رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کا حکم اور قطعِ تعلقی پر وعید

محمد انس فلاحی سنبھلی

اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا داعی ہے ،اس نے بحیثیت ِ انسان ہر ایک کوحقوق دیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسلام نے انسانوں کے درمیان برتری وفضلیت کی بنیاد ایمان اور تقویٰ کو مقرر کیا ہے ۔ اسلام نے جہاں والدین ،اولاد ،پڑوسی ، مسافر ،فقراء ومساکین ،یتیم و مجبور کے تعلق سے حقوق بیان کیے ہیں؛وہیں قرآن نے قرابت دار (رشتہ دار وں)کا جگہ جگہ تذکرہ کیا ہے۔ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کے بعد سب سے زیادہ حسنِ سلوک کی تاکید قرابت دار (رشتہ دار )کے تعلق سے کی ہے ۔
سور ہ نساء جس میں معاشرتی احکام کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ والدین کے بعد قرابت داروںکا تذکر ہ کرتا ہے ۔ارشاد باری ہے:{ وَاعْبُدُواْ اللّہَ وَلاَ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْْئاً وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً وَبِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْجَارِ ذِیْ الْقُرْبَی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ مَن کَانَ مُخْتَالاً فَخُوراً}(سور ہ النساء: 36)
ترجمہ:’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤکرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤاور پڑوسی رشتہ داروں سے، اجنبی ہمسایہ سے، پاس بیٹھنے والوںسے اور مسافر سے، اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، بے شک اللہ تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا‘‘ ۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:{إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیْتَاء ذِیْ الْقُرْبَی}( سورہ النحل: 90)’’اللہ انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو خرچ سے مدد دینے کا حکم دیتا ہے‘‘۔
سورہ بقرہ میںاللہ تعالیٰ حقیقی نیکی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:{ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی( سورہ البقرۃ 177)}’’اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں پر خرچ کرو‘‘۔غرض جگہ جگہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے ۔ اور کمزور ومجبوراور تنگ دست رشتہ داروں پر خرچ کرنے کاحکم دیاہے۔
رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی احادیث نبویﷺ میں بھی بہت تاکید ملتی ہے ۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:من سرہ أن یبسط علیہ رزقہ وینسأ فی أثرہ فیلصل رحمہ(باب فی صلۃ الرحم ،حدیث رقم :1693،ابوداؤد /5986:بخاری)
’’جو یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق میںفراخی اور کشادگی ہو اور دنیامیں اس کے آثار تادیر رہیں (یعنی اس کی عمر دراز ہو )تو وہ (اہل قرابت کے ساتھ)صلہ رحمی کرے ‘‘۔
ایک حدیث میںرشتہ داروں پر خرچ کرنے کوصدقہ کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی بھی کہا گیا ہے ۔حضرت سلمان بن عامر الضبی ؓسے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:الصدقۃ علی المسکین صدقۃ وعلی ذی القرابۃ اثنتان : صدقۃ وصلۃ (باب فضل الصدقۃ ،حدیث رقم : 1844،سنن ابن ماجہ)
’’یعنی کسی محتاج کی مدد کرنا صرف صدقہ ہی ہے، اور اپنے کسی عزیز کی مدد کرنا دو چیزوں پر مشتمل ہے ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی‘‘۔
مذکورہ بالاقرآنی آیات اور احادیث ِ نبویہ ﷺ کے مطالعہ کے بعدیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رشتہ داروں کے حسنِ سلوک کی اس قدر تاکید کیوں کی گئی ہے ۔ اس کا مختصر جواب یہ ہوسکتا ہے کہ انسان اپنے معاشرے میں جن سے سب زیادہ قریب ہوتا ہے وہ رشتہ دار ہی ہیں۔اور جن کے ساتھ اس کا روز کا اٹھنا بیٹھنا،معاملات اور تعلقات ہوتے ہیں ۔ تو یہ لازمی بات ہے کہ ان کے تعلق سے ہدایات دی جائیں تاکہ وہ ان کے ساتھ خوش گوار ماحول میں رہ سکے اور پر سکون زندگی گزار سکے۔ اگر ان سے اس کی اَن بَن ہو جاتی ہے توظاہر سی بات ہے اس کی زندگی اجیرن بن جائے گی۔وہ اپنی زندگی میں کڑھن محسوس کرنے لگے گا۔ مختلف پریشانیاںاسے لاحق ہونے لگیں گی ،اور وہ رفتہ رفتہ ذہنی مریض بن جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ رشتہ داروں سے قطعِ تعلقی پر بہت شدید وعیدیں آئی ہیں،اس کو گناہِ کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے جہاںان کو صلہ رحمی اور دوسری چیزوں بجا لانے کے بدلے میں جنت کی بشارت دیتا ہے ۔ اس کے بعد ہی عہد کو توڑنے والے، زمین میں فساد برپا کرنے والے اور جن سے اللہ تعالیٰ نے تعلقات کو استوار رکھنے کا حکم دیا اور ان سے تعلق کو توڑنے والوں پر لعنت بھیجی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{وَالَّذِیْنَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللّہِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللّہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِیْ الأَرْضِ أُوْلَئِکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوء ُ الدَّار}ِ (سورہ الرعد :25)
’’اوررہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں، جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت برا ٹھکانہ ہے‘‘۔
قرآنی آیات کے علاوہ متعدد احادیث اس سلسلے میں مروی ہیں ۔ایک حدیث ِ نبوی ﷺ جس میں نبیﷺ نے فرمایا :لا یدخل الجنۃ قاطع رحم(باب فی صلۃ الرحم ،حدیث رقم :1696،سنن ابی داؤد)’’رشتہ داروںسے قطع تعلقی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا‘‘۔
ایک حدیث میں نبی ﷺنے فرمایا:إن الرحمۃ لا تنزل علی قوم فیھم قاطع رحم (باب لاتنزل الرحمۃعلی قوم فیھم قاطع رحم،حدیث رقم :63،الادب المفرد ،ضعیف ) ’’اس قوم پر اللہ کی رحمت نہیں ہوتی جس میں کوئی قطع تعلقی کرنے والا موجود ہو‘‘۔
اسلام نے ہمیں صرف یہ تعلیم نہیںدی ہے کہ کوئی اگر تم سے صلہ رحمی کرے تو تم بھی اس سے صلہ رحمی کرو، بلکہ اسلام ہمیں اس سے بھی اعلی اخلاقی تعلیم دیتا ہے کہ اگر کوئی تم سے قطع تعلقی کرے تب بھی تم اس سے صلہ رحمی کرو ۔ حضرت عبد االلہ بن عمرو ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :لیس الواصل بالمکافی، ولکن الواصل الذی اذا قطعت رحمہ وصلھا(باب لیس الواصل بالمکافی ،حدیث رقم :68،الأدب المفرد )’’صلہ رحمی (کا کمال) یہ نہیں کہ آدمی بدلے میں صلہ رحمی کرے،بلکہ یہ ہے کہ آدمی قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرے ‘‘۔
مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ رشتہ داروں سے قطع تعلقی کتنا بڑاگناہ ہے ۔ ان سے کوئی خطا بھی ہوجائے تو در گزر سے کام لینا چاہیے ۔ سیرت کی کتابوں میں اس حوالے ایک بڑا دلپذیرواقعہ ملتا ہے ۔ واقعۂ افک میں جن حضرات نے حضرت عائشہ ؓ کے تعلق سے بہتان تراشی میںحصہ لیاتھا، ان میںحضرت ابو بکرصدیق ؓکے ایک عزیز حضرت مسطح ؓ بن اثاثہ بھی تھے ۔ واقعۂ افک کے تعلق سے جب اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرمائیں جن میں حضرت عائشہ ؓ کی برأت ظاہر کی گئی، اس موقع پر حضرت ابوبکرصدیق ؓنے قسم کھائی کہ وہ اب حضرت مسطح ؓ بن اثاثہ کی کچھ مدد نہ کیا کریں گے ۔حضرت ابوبکر ؓبہت غمزدہ تھے کہ انہوںنے نہ رشتہ داری کا کوئی لحاظ کیا اور نہ ان احسانات ہی کی کچھ شرم کی جو وہ ساری عمر اُن پراور ان کے خاندان پر کرتے رہے تھے۔ تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی: {وَلَا یَأْتَلِ أُوْلُوا الْفَضْلِ مِنکُمْ وَالسَّعَۃِ أَن یُؤْتُوا أُوْلِیْ الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللَّہُ لَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ }’’تم میں سے جو لوگ صاحب ِ فضل اور صاحب ِ مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھابیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار ، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے ۔انھیں معاف کردینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے ۔کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے ۔‘‘اس پرحضرت ابو بکر صدیق ؓنے فوراً کہا: بلی، واللّٰہ انا نحب ان تغفرلنا یا ربنا،’’کیوں نہیں، بخدا یقیناً ہم چاہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! تو ہماری خطائیں معاف فرمائے ‘‘۔چنانچہ آپ ؓ نے پھر مسطح ؓکی پھر سے مدد شروع کر دی اور پہلے سے زیادہ ان پر احسان کرنے لگے ۔(تفہیم القرآن جلد سوم ص372)
یہ واقعہ ان لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہے جو ذرا ذرا سی بات پر اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلقی کر لیتے ہیں،اور ہمیشہ کے لیے ان سے رشتے ناتے توڑ لیتے ہیں۔حضرت ابو بکر صدیق ؓنے اتنی بڑی بات ہونے کے باوجود اپنے عزیز کو صرف اللہ سے اپنی مغفرت کی طلب میں معاف کردیا ۔ہمیں بھی اللہ ہی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ درگزر کا معاملہ کرنا چاہیے ۔ ایک حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا:۔من احبّ للّٰہ وابغض للّٰہ واعطی للّٰہ ومنع للّٰہ فقد استکمل الایمان (عن ابی امامۃؓ ،باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ ، حدیث رقم :4681،سنن ابی داؤد)’’جس نے اللہ کے لیے محبت کی ،اللہ ہی کے لیے نفرت کی ،اللہ ہی کے لیے دیا اور اللہ ہی خاطر دینے سے رکا رہا اس نے اپنے ایمان کی تکمیل چاہی ‘‘۔
مذکورہ حدیث کوہر فرد اپنی ذاتی زندگی کالازمی حصہ بنائے تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے خاندان اور معاشرے میں معمولی معمولی باتوں پر ہونے والے جھگڑے ختم ہوجائیں گے ،رنجشیں ختم ہوجائیں گی ، گلے شکوے دور ہو جائیں گے ،نفرت ختم ہو جائے گی، اور محبت والفت کے جذبات پنپنا شروع ہوجائیں گے، دوریاں ختم ہوجائیں گی،اور قربت بڑھ جائے گی ۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر فرد اللہ کے لیے اپنے اندر نفرت کی جگہ محبت، دوری کی جگہ قربت ،قطع تعلقی کی جگہ صلہ رحمی کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔