رمضان المبارک: دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ!

  مفتی محمد صادق حسین قاسمی 

   رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالی کی عطا و بخشش کا مہینہ ہے ،بندوں کو مختلف انداز سے اللہ تعالی نوازتے ہیں ،اور خدا کے داد ودہش کے خرانے لٹائے جاتے ہیں ،انسانوں کو بلابلاکر مالامال کیا جاتا ہے ،اللہ کا فرشتہ ہر شب صدا لگاتا ہے کہ :خیر کے طلب گارو ں !آگے بڑھو،اور اللہ سے خیر کو حاصل کرلو ،اور برائی کے چاہنے والو! پیچھے ہٹ جاؤ اور باز آجاؤ۔بخشش کے فیصلے ہوتے ہیں ،زندگیوں میں انقلاب آتا ہے ،رزق میں برکتیں دی جاتی ہیں ،جہنم سے آزادی کے مژدے سنائے جاتے ہیں ،اور جنت میں داخلے کے اعلانات ہوتے ہیں ۔غرض یہ رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالی سے بہت کچھ حاصل کرنے اور پانے کا مہینہ ہے ،بندہ جس قدر اللہ سے مانگے گا اسی قدر اس کا دامن مرادوں سے بھر پائے گا،رمضان المبارک کے اس مہینہ میں اپنی حاجتوں کو اللہ سے پوری کروانے کے لئے او ر اپنے کریم و شفیق پروردگار سے مرادوں کو پانے کے لئے دست ِدعا کو پھیلاکر در ِخدا کو کھٹکھٹانا پڑے گا اور خوب دعاؤں کا اہتمام کرنا ہوگا۔بلاشبہ رمضان المبارک قبولیت ِ دعا کا مہینہ ہے ،جس میں مومن بندوں کی دعا ئیں قبول ہوتی ہیں ۔تو آئیے ایک نظر دعا کی حقیقت اور عظمت پر ڈالتے ہیں تاکہ رمضان میں ہم اچھے انداز میں دعاؤں کا اہتمام کرسکیں ۔

رمضان اور قبولیت ِ دعا:

  رمضان المبارک کا مہینہ دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے ۔اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کے مختلف ارشادات منقول ہیں چناں چہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:اَلصَّائِمُ َلاُترَدُّدَعْوَتُہ‘۔( مسند احمد :حدیث نمبر؛9970)یعنی روزے دار کی دعا رَد نہیں کی جاتی ۔اور ایک حدیث میں ارشا د فرمایا:اِنَّ ِللّہِ عُتَقَائُ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ،لِکُلِّ عَبْدٍ ِمْنھُمْ َدعْوَۃٌ مُسْتَجَاْبَۃٌ۔( مسند احمد :حدیث نمبر؛7268)یعنی اللہ کے لئے ( رمضان) کے ہر دن اور رات میں ( بے شمار لوگ جہنم سے ) آزاد کئے جاتے ہیں ،اور ہر بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے۔اسی طرح ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:ثَلٰثَۃٔ لَا ُترَدُّ دَعْوَتُھُمْ اَلصَّائِمُ حَتّٰی یُفْطِرُ،وَالِْامَامُ الْعَادِلُ،وَدَعْوَۃُ الْمَظْلُوْمِ ۔۔۔(ترمذی:حدیث نمبر؛2464)یعنی تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی ،ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ،دوسرے عادل بادشاہ کی ،تیسرے مظلوم کی۔

قرآن مجید میں دعا کی اہمیت :

   رمضان چوں کہ قبولیت ِ دعاکا مہینہ ہے اس لئے ہمیں دعا کی اہمیت اور اس کی عظمت کو بھی پیش ِ نظر رکھنا چاہیے ،قرآن و حدیث میں مانگنے اور دعا کرنے کی جو تعلیم دی گئی ہے اور طریقہ و آداب ذکر کئے گئے ہیں ان کو بھی بطور خاص ملحوظ رکھنا چاہیے تاکہ ہماری دعائیں پروردگار کی بارگاہ میں قبول ہو،آئے اس سلسلہ میں دعا کی عظمت و اہمیت ملاحظہ کرتے ہیں ۔

     دعاکی اہمیت اور عظمت پر قرآ ن و حدیث میں مختلف مقامات میں اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔چناں چہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَانِّیْ قَرِیْبٌ  اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْن ۔( البقرۃ :117) اور ( اے پیغمبر) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو ( آپ ان سے کہہ دیجیے کہ ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تومیں پکار نے والے کی پکار سنتا ہوں ۔لہذا وہ بھی میری بات دل سے قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ راہ ِ راست پر آجائیں ۔اللہ تعالی سے خوب عاجزی اور اہتما م کے ساتھ دعاکرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا : اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیِۃً  اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْن ۔( الاعراف: 55)تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکاراکرو، یقینا وہ حد سے گذرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔انسان کی ہر حال میں دعا قبول کرنے والا اور مسائل ومشکلات سے نجات دینے والا اللہ ہی ہے جب بندہ اللہ کو پکارتا ہے تو اللہ تعالی اس کی حاجت کو پور اکرتے ہیں ،چناں چہ فرمایا :اَمَّنْ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہٗ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَائَ الْاَرْضِ ۔( النمل :62)بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بے قرار اسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور تکلیف دور کردیتا ہے ،اور جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟اللہ تعالی نے دعا کرنے اور اللہ ہی مانگنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:وَقَالَ ربکم ادعونی استجب لکم  انی الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم دٰ خرین۔( المؤمن:60)اور تمہارے پروردگار نے کہا کہ : مجھے پکارو،میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا ،بے شک جو لوگ تکبر کی بنا پر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ،وہ ذلیل ہو کرجہنم میں داخل ہوں گے۔

    اہمیت ِ دعا سے متعلق یہ چند قرآنی آیات ذکر کی گئیں ،ان کے علاوہ بھی اللہ تعالی نے مانگنے کا حکم مختلف آیتوں میں دیا ہے یہاں تک اللہ تعالی نے فرمایا:اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو ، اور اللہ بے نیاز ہے ،ہر تعریف کا بذاتِ خود مستحق ۔( فاطر:15)اور غیر اللہ سے مانگنے سے بھی بڑی تاکید کے ساتھ روکا ہے ۔

دعا احادیث کی روشنی میں :

   احادیث مبارکہ میں دعامانگنے کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے ،اور نبی کریم ﷺ نے امت کو اللہ تعالی سے مانگنے کاحکم بھی دیا اور سلیقہ بھی بتایا کہ کیسے دعا کی جائے ۔دعا کو مومن کا ہتھیا ر قرار دیا ۔ارشاد نبوی ﷺ ہے : دعا مومن کا ہتھیار ہے ،دین کا ستون ہے ،اور آسمانوں اور زمینوں کی روشنی ہے ۔(المستدرک للحاکم:1745) دعا سے چوں کہ بڑی بڑی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں ، شیطانی حملوں سے بچاؤ ہوتا ہے ،انسانی دشمنوں پر فتح یابی نصیب ہوتی ہے ،ظالموں سے نجات ہوتی ہے اس لئے دعا کومومن کا ہتھیار بتایا۔( فضائل دعا :۴۵)ایک جگہ فرمایا کہ: دعا عبادت کا مغز ہے ۔( ترمذی:3317)چھوٹی بڑی ہر حاجت اللہ ہی سامنے رکھنی چاہیے اور اسی سے مانگنا بھی چاہیے ،چناں چہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:تم میں سے ہرشخص اپنے رب سے ضرور اپنی حاجت کا سوال کرے ،یہاں تک کہ جب چپل کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اسی سے مانگے اور نمک کی حاجت ہوتو وہ بھی اسی سے طلب کرے۔(کشف الاستار:2947 )اللہ کی شان ِ رحمت بھی دیکھئے کہ وہ ایسے بندوں سے ناراض ہوتے ہیں جو اس سے مانگتے نہیں ،اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :جو شخص اللہ سے سوال نہیں کرتا اللہ تعالی اس پر غصہ ہوتے ہیں ۔( ترمذی:2219)

دعا کبھی ضائع نہیں ہوتی :

   ا نسان جو بھی دعا مانگتا ہے اللہ تعالی اس کو ضرور قبول فرماتا ہے ، عام طور پر کوئی اپنی کسی خاص حاجت کے لئے مسلسل دعا ئیں کرتے رہتا ہے اور بظاہر اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی دعا قبو ل نہیں ہورہی ہے ۔اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انسان جو بھی دعا مانگتا ہے وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔آپ ﷺ نے فرمایا:جو بھی مسلمان اللہ تعالی سے کوئی ایسی دعاکرتا ہے جس میں گناہ اور قطع رحمی کا سوال نہ ہوتو اللہ تعالی اس کوتین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور عطا فرمادیتے ہیں ،(1)یا تو اس کی وہ دعا قبول فرمالیتے ہیں ۔(2) یا دعا کرنے والے کو اس کی مطلوبہ شئے کی برابر آنے والی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں ۔( 3) یا اس دعا کے بعد اس کا اجر ( آخرت) کا ذخیرہ بناکررکھ لیتے ہیں ۔یہ سن کر حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اس صورت میں تو ہم بہت زیادہ ( کمائی ) کرلیں گے ،آں حضرت ﷺ نے ( اس کے جواب میں ) فرمایا کہ اللہ تعالی کی عطا اوربخشش سے زیادہ ہے ۔( مسند احمد:10921 )

دعا کب قبول نہیں ہوتی ؟

    بسا اوقات دعا قبول نہیں ہوتی ہے اس کی وجوہات بھی نبی کریم ﷺنے بیان فرمائے تاکہ انسان ان چیزوں سے احتیاط کرے جو قبولیت ِ دعا کی رکاوٹ بنتی ہیں ،چناں چہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے :ایک شخص جو لمبا سفر کررہا ہو ،ا س کے بال بکھرے ہوئے ہوں ، جسم پر گرد و غبار اٹا ہوااور وہ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا ئے ہوئے ہوں یا رب یارب کہہ کر دعا کرتا ہو ، ( یہ شخص دعا تو کررہا ہے ) اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ہے ، اور پینا حرام ہے اور پہننا حرام ہے اور اس کو حرام سے غذا دی گئی ہے ۔پس ان حالات کی وجہ سے اس کی دعا کیوں کر قبول ہوگی ؟( مسلم:1692) قبولیت ِ دعا کے لئے مال کا حلال ہونا بہت ضروری ہے اگر حرام مال سے پرورش ہوگی تو ایسے بندوں کی دعائیں اللہ تعالی قبول نہیں فرماتے۔اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے واضح طور پر حلا ل کی اہمیت اور حرام کی قباحت کو بیان فرمادیا کہ اس کی وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی ۔

دعا کے آداب :

    انسان دعا کی شکل میں اپنے پروردگار اور شہنشاہ کونین کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلاتا ہے ،ظاہر سی بات ہے جب اتنے بڑے دربار میں بندہ دست بدعا ہوتا ہے تو اس کے کچھ آداب اور تقاضے ہوں گے جس کو بجالانا ضروری ہے تاکہ دعا شرف ِ قبول پاسکے اور وہ شاہی آداب کا پاس و لحاظ بھی رکھنے والا شمار ہو۔ علمائے کرام نے احادیث کو سامنے رکھ کر درج ذیل آداب ذکر کئے ہیں :(1) دعا مانگنے سے پہلے کوئی نیک کام کرنا۔(2)باوضوہوکردورکعت صلوۃ الحاجت پڑھنا۔(3) قبلہ رخ ہونا۔( 4)دوزانو بیٹھنا ۔(5)دونوں ہاتھ پھیلاکر دعامانگنا۔(6)دونوں ہاتھوں کو کندھے تک اونچا اٹھانا۔(7)گڑگڑانا۔(8)اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کا واسطہ دے کر مانگنا۔(9)انبیائے کرام کے وسیلے سے مانگنا۔(10)مصیبت کے وقت اپنے خاص نیک اعمال کا واسطہ دینا۔( 11)اپنے گناہوں کا اقرار کرنا۔(12) دعا میں آواز پست رکھنا۔ (13)مسنون دعاؤں کو مقدم رکھنا(14)جامع دعائیں اختیار کرنا۔( 15)اپنی ذات سے شروع کرکے امت کے لئے دعا کرنا۔(16) مجمع میں دعا مانگے تو ہم کا لفظ استعمال کرنا۔( 17)انتہائی رغبت اور شوق سے دعا مانگنا۔(18)دعا کی ابتدا ء اور انتہا میں اللہ تعالی کی حمد بیان کرنا۔( 19)اول و آخر نبی ﷺ پر درود بھیجنا۔( دعائیں قبول نہ ہونے کی وجوہات:32)

آخری بات:

    دعا کے سلسلہ میں یہ چند باتیں ذکر کی گئیں ۔بہرحال دعا  اللہ تعالی سے لینے کاایک عظیم الشان ذریعہ ہے ،اور اس کو عبادت بھی قرار دیا گیا ہے اس لئے دعا کے سلسلہ میں جو آداب ذکر کئے گئے اس کا اہتمام کرنا چاہیے ۔اور ہر اس عمل سے بچنا چاہیے جو قبولت ِ دعا میں مخل ہو۔ہمارے معاشرہ میں دعا پرخاص زور نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اہتمام ہوتا ہے ،صرف چند رٹی ہوئی دعاؤں کو دہراکر دعا کرلینا سمجھا جاتا ہے ،جب کہ دعا دل سے ہونی چاہیے اور پورے خشوع و خضوع سے کی جانی چاہئے ،بسااوقات بوجھ سمجھ دعا مانگی جاتی ہے اور بے توجہی سے کی جاتی ہے ان تما م سے حد درجہ احتیاط لازم ہے ۔ہم اپنی عافیت اور سلامتی کے ساتھ ان مظلوم اور بے قصور مسلمانوں کے لئے ضروردعائیں کریں ، اللہ تعالی کا بے پناہ کرم ہے کہ اس نے ہمیں بڑی عافیت نصیب فرمائی اور افطار وسحر کے لئے انواع واقسام کی غذائیں عنایت فرمائی لیکن ناجانے کتنے لوگ ایک وقت کے کھانے کے لئے تڑپ رہے ہوں ؟بچے بھوک وپیاس کے بلک رہے ہوں ؟اوراللہ کی عطاکردہ نعمتوں پر شکر بجالائیں اوررب کے حضور ہر وقت ملک و ملت اور عالم ِانسانیت کی بھلائی و خیر اور عافیت و سلامتی کے لئے خوب دعا ئیں مانگے۔رمضان المبارک کی ساعتیں بابرکت ہوتی ہیں ،ہر لمحہ قبولیت ِ دعا کا ہوتا ہے ،اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں ،ایسے عظیم موقع پر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہمارے ملک کی سلامتی اور بھلائی کے لئے اور عالم اسلام کے لئے کی سلامتی کے لئے دعائیں کریں ،ہمارے لئے یہی ایک مؤثر ہتھیار اور آلہ ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے مسلمان بھائی کے حق میں خیر خواہی اور بھلائی طلب کرسکتے ہیں اور اپنے ملک کی بھلائی کو پروردگار ِ عالم سے مانگ سکتے ہیں ۔

تبصرے بند ہیں۔