رمضان المبارک کی عبادتیں

 محمد احمد رضا ایڈووکیٹ

عربی زبان میں رمضان کا مادہ (root word) رمض ہے، جس کا معنی سخت گرمی اور تپش ہے۔ رمضان میں چونکہ روزہ دار بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت کرتا ہے اس لئے اسے رمضان کہتے ہيں۔ اس کی دوسری وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب عربوں نے مہینوں کے نام رکھے تو اتفاقا رمضان سخت گرمی میں تھا تو انہوں نے موسم کی مناسب سے اس کا نام رمضان رکھ دیا۔

رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے کہ اس ماہ مقدس میں اللہ تعالی نے قرآن کریم کو نازل فرمایا۔ اسی مہینے میں ایک رات ایسی ہے جسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے، اور وہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جس کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا:

لیلۃ القدر خیر من الف شھر۔

شب قدر (فضیلت، برکت اور اجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث میں بکثرت موجود ہیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

اذا دخل رمضان فتحت ابواب الجنۃ و غلقت ابواب جھنم و سلسلت الشیاطین۔

جب رمضان داخل ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہيں اور شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے۔

پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی محبت فرماتے کہ اکثر رمضان المبارک کے مہینے کو پانے کی دعا فرمایا کرتے۔ روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شعبان کے مہینے سے ہی روزے رکھنے شروع کر دیتے اور ان روزوں کے ساتھ رمضان شریف کا استقبال فرماتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رمضان المبارک کا بہترین استقبال فرماتے اور صحابہ کرام سے سوالیہ انداز میں دریافت فرماتے کہ:

ما ذا یستقبلکم و تسقبلون؟

کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کوئی وحی نازل ہونے والی ہے؟ میرے آقا ﷺ  نے فرمایا: نہیں، حضرت عمر نے عرض کیا کہ کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ پھر کیا بات ہے تو پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ان اللہ یغفر فی اول لیلۃ من شھر رمضان لکل اھل القبلۃ

بے شک اللہ تعالی رمضان المبارک کی پہلی رات ہی تمام اہل قبلہ کو معاف فرما دیتا ہے۔

رمضان المبارک میں سرکار دو عالم ﷺ کے معمولات عام حالات سے مختلف ہوتے۔ آپ کی عبادات، ریاضات میں عام دنوں کی نسبت بہت اضافہ ہو جاتا۔ اس مہینے میں اللہ تعالی کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اسی شوق میں آپ ﷺ راتوں کا قیام زیادہ فرماتے۔ سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں درج ذیل معمولات رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کا حصہ ہوتے۔

  1. کثرت عبادت

ام المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں کہ:

کان رسول اللہ ﷺ اذا دخل رمضان لغیر لونہ و کثرت صلاتہ، و ابتھل فی الدعاء، و اشفق منہ۔

جب رمضان المبارک شروع ہوتا تو پیارے آقا کریم ﷺ کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا، آپ ﷺ کی نمازوں میں اضافہ ہو جاتا، اللہ تعالی سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اللہ تعالی کا خوف طاری رکھتے۔

  1. رمضان المبارک کے روزے رکھتے۔ (رمضان کے روزے فرائض میں شامل ہيں، نہ رکھنا حرام اور معاذ اللہ انکار کر دینا کفر ہے)۔

رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کے روزوں کی فضیلت یوں بیان فرمائی کہ: من صام رمضان ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ جس نے رمضان کا روزہ ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رکھا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

  1. رسول اللہ ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ آپ روزے کی ابتداء سحری سے اختتام افطاری پر کرتے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری ميں برکت ہے۔ حضرت عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کھانا ہے۔
  2. راتوں کو قیام

رمضان المبارک کی راتوں میں تاجدار کائنات ﷺ کثرت سے قیام فرماتے۔ پیارے آقا کریم ﷺ کا فرمان ہے:

من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔

جس نے رمضان المبارک میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہيں۔

  1. صدقہ و خیرات کی کثرت

رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کثرت سے صدقہ و خیرات فرماتے۔ سید دو عالم ﷺ کی سخاوت کا عالم تو یہ تھا کہ کبھی کوئی سوالی خالی ہاتھ واپس نہ گیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہيں کہ: جب جبرائیل آ جاتے تو آپ  ﷺ بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے۔

رمضان المبارک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کثرت سے آتے تو سید دو عالم ﷺ صدقہ و خیرات میں بھی مزید کثرت فرماتے۔ امام نووی فرماتے ہيں کہ اس حدیث مبارکہ سے کچھ فوائد ملتے ہيں؛ مثال کے طور پر

رسول اللہ ﷺ کی سخاوت کا بیان، رمضان المبارک میں کثرت سے صدقہ و خیرات کے محبوب عمل ہونے کا بیان، نیک بندوں کی ملاقات پر سخاوت میں زیادتی کرنے کا بیان وغیرہ

  1. حضور سید دو عالم ﷺ رمضان المبارک میں اعتکاف فرماتے۔ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرنے کا معمول تھا۔ حضرت سیدتنا ام المؤمنین سلام اللہ علیھا فرماتی ہيں کہ: ان النبی ﷺ کان یعتکف العشر الاواخر من رمضان حتی توفاہ اللہ، ثم اعتکف ازواجہ من بعدہ۔

رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری دس دن میں اعتکاف فرماتے یہاں تک کہ اللہ کے حکم سے آپ کا وصال ظاہری ہو گیا۔ پھر آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا۔

(اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے وصال ظاہری کے بعد ازواج مطہرات کے اعتکاف کرنے کے الفاظ ہيں، یہ امہات المؤمنین کا عمل تھا، لیکن اگر عورت چاہے تو شوہر کی اجازت سے رمضان المبارک میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے)۔

ان کے علاوہ بھی رمضان المبارک کی بہت سی خصوصیات ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہيں۔

سال بھر کے دیگر مہینوں میں مخصوص دن اور مخصوص ساعتیں عبادت کی ہیں مثلاً محرم کی دسویں تاریخ اپنے اندر زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ رجب میں ستائیسویں شب معراج النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت سے عبادت کی خصوصیت رکھتی ہے۔ شعبان کی پندرھویں شب کی عبادت بھی اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ شوال کی پہلی شب عبادت کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے۔ ذوالحجہ میں چار دن نویں سے بارہویں تک ایام تشریق کہلاتے ہیں جن میں تکبیرات کہی جاتی ہیں جبکہ رمضان وہ مہینہ ہے کہ جس کے شب و روز کی ہر ساعت نورِ عبادت سے روشن و منور ہے۔ یوں کہ طلوعِ فجرِ صادق سے غروبِ آفتاب تک روزہ، پھر افطاری، پھر تراویح، پھر وقتِ سحر کی روحانی کیف آور ساعتیں، غرض ہر لمحہ اور ہر ساعت بندہ مومن مصروف عبادت ہے۔

سال کے دیگر مہینوں کی نسبت اس ماہ مقدس میں عبادت، ذکر و اذکار، تقویٰ و طہارت اور نیکی و بندگی کی طرف دل زیادہ راغب ہوتے ہیں اور ایک مسلمان ان ایام میں عبادت کی لذت بھی محسوس کرتا ہے۔

قرآن مجید (جو دنیائے انسانی کی طرف اس کے خالق اور محبوب حقیقی کی طرف سے آخری نامہ محبت ہے)کی تلاوت جس کثرت کے ساتھ ماہ رمضان میں کی جاتی ہے وہ سال کے دیگر ماہ و ایام میں نہیں ہوتی۔ ماہ رمضان کی قدسی صفات ساعتوں میں گناہگار ترین انسان بھی تلاوت قرآن سے اپنے باطن میں روحانی کیف و سرور اور حلاوت پاتا ہے۔

ماہ مقدس رمضان کے شب و روز میں گلشن اسلام میں یوں بہار آجاتی ہے کہ سارا اسلامی معاشرہ ایک ہری بھری کھیتی کی مانند لہلہاتا نظر آتا ہے۔ مساجد آباد ہوجاتی ہیں، نیکی کرنے کے جذبات غالب آجاتے ہیں اور زبانیں ذکر الہٰی اور درود و سلام کی چاشنی و حلاوت سے آشنا ہوتی ہیں۔

عام اسلامی مہینوں کی نسبت اس ماہ مبارک کا ہر بندہ مومن کو انتظار ہوتا ہے۔ وہ ذوق و شوق کے ساتھ اس کے چاند کا انتظار کرتا ہے اور خوشی و مسرت کے ساتھ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتا ہے جبکہ اس کے گزر جانے پر مومن صادق اس کے فراق میں آنسو بہاتا اور گریہ و زاری کرتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام مہینے اور دن اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں مگر رمضان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کو اللہ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ ’’شعبان میر امہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے‘‘۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس ماہ مبارک میں بالخصوص کثرت کے ساتھ عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ جب رمضان شروع ہوجاتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنا کمر بند کس لیتے (یعنی عبادت کی کثرت کرتے)، پھر اپنے بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولا کریم ہمیں بھی رمضان المبارک کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ کریم تمام امت مسلمہ کو رمضان المبارک کی برکتیں، رحمتيں عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔