راہ وفا سخت کٹھن ہے منزل بھی آسان نہیں 

حبیب بدر ندوی

راہ وفا سخت کٹھن ہے منزل بھی آسان نہیں

شکوہ گلہ جو بھی کر لواسکے وفا کا امکان نہیں

سچے رشتے سچے ناطے مثل ہما نایاب ہوئے

اب رشتوں کا بندھن توڑو رشتہ نبھانا آسان نہیں

شاہیں کا جگر شیر سا دل ان راہوں میں ہوتے ہیں

سنسان ہیں جو راہیں اکثر اور یاری کا پیمان نہیں

تیروں کی اس پہ وار ہوئی ہے نیم جاں بھی تڑپا ہے

بازار   جنوں  ہے  یہ  مرجانے   کا  سمشان   نہیں

ڈرتاہوں میں اپنوں سے پرائے کا خوف نہیں  ہے

دل کے لٹیرے اپنے ہی ہیں دوسرا کوئی انجان نہیں

جیسے کوئی کالے بادل چھاتے پھر چھٹ جاتے ہیں

اکثررشتےایسے ہی ہیں  خلوص پر کوئی ایمان نہیں

دل کے بازار میں اکثر میں نے روئے اور پچتائے ہیں

دل بھی لٹا جاں بھی گئی سودائے جنوں آسان نہیں

تبصرے بند ہیں۔