رمضان المبارک؛ آئیے زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کے قیام کی کوشش کریں

 ڈاکٹر عابد الرحمن ( چاندور بسوہ)

’’رمضان المبارک کامہینہ آیا کہ ہمارا ٹینشن بڑھ جاتا ہے پوری فیملی کو سال میں اک مرتبہ نئے کپڑے بناتے ہیں رمضان میں بنے ان کپڑوں کا بوجھ ہمیں سال بھر ڈھونا پڑتا ہے ، ہوتا یوں ہے کہ ہر سال رمضان میں ہم سیٹھ صاحب سے کپڑوں کے لئے در کار رقم قرض لے لیتے ہیں اور پھر اس قرض کو چکانے میں پورا سال لگ جاتا ہے ادھر قرض پوری طرح ادا بھی نہیں ہوتا ہے کہ پھر عید آجاتی ہے اور ہم دوبارہ جیسے تھے کی حالت میں آجاتے ہیں قرض اور اس کی ادائیگی کا یہ چکر تقریباً پچھلے دس سال سے یعنی اس وقت سے چل رہا ہے جب سے ہم کپاس فیکٹری میں مستقل روز گارسے لگے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ سیٹھ مسلمان ہیں اس لئے ہر رمضان میں کچھ نہ کچھ رقم اپنے پاس سے بھی دے دیتے ہیں اور یہ بھی میرے مالک کا بڑا احسان ہے کہ مجھے مستقل طور پر ایک ہی جگہ روزگار میسرہے اس سے قرض آ سانی سے مل جاتا ہے اور ہماری عید اچھے سے ہو جاتی ہے ۔ اگر مستقل طور پر ایک ہی جگہ کام نہ کریں بلکہ ادھر ادھر کام کرتے رہیں تو قرض ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو تا ہے ‘‘ یہ جیننگ فیکٹری میں کام کرنے والے ایک مزدور کے تاثرات ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عید مزدوروں کو کتنی بھاری پڑتی ہے اور عید منانے کے لئے انہیں کتنا کام اور کتنی محنت کرنی پڑتی ہے ،یہ تو ایک مستقل روزگار یافتہ مزدور کی حالت ہے ، ان لوگوں کی حالت اس سے بھی دگر گوں ہوتی ہے جنہیں مستقل روزگار میسر نہیں جو جہاں تہاں مزدوری کرتے ہیں ، جو بے چارے ایک دن بھر کی مزدوری کر کے صرف دو وقت کی روٹی یا اس سے کچھ ہی زیادہ کما پاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کوعید منانے کے لئے دوسروں کے اترے ہوئے پرانے کپڑوں پر اکتفا کر نا پڑنا ہے یا پھر بازار سے کم قیمت کے پرانے کپڑے خرید نے پڑتے ہے ، ان لوگوں کے لئے بھی سب سے بڑا مسئلہ بچوں کا ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں نمائش ایک مہلک وبا کی طرح پھیل گئی اور پوری طرح مضبوطی سے اپنی جڑیں جما چکی ہے اور یہ نمائش غریبوں کے بچوں پر ہی سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے اور بچے اپنے والدین سے اسی فیشن کے کپڑوں کی ضد کرتے ہیں اور اپنے بچوں کی خواہشات اور ضد پوری نہ کر پانا ماں باپ کے لئے باعث کوفت ہوتا ہے یہ وہ درد ہے جو اچھے اچھے ہمت والوں کے دل کو رلا دیتا ہے ، اور یہی احساس ہے جو غریب لوگوں کو قرض لے کر یا اور کسی طرح رقم جوڑ کر اپنے بچوں کو نئے کپڑے دلانے پر مجبور کرتا ہے ، اور ہمارے بہت سے امیر لوگ اس احساس کو سمجھنے کی بجائے اور اس میں معاونت کر نے کی بجائے طعنہ دیتے ہیں کہ’ نہیں ہے تو قرض لے کر نئے کپڑے لینے کی کیا ضرورت ہے ،کیا نئے کپڑوں کے بغیر عید نہیں ہو سکتی ، جتنی چادر ہے اتنے ہی پیر پھیلانے چاہئے وغیرہ وغیرہ ۔ عید کی تیاری کی یہ داستان ان لوگوں کی ہے جنہیں مزدور پیشہ کہا جاتا ہے یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں روزگار مل جاتا ہے اور جو اپنی غذا کے معاملے تک خود کفیل کہے جا سکتے ہیں ، ان لوگوں کی اس حالت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی حالت کیا ہوگی جو بے روزگار ہیں یا جنہیں کام کم ملتا ہے یا جن کی آ مدنی کم ہے ،یہ بھی سوچنے کی بات ہے ۔ اس کے علاوہ امت کا ایک اور طبقہ بھی بہت زیادہ مستحق ہے جس میں ایسے بچے شامل ہیں جو اسکول جانے اور کھیلنے کودنے کی عمر میں مزدوری کر نے کے لئے مجبور ہوتے ہیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تو کما رہے ہیں انہیں امداد کی ضرورت نہیں لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ ان کے والدین کی معاشی مجبوری ہی انہیں اسکول اور کھیل کود سے روک کر مزدوری کرنے پر مجبور کرتی ہے کون والدین ایسے ہوں گے کہ جو اپنے بچوں کو اسکول کی بجائے مزدوری کر نے بھیجیں ؟ یہ دراصل دل پر پتھر رکھ کر کیا جانے والا فیصلہ ہے جو انتہائی مجبوری کی حالت میں ہی لیا جاسکتا ہے ۔ اگر ہم ان بچوں کی اوران کے والدین کی روز مرہ کی زندگی کا بغور مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بچے بھی ہماری امداد کے مستحق ہیں ۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ غریب لوگ عید کے اخراجات پورے کر نے کے لئے اپنے اسکول جانے والے بچوں کو بھی رمضان کے دوران مزدوری پر لگا دیتے ہیں جس سے عید کے اخراجات تو جیسے تیسے پورے ہوجاتے ہیں لیکن بچوں کی تعلیم کابڑا نقصان ہوجاتا اور اس لمبی غیر حاضری کے دوران ہونے والی کمی بہت مشکل سے ہی پوری ہوپاتی ہے۔ اس سال تو دو اہم کام ایک ساتھ آئے ہیں ایک تو عید اور دوسرے بچوں کی اسکول کی شروعات۔ یعنی اس سال بچوں کی کاپیوں کتابوں کا بوجھ بھی عید کے ساتھ ہی آیا ہے ۔اس کے علاوہ ہماری قوم کی مجموعی حالت کا کیا کہنا کہ سچر کمیٹی پہلے ہی ساری دنیا کو یہ بتا چکی ہے کہ بھارت میں ہم کس حال میں ہیں ہماری قوم کا بہت بڑا حصہ امداد کا مستحق ہے اور اس حصہ کی امداد کرنا ہماری ہی ذمہ داری ہے ۔اور الحمد اللہ ہمارے امراء اور متوسط طبقے کے لوگ بھی اس ذمہ داری کو ادا کر نے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔رمضان المبارک کا یہ مہینہ انتہائی بر کت والا ہے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ میں ثواب حاصل کر نے کے بہت سارے مواقع رکھے ہیں ، اور الحمد للہ قوم مسلم اس ماہ میں ثواب کمانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے، جس میں غرباء و مساکین کی امداد کو ہی تر جیح بھی دی جاتی ہے لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں زکوٰۃ کا کوئی اجتماعی نظام یا بیت المال نہیں ہے اس لئے یہ کوشش منظم طریقہ سے نہیں ہوپاتی ہم لوگ فرداً فرداً اپنی زکوٰۃ یا صدقات ادا کرتے ہیں اور اس میں ہو تا یہ ہے کہ ہم عام طور پر یہ تحقیق نہیں کرتے یا نہیں کر پاتے کہ کون مستحق ہے اور کون غیر مستحق ،جسے ہم دے رہے ہیں وہ مستحق ہے یا ہما ری امداد کسی غیر مستحق کے حصہ میں جارہی ہے اور عموماً ہو تا یہ ہے کہ ہماری امداد ایک معمولی استثنی ٰ کے ساتھ اصل حقداروں تک نہیں پہنچ پاتی بلکہ اسے جعلی فقیر ڈھونگی غریب اور چندہ خور امیر ہی لے اڑ تے ہیں ،اور اصل مستحقین بے چارے اپنے ہی غم میں غلطاں رہ جاتے ہیں ۔اگر یہ امداد حق داروں تک پہنچتی بھی ہے تو اتنی ہی کہ اس سے انکی عید آسان ہو سکے اس میں ہم ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات کا خیال نہیں رکھتے ۔یعنی ہر سال اس امداد میں مسلسل اضافہ کے با وجود ہم وہیں ہیں جہاں دس سال پہلے تھے اور یہ ایک مسئلہ ہے جس کا حل ہمیں تلاش کر نا ہوگا اور الحمد للہ ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں اور جس مذہب کو ماننے کی وجہ سے ایک قوم میں شمار کئے جاتے ہیں اس مذہب نے ہمارے لئے ایک پختہ اور دائمی نظام بنا کر رکھ دیا ہے جو زندگی کے ہر ہر شعبہ پر محیط اور قوم کے ہر ہر مسئلہ کا حل بھی ہے۔امت کے معاشی مسائل کے حل کے لئے اس نظام کا ایک اصول زکوٰۃ ہے جس کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ و علیہ و سلم کا فرمان عالیشان ہے کہ ’یہ زکوٰۃ تمہارے مالداروں سے لی جائے گی اور تمہارے ہی محتاجوں میں تقسیم کی جائے گی‘(بخاری کتاب الزکوٰۃ) ۔اور سرکار دو عالم صلی اللہ و علیہ و سلم اور خلفائے راشدین نے اپنے اپنے زمانے میں ’ بیت المال ‘ کے نظام کے ذریعہ امراء سے زکوٰۃ جمع کر کے مستحقین میں تقسیم کی اور اس میں سختی بھی برتی گئی کہ آپ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جنگ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ’ خدا کی قسم اگر یہ لوگ اس زکوٰۃ میں سے جو یہ آپ ﷺ کے زمانے میں دیا کرتے تھے اونٹ باندھنے کی ایک رسی بھی روکیں گے تو میں ان پر تلوار اٹھاؤں گا ‘۔ اب چونکہ اسلامی نظام حکومت نہیں ہے تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سماجی اکائیوں کی سطح یعنی محلوں اور گاؤں سے ہی زکوٰۃ کے اس اجتماعی نظام کو قائم کریں اور اجتماعی طور پر غرباء مساکین اور مستحقین تک اسے پہچائیں تاکہ اپنا فرض بھی بہ حسن و خوبی ادا ہو اور ضرورت مند بھی بے یار و مدد گار نہ رہیں۔ہم اس میں لوگوں پر سختی تو نہیں کر سکتے لیکن اگر چندمتمو ل حضرات ذمہ داری سے یہ کام کریں تو اس کے فوائد دکھائی دینا شروؑ ہوجائیں گے جس سے عوام خود بخود اس کام میں ہو گی انشاء اللہ سو آئیے رمضان کے اس با برکت مہینے سے ہی اس کی کوشش کریں ۔ ایک بات اور کہ قوم کو امداد کی ضرورت صرف ماہ رمضان میں ہی نہیں ہے بلکہ ہم لوگ سال بھر کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی طرح حالت حاجت میں ہی رہتے ہیں لیکن ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ عموماً ہم رمضان میں ہی پوری زکوٰۃ لٹا دیتے ہیں بعد کے لئے کچھ نہیں رکھتے ۔اگر ہم رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ کی رقم کو ایک جگہ جمع کریں اور منظم طریقے سے اسے زکوٰۃ کے مستحقین میں خرچ کریں تو اس میں سے کچھ رقم بچ سکتی ہے جسے قوم کے دیگر کاموں میں خرچ کیا جاسکتا ہے جن میں بے روزگاروں کومستقل روزگار کی فراہمی ،اعلیٰ تعلیم کے لئے مستحق طلباء کی امداد کرنا اور معیاری اسکولیں کھول کر قوم کو تعلیمی میدان میں مضبوط کر نے کے لئے انتہائی بنیاد سے از سر نو کام شروع کرنے کو پہلی ترجیح دی جانی چاہئے۔اس نظام کی شروعات سماج کی پہلی اکائی محلے یا بستی سے ہونی چاہئے ۔کہ علماء کا کہنا ہے کہ ہر بستی کی زکوٰۃ اسی بستی کے غرباء میں صرف ہونی چاہئے ۔ہر چھوٹے سے چھوٹے گاؤں دیہات ،شہروں اور بڑے شہروں کے مختلف علاقوں کے لوگوں نے اپنے اپنے علاقے کی سطح پر اسے شروع کرنا چاہئے ۔اور یہ غریبوں سے زیادہ امیروں کی ضرورت ہے ،امت کے امیروں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قوم کے کسی ایک فرد کی یا صرف کچھ لوگوں کی ترقی کوئی معنی نہیں رکھتی جبکہ قوم مجموعی طور پر اس ترقی میں شامل نہ ہو۔ فرد کی ترقی اس جماعت یا گروہ کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے جس کے دائرے میں وہ رہتا ہے یا جس میں وہ شمار کیا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہاتوں سے لے کربڑے بڑے شہروں تک کے مسلمانوں میں سیٹھوں،صاحبوں ،زمینداروں ،اعلی شان بنگلوں میں رہنے والوں اور عمدہ ترین گاڑیوں میں گھومنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے اس کے با وجود سچر کمیٹی کہہ رہی ہے ان سر بر آوردہ افراد کی قوم کی (اجتماعی)حالت دلتوں سے بھی بد تر ہے۔

تبصرے بند ہیں۔