رمضان اور تخلیہ

ابوفہد

عبادت، عبادت گزار کے لیے خارج سے جو سب سے بڑی چیزچاہتی ہے وہ پرسکون ماحول ہے۔ اورشاید مساجد کے قیام میں بھی یہ ایک بڑا عنصر پنہا ہے کہ مساجد اس لیے تعمیر کی جاتی ہیں تاکہ عبادت گزار یکسو ہوکر عبادت کرسکیں۔ ورنہ تو ساری زمین امت مسلمہ کے لیے مسجد کے حکم میں ہے۔مساجد یوں تو مسلمانوں کی بستی میں قلب کی طرح ہیں، وہ امت کے سالم وجود کو روحانی غذا فراہم کرتی ہیں، امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتی ہیں، تاہم مساجد کا ایک بڑا کردار یہ بھی ہے کہ وہ عبادت گزاروں کو یکسو ہونے میں بھی مدد دیتی ہیں کیونکہ وہ باہر کے ہنگاموں سے کسی قدر محفوظ ہوتی ہیں۔

ایک عبادت گزار کو علائق دنیا سے الگ کرکے،اسے اللہ کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کے لیے مدد دینے میں مساجد کے علاوہ اعتکاف کابھی بڑا اہم رول ہے۔ حالانکہ کھلے میدان کے مقابل مسجد خود ہی ایک محیط گوشہ ہے، لیکن جب اسی مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھا جاتا ہے تو اس کے بھی ایک چھوٹے سے گوشے کو منتخب کرکے اسے عارضی پردوں سے مزید محیط کیا جاتا ہے اور آدمی گویا دنیا وی علائق سے زیادہ سے زیادہ دور رہ کر خود کو اللہ وتبارک وتعالیٰ کے ذکر میں مشغول کرلیتا ہے۔

اس ظاہری احاطہ بندی کے بعد معتکف پر کچھ دوسری حدبندیاں بھی قائم ہوتی ہیں ایک یہ بھی کہ وہ بنا ضرورت مسجد سے باہر نہیں جاسکتا اورایک یہ بھی کہ وہ اعتکاف کی نیت کرلینے کے بعد تمام غیر ضروری اور لایعنی اعمال اور گفتگو سے احتراز کرے گا۔اللہ سے تعلق قائم کرنے کے لیے گرچہ دنیا سے بے تعلق ہونا شرط نہیں تاہم دنیا کے ہنگاموں اور شورشرابوں سے دورہوناکسی حد تک ضروری ہے کیونکہ اللہ کوئی مرئی(مادی آنکھوں سے نظر آنے والی) ذات نہیں ہے۔ وہ لطیف ہے اورلطیف کثیف کی ضد ہے اور اسی لیے ایسا ہے کہ اس سے تعلق استوار کرنے کے لیے کثافتوں کو منہا کرنا پڑے گا تب ہی کہیں جاکر صحیح معنیٰ میں اس سے تعلق استوار ہوسکے گا۔ اور اسی سے اعتکاف کی حکمت اور فلسفہ سمجھ میں آجاتا ہے۔

اب دیکھنے اور غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جس دین کو اس حد تک پرسکون ماحول اور اتنی زیادہ یکسوئی کی ضرورت ہے آخر اسی دین کے ماننے والے میلوں ٹھیلوں اور شوروہنگاموں میں کیوں الجھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے کئی سارے دینی کاموں کی انجام دہی کے لیے بھی شوروغل کو جیسے دین کا حصہ ٹہرالیا ہے۔ خیر سے یہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے ، یعنی عبادت وریاضت کا مہینہ ہے اور اس ماہ میں دیگر مہینوں کے مقابل زیادہ پرسکون ماحول اوریکسوئی کی ضرورت ہے، مگر ہم جو منظر اپنی بستیوں میں دیکھتے ہیں وہ اس سے بالکل ہی مختلف ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان المبارک میں ہماری بستیاں مزید شورشرابوں سے بھر جاتی ہیں۔ لاؤڈاسپیکر کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور بازاروں کی رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔