مدرسۃ العلوم علی گڑھ کا قیام اور اس کے اولین نقوش

مصنف: ظفرالاسلام اصلاحی

تبصرہ: محمد اسماعیل اصلاحی

 [ریسرچ اسکالر شعبۂ دینیات سنی،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی]

’’مدرسۃ العلوم علی گڑھ کا قیام اوراس کے اولین نقوش‘‘ دراصل یہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ابتدائی دور کی تاریخ ہے۔ جسے مسلم یونی ورسٹی کے فاضل،شعبۂ اسلامک اسٹڈیز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر ظفرالاسلام اصلاحی نے مرتب فرمایا ہے۔ کتاب کے اخیر میں مصنف محترم نے اس موضوع سے متعلق اپنی دیگر مطبوعات کی کا اشاریہ بھی شامل کیاہے۔ جس پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس سلسلہ کا پہلا مضمون مدسۃالعلوم کے ابتدائی زمانہ کے استاد ’’تھیوروڈ ماریسن‘‘ کے متعلق ۱۹۸۵ء میں شایع کرایا تھا۔ جس کی تیاری میں صرف ہونے والے وقت کو بھی شامل کرلیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ مصنف گرامی تقریباً پینتیس برسوں سے اس موضوع پر کام کررہے ہیں۔ یہ کتاب ان کے اس طویل مطالعہ کا نتیجہ ہے۔

 اس کتاب کو ان کی دیگر تصنیفات کے ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو یہ ان کے سلسلۂ مطبوعات کی بیچ کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ جس کا آغاز ان کی انتہائی وقیع تصنیف ’’تعلیم۔ عہد اسلامی کے ہندوستان میں ‘‘ سے ہوتا ہے۔ جس کو دارالمصنفین جیسے معتبر علمی وتحقیقی ادارے نے اپنے سلسلۂ مطبوعات کے تحت شایع کیا ہے۔ یہ سلسلہ ان کی دو اہم مطبوعات ’’اسلامی علوم کا ارتقاء عہد سلطنت کے ہندوستان میں‘‘، ’’عہد اسلامی کے ہندوستان میں معاشرت معیشت اور حکومت کے مسائل‘‘ کے بعد ’’مطالعات سرسید(تعلیمی،سماجی وفقہی مسائل کے حوالے سے) ہوتا ہوا ’’سرسید وایم اے او کالج اور دینی ومشرقی علوم‘‘ تک پہنچ جاتا ہے۔ جبکہ علی گڑھ تحریک سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ ایم اے او کالج کا نقش اول مدرسۃالعلوم ہے۔ جس پر اب یہ جامع تصنیف منظر عام پر آئی ہے۔ اس طرح ملت اسلامیہ ہندیہ کی علمی تاریخ کا سلسلہ، عہد اسلامی کے ہندوستان سے لیکر ایم اے او کالج کی تاریخ تک مربوط ہوگیا ہے۔ جو کہ مصنف ممدوح کی مسلسل جاں فشانیوں کا نتیجہ ہے۔

اس کتاب کی ترتیب کچھ اس طرح ہے کہ تعارفی کلمات کے عنوان سے چھ صفحات پر مشتمل مختصر مگر جامع مقدمہ تحریر کیا گیا ہے جس میں مدرسۃلعلوم کی افتتاحی تقریب میں پیش کیے جانے والے ایڈریس و اسپیچز کے حوالے سے مدرسۃالعلوم کے قیام کے مقاصد کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کی مزید وضاحت کتاب کے پہلے باب میں ملتی ہے جو کہ ’’سرسید کا تصور تعلیم و تربیت ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ یہ باب تئیس صفحات پر مشتمل ہے اس میں سرسید کے تصور تعلیم سے بحث کرتے ہوئے ماحصل یہ رقم کیا گیا ہے کہ ’’سرسید کی رائے میں تعلیم کا بہتر سے بہتر انتظام لاحاصل۔ ۔ ۔ اور اپنے اصل مقصد کی تکمیل سے قاصر رہے گا اگر اس کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں طلبہ کی تربیت کا اہتمام نہ کیا جائے‘‘۔ (ص۳۰  )

سرسید علیہ الرحمۃ نے مدرسۃالعلوم کے قیام کے لیے علی گڑھ کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کے اسباب و وجوہ کیا تھے؟یہ وہ سوالات ہیں جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کے ذہن میں کوندتے رہتے ہیں۔ کتاب کے دوسرے باب میں اس کا تشفی بخش جواب موجود ہے جو کہ سرسید کی تحریروں کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔ جب علی گڑھ کومدرسۃالعلوم کے قیام کے لیے منتخب کر لیا گیا تو اب اس کے افتتاح میں تاخیرنا مناسب تھی چناچہ تیسرا باب مدرسۃ العلوم کے افتتاحی اجلاس کی روداد پر مشتمل ہے۔ سرسیدعلی گڑھ تحریک کے سرخیل تھے اس لیے مدرسۃالعلوم کے افتتاحی اجلاس میں ان کی تقریر کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت تھی کہ سرسید کے اس تاریخی خطاب کے تمام نکات کو وضاحت سے بیان کیا جائے لہٰذا چوتھا باب ’’مدرسۃالعلوم کا افتتاحی اجلاس اور سرسید کی تقریر دل پذیر ‘‘کے عنوان سے ہے۔ جس میں تمہیدی گفتگو کے بعدعلی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے اوراق میں پوشیدہ سرسید کی اس تاریخی تقریر کو یہاں پیش کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس میں موجود سات اہم نکات کی تشفی بخش توضیح و تشریح کی گئی ہے۔ مدرسۃ العلوم کے اولین نقوش کے اولین مورخ نے سرسید کی تقریر دل پذیر کا ماحصل یوں بیان کیا ہے۔ ’’اس کا لب لباب یہ ہے کہ صحیح معنوں میں سب کا ’’وکاس‘‘اسی وقت ہوگا جب قومی بھلائی و ترقی کے کاموں میں سب ایک دوسرے کے شریک کار ومعاون بن جائیں، بلا لحاظ مذہب وفرقہ سب ایک دوسرے کا بھلا چاہیں اور بلا کسی تفریق ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہیں۔ ‘‘(ص۷۹)

کتاب کا پانچواں باب مدرسۃالعلوم کی اولین ششماہی کے احوال وکوائف اور سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ اس باب کے مشمولات کا اندازہ اس کے ذیلی عناوین کی فہرست سے کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس طرح ہے،مدرسۃالعلوم کے اساتذہ کی تقرری کا اشتہار،مدرسہ کے اولین اساتذہ اور ان کی تاریخ جوائننگ اور ماہانہ مشاہرہ، مدرسۃالعلوم میں ابتدائی تعلیم کا آغاز اور طلبہ کے لیے سہولیات کی فراہمی،مدرسہ میں شیکشن و کلاسز کی تقسیم اور ذریعہ تعلیم کی وضاحت،طلبہ کی تعداد،مدرسہ میں تعلیم کے اوقات،مدرسہ میں ہوسٹل کا نظم،مدرسہ میں داخلہ، ماہانہ وبورڈنگ ہاؤس فیس،طلبہ کی دینی و اخلاقی نگرانی،ہونہار طلبہ کے لیے وظائف اور غریب طلبہ کی مالی امداد کانظم، طلبہ کو اسکالر شپ دینے کا نظم، طلبہ کے لیے حفظان صحت کا اہتمام،سرولیم میور اور سر سالار جنگ بہادر کا انتخاب بحیثیت وزیٹر، مدرسۃالعلوم میں معزز مہمانوں کی آمدہے۔ مذکورہ ذیلی عناوین سے ہی مدرسۃالعلوم کے اولین نقوش کا نقشہ ابھرکر سامنے آجاتا ہے۔

چھٹا اور ساتواں باب مدرسۃالعلوم کی ترقی میں اپنا سرگرم تعاون پیش کرنے والی دو اہم شخصیات کے تعارف و تذکرہ سے متعلق ہے۔ ان میں سے ایک مسٹر سنڈنس ہیں۔ یہ مدرسۃ العلوم کے اولین ہیڈ ماسٹر تھے۔ جن کے نام سے ایم اے او کالج میں ڈبیٹنگ کلب قائم ہوا۔ اس ڈبیٹنگ کلب کی بلڈنگ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین ہال کے نام سے جانی جاتی ہے اور علی گڑھ تحریک سے واقفیت رکھنے والا کوئی بھی شخص مسٹرسنڈنس کے نام سے نامانوس نہیں۔ لیکن مولوی محمدکریم صاحب جن کا شمار سرسید کے خاص دوستوں میں ہوتا ہے۔ اب لوگ ان کو فراموش چکے ہیں۔ جشن سرسید کی دو صدسالہ تقریبات کے موقع پر ضرورت تھی کہ تحریک سرسید کے اس خاص معاون کو یاد کیا جائے جس نے مدرسۃالعلوم کے افتتاحی اجلاس کی صدارت فرمائی تھی۔ پروفیسر ظفرالاسلام اصلاحی صاحب نے اپنی اس کتاب میں چھٹا باب ’’مولوی محمد کریم۔ صدرافتتاحی اجلاس مدرسۃالعلوم ‘‘ کے عنوان سے قائم کیا ہے اور کامل سولہ صفحات میں انھوں نے تحریک علی گڑھ اور مدرسۃالعلوم کے تئیں مولوی محمد کریم صاحب کی خدمات جلیلہ کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے اور آخر میں مسلم یونیورسٹی کے ذمہ داران کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ ’’ان سب حقائق کا یہ تقاضا ہے کہ علی گڑھ بالخصوص یونی ورسٹی کیمپس میں مولوی محمد کریم کے شایان شان کوئی یادگار قائم کی جائے۔ ‘‘(ص۱۰۹) واضح رہے کہ مولوی محمد کریم صاحب اس وقت علی گڑھ ضلع کے ڈپٹی کلکٹر (موجودہ ایس۔ ڈی۔ ایم)کے منصب پر فائز تھے، ان کا تعلق محمد آبادگہنہ سے تھا جو اس وقت ضلع اعظم گڑھ میں تھا اور اب مئو ضلع کا ایک معروف قصبہ ہے۔

کتاب کی اہمیت میں مزید اضافہ تین ضمیمہ جات نے کردیا ہے۔ پہلا ضمیمہ’’ تہنیتی نظمیں و قطعات تاریخ متعلق بہ افتتاح مدرسۃ العلوم ‘‘کے عنوان سے ہے، دوسرا ’’فہرست اولین ممبرانِ انتظامی و تعلیمی کمیٹی مدرسۃالعلوم‘‘ ہے اورتیسرے ضمیمہ میں مصنف گرامی نے اپنی ان مطبوعات کی فہرست پیش کی ہے جن کا تعلق سرسید و رفقائِ سید اور مدرسۃالعلوم و ایم اے او کالج سے ہے۔ اس میں دو مستقل تصنیف کا نام مطبع،سن اشاعت اور ۳۹ مقالات کا اشاریہ شامل ہے۔ سرسید کی دوصد سالہ تقریبات کے اختتام پربانیٔ درسگاہ کو یہ ایک عمدہ خراج عقیدت ہے۔ پروفیسر ظفرالاسلام اصلاحی صاحب کی دیگر تصنیفات کی طرح یہ تصنیف بھی دہلی کے مشہوراور معیاری کتابوں کی اشاعت کے لیے معروف پبلشر ’’اسلامک بک فاؤنڈیشن،1781۔ حوض سوئیوالان، نئی دہلی۔ 02 ‘‘ نے بڑے اہتمام سے شایع کیا ہے۔ کتابت و طباعت عمدہ ہے۔ سرورق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تاریخی گیٹ ’’باب الرحمۃ‘‘ کی روشن تصویر سے مزین ہے۔ اپنے موضوع پرغالباً یہ پہلی باقاعدہ تصنیف ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ابتدائی زمانہ کی تاریخ سے واقفیت کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کتاب کو مرتب کرنے میں تاریخ تحریک علی گڑھ سے متعلق انگریزی کی پانچ، اردو کی پینتیس کتابوں اور سات تحقیقی مقالات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ کتاب کی ترتیب میں اصل اور اولین ماخذتک رسائی کو اولیت دی گئی ہے اور ان سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔ ان میں رودادیں، رپورٹیں اور دستاویزات اہم ہیں۔ ایمانداری و دیانت داری، تحقیق و تفحص مصنف محترم کی خاص پہچان ہے۔ جس کے اثرات ان کی تمام تصنیفات میں نمایاں طور سے محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ امید ہے ان کی دیگرتصنیفات وتحقیقات کی طرح یہ کتاب بھی عام قارئین کے علاوہ محققین و مصنفین کے لیے بھی سودمند ثابت ہوگی۔ 152صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت محض 150روپئے ہے۔ ناشر کا رابطہ نمبر 9313780743ہے۔

تبصرے بند ہیں۔