مروجہ رسم جہیز اور اسلامی نقطۂ نظر

محمد عرفان شیخ یونس سراجی

اس موضوع پہ بہت سی تحریرات اورمضامین مجلدات وجرائد میں شائع   ہوئی ہوں گی،جن کےذریعہ  سماج ومعاشرہ میں وقوع پذیر خونچکاں واردات اور دل سوز واقعات   سے آگہی ہوئی ہوگی ۔ تاہم راقم السطوراس سے متعلق کچھ حساس گوشوں کی طرف قلم کو مہمیز دینا چاہتا ہے۔چوں کہ اس کے نقصانات ومضرات اور منفی اثرات بے کراں ہیں ،جس کی وجہ سے  مضمون کاشاخسانہ  کبھی  فرو  ہونے کانام نہیں لیتا۔

رسم جہیز کامفہوم:

لڑکے والے جس بے رحمی وسنگ دلی اورغیر جائز عمل کا ثبوت دیتے ہوئے ناروا مطالبات اوربے جا فرمائشیں ظاہر کرتے ہیں اسے رسم  جہیز کہتےہیں۔

 جہیزایک  ہندوانہ رسم:

رسم جہیزخالص غیر اسلامی ،ہندوانہ کلچر کا حصہ ہے،جسے مسلمانوں نے  صدیوں قبل  اتحاد واتفاق،یکجہتی ویگانگت کی فضا قائم کرنے کے لیے  اپنا لیا تھا ۔چوں کہ ہندودھر م میں میراث کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہے اس لیے لڑکیاں  وراثت کی حقدار نہیں بن سکتی، تو ان کی شادی بیاہ کے موقع پر  ان کےوالدین یا سرپرست اس کی تلافی کے لیےحسب استطاعت سامان جہیزدیتے  تھےا ور دیتےہیں،جسے "کنیادان”سے موسوم  کیا جاتاہے۔المیہ یہ ہے کہ اب تو مسلمانوں نے  جہیز کی بجا آوری میں ہنود کی  خوب تابعداری اور فرماں برداری کی کہ اپنی لڑکیوں کو حق وراثت سے محروم کردیا اور  اس کے بدلے لعنت  جہیز کو گلے لگا لیا۔حالانکہ  قرآن میں لڑکیوں کی حق وراثت  صراحتًا بیان کیے گیے ہیں،اور اس کی مخالفت   اللہ کی  حدود کی مخالفت ہے،جیسا کہ اللہ تعالى کا ارشاد گرامی ہے:

تِلْكَ حُدُوْدُ اللهِ وَمَنْ يُّطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِيْنَ فِيْهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ*وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَهٌ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ“(سورہ نساء: ۱۳-۱۴)

ترجمہ: ”یہ حدیں اللہ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ کی اور اس  کے رسول کی فرماں برداری کرے گا اسے اللہ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ،جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت  بڑی کامیابی ہے*اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کرے اوراس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے ،اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا،ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے“۔

جہیز کےنام پربھیگ مانگنے کا ناروا طریقہ:

جب سے یہ فتنہ پیدا ہوا ہے ،تب سے اس کے سبب ہونے والےانسانیت سوزحادثات وسانحات کے پیش نظر اس کے انسداد کے لیے سماجی ومعاشرتی طور پر اینٹی جہیز کمیٹیاں وجود میں آئیں،جیساکہ چند مہینے قبل ہمارے ملک عزیز” نیپال” میں  اس کے خلاف  مختلف مجلسیں منعقد ہوئیں،بے شمارلوگوں نے اپنی  جد وجہد اور جاں فشانیوں کا مظاہرہ کیا  لیکن  وہ غیر مفید ثابت ہوا۔ میرا ماننا یہ ہے کہ یہ فکری وذہنی گندگیوں اور آلائشوں کا نتیجہ ہے جو اس طر ح کے احتجاجی  مجلسوں اورجمگٹھوں سےختم نہیں ہوگی،اس کے لیے فکری وذہنی بدلاؤ اورقلبی تبدیلی  غایت درجہ ضروری ہے۔افسوس کی  بات یہ ہےکہ  ہمارےسماج ومعاشرہ میں  دورغ گوئی وکذب بیانی ،مکاری وعیاری کی شکل میں جہیز پرستوں کے لیے  بھیگ مانگنے کا نارواطریقہ بن پڑا ہے۔جہیز مخالف جماعات وتنظیمات کے ذمہ داران، گاؤں اور بستی  کےسبرآوردہ   نیز نکاح پڑھانے والےکو کانوں کان خبر نہ ہو اس لیے  جہیز پرست اسلامی  نظام سے اغماض واعراض کرتے ہوئے لین دین  سے متعلق مسئلے اور قضیے کو مخفی رکھنے کے لیے  مجبور وبے بس لڑکی والوں سے غیر جائز وناروا شرط رکھتے ہوئے سماج ومعاشرہ کے مابین اپنے جہیز نہ لینے کا،اسلامی طریقہ پر شادی کرنےکا برملا اعلان کرتا پھرتا ہے۔شادی  بیاہ کےبعداگر کسی وجہ سے  لوگوں کے سامنےاس کے شنیع وقبیح کرتوت آشکار  ہوجائے کہ اس نے اپنے بیٹے کی شادی میں  مہنگی گاڑی ،نہایت  قیمتی وگراں قدر اشیاء جہیز میں لیا ہے،تو اپنی جھوٹی شان وشوکت ظاہرکرنے کے لیے  ببانگ دہل گویا ہوتا ہے کہ  یہ تو برضا وخوشی دی گئی چیزیں ہیں ،میں نے  لڑکی والوں سے  کوئی مطالبہ یا ڈیمانڈ نہیں کیا تھا ۔یہ بتائیے! کوئی  نہایت مہنگی  گاڑی کےساتھ خطیر مقدارمیں رقوم اپنے سینے پر پتھر باندھ کر رضا برضا کیسے دے سکتا ہے؟علاوہ  ازیں لڑکی والوں کو مجبوروٹارچر کیاجاتا ہےکہ کسی کے سوال کرنے پر جواب میر ی خواہشات کے  موافق آنا چاہیے،ورنہ   آپ کی دختر نیک کے مستقبل  کی تابناکی ورونق ماند پڑ جائےگی۔مرتا کیا نہ کرتا ۔بن بیاہی،غیر شادی شدہ جوان بیٹیاں گھر  بار کا بوجھ بن جاتی ہیں،اس کی اساسی وجہ یہ کہ وقت پر شادی نہ ہونے کے دربا ب سماج ومعاشرہ میں والدین پر طعن وتشنیع،ناشائستہ اورغیر مہذب باتوں کی بوچھار ہونے لگتی ہے،لوگوں کی باہمی کاناپھوسی اورچہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں۔بنابریں  فروماندہ وعاجزوالدین اپنی عزت نفس کے تئیں فکر مند ہوکر   اپنے لخت جگر کو رخصت کرنے کے لیے ہر شرائط کو  صمیم قلب سے سرتسلیم کرلیتےہیں۔

جیسے ایک صہباپرست وشرابی نشہ آور چیزیں کھانے اورپنیے کاخوگر ہوتا ہے ،اسی طرح  مال ودولت کےپجاری  جہیز کے نام پر علانیہ یا درپردہ  لڑکی والوں  سےان  کی معاشی کمزوری اور خستہ حالی کو جانتے ہوئے اپنی باطل خواہشات کی تکمیل  کے لیے   ساری حدود وقیود  پار کردیتاہے۔بسا اوقات  مطالبے اور ڈیمانڈ کی فہرست   اتنی  طویل وعریض ہوتی ہےکہ اس کا  بر وقت پورا کرپانا  ناممکنات میں سے ہوتا ہے۔تاہم لڑکے والے شرم حیا کا گلا گھونٹ کر حلال وحرام سے چشم پوشی کرتے ہوئے  شادی توڑنے کی دھمکی دینے پراتارو ہوجاتےہیں،اس طرح کے واقعات تو نت نئے روز سوشل میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا ،خبر رساں  ذرائع  نیز دیگر وسائل کے ذریعہ  دستیاب ہوتے رہتے ہیں۔العباذ باللہ

رسم جہیزکے نقصانات اور مضرات:

اس سے پید ا ہونے والے اسلامی  ودینی ، سماجی  ومعاشرتی اوراخلاقی طور پربےشمار نقصانات   ہیں،جن میں سےبعض حساس گوشوں کا تذکرہ کرنا عین مناسب سمجھتا ہوں  تاکہ مسئلہ کی نزاکت کاصحیح  احساس ہوسکے۔

۱۔جہیز کو فروغ دینے والے حضرات  سب سے پہلےسنت رسول ﷺ کی عظمت  وحرمت  کو تار تار کرکے ابتداع واحداث اورہندوانہ رسم کی نیو رکھتے ہوئے   غیر معمولی گناہ  کا ارتکاب کرتے ہیں،جیساکہ اللہ تعالى کافرمان ہے:  ”فَلْيَحْذَرِالَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ“(سورہ نور: ۶۳) ترجمہ: ”سنو جولوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے،یا انہیں دردناک عذاب نہ پہونچے“۔ نیز نبی کریم ﷺکا فرمان ہے:”وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ“(سنن أبی داود،ح:۴۶۰۷) ترجمہ: ”اور” دین میں”تمام نئی ایجاد کردہ  امور  سے پرہیزو اجتناب کرو، اس لیے کہ ہر ایجاد کردنئی  چیز بدعت ہے ،اورہر بدعت گمراہی ہے“۔

۲۔ جہیز ایک غیر اسلامی رسم اور ہندوانہ  طرز عمل کا حصہ ہے۔مسلمانوں کی مسلمانیت اور انسانیت قرآن وحدیث کے احکام کی بجاآوری  اورتعمیل کرکے نمایاں ہوتی ہے،بصورت دیگر ایمان  معاصی وسیئات اور گناہوں کے ارتکاب کی  وجہ سے گھٹتا رہتا ہے،جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح ومستند کتاب "صحیح بخاری ” میں  حدیث رسول ﷺکے پیش نظر”اَلْإِیْمَانُ یَزِیْدُ وَیَنْقُصُ” کی باب  سازی کی ہے۔اس  تناظرمیں  جو عمل یا فعل  ایمان واسلام میں  نقص کا ذریعہ ہو وہ نقصان اور خسارے کےسوا کچھ نہیں ہے،انہی میں رسم  جہیز ایک ہے۔

۳۔مروجہ جہیز سماج ومعاشرہ کا ناسورہے،انسانیت کے لیے زہر ہلاہل ہے،اس کی  وجہ سے  نہ جانے کتنی جانیں  صفحہ ہستی سے نابود ہوگئیں،کتنی کلیاں مرجھا گئیں ،بے شمار لڑکیوں کی زندگیاں قعر مذلت میں  ڈھکیل دی گئیں ،بہتیرے لڑکیوں کی جوانیاں اپنے والدین کی چار دیواری  میں سسک سسک کر ختم ہوگئیں،بہت سےشادی بیاہ کا ماحول ماتم میں تبدیل ہوگئے۔

۴۔بہت سے  غریب ومحتاج والد نے   اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرتےوقت مطلوبہ  ساز وسامان جہیز مہیا نہ کرپانے کی وجہ شامیانہ تلے  جمع باراتیوں کے سامنے لڑکے والوں سے منت وسماجت اورگریہ وزرای کرتے ہوئے اپنی سماج ومعاشرہ  میں  برقرار عزت  ووقارکی عمارت کو منہدم کردیا،یا دنیا سے رشتہ  ناطہ توڑکر موت کو گلے لگا لیا۔

۵۔ایسابھی ہوا کہ شادی کے موقع پر  معقول رقوم اوراخراجات  بروقت  انتظام نہ  ہونے کی صورت میں چار ولاچارلڑکی والوں نے اپنی جائداد، کھیت  کھلیان،گھر بارفروخت کرکے  ساری مطلوبہ  فرمائشیں ومطالبات  پوری کرکے بھیک مانگتے اور دربدر کی ٹھوکریں کھاتے زندگی بتادیں۔اکثر خاندان  محض اسی مسئلہ کی وجہ سے معاشی بحران میں مبتلا ہوئےہیں۔

۶۔ہمارے معاشرے میں ازدواجی زندگی کو تباہ وبرباد کرنے ،عورتوں کو  عمیق گہرائی میں ڈھکیلنے میں مروجہ رسم ورواج   کا نمایاں کردار رہا ہے، اس کے نتائج نہایت ہی خطرناک اورضرر رساں ثابت ہوئے ہیں ۔رسم وروا ج ہمارے اجتماعی تہواروں اور خوشیوں میں طویل دیوار بن جاتی ہے،جس کی وجہ سے  آئے دن  سماج ومعاشرمیں نئی نئی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔

۷۔ رسم جہیز کی وجہ سے بہت  سی  لڑکیاں  ذہنی ،قلبی،جسمانی ،روحانی اور اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں،کئی با عفت اورشرافت کی زندگی  گزارنے والی   لڑکیوں کو متعد امراض  جکڑ لیتے ہیں،جس سے گلو خلاصی اور  چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں نکلتی۔

۸۔افسوس کی بات یہ ہےکہ آج کے دور کی   خواتین  مغربی  طرزتعلیم، رہن سہن ، طور طریقہ او ر اندھی تقلید کی اسیر بن گئی ہیں ،اور برے رسم ورواج کی حامی ہیں،جوجہیزکواپنا نصب العین شمار کرتی ہیں،اورہمیشہ  اپنے لڑکوں کی شادی کے لیے ایسے خاندان کو ترجیح دیتی ہیں جو  مال دولت میں دیگر لوگوں سے نمایاں ہو،تاکہ  فرمائشوں کی بہتات کی تکمیل ہوسکے۔لیکن وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ  پہلے وہ خود ایک عورت ہے ۔

۹۔جن لڑکیوں کو ان کے والدین کی جانب سے   زیورات ،سونے کی بالیاں ،قیمتی  کنگن ،فرنیچر ، ڈائینگ ٹیبل    نیز فریج، کولر،ٹی وی سمیت  خطیر رقوم نہ دیئے جائیں ،تو انہیں اپنے سسرال میں  ساس،نند اور دیگر متعلقین سے  ناشائستہ اور غیر سنجیدہ  باتیں سننی پڑتی ہیں،اور  گاہے بہ گاہے  اذیت ناک اورتکلیف دہ   حالات  پیدا کئے جاتےہیں تاکہ کسی طرح  فرومادہ ہوکر اپنے مائکہ  لوٹ جائیں۔

۱۰۔بسا اوقات   والدین کو جہیز کی رقوم واخراجات جمع کرنے میں اتنی تاخیر ہوجاتی ہے کہ ان لڑکیاں بڑھاپے کی دہلیز تک  پہونچ جاتی ہیں۔جہاں شادی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔بہت تکلیف دہ بات ہے کہ   مسلمانوں کو بے حسی نے  اس قدر جکڑلیا ہے کہ  جائز ونا جائز کی تفریق کرنا   بھول گئے ہیں۔اللہ سب کو اس  برائی سے کوسوں دور رکھے۔ آمین

رسم جہیز اور اسلامی نظریہ :

اسلام نہایت ہی سادگی والا دین ہے،جو بے جا رسوم ورواج ،فرسودہ روایا ت ،ہندوانہ وکفرانہ طرزعمل  کی  شدید  مذمت کرتا ہے۔

لڑکی  یا لڑکی والے سے   جہیز کی فرمائش اور مطالبے کرنا   ناروا وغیرمناسب  فعل اورسنت رسول ﷺ کی حرمت وعظمت کو پامال کرنے والا  قبیح وشنیع عمل ہے۔یقینا نبی کریم ﷺ تمام مسلمانوں کے قدوہ ونمونہ ہے،ان کے  اقوال وافعال   اور  کردار  بحیثیت شرع ہیں۔اگر کوئی شخص ان کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف   عمل کرتا ہے ،تو وہ عمل ناقابل قبول ہے اور مردود ہے۔جیساکہ  نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:”مَنْ أَحْدَثَ فِی أَمْرِنَا هذَا مَالَیْسَ مِنْهُ فَهُوَرَدٌّ“(صحیح مسلم،ح:۱۷۱۸)ترجمہ: ”جس نے ہمارے  اس دین  میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس کا حصہ نہیں ہے ،تو  وہ مردود اور ناقابل اعتناءہے“۔

نبی کریم ﷺ نے اپنی  مبارک زندگی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ  صرف بیوہ یا مطلقہ  خواتین سے شادیاں  کی۔مگر  آج سماج ومعاشرہ میں بیوہ ا ورطلاق شدہ  عورتوں  کو  باعفت و عزت دار نہیں سمجھا جاتا ،بلکہ  عام انسان انہیں حقارت بھری نگاہ سے دیکھتا ہے۔اللہ کے نبی کریم ﷺکا قول  بالکل    واضح ہے:”تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِيْنِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّيْنِ تَرِبَتْ يَدَاكَ“.(صحیح بخاری،ح: ۵۰۹۰۔صحیح مسلم،ح:۱۴۶۶) ترجمہ: ”عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر شادی کی جاتی ہے: پہلى مال ودولت کی وجہ سے،دوسری حسب ونسب کی وجہ ،تیسری خوبصورتی  کی وجہ سے ،چوتھی  دینداری کی وجہ سے ،تمہارے ہاتھ خاک آلو د ہو  دین والی  کے ساتھ کامیاب ہوجاؤ“۔

 اس حدیث کے اندر نبی کریم ﷺ نے  شادی  بیاہ کرنے کی بنیادی وجوہات سےروشناس کرتے ہوئے دین  والی کو   اختیار کرنے کا حکم دیا ہے،چاہے وہ بیوہ ہو یا مطلقہ یا غیر شادی شدہ۔ ظاہرسی بات ہے کہ دین اسلام  ہی ہمارا سرمایہ افتخار  اور ذریعہ نجات ہے، بنابریں تاجدار مدینہ  ﷺنے حدیث کی مذکورہ  پہلی تینوں چیزوں  سے درکنار چوتھی چیزدینداری  کو   اختیار کرنے کی تاکید کی  ہے۔ محض مال ودولت ،جاہ وجلال ،حسب ونسب اور خدوخال کی خوبصورتی   کی وجہ سے شادی نہیں ہونی چاہیے۔جیساکہ آج   مسلم سوسائٹی میں  ایک وبا عام ہوگئی کہ   لڑکی جیسی بھی ہو،اس کے اندر دینداری وراست بازی ہو نہ ہو ،چال چلن ،عادات واطواراور خو درست ہو نہ ہو ،مگراس کے  اہل خانہ    مالدارا ورزمیں دار  ہوں، تو رشتہ  طے کرلیا جاتاہے،تاکہ جہیز میں زیادہ سےزیادہ سازوسامان  کا حصول ہوسکے۔حالانکہ اس طرح کی  مادیت پرستی کی سوچ رکھنا  خلاف شرع ہی نہیں بلکہ ذہنی وفکری کج روی اور گھٹیا رہن سہن کی پیداوار ہے۔

جوناحق طور سے بے بس وغریب والدین کا خون چوستا ہے،غیر جائز طریقےسے اس کا مال کھاتا ہے اس کے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ”وَلَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيْقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ“(سورہ بقرہ:۱۸۸) ترجمہ: ”اور ایک دوسرے کا مال ناحق طورسے نہ کھایا کرو،نہ حاکموں  کورشوت  دے کر کسی کا کچھ مال ظلم وستم سے اپنا کر لیا کرو ،حالانکہ تم جانتے ہو“۔

اس آیت  کے پس منظر سے قطع نظر غورو فکر  کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ  اللہ تعالى نے   باطل طور سے مال کھانے کی وعید سنائی ہے،چاہے اس کی شکل  جو بھی بنتی ہو۔اس آیت کے آخر میں  اللہ تعالى   نے "وأنتم تعلمون” کے ذریعہ  اپنے بندوں کو دھمکاتے  ہوئے اس طرح کے  کام سے روک جانے کا حکم دیاہے۔

آخری بات :

میرا ماننا ہے کہ اگر جہیز کا استیصال کرنا ہےتو سب سے پہلے لڑکیوں کو حق وراثت   سے محروم نہ کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ جہیز مخالف مہم چھیڑنے والی تنظیمات اور اینٹی جہیز کمیٹیوں کی سرگرمیاں  اور محنتیں غیر ثمرآوراور بے سود  ہوتی ہیں۔اگر اسے نافذ کردیا جائے تو عین ممکن کہ سماج ومعاشرہ سے اس ناسور کا خاتمہ ہوجائے،اور پھر سے  لڑکیوں  کی حالات زندگی خوش گوار ہوجائے۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں  نبی کریم ﷺ کی سنت کی  رو سے شادیاں کرنے نیز زندگی بسر کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔  آمین يارب العالمين.

تبصرے بند ہیں۔