رمضان: ہمدردی و غم گساری کا مہینہ

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

اللہ رب العزت نے انسان کو عدم سےمحض اس لئے وجودنہیں بخشا کہ وہ دنیامیں صرف اپنے لئے  زندگی بسرکرے اور پھر ایک دن خاموشی کےساتھ دارِ فانی سےعالم جاودانی کی طرف اس طرح کوچ کر جائے کہ نہ  کسی کو اس کے آنے کی خبر ہو اور نہ جانےکی اطلاع؛بل کہ  انسان کو زندگی اس لئے دی گئی  کہ وہ دوسروں کے کام آسکے،اوروں کو نفع پہونچاسکے،چناں چہ اسلام میں جتنی اہمیت ان عبادات کی ہے،جن کا تعلق بندے اوراس کے رب سے ہے،اتنی ہی؛ بل کہ بعض حیثیتوں سے اس سے بھی زیادہ اہمیت ان عبادات اور اعمالِ صالحہ کی ہے،جن کا تعلق راست بندوں سے ہے۔ اس ضمن میں مخلوقِ خدا کی خدمت کرنا، ان کی اعانت و نصرت کرنا، ان کے مصائب اور پریشانیوں کو دور کرنا، ان کے دکھ درد کو بانٹنا، ان کے ساتھ ہمدردی و غمخواری کرنا  اورمحبت و شفقت کا معاملہ کرناجیسے نیک اعمال قابل ذکر ہیں ۔کہنے والے نے سچ کہا ہے ؎

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں !

ہمدردی او رغم گساری کا مطلب ہے خدمت خلق یعنی کسی بھی انسان یا  جاندار کی خدمت کرنا،یہ بھی افضل ترین عبادت ہے۔اللہ کے تمام انبیا ء و رسل ؑ نے  دوسروں کی خدمت کی ہے اور اس کی تلقین و تاکید فرمائی ہے۔شریعت اسلامیہ میں اس کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بتلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو خدمت خلق پر ابھارا گیا ہے۔خود ہمارے اسلاف خدمت خلق کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے اور اگر یہ خدمت خواہ وہ انسان کی ہو یا حیوان کی خلوص و للہیت کے ساتھ کی جائے تو معمولی سے معمولی کام جہنم سے آزادی اور جنت میں داخلہ کا سبب بن سکتا ہے۔خدمت خلق وہ جذبہ ہے جس سے انسان ایک دوسرے کے قریب ہوتا ہے اور معاشرہ میں باہمی اتفاق واتحاد پیدا ہوتا ہےنیزاس نسخہ پرعمل کرکے اخروی اعتبار سے بے شمار اجروثواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اسلام اور غمخواری:

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم بہ قدم امت کو ہمدردی و غمخواری کی تعلیم دی، اخوت و بھائی چارگی کا درس دیا،دل داری و غم گساری کی تلقین فرمائی۔ اسی غرض سے زکوۃ کا نظام بنایا گیا،صدقات کی فضیلت بتائی گئی، مقروضوں کی امداد کا حکم دیاگیا اور انسانیت کی بنیاد پر سب کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی گئی۔

چناں چہ اللہ رب العزت نے صحابہ کرام کے سلسلہ میں ایثار و قربانی کے اس وصف کو نمایاں طور پر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں گو ان پر فاقہ ہی ہو۔(الحشر)

اسی طرح ایک موقع پر رسول اللہ ﷺنےفرمایا:جو شخص کسی مسلمان کی دنیوی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے آخرت کی پریشانیاں دور کرے گا اور جو کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے گا اللہ اس کیلئے دنیا وآخرت میں آسانیاں پیدا کرے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ دنیا و آخرت میں اسکے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا اور اللہ بندے کی اس وقت تک مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے۔‘‘( مسلم)۔

   ایک اور موقع پر رسول اللہ ﷺنے اس فرمان”اللہ اس بندہ کی مدد فرماتے رہتے ہیں جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتاہے” کے ذریعے پوری امت کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ‘غمخواری اور محبت کی تعلیم دی اور یہ سبق سکھلایا کہ ایک مسلمان کو چاہئے  وہ اپنے اندر دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرے،دوسرے کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھے، دوسرے کی بیماری اور پریشانی کو اپنی بیماری وپریشانی خیال کرے تاکہ ایک ہمددر اور محبت آمیز معاشرہ وجود میں آئے۔

علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ مواسات و ہمدردی کی مختلف قسمیں ہیں :مال ودولت  کے ذریعہ مواسات،خدمت بدنی  کے ذریعہ مواسات، نصیحت وخیرخواہی کے ذریعہ مواسات،عیادت وتیمارداری کے ذریعہ مواسات،دعاء اور استغفار کے ذریعہ مواسات وغیرہ۔ غرض ایمان جس قدر  مضبوط اور طاقت ور ہوگا اسی اعتبار سے بندۂ مومن میں یہ صفت کامل وراسخ ہوگی۔

شھرمواسات :

یوں تورمضان المبارک کا مہینہ کئی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے؛مگرروزے کے بعد جو اہم ترین امتیاز اس ماہ مبارک کو حاصل ہے وہ  "ہمدردی وغمخواری "ہے، حدیث شریف میں رمضان المبارک کے مہینے کو ’’شہر المواساۃ‘‘یعنی خیرخواہی کا مہینہ  کہا گیاہے۔ اس طرح یہ مہینہ گویا انسانوں کے درمیان خیر خواہی اور دوسروں کے دکھ درد بانٹنے کا مہینہ ہے،معاشرے کے کمزور اور محروم افراد کے مسائل کو سمجھنے اور مل کر انہیں حل کرنے کا مہینہ ہے نیز اپنی خوشحالی اور وسعت و کشادگی میں ان کو شامل کرنے کا مہینہ ہے۔رمضان المبارک کی انفرادیت یہ ہے کہ جن نعمتوں سے انسان سال بھر محظوظ ہوتا ہے ان نعمتوں پر ایک خاص وقت تک کے لیے روک لگادی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ کسی کو بھوکا پیاسا رکھنانہیں چاہتے ؛بلکہ اس وقت اسکو بھوکا پیاسا رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بہت سے انسان جنہوں نے کبھی بھوک کا مزہ نہیں چکھا، جنہیں کبھی پیاس کی شدت کا احساس نہیں ہوا، جنہیں کبھی لذتوں سے محرومی کا تجربہ نہیں ہوا، جنکو بھوک سے پہلے کھانا موجود ملا اور پیاس سے پہلے پانی حاضر، وہ اپنے اس بھائی کے درد اور تکلیف کا اندازہ کرسکیں جسکو ایک وقت کھانا میسر ہے تو دوسرے وقت فاقہ ہے، ایک چیز موجود ہے تو دوسری موجود نہیں ۔ اس طرح اس کی برکت سے انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے دکھ، درد اور ان کی آزمائشوں کا بذات خود تجربہ کرتا ہے اور اس کے اندر اپنے بھائیوں کی تکلیف کو دور کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ انسان جب تک خود تکلیف سے دوچار نہیں ہوتا ا س کو تکلیف کا صحیح ادراک نہیں ہوتا اور جب تک اس کو تکلیف کا صحیح ادراک نہیں ہوگا اس وقت تک اس تکلیف میں مبتلا لوگوں کےساتھ اسکو حقیقی خیر خواہی بھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ حقیقی خیرخواہی کا جذبہ اس وقت بیدار ہوتا ہے جب حقیقی تکلیف کا احساس ہو۔ اس مہینہ میں کشادہ دست اور تنگ دست دونوں ایک کیفیت سے دوچار ہوجاتے ہیں اوردونوں کے درمیان ایک وقتی لیکن حقیقی مساوات پیدا ہوجاتی ہے اور یہ مساوات خوشحال لوگوں کو بدحال لوگو ں کی خیر خواہی پر ابھارتی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺجود و سخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے، اور رمضان المبارک میں جبکہ جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تھے آپ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی، جبریل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ کے پاس آتے تھے، آپ سے قرآنِ کریم کا دور کرتے تھے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیاضی و سخاوت اور نفع رسانی میں بادِ رحمت سے بھی بڑھ کر ہوتے تھے۔(بخاری)

حضرت حسن بصری کے بارے میں آتا ہے کہ وہ خود بکثرت نفل روزے رکھتے تھے جس کی وجہ سے دن کو کھانے کی نوبت نہیں آتی تھی لیکن اپنے دوستوں کو ان اوقات میں کھانا کھلاتے، ان کو راحت وآرام پہنچاتے اور خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ جاتے۔

امام المجاہدین حضرت عبداللہ بن مبارک کے بارے میں بھی بالکل ایسا ہی منقول ہے کہ وہ عام طور سے حج یا جہاد کے سفر میں رہتے تھے تو اس سفر کے دروان خود تو روزے رکھتے مگر اپنے ساتھیوں کو قسماقسم کے کھانے اور حلوے کھلاتے تاکہ انہیں راحت ہو۔

یہ ہے  اپنی خواہشات کو دبا کر دوسروں کو ترجیح دینا، اگر عام دنوں میں ایسا کرنا مشکل ہو تورمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس میں یہ اجر وثواب باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ اس میں روزہ تو رکھنا ہی ہوتا ہے، البتہ اگر روزے کے ساتھ خوب مال خرچ کر کے صدقات کا بھی اہتمام کرلیا جائے تو اس خوش نصیبی کے کیا ہی کہنے!!

امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :میں اُس آدمی کو بہت پسند کرتا ہوں جو ماہِ رمضان میں رسول اللہﷺ کی’’ اِتباع‘‘ کرتے ہوئے اپنی سخاوت میں اضافہ کردیتا ہے(اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خوب مال خرچ کرتا ہے)

یہ مہینہ غمخواری و ہمدردی اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا مہینہ ہے،اس لیے کہ ہر آدمی یہ کوشش کرتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کرے اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو کر اس کی کچھ دل جوئی کرے، رمضان المبارک کی یہ خصوصیت ہے کہ لوگ اس مہینہ میں جہاں اپنے بارے میں اچھائی کی فکر کرتے ہیں وہیں اپنے اہل خاندان اور اپنے ماتحتوں ،غریبوں ، محتاجوں ، مسکینوں کے بارے میں بھی اچھی سوچ رکھتے ہیں ، اور اپنے مال میں سے کچھ حصہ ان کے لیے نکالتے ہیں ، اور ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ روزہ داروں کے لیے افطار کا انتظام کرے یا انہیں اپنے افطار میں شریک کرے، اسی طرح خدائی حکم کے پیش نظر صدقہ فطر اور زکوة اور عید کے موقع پر کپڑے غریبوں اور مسیکنوں اور بے سہارا لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں ، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین خیر خواہی اور ہمدردی کا نام ہے(بخاری باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الدین النصیحة)اور فرمایا کہ بہترین اسلام بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے (بخاری باب اطعام الطعام من الاسلام حدیث نمبر12)نیز فرمایا کہ جو کوئی کسی برہنہ کو کپڑے پہنائے کل قیامت میں اللہ تعالیٰ اسے جنت کا لباس پہنائیں گے (جزء من حدیث ابن شاہین)

ضرورت  ہے کہ ہم بھی اپنے اندر غمخواری کی اس اہم ترین صفت کو پیداکریں، دل کھول کر راہ خدا میں خرچ کریں  اور اپنی مغفرت و بخشش کا سامان کریں۔

تبصرے بند ہیں۔