انسان اور زمین کی حکومت (قسط 86)

رستم علی خان

منقول ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کے دور میں حکیم لقمان بھی تھے جنہیں اللہ تعالی نے انہیں علم و حکمت سے نوازا تھا- اور بعضوں نے حکیم لقمان کو بھی نبی کہا ہے کہ وہ اللہ کے پیغمبر تھے اور حکمت بھی رکھتے تھے- لیکن زیادہ تر مفسرین کا ماننا ہے کہ وہ نبی نہ تھے محض اللہ نے انہیں علم و حکمت سے نواز رکھا تھا- چنانچہ ارشاد ربانی ہے:”ہر آئینہ ہم نے دی ہے لقمان کو حکمت-"

مروی ہے کہ ان کی حکمت سے حضرت داود علیہ السلام کو بھی فائدے پنہچے تھے- لقمان حکیم کے بارے آتا ہے کہ یہ سیاہ فام قوم حبشی سے تعلق رکھتے تھے- عرب یا بنی اسرائیل کے کسی رئیس شخص کے ہاں غلام تھے- اور ان کے علاوہ ان کے آقا کا ایک اور بھی غلام تھا- چنانچہ ایک دن وہ اپنے آقا کی کوئی چیز چرا کر کھا گیا- اس شخص نے دونوں پر شک کیا اور باز پرس کی کہ چور کون ہے- تب حکیم لقمان نے کہا؛ میرے آقا آپ ہم دونوں کو گرم پانی سے قے کروائیں- پس جس نے وہ چیز کھائی ہو گی ساری نکل آئے گی- تب خواجہ نے دونوں کو گرم پانی سے قے دلوائی- پس جو دوسرا غلام تھا اس کے منہ سے وہ چیز نکل آئی- خواجہ نے لقمان کی اس حکمت پر آفرین کی اور انہیں آزاد کر دیا-

اور بعضوں نے لکھا ہے کہ حکیم لقمان کا آقا ان سے بہت محبت رکھتا تھا اور کھانے پینے کی جو بھی چیز لاتا اس میں لقمان کا بھی حصہ کرتا- اسی طرح ایک مرتبہ آپ کا آقا کہیں سے تربوز لیکر آیا اور ان میں سے ایک تربوز حکیم لقمان کو کھانے کو دیا- آپ وہیں بیٹھ کر اس تربوز کو توڑ کر کھانے لگے- اور ہر بار تربوز کا ٹکڑا منہ میں رکھتے تو اس کی مٹھاس اور شیرینی کی بہت تعریف کرتے- آقا سے نہ رہا گیا تو اس نے حکیم لقمان سے کہا کہ مجھے بھی چکھاو کہ میں بھی اس کی شیرینی اور مٹھاس سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں- ہر چند لقمان نے اسے باز رکھنا چاہا لیکن وہ مصر رہا کہ وہ بھی چکھنا چاہتا ہے- غرض جب اس نے ایک ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھا تو انتہائی کڑوا پایا- اور اس کے بدذائقہ ہونے کی وجہ سے فورا باہر تھوک دیا- اور پھر لقمان حکیم سے مخاطب ہو کر کہا، اے لقمان تو اس قدر کڑوی اور بدذائقہ چیز کو میٹھا اور شیریں کہہ رہا تھا اور کس قدر رغبت اور دلجمعی کیساتھ کھا رہا تھا- تجھے چاہئیے تھا مجھے اس بارے بتاتا کہ میں تجھے کوئی اور تربوز اس کی جگہ دیتا- تب حضرت لقمان نے فرمایا، اے آقا میں نے تمہارے ہاتھ سے انتہائی لذیذ اور ذائقہ دار چیزیں لیکر کھائیں ہیں- پس ان میں اگر ایک چیز بدذائقہ آ گئی تو مجھ پر واجب تھا کہ صبر شکر کر کے کھا لیتا- اور اگر میں اس کے بدذائقہ اور کڑوا ہونے پر واویلہ کرتا تو یہ ناشکری ہوتی ان تمام نعمتوں کی جو لذیذ و ذائقہ دار میں نے تمہارے دسترخوان سے کھائیں- حضرت لقمان کی یہ بات سنکر ان کا آقا بہت خوش ہوا اور ان کی عقل و دانش اور علم و حکمت کی داد دی- اور انہیں آزاد کر دیا- واللہ اعلم بالصواب-

غرض آزاد ہونے کے بعد ان کو علم و حکمت اور تہذیب و اخلاق حاصل ہوا- ایک دن ان کے قیلولہ کے وقت ایک فرشتہ بحکم ربی ان کے پاس آیا اور کہا، اے لقمان اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم کو زمین پر خلیفہ کروں گا یعنی نبوت عطا فرماوں گا- تب لقمان نے کہا کہ مجھ سے خلافت نہ ہو سکے گی- کیونکہ اگر حق بمستحق نہ پنہچے تو بموجب ندامت و خجالت ہے اللہ کے حضور میں- اور اگر پنہچے تو لوگوں کے لیے مطیع ہونا لازم ہے- چنانچہ ملائکہ ان کی یہ حکمت بھری باتیں اور حسن تقریر سنکر چلے گئے- تب اللہ تعالی نے انہیں اختیار سونپا کہ علم و حکمت اور نبوت میں سے جس کو چاہیں اپنے لیے چن لیں- تب لقمان حکیم نے اپنے لیے علم و حکمت کو چنا کہ بروز قیامت اس پر کوئی سرزنش اور پوچھ نہ ہو گی- پس ایک رات دن میں عنایت ایزدی سے ابواب حکمت بےمشقت ان کے دل پر مفتوح ہوئے.

چنانچہ حضرت لقمان نے نبوت کی بجائے حکمت کو چنا کہ اس کی بازپرس نہ ہو گی- حکمت کیا ہے۔حکمت عقل و فہم کو کہتے ہیں اور بعض نے کہا کہ حکمت معرفت اور اصابت فی الامور کا نام ہے۔ اور بعض کے نزدیک حکمت ایک ایسی شے ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے دل میں یہ رکھ دیتا ہے اس کا دل روشن ہوجاتا ہے وغیرہ وغیرہ مختلف اقوال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کو نیند کی حالت میں اچانک حکمت عطا فرما دی تھی۔ بہرحال نبوت کی طرح حکمت بھی ایک وہبی چیز ہے، کوئی شخص اپنی جدوجہد اور کسب سے حکمت حاصل نہیں کر سکتا۔ جس طرح کہ بغیر خدا کے عطا کیے کوئی شخص اپنی کوششوں سے نبوت نہیں پا سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ نبوت کا درجہ حکمت کے مرتبے سے بہت اعلیٰ اور بلند تر ہے۔

حضرت لقمان نے اپنے فرزند کو جن کا نام انعم تھا۔ چند نصیحتیں فرمائی ہیں جن کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ لقمان میں ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی دوسری نصیحتیں آپ نے فرمائی ہیں جو تفاسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ مشہور ہے کہ آپ درزی کا پیشہ کرتے تھے اور زیادہ نے کہا کہ آپ ایک اسرائیلی کے پاس غلام تھے اور اس کی بکریاں چراتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ حکمت کی باتیں بیان کر رہے تھے تو کسی نے دیکھ کر کہا کہ اے لقمان کیا تم فلاں چرواہے نہیں ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ کیوں نہیں، میں یقینا وہی چرواہا ہوں تو اس نے کہا کہ آپ حکمت کے اس مرتبہ پر کس طرح فائز ہو گئے؟ تو آپ نے فرمایا کہ باتوں میں سچائی اور امانتوں کی ادائیگی اور بیکار باتوں سے پرہیز کرنے کی وجہ سے اللہ نے مجھے یہ مرتبہ عطا فرمایا-

قرآن مجید میں آپ کے نام سے موسوم ایک سورة سورة لقمان موجود ہے جس میں آپ کی اپنے بیٹے کو چند حکمت آمیز نصیحتوں کا ذکر ہے۔ یہ کہ”بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا اگرچہ کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو، پھر وہ بھی خواہ کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں، اسے اللہ تعالیٰ لاحاضر کریں گے”اور یہ کہ بیٹا نماز پڑھا کر اور اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا،برے کاموں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تم پر آئے اس پر صبر کرنا جو بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے، لوگوں کے سامنے اپنے رخسار نہ پھلا، زمین پر اترا کر اور اکڑ کر نہ چل۔ بے شک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے ، فخرکرنے والے کو پسند نہیں کرتا اور اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز کو پست کر بے شک آوازوں میں سب سے بڑی آواز گدھے کی ہے۔ اور بعضوں نے کہا کہ حکیم لقمان کا بیٹا جب ا سے تجارت پر جانے کے لیے اجازت مانگنے آیا کہ اباجان میں تجارت کے واسطے سفر پر جانا چاہتا ہوں- تب لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو یہ نصحتیں فرمائیں جن کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن میں بیان فرمایا- یہ ایک طرح سے انہوں نے اپنی طرف سے بیٹے کو اسباب سفر مہیا کیا کہ جہاں بھی جاو ان باتوں پر عمل کرتے رہنا- اور پھر فرمایا کہ جب اسباب سفر تیار کر چکو تو جانے سے پہلے میرے پاس سے ہوتے جائیو کہ تمہاری راہبری اور راہنمائی کے لیے تمہیں کچھ باتیں بتانی ہیں-

تبصرے بند ہیں۔