ کرنےکا اہل ہو جاتا ہے۔

غرض یہ کہ اگر آدمی کے اندر مطالعے کا ذوق و شوق پیدا ہوجائے تو اس کے علم میں زوال کے بجائے عروج ہی عروج ہوگا اور وہ غم والم کی دنیا سے بیزار ہوکر ایک ایسے روشن شاہراہ پر گامزن ہوگا، جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی، بس شرط یہ ہے کہ ہمارے اندر کتابوں کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مشمولات کو ہضم کرنے کی تڑپ پیدا ہونی چاہیے، اور اسے اپنی زندگی میں برتنے کا ہنر آنا چاہیے۔ شورش کاشمیری کے بقول مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ بیان کرتے تھے کہ میرا مطالعہ جوانی سے پہلے ہی جوان ہوگیا تھا میں کتابوں کو پڑھتا نہیں، ہضم کرتا تھا۔

آج سے کئی سو سال قبل اپنے اسلاف، علمائے کرام، مسلم مفکرین اور دانشوران کی زندگیوں کا جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے شب و روز کا بیشتر حصہ مطالعۂ کتب اور تصنیف و تالیف میں گزرتا تھا، کتابیں اُن کا اوڑھنا اور بچھونا ہوتی تھیں۔ جب کہ دورِ حاضر کی طرح نہ اُس دور میں انٹرنیٹ کا وجود تھا، نہ کمپیوٹر اور پریس کا ہی نظام تھا۔ اس قدر تنگی و عسرت کے باوجود وہ پڑھنے لکھنے کے عادی تھے اور دور دراز مقامات کا سفر کرکے علم کی پیاس بجھانے کے لیے ہمہ تن گوش رہتے تھے، لکڑی کے قلم اور روشنائی سے تصنیفات و تالیفات کے بیش قیمت موتی بکھیر کر علم و فکر کا دریا بہاتے تھے۔ جس سے دنیا پر ان کی ساکھ، شناخت اور رعب و دبدبہ قائم تھا اور غیر مسلم اقوام ان کے سامنے سرنگوں رہتی تھیں اور آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اُن کی مایہ ناز کتابیں مصدر و مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں اور پوری دنیا ان کی تحریر کردہ کتابوں سے استفادہ کررہی ہے۔

 آج جس ذلت و رسوائی سے ہم دوچار ہیں، محکومیت و مغلوبیت کی زندگی گزار رہے ہیں، شکست و ریخت کے جو سیاہ بادل ہم پر منڈلا رہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کے ڈگر کو چھوڑ دیا ہے، کتابوں سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے، محنت و مشقت سے جی چراتے ہیں، تحقیق و ریسرچ کو گراں تصور کرتے ہیں، اگر آج ہم اپنی عظمتِ رفتہ کی یاد تازہ کر لیں اور اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کتابوں سے اپنا رشتہ استوار کرلیں، ان کے چھوڑے ہوئے ورثہ کو حرز جاں بنا لیں، قدیم صالح اور جدید نافع کے حسین امتزاج سے استفادہ کر لیں تو آج بھی ہم دنیا کے امام بن سکتے ہیں، اور دنیا ہمارے علوم و فنون اور کارہائے نمایاں کے آگے گھٹنے ٹیک سکتی ہے۔

مطالعۂ کتب کے لیے ضروری ہے کہ عمدہ کتابوں کے انتخاب کے ساتھ ساتھ اس کے لیے مخصوص اوقات کو متعین کریں اور مطالعہ کے بہترین طریقۂ کار کو بروئے کار لائیں تاکہ ہم اپنے مطالعہ کے ذریعے بھرپور استفادہ کرسکیں۔

  سوال یہ ہے کہ مطالعہ کتنا کیا جائے؟ اس کا کوئی حتمی جواب دینا مشکل ہے۔ ہاں! اصل چیز ذوقِ مطالعہ ہے، اگر ذوق پیدا ہوجائے تو دماغ کو نہ تھکن کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی جستجو و طلب کی تشنگی کم ہوتی ہے، پھر بھی مطالعہ کے دوران جب تک ہمیں تھکن اور الجھن کا احساس نہ ہو مطالعہ جاری رکھنا چاہیے بصورت دیگر مطالعے کا سلسلہ ترک کردینا چاہیے۔

 مطالعہ کن کتابوں کا کیا جائے؟ تو یہ چیز آدمی کے ذوق اور طبیعت پر منحصر ہے، جس کو جس فن میں بھی دلچسپی ہو اسی فن سے متعلق وہ کتابوں کا مطالعہ کر سکتا ہے، البتہ خیال رہے کہ مطالعہ کے لیے ابتدائی دور میں ایسی کتابوں کا انتخاب ہونا چاہیے جو عام فہم اور سلیس انداز پر مرتب کی گئی ہوں اور بہتر ہے کہ وہ کتابیں قصے، کہانیوں اور طنز و مزاح پر مبنی ہوں، تاکہ دل لگی کا سامان بھی ہو جائے اور مطالعے کا ذوق بھی پروان چڑھے۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ قصے اور کہانیاں اسلامی اور اصلاحی واقعات پر مبنی ہوں، جو اخلاق وکردار سنوارنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکیں، اور مستقبل میں ہمارے لیے مشعل راہ بن سکیں، نہ کہ وہ کہانیاں ایسی ہوں جو ہمارے اخلاق پر منفی اور برے اثرات مرتب کریں، ہمارے عقائد میں خلل پیدا کریں، ہمارے ذہن کو متزلزل کرکے اسلامی ذہن بنانے کے بجائے تخریبی و الحادی ذہن بنا دیں۔ اسی طرح عشق و عاشقی اور جھوٹے محبت و الفت کے نام پر بکنے والی ناولوں، افسانوں اور فحش لٹریچر سے بھی لگاؤ نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ یہ ہمیں حقیقت کی دنیا سے نکال کر خوابوں میں جینا سکھاتی ہیں، ہمیں بزدل، ڈرپوک بناتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ہمارے ایمان پر ڈاکہ ڈالتی ہیں، شخصیت کی ثقاہت کو مجروح کر کے رکھ دیتی ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ اس سے ہماری زبان درست ہوتی ہے، نئے نئے الفاظ ملتے ہیں، جچے تلے جملے میسر آتے ہیں، مگر اس سے زیادہ نقصان یہ ہے کہ ہمارے ایمان کو کھوکھلا کرتی ہیں، بدکاری و بے حیائی کے ذرائع فراہم کرکے ہمیں اُن کی انجام دہی پر اُبھارتی ہیں، ہمارے ذہن کو محدود کرکے غلط اور پُر پیچ راہوں پر ڈال دیتی ہیں۔

 مطالعہ کے لیے ابتدائی دور میں اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، امہات المومنین رضی اللہ علیہن اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت و سوانح پر لکھی گئی ابتدائی کتابوں کا مطالعہ کریں تو یہ ہمارے لیے کافی سود مند ثابت ہوں گی، اسی طرح اسلامی شخصیات کی حالات زندگی پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کریں تو مطالعہ کرنے کی عادت بھی پڑے گی اور اپنے اسلاف کی تاریخ سے بھی ہم آشنا ہوجائیں گے۔ شخصیات کی سوانح پڑھنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس ضمن میں اُن کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہماری نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگتی ہے اور انھوں نے کن کتابوں کا مطالعہ کیا؟ زندگی کے نشیب و فراز سے کس طرح نبرد آزما ہوئے؟ کون سے طریقہ کار کو اپنایا؟ جس کی وجہ سے آج تاریخ میں ان کے نام سنہرے حروف میں محفوظ ہیں، اس سے بھی آشنائی ہوجاتی ہے، مزید برآں ایک طرح کی امنگ اور تڑپ بھی دل میں انگڑائی لینے لگتی ہے کہ کاش! ہم بھی انھیں کی طرح گراں قدر خدمات انجام دیکر تاریخ کے صفحات میں اپنا نام درج کروا سکیں۔

 مطالعہ میں انہماک و دل چسپی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ روزانہ ہم قرآن کریم کے ایک حصے کی تلاوت مخصوص کر لیں۔ اس سے ہمیں سکون و راحت بھی ملے گا، ہمارے مطالعے کا ذوق بھی بڑھے گا اور روز مرہ کی زندگی میں فکری گمراہی کا خدشہ نہیں رہے گا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مطلوبِ رب کو جاننے کے لیے قرآن کریم کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں۔ اس وقت مختلف مفسرین کی تفسیریں ہمارے سامنے موجود ہیں، اُن کی مدد سے قرآنی پیغام کو سمجھنے کی بھی حتی المقدور کوشش کریں اور کئی مترجمین و مفسرین کی تراجم و تفاسیر کو سامنے رکھ کر پڑھیں، اس سے فکر و نظر میں بالیدگی پیدا ہوگی، قلم و قرطاس کی چاکری اور زندگی کے مراحل میں زیغ و ضلال کا خدشہ نہیں رہے گا۔ یہ ہمارے لیے کتنی محرومی کی بات ہے کہ ہم مختلف و متنوع موضوعات پر مخلوق کے ہاتھوں لکھی ہوئی دنیا جہان کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور نور و ہدایت کے سرچشمہ سردارِ کتب سے اپنا رشتہ منقطع رکھتے ہیں اور اگر پڑھتے بھی ہیں تو اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جب کہ خشک موضوعات اور پر پیچ مسائل کو سمجھنے اور ان کی گتھی سلجھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم اور اس کی معتبر تفاسیر کو ہمہ وقت مطالعے میں رکھیں۔

مطالعۂ کتب کے لیے ضروری ہے کہ اچھی اور کردار ساز کتابوں کا انتخاب کریں کیوں کہ اچھی کتابوں کا مطالعہ انسان کو مہذب و شائستہ بناتا ہے، شخصیت میں نکھار اور وقار عطا کرتا ہے۔ کتابوں کی دنیا میں جہاں ایک طرف ہمارا سابقہ اعلیٰ اخلاق و کردار اور بلند فکر و خیال سے متصف زندہ دل لوگوں سے پڑتا ہے، وہیں دوسری طرف بدکردار اور متعفن و جانبدار قسم کے لوگ بھی نظر آتے ہیں۔ ہمیں ان دونوں طرح کے لوگوں سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اچھے لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیوں کہ اچھے لوگوں کی کتابیں اور ان کی زندگی کے بارے میں پڑھ کر فطرۃً انھیں کے نقشِ قدم پر چلنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔

 ابتدائی دور میں مطالعہ کے لیے ایک راہنما اور گائڈ کی ضرورت ہوتی ہے خواہ وہ رہمنا ہمارا کوئی استاد ہو یا کوئی لائق فائق دوست یا ساتھی، تاکہ کتابوں کے معیار سے متعلق وہ ہماری رہنمائی کرے کہ کون سی کتابیں پڑھنی ہمارے لیے مفید ہیں؟ اور کون سی بے سود؟ کون سی کتابیں ہمارے اخلاق و کردار سنوارنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گی؟ اور کون سی کتابیں ہمارے کردار پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہیں؟ ابتدا میں کوئی رہنمائی کرنے والا نہ ہو تو آدمی کنفیوژ اور ذہنی انتشار کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے اور اِدھر اُدھر کی دو چار کتابیں پڑھ کر مطالعے کا سلسلہ ترک کر دیتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے اندر مطالعے کا شوق اور جذبہ وافر مقدار میں ہوتا ہے، لیکن صحیح رہنمائی نہ ملنے اور اچھی کتابوں کا انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے دھیرے دھیرے وہ جذبہ سرد پڑ جاتا ہے اور بالآخر آدمی تھک ہار کر مطالعے کا سلسلہ ترک کردیتا ہے۔ اس لیے انتخابِ کتب کے معاملے میں مسلسل اپنے بڑوں کی رہنمائی اور ان سے صلاح و مشورہ لیتے رہنا چاہیے۔

  کسی بھی زبان کی کتاب کا مطالعہ کرتے وقت مطالعہ کا بھر پور فائدہ اٹھانے کے لیے ابتدائی دور میں ضروری ہے کہ کتاب کے اہم اور خاص حصوں کو نشان زد کریں تاکہ بعد میں خاص نکات کو تلاش کرنے میں آسانی رہے، مشکل اور نادر الفاظ، مترادف و متضاد الفاظ، دلکش اور جچے تلے جملے، محاورات اور ضرب الامثال، تشبیہات و استعارات، پسندیدہ و فکر انگیز اشعار، اہم اور سبق آموز واقعات کا نوٹ تیار کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر نوٹ تیار کرنے میں کاہلی ہے تو نہ ہماری فکر و نظر میں وسعت و بالیدگی پیدا ہوگی اور نہ گہرائی و گیرائی آسکتی ہے اور نہ ہی مطالعے سے خاطر خواہ استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ نوٹ تیار کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے پاس نادر اور نایاب الفاظ اور جملوں کا ایک معتدبہ ذخیرہ جمع ہوجاتا ہے اور پھر وہ نوٹ شدہ چیزیں ایک دو بار نظر دوڑانے سے تقریباً ازبر ہوجاتی ہیں اور ہمارے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مطالعہ کے دوران لغت کا سہارا لینا بھی ضروری ہوتا ہے، کیوں کہ لغت کی مدد سے ہمیں ایک ہی لفظ کے متعدد معانی سے آشنائی ہوجاتی ہے، تلفظ و املا کی درستی ہوجاتی ہے اور نوٹ شدہ جملوں میں کچھ جملے اتنے اہم اور دلپذیر ہوتے ہیں کہ انھیں بار بار دہرانا اور حفظ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اگر آدمی اسے ازبر کرلے تو گویا وہ اسی کے جملے ہو جاتے ہیں اور عام گفتگو اور تحریر و تقریر میں معاون اور کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی زبان کے تین سو سے پانچ سو تک مختلف قسم کے معیاری اور ادبی جملوں کو حفظ کر لیا جائے تو اس زبان میں آسانی کے ساتھ تحریر و نگارش یا تقریر و خطابت کے ذریعہ اپنی مافی الضمیر کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔

 ملک و ملت کے حالات کی واقفیت، اور دنیا و اہلِ دنیا کے بدلتے افکار و نظریات، روز مرہ وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور نت نئے علمی و سائنسی تجربات سے آگاہی کے لیے ضروری ہے کہ جدید اخبار و رسائل اور روزناموں کو بھی زیر مطالعہ رکھا جائے، موجودہ دور میں یہ ایک ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔ اگر اخبارات و جرائد ہمارے مطالعہ میں نہیں رہیں گی تو اس کی وجہ سے بسا اوقات ہمیں سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 مطالعہ مرحلہ وار کرنا چاہیے یعنی پہلے آسان اسلوب میں لکھی گئی کتابوں سے مطالعے کا آغاز کیا جائے، پھر جب عبارت فہمی پر مکمل دسترس حاصل ہوجائے تو فصاحت و بلاغت سے آراستہ مشکل اور پیچیدہ تراکیب، نیز خشک اور دقیق مباحث پر مشتمل کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔

 مطالعہ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سب سے پہلے مطالعہ کے لیے اوقات کو تقسیم کر لیا جائے یعنی جب ذہن خالی ہو تو خشک اور پیچیدہ مسائل پر مبنی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے، اور جب ذہن الجھن اور خلش کا شکار ہو اور بہتر طور پر کام نہ کرے تو سلیس اور عام فہم کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تاکہ اُن کے مشمولات و مندرجات ہمارے ذہن و دماغ کو اپیل کر سکیں۔ اور اگر بے ڈھنگی اور بد نظامی کے ساتھ مطالعے کا شوق رہا تو مطالعہ سے خاطر خواہ استفادہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔

مطالعے کے دوران کوشش یہ ہونی چاہیے کہ شور و غل سے پاک ماحول میں پورے انہماک کے ساتھ مطالعہ کیا جائے، توجہ کو مبذول کرنے والی اشیاء کو اپنے سے دور رکھا جائے یا بہ وقت مطالعہ خود اُن سے دور رہا جائے تاکہ مطالعہ کے دوران کسی قسم کا خلل واقع نہ ہو اور جو کچھ ہم مطالعہ کریں وہ ذہن نشین ہو جائے۔ مطالعہ سے استفادہ کے لیے ضروری ہے کہ فرصت کے لمحات میں پوری تیاری و یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور اگر اس طرح کا ماحول میسر نہ ہو تو دوران مطالعہ مکمل دھیان کتابوں کی طرف مرکوز رکھنی چاہیے، کسی طرح کی آواز اور آپس میں گفتگو کرنے والوں کی گفتگو پر دھیان نہ دیا جائے تاکہ شوق و انہماک میں کسی طرح کا کوئی روڑا حائل نہ ہو۔

اور سب سے اہم بات اور لائق التفات امر یہ ہے کہ صرف یہ ضروری نہیں کہ ہر وقت کتابوں میں غرق رہا جائے بلکہ مطالعہ کے ساتھ ساتھ حاصلِ مطالعہ بھی بہت ضروری ہے۔ حاصلِ مطالعہ یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ پڑھا ہے اس کے بارے میں کتنی معلومات ذہن میں جمع ہوئیں، کتنے مسائل سے ہم روشناس ہوئے، اس کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ اور اس کا سب سے عمدہ ذریعہ یہ ہے کہ اسے عملی زندگی میں داخل کیا جائے اور ذہن و دماغ میں موجود عمدہ فکر و خیال کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے اسے صفحۂ قرطاس پر بھی رقم کیا جائے۔ اگر مطالعہ کے ساتھ حاصلِ مطالعہ نہیں تو مطالعہ بے سود اور بے معنی ثابت ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے!

تجھے کتاب  سے ممکن نہیں فراغ کہ تو

کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

 کتاب کو اس طرح سے پڑھ لیا جائے، اس کے مشمولات کو اس طرح ذہن نشین کر لیا جائے کہ ایسا محسوس ہو صاحبِ کتاب یعنی مصنف ہم ہی ہیں۔

للہ ہمیں مطالعۂ کتب کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے بیش بہا مثبت فوائد سے مستفیض کرے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔