رمضان المبارک کا آخری عشرہ 

محمد عرفان شيخ يونس سراجی

رمضان المبارک  رحمت وبرکت والا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالی اپنے بندوں پر خاص برکات وعطیات  نچھاور کرتا ہے۔ تاہم اس کا آخری عشرہ کتاب وسنت کے نصوص  کی رو سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔اس پر مستزاد نبی کریم ﷺ آخری عشرہ کا خصوصی اہتمام کرتے تھے ،شب قدر میں شب بیداری کرکے اپنی جھولیوں کو عبادات وطاعات سے مزید بھرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ کو  اتنی  محنت ومشقت اور جدوجہد کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی ،پھر بھی آپ ﷺ عبادات میں اجتہاد کرکے  اللہ کے نزدیک سب سے مقرب  بننے کے لیے   اپنی مقدور پر عبادات اور قیام اللیل کا اہتمام کرتے تھے۔ جب  عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ رسول ! آپ کی اگلی اور پچھلی ساری گناہیں معاف کردی گئی ہیں، آپ اتنی جاں فشانی کیوں کرتے ہیں ؟ تو نبی اقدس نے جواب دیا کہ میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ شکرگزار بندہ بنناچاہتا ہوں۔رمضان المبار ک  کا آخری عشرہ اپنے اندر سموئے ہوئے فضائل وشمائل اور برکات وخیرات  کی وجہ سے غایت درجہ اہم ہے۔

نبی کریم کا فرمان گرامی ہے :

”مَنْ قَامَ لَيلَةَ الْقَدْرِ اِيمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ“. (صحیح بخاری،ح:۱۹۰۱)

ترجمہ: ”جس نے  ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے لیلۃ القدر کا اہتمام کیا   اس کے  اگلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں“۔ نبی کریم ﷺآخری عشرہ میں لیلۃ القدر  کی  روح افزا فضا سے  فیض یاب ہونے کی غرض سے اس کی جستجو کا طاق راتوں میں حکم دیتے تھے۔ جیساکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ”تحروا ليلة القدر في العشر الأواخر من رمضان“.(صحیح بخاری،ح:2020، ومسلم،ح:1169)

  آج کا المیہ یہ ہے کہ لیلۃ القدر میں مساجد   شب بیداری  کرنے والوں کی بجائے شب باشی کرنے والوں کے  وجود سے بھری رہتی ہیں ،البتہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ذکرواذکار اور تلاوت کلام پاک سے اپنی زبان رطب کر رہے ہوتے ہیں۔تاہم کچھ سالوں سے ایسی غیر مناسب روش چل پڑی ہے جس نے عبادات اور نیکیوں کے حصول میں رکاوٹ پیدا کردی ہے ، وہ یہ کہ شب قدر میں لذت کام و دہن کا سامان سیویوں ،جلیبیوں ،حلوہ جات  اور آخری لیلۃ القدر میں مرغن   ومسلم اشیا کا انتظام وانصرام کیا جاتا ہے،جس کی وجہ سے لوگ کھانے پینے میں مصروف ہوکر اپنے بیش بہا اوقات ضائع کردیتے ہیں۔ اور اس رات کی عظیم خیرات وبرکات  سےفیض یاب نہیں ہوپاتے۔بعض ایسے   لوگوں کو دیکھا گیا ہے جو محض مسجدوں  میں دودھ سیویاں  اور گوشت پوست ہی کھانے آتے ہیں۔ آپ کو یہ پڑھ کر بالکل حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ لوگ اس طرح بھی کرتے ہیں!!! جی ہاں !یہ مشاہد ہے۔تاہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ اکل وشرب کے  ایسے مواقع  متوفر ہیں جن میں انسان اپنی شکم سیری اور اشیائے خورد و نوش کا  عمدہ ولذیذ سامان  فراہم کرسکتا ہے ۔ مگر یہ رات ایک مرتبہ رخصت ہوجائے ، تو مستقبل کا کسے پتہ ،کون حیات رہتا ہے اور کون  بے حیات۔لہذا ہمیں وقت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے خصوصی طور پر  شب قدر جیسی عظیم الشان لمحات میں  دعائیں اور مشروع اوراد وظائف  کرنے چاہیئں۔اپنی خطاؤں اور گناہوں پر نادم ہوکر اللہ کی بارگاہ میں سربہ سجود ہونا چاہیے۔ کیوں کہ موت  کب دروازہ پردستک دے دے کسی کو خبرنہیں۔اس لیےنبی ﷺ  نے پانچ چیزوں کی اہمیت کے پیش نظر  بہترین نصیحت فرمائی ہے: ”اغتنم خمسا قبل خمس:شبابك قبل هرمك، وصحتك قبل سقمك، وغناك قبل فقرك، وفراغك قبل شغلك، وحياتك قبل موتك“.(أخرجہ الحاکم:7876)

ترجمہ:”پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت سمجھو! اپنی جوانی کو بڑھاپے سےپہلے،اور اپنی حسن صحت کو ناتوانائی سے پہلے،اوراپنی بےنیازی کو مفلسی وفقیری سےپہلے،اور اپنی فارغ البالی کو مشغولیت سے پہلے،  اور اپنی حیات کو موت سےپہلے“۔

اس حدیث کی روشنی   میں  یہ معلوم ہوا کہ جوانی ،حسن صحت،بےنیازی ومالداری،فارغ البالی اور فرصت اللہ تعالی  کی اس کے بندوں کےلیے  عظیم الشان  نعمت ہے۔لہذا ہمیں رمضان المبارک کے عشرہ اخیر میں حتى المقدور اپنے  دامن کو نیکیوں سے بھرنے کی سعی مسعود کرنی چاہیے،خود سے سرزد ہوئے گناہوں   کی مغفرت اور اللہ تعالی کی رحمتوں اور رأفتوں  کے خزینہ کا  خواستگار ہوناچاہیے۔اللہ تعالی  اپنے سوالیوں اور اپنے حضورسجدہ  ریز ہونے والوں کی خلوص آمیز دعائیں مسترد نہیں کرتا ہے۔کیوں کہ اللہ  تعالی خشوع وخضوع کے ساتھ مانگنے والوں  کی   دعائیں  قبول نہ کرنے کی صورت میں عار محسوس کرتا ہے۔جیساکہ نبی کریم ﷺکا فرمان ہے:”إن ربكم حي كريم يستحي من عبده إذا رفع يديه أن يردهما صفرا خائبتين“.(رواہ احمد: 23765،والترمذی: 3556)

ترجمہ:”یقینا تمہارا رب جاویداں   اور کریم ہے  ،اپنے بندوں  کے دونوں اٹھائے ہاتھوں کو خالی لوٹانے میں شرم محسوس کرتاہے“۔

  اگر کوئی شخص ماہ رمضان  کی  پرکیف فضاؤں میں       اللہ کی رحمت وبرکت اور بخشش نہ حاصل کرسکا ،تووہ بلاشبہ نہایت بد بخت  اور بد قسمت ہے۔جیساکہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:”رغم أنف رجل دخل عليه رمضان ثم انسلخ قبل أن يغفر له“۔(سنن ترمذی،ح: 3545۔ وصححہ الألبانی)

 ترجمہ:”اس آدمی کی ناک خاک آلود ہوجس پر رمضان کا سایہ فگن ہوا،پھر بغیر اس کی مغفرت کے رخصت ہوگیا“۔

اللہ تعالی ہم سب کو رمضان المبارک  عظیم المرتبت اوقات سے اکتساب اجروثواب کی تو فیق ارزانی عطا فرمائے۔آمین

تبصرے بند ہیں۔