رمضان اور قرآن

سجاد احمد خان

(لار گاندربل کشمیر)

ماہِ مقدس رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ بھی اپنی تمام تر تجلیات، انوار و برکات کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ہمارے سروں پر سایہ فگن ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مبارک مہینے کو ہمارے لیے اور ساری امت کیلئے فلاح و بہبود اور کامیابی وکامرانی کا ذریعہ بنا دے۔آمین ثم آمین

 رمضان المبارک اللہ کا مہینہ ہے اور اس مہینے کو اللہ کے کلام سے خاص نسبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنے انبیاء کرام پر جو کتابیں وقتاً فوقتاً نازل فرمائیں ان میں سے اکثر اسی مہینے میں نازل ہوئیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے رمضان المبارک کی یکم یا ۳ تاریخ کو عطاء کیے گئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو زبو ر(16) یا(17) رمضان المبارک کو ملی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات۶رمضان المبارک کو عطاء ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل12یا 13رمضان المبارک کو ملی۔ اللہ کی سب سے محترم کتاب قرآن مجیدبھی اللہ کے سب سے محترم نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی مبارک مہینے میں نازل ہوئی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید رمضان المبارک کی27ویں شب کو لوحِ محفوظ سے پہلے آسمان پرایک مرتبہ اتارا گیا اور پھر حالات اور ضروریات کی مناسبت سے تھوڑا تھوڑا نازل ہوتا رہا۔ خود قرآن مجید میں ارشاد ہے:

ترجمہ: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجو کہ ہدایت ہے لوگوں کے لئے اور روشن راستہ پانے اور حق و باطل کو جدا کرنے کی دلیل ہے۔‘‘(سورۃ البقرۃ)

اگر ہم اندازہ لگانا چاہیں کہ رمضان المبارک کی شکل میں ہمارے پاس رحمتوں اور برکتوں کا کتنا بڑا خزانہ موجود ہے تو ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اس مہینے کے ایک منٹ میں ہم قرآن مجید کی تلاوت کے ذریعے کتنی نیکیاں کما سکتے ہیں۔ ایک منٹ… جی ہاں صرف ایک منٹ میں ہم قرآن مجید کی ایک مختصر سورت تلاوت کر سکتے ہیں، ایک مختصر آیت مبارکہ زبانی یاد کر سکتے ہیںاور اسی طرح اگر ہم اپنے ایک ایک منٹ کو قیمتی بناتے جائیں تو اندازہ کر لیں کہ ماہِ مبارک کے بقیہ دنوں میں ہم قرآن مجید کی کتنی تلاوت کر سکتے ہیں۔

رمضان المبارک اور قرآن کریم کا آپس میں گہرا تعلق اور مضبوط رشتہ ہے۔ اسی مہینے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کے ساتھ اس کا دور کرتے تھے۔ اسی مہینے میں نماز تراویح میں ایک مرتبہ پورا قرآن مجید پڑھنا یا سننا صحابہ کرام کے طرز عمل سے ثابت ہے۔

کلامِ الٰہی قیامت تک کیلئے ایک زندہ و تابندہ معجزہ ہے۔ جو بھی انسان اس کو جس زمانے میں بھی تلاشِ حق کی نیت سے پڑھے گا، یہ قرآن اُس کو ضرور راہِ ہدایت دکھائے گا۔ یہ وہ کتابِ مبین ہے جس کا پڑھنا، پڑھانا، سننا، سنانا، سمجھنا، سمجھانا یہاںتک کہ اس کو محبت سے دیکھنا بھی ایک عبادت ہے۔ یہ گمراہوں کیلئے نشانِ منزل ہے، ظاہری اور باطنی بیماروں کیلئے پیغام شفاء ہے اور یہ وہ نسخہ? کیمیا ہے جو دنیا اور آخرت کے تمام مسائل کا حل ہے۔

یہ انسان کے زنگ آلود دل سے قساوت، کجروی اور برے خیالات کو ختم کرکے نیک جذبات پیدا کرتا ہے، یہ وہ تیر بہدف نسخہ ہے جو صرف افراد نہیں بلکہ مردہ قوموں کو زندہ کردیتا ہے اور یہ وہ چشمہ صافی ہے جس پر آنے والا کبھی محروم اور مایوس نہیں پلٹتا۔

اس لیے اگر قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور و فکر کرنے پر کوئی اجرو ثواب نہ ملتا تب بھی ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض بنتا تھا کہ ہم قرآنِ مجید کو پڑھتے اور سمجھتے رہیں۔ لیکن قربان جائوں اللہ کی رحمت پر کہ قرآن مجید کی تلاوت پر ایسے انعامات عطا فرمائے جاتے ہیں کہ اگر انسان میں پوری زندگی اسی کام میں گزار دے تو بھی ان انعامات کا شکر ادا نہیں ہو سکتا۔

قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے جو اپنی زندگیوں کو اس پاک کلام کے مطابق ڈھال لیتے ہیں، اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ   یَتْلُوْنَ  کِتٰبَ  اللّٰہِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلا َنِیَۃً  یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَ لِیُوَفِّیَھُمْ اُجُوْرَھُمْ وَیَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖط اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ۔  (سورہ فاطر: ۹۲،۰۳)

ترجمہ: ’’جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت (مع العمل) کرتے رہتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی ماند نہ ہو گی، تاکہ ان کو ان کی اجرتیں (بھی) پوری (پوری) دیں اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ (بھی) دیں،بے شک وہ بڑے بخشنے والے قدردان ہیں‘‘۔(ترجمہ از بیان القرآن)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید سیکھنے اور سکھانے والوں کے بارے میں فرمایا:

’’خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ‘‘۔  (بخاری شریف: ۷۲۰۵)

ترجمہ: ’’تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے‘‘۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ترجمہ: ’’جو مومن قرآنِ مجید کی تلاوت کرتا ہے اس کی مثال ترنج(ایک پھل) کی سی ہے، اس کی خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے اور مزہ بھی لذیذ اور جو مومن قرآنِ مجید کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال کھجور کی سی ہے کہ خوشبو کچھ نہیں مگر مزہ شیریں ہوتا ہے اور جو منافق قرآنِ کریم نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن کے پھل کی سی ہے کہ مزہ کڑوا اور خوشبو کچھ نہیں اور جو منافق قرآنِ مجید پڑھتا ہے اس کی مثال خوشبودار پھول کی سی ہے کہ خوشبو عمدہ اور مزہ کڑوا‘‘۔(بخاری: ۰۲۰۵، مسلم: ۸۹۴)

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

ترجمہ: ’’قرآن کریم پڑھا کرو، کیوں کہ قرآن کریم قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارش کرے گا‘‘۔ (مسلم: ۴۰۸)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ترجمہ: ’’جو شخص اللہ کی کتاب میں سے ایک حرف کی تلاوت کرے، اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی کااجر دس نیکیوں کے برابر ملتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ’’الم‘‘   مکمل ایک حرف ہے، بلکہ ’’الف‘‘ ایک حرف، ’’لام‘‘ ایک حرف اور ’’میم‘‘ ایک علیحدہ حرف ہے‘‘۔ (ترمذی: ۰۱۹۲)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جس شخص کو قرآن کریم یاد کرنے یا جاننے اور سمجھنے میںاور ذکر میں مشغول ہونے کی وجہ سے مجھ سے دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی، میں اس کو سب دعائیں مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں اور حق تعالیٰ شانہٗ کے کلام کو سب کلاموں پر ایسی ہی فضیلت ہے جیسی خود اللہ تبارک و تعالیٰ کو تمام مخلوق پر ہے‘‘۔(ترمذی: ۶۲۹۲)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ترجمہ: ’’(قیامت کے دن صاحبِ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن شریف پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کے پڑھ جیسے تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا، بس تیرا آخری ٹھکانا وہی ہے جہاں  آخری آیت ختم ہو‘‘۔(ترمذی: ۴۱۹۲، ابوداود: ۶۶۴۱)

حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ترجمہ: ’’جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے، اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بھی زیادہ ہو گی اگر وہ آفتاب تمھارے گھروں میں ہو، پس کیا گمان ہے تمھارا اس شخص سے متعلق جو خود اس پرعمل کرنے والا ہو گا!‘‘۔ (ابوداود:۵۵۴۱)

اللہ تعالیٰ نے اس اُمت مسلمہ کو یہ عظیم دولت عطا فرمائی…حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ذریعے علمبردارانِ حق کی پوری ایک جماعت اور قوم پیدا کردی جنہوں نے ایک ہاتھ میں اس کتاب کو تھاما اور دوسرے ہاتھ میں اس کتاب کی حفاظت کیلئے تلوار اُٹھائی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بحرو بر، مشرق و مغرب، شمال و جنوب، ایشیا و افریقہ، روم و فارس سب جگہ اس کی عظمت کے پرچم لہرانے لگے۔ انہوں نے کتاب اللہ کو پڑھا، سمجھا اور اُس پر عمل کیا تو پھر قیصرو کسریٰ کے تخت اُلٹ دئیے اور اُن کی شان و شوکت کو اپنے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔

وہی قرآن آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے اور یہ زندہ کتاب ہمیں آج بھی دعوتِ عمل دے رہی ہے۔ افسوس کہ جب ہم مسلسل غلامانہ نظام تعلیم اور مادّی ذہنیت کی بناء پر قرآن مجید کی رفعتوں اور بلندیوں کا ساتھ نہیں دے سکے تو ہم نے چاہا کہ قرآن کو بھی اپنی پستیوں پر اُتار کر لے آئیں۔ لیکن اگر اب بھی ہم قرآن کی طرف واپس پلٹنے کیلئے تیار ہیں تو یقین جانیں کوئی دیر نہیں ہوئی اور مہلتِ عمل کا دروازہ بند نہیں ہوا۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہر مسلمان کیلئے رمضان اور قرآن اپنی زندگی میں ایک خوشگوار انقلاب برپا کرنے کی دعوت لے کر آئے ہیں۔ پس کتنے خوش قسمت ہیں وہ اللہ کے پیارے بندے جن کی مبارک زبانوں پر ان مبارک راتوں میں اللہ کا کلام ہے۔ کبھی پڑھ رہے ہیں، کبھی سن رہے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے حفظ کی نعمت عطا فرمائی ہے تو سنا رہے ہیں۔ ابھی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جا رہی ہے۔ ابھی گھر میں اللہ کے سامنے نوافل میں کھڑے ہوئے قرآن کی تلاوت ہو رہی ہے۔ کبھی قرآن کھلا ہے اور اس کی تلاوت سے دل کا سرور اور آنکھوں کا نور حاصل کیا جارہا ہے اور کبھی لبوں کی تشنگی ختم کی جارہی ہے۔ مسجدیں آباد ہیں تو گھروں میں بھی رکوع و سجود، ذکر و تلاوت کی بہاریں ہیں۔ کچھ کھایا جاتا ہے تو اس لیے کہ اللہ کی عبادت کیلئے جسم کو طاقت حاصل ہو۔ ذرا سا سویا جاتا ہے تو اس لیے کہ نماز کی ادائیگی اور تلاوتِ قرآن جی بھر کر تروتازگی کے ساتھ کی جاسکے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی ایسے ہی سعادت مند لوگوں میں شامل فرمائے اور زندگی بھر ہمیں قرآنِ مجید کی خدمت کے لیے قبول فرمائے۔

 (آمین ثم آمین)

تبصرے بند ہیں۔