رمضان المبارک کے قیمتی تحفے

محمد عبداللہ جاوید

اللہ کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا ‘ اور عمل کے بغیر نہ ایمان کی حقیقت کا پتا چلتا ہے اور نہ ہی وہ پختہ ہوتا ہے۔ اسلئے آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ- ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ (جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیئے ہیں) – کا ذکر ملتا ہے۔ جس امت کا مشن انسانوں کی بھلائی ہو‘ اس کی امتیازی شان بہر حال نیک اعمال کی انجام دہی ہونی چاہئے ۔ ایسے اعمال جن سے اس کی دنیا و آخرت بھی سنورے اور انسانوں کے لئے راہنمائی بھی میسر آئے، ان اعمال کی حسب ذیل چار بنیادی خصوصیات ہوں گی :

(الف) بر وقت عمل :

یعنی جس کام کا جو وقت مقرر ہے‘ اسی وقت اسے انجام دینا چاہئے۔ پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں لیکن ان کی ادائیگی میں کوئی آزاد نہیں ہے بلکہ مقررہ اوقات کی پابندی ضروری ہے۔ اللہ کےرسولﷺ سے جب عرض کیا گیا کہ کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو بڑا محبوب ہے توآپﷺ نے فرمایا الصَّلاۃُ عَلٰی وَقْتِھَا یعنی نماز وقت پر ادا کرنا۔ لہذا نماز کی بروقت ادائیگی سے ایسا مزاج فرو‏‏‏غ پانا چاہيے کہ ہر کام ‘ ٹھیک اسکے متعینہ وقت پر انجام پاسکے۔ دیگر فرائض جیسے روزہ‘زکوۃ اور حج کا بھی اپنا ایک متعین وقت ہے‘ ان تمام فرائض کی بروقت ادائیگی سے بھی مزاج میں مزید پختگی آنی چاہیے. وقت گذر جانے کے بعد چاہے کتنے ہی اچھے انداز سے عمل کیاجائے‘ اللہ تعالیٰ اسے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔ ٹال مٹول کر نماز پڑھنے والوں کے بارے میں سنئے کیا وعید ہے:

فَوَیْْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ o الَّذِیْنَ ہُمْ عَن صَلَاتِہِمْ سَاہُون (الماعون:5۔4)

تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کیلئے جو اپنی نمازوں میں غفلت برتتے ہیں

اور جو لوگ زکوۃ ادا نہیں کرتے ان کے لئے دیکھئے کیسا دردناک عذاب ہے:

وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنفِقُونَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ ( التوبہ:34)

دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے.

اللہ رب العزت نے دنیا والوں کی راہنمائی و رہبری کے جس عظیم کام کی ذمہ داری ملت پر ڈالی ہے‘ اس میں کامیابی‘ نہ صرف نیک کاموں کی انجام دہی میں ہے بلکہ ہر کام باضابطہ مقرر وقت پر ہونا چاہئے۔

عمل کی منصوبہ بندی اور ہر آنے والے دن کی مائیکرو پلاننگ تقوی سے تعلق رکھتی ہے۔

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَلۡتَنظُرۡ نَفۡسٌ۬ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ۬‌ۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرُۢ بِمَا تَعۡمَلُونَ (الحشر:18)

اے لوگوں جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقوی اختیار کرواور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا سامان کیا ہے؟ اللہ سے ڈرتے رہو‘ اللہ یقیناًتمہارے ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔

(ب) تسلسل کے ساتھ عمل :

اللہ تعالیٰ نہ صرف بروقت کئے جانے والے اعمال پسند فرماتا ہے بلکہ ان اعمال کو بھی محبوب رکھتا ہے جو تسلسل کے ساتھ ‘ بلا ناغہ انجام دیئے جاتے ہوں۔ آپ جانتے ہیں ہر کام ‘ ایک خاص محرک کے ساتھ انجام پاتا ہے. جب وہ محرک اللہ رب العزت کی خوشنودی ہو تو عمل ایک تسلسل میں ڈھل جاتا ہے ۔ اور جب کسی عمل کا سلسلہ چل پڑے تو بس وہ چلتا ہی رہتا ہے اور شخصیت پر بڑے خوشگوار اثرات مرتب کرتا جاتا ہے…. پھر کیا نیک کاموں کی انجام دہی کا اپنا ایک مزہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ ہر گھڑی بس یہی دھن سوار رہتی ہے کہ ایسا کونسا کام انجام دوں کہ رب راضی ہوجائے؟ مسجد میں دل کا اٹکا رہنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اسی جذبہ سے تعلق رکھتا ہے۔

استقلال کے ساتھ نیک کام انجام دینے کے لئے بندہ مومن کی کیفیت اصحاب صفہ کے ان برگزیدہ بندوںؓ جیسی ہونی چاہئے جو مسجد نبوی کے دالان میں ہر وقت دستیاب رہتے تھے یا تو خود سے عبادت یا کسی کار خیر میں مشغول رہتے یا پھر جہاں ضرورت ہو وہاں پہنچ جاتے تھے۔ بالکل ایسا ہی معاملہ افراد ملت کا ہونا چاہئے کہ وہ کار خیر کے لئے ہر وقت دستیاب رہیں. نہ صرف رمضان بلکہ عام دنوں میں بھی ہر فرد کا ایسا معاملہ ہو کہ نمازوں کے موقع سے مسجد میں، رات کے پچھلے پہر تہجد میں، صبح و شام تلاوت قرآن کریم میں اور عام اوقات میں ایک دیانتدار مسلمان کی طرح مصروف کار نظر آئیں. رمضان کے بعد بھی رمضان جیسے شب وروز ، عمل کے اسی تسلسل کو ظاہر کرتے ہیں.

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے‘ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو وہ عمل بے حد پسند ہے جو مسلسل کیا جائے‘چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ استقلال کے ساتھ اعمال کی انجام دہی کا جذبہ‘ مسلسل روزوں اور راتوں میں قیام کے ذریعہ فروغ پاتا ہے ۔

(ج) بلاتاخیرعمل :

بعض کام ایسے ہوتے ہیں جنہیں جلد از جلد کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جیسے فرض نمازیں ۔ تاخیر سے پڑھی جانے والی فرض نماز بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ۔ایسا ہی معاملہ دیگر احکامات کا بھی ہے۔ عمل کے سلسلہ میں بلا تاخیر عمل ایک انتہائی اہم بات ہے۔

حضرات صحابہؓ کی یہ ایک خاص پہچان تھی کہ جب بھی کوئی حکم دیا جاتا اور کوئی اچھی بات معلوم ہوتی تو اس پر بلاتاخیر اور فوری عمل کرتے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے دن ایک صحابیؓ عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ کے رسولؐ اگر میں اس جنگ میں مارا جاؤں تو کہاں جاؤں گا؟ آپؐ نے فرمایا جنت میں۔ وہ صحابیؓ کھجور کھا رہے تھے ‘ کھجور پھینکے اور جنگ میں شریک ہوئے لڑے اور شہید ہوگئے(بخاری و مسلم)۔ حضرت ابوقتادہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولؐ سے دریافت کیا کہ میرے بال کاندھے تک ہیں کیا میں ان میں کنگھی کروں۔آپ نے فرمایا ہاں۔ اسکے بعد حضرت ابوقتادہؓ کا معمول رہا کہ وہ دن میں کئی مرتبہ بالوں میں کنگھی کیا کرتے تھے(موطاامام مالک)۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ غسل جنابت کے وقت اگر ایک بال برابر بھی جگہ سوکھی رہ جائے تواللہ تعالیٰ ایسا او ر ایسا عذاب دے گا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ کا یہ معاملہ رہا کہ وہ کبھی سر میں بال ہی رہنے نہیں دیتے۔ بال تھوڑا بڑھ جاتے تو صاف کردیتے تھے۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے سر سے دشمنی کرلی (ابوداؤد)۔

زندگی نہ صرف نیک اعمال سے سجی رہے بلکہ اس میں بلاتاخیر عمل کرنے کا جذبہ بھی کارفرما رہے، یہی تقوی ہے۔ رمضان کے صیام و قیام، سحر و افطار، مواسات و صدقات سے بلاتاخیر و سرعت عمل کا ایسا ہی جذبہ پروان چڑھتا ہے.

(د) عمل میں ایک دوسرے سے سبقت :

یعنی جب سب اچھے کام کرنے لگیں تو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش بھی ہوگی. یہ مسابقت نیک جذبہ کے ساتھ اللہ کو راضی کرنے کے لئے ہوگی۔ آپ جانتے ہیں دوڑ کا مقابلہ ان لوگوں کے درمیان ہوتا ہے جو میدان میں دوڑنے والی راہ (running track) پر ہوں‘ گرچہ اس وقت میدان میں اور بھی لوگ ہوں گے لیکن ان کے درمیان دوڑ کا مقابلہ نہیں ہوگا۔ لہذا جب معاشرہ میں مسلمان ہوں اور وہ سب ایک ساتھ عبادت کرتے ہوں اور کار خیر میں بھی مصروف رہتے ہوں تو لازماً ان کے درمیان مسابقتی جذبہ (competitive spirit) پروان چڑھے گا ۔ سچ تو یہ ہے کہ معاشرہ کی اصلاح اور ترقی‘ اسی مسابقتی جذبہ سے جڑی ہے جس کا اللہ رب العزت نے خاص حکم صادر فرمایا ہے:

وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَیْْرَاتِ أَیْْنَ مَا تَکُونُواْ یَأْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعاً إِنَّ اللّٰہَ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْرٌ (سورہ البقرہ:147)

ہر ایک کیلئے ایک رخ ہے جس کی طرف وہ مڑتا ہے۔پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو۔جہاں بھی تم ہوگے اللہ تمہیں پالے گا۔اسکی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔

حضرات صحابہ کرامؓ کے درمیان اسی طرح کا مسابقتی جذبہ تھا۔ حضرت عمرؓ کی خواہش رہتی تھی کہ وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے نیک اعمال میں سبقت لے جائیں۔ چنانچہ ایک جنگ کے موقع پر حضرت عمرؓ نے اپنے گھر کا سامان آدھا آدھا الگ کیا اور ایک حصہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش فرمایا۔ دوسری طرف حضرت ابوبکر صدیقؓ کا حال یہ تھا کہ آپ نے اپنے پورے گھر کے سامان رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کردیا تھا۔ پوچھا گیا کہ گھر میں کیا باقی بچا ہے‘ توآپؓ نے فرمایا گھر میں اللہ اور اسکے رسولﷺ ہیں.

روزوں اور قیام اللیل کی فرضیت کے ساتھ رمضان المبارک عمل کا ایک جامع منصوبہ اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اس منصوبہ پر عمل درآمد سے ہر فرد پر واضح ہوتا ہے کہ نیک کام کرنا اور نیک بنے رہنا ممکن ہے۔ تہجد کے وقت اٹھنا ممکن ہے۔ اللہ رب العزت کی خاطر رکے رہنا اور صبر کرنا ممکن ہے۔ تلاوت قرآن کریم اور اس پر تدبر و تفکر ممکن ہے۔ زبان اور نگاہوں پر قابو پانا ممکن ہے۔ معالات اور لین دین میں احتیاط برتنا ممکن ہے۔ اپنا مال اعزہ و اقربا اور ضرورت مندوں پر خرچ کرنا ممکن ہے. اچھے کاموں کے لۓ وقت فارغ کرنا ممکن ہے۔ ہر طرح کے تعصب سے بالاتر ہوکر متحد رہنا ممکن ہے۔

رمضان المبارک کی عبادات اور انجام دیئے جانے والے نیک اعمال سے معاشرہ ایک ایسا منظر پیش کرتا ہے کہ ہر جگہ نیکیوں کا چلن ہے اور ہر کوئی مصروف عمل بھی… لہذا مصروف عمل رہنے والوں کے درمیان مسابقت ہونا اور مسابقتی جذبہ پروان چڑھنا بالکل فطری ہے۔

قیمتی تحفے: اعمال صالحہ سے متعلق یہ خیر کے جذبات….یعنی…. بروقت عمل، تسلسل عمل، بلا تاخیر عمل اور مسابقت عمل…. رمضان المبارک کے بڑے قیمتی تحفے ہیں۔ ان کے ملنے پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا اور بقیہ ایام اور اس کے بعد بھی ان کے پیش نظر مصروف کار رہنا عین تقوی ہے۔

….وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ بِمَا تَعۡمَلُونَ بَصِيرٌ۬ (البقرہ:233)

اوراللہ کا تقوی اختیار کرو اور خوب جان لو کہ جو کچھ تم کرتے ہو سب اللہ کی نظر میں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔