رمـضـــان مــاہِ قـــرآن!

عبد العزیز

نزولِ قرآن کے وقت عرب کی قوم ان پڑھ تھی، اس کے باوجود اس نے قرآن مجید کو دل لگاکر سنا۔قرآن کو یاد کرنے سے پہلے ہر ایک نے اسے اپنی زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کی بھر پور کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت مکہ شہر میں صرف 17 افراد ایسے تھے جن کو پڑھنا لکھنا آتا تھا۔ پہلی آیت ہی میں اللہ تعالیٰ نے عربوں کو پڑھنے لکھنے کا حکم دیا۔ انسان کی پیدائش کی حقیقت بتاتے ہوئے قلم کی بات کہی گئی یعنی لکھنے کی بات کہی گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو کام عربوں کو انجام دینا ہے اس میں لکھائی پڑھائی کی بے حد اہمیت ہے۔ قرآن کی اہمیت اور افادیت کا جو عرب کے لوگ سمجھتے تھے تاریخ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ صحیح طریقے سے خلفاء راشدین کے دور تک ہی جاری رہا۔ خلافت جب ملوکیت میں تبدیل ہوگئی تو آہستہ آہستہ مسلمانوں کے علم و عمل پر زوال چھانے لگا۔ پھر مسلمانوں کے درمیان قرآن کی وہ اہمیت باقی نہیں رہی جو دور اول میں تھی۔ علامہ اقبال نے اپنے دور میں قرآن اور مسلمانوں کے تعلق سے جو باتیں کہی ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں ۔ فارسی زبان میں انہوں نے باتیں کہی ہیں اور اردو میں بھی فارسی میں کچھ زیادہ ہی کہی ہیں ۔

گر تو مــــی خواھـی مسلمان زیستن

نیست مــمکن جـــز بــــہ قـــرآن زیستن

از تـلاوت بــر تــو حـــق دارد کـــتاب

 تو از او کـامی کــہ مــــی خـــواھی بـــیاب

(اگر تو مسلمان رہنا چاہتا ہے تو قرآن مجید کو اپنی زندگی کا رہنما بنائے بغیر ممکن نہیں اور اگر تو چاہتا ہے کہ زندگی میں کامیاب اور کامران ہو تو تم پر قرآن کی تلاوت کا حق ہے۔ )

عام طور پر تلاوت کا مطلب صرف پڑھنا سمجھا جاتا ہے لیکن جو لوگ عربی داں ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تلاوت کا مطلب سمجھ بوجھ کر پڑھنا ہے۔ علامہ اقبال نے تلاوت کا لفظ یا اصطلاح اسی معنوں میں استعمال کیا ہے۔

’’بقرآن زیستن ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس جدوجہد میں جونوع انسانی کو ازل سے ’درپیش ہے‘ جس میں تاریخ کی حیثیت ایک لمحے کی ہے، جس میں اقوام و امم یکے بعد دیگر ایسے ابھرتی ہیں جیسے کسی بہتی ہوئی ندی میں پانی کے بلبلے، جس میں تہذیب و تمدن نے کئی رنگ بدلے، چشم فلک نے کئی انقلاب دیکھے اور جس کا سلسلہ اس لئے جاری ہے اور جاری رہے گا کہ انسان اپنے مدعا و منتہا کو پالے، ہم اس جدوجہد میں مردانہ وار حصہ لیں ۔ اسے اسلام کے قالب میں ڈھال دیں ۔ یہ مقصد وعظ و نصیحت اور تحریر و تقریر سے حاصل نہیں ہوگا۔ قرآن مجید پر عمل کرنے سے  ؎

اے کے می نازی بقرآن عظیم … تا کجا ور حجرہ ہا باشی مقیم

درجہاں اسرارِ دیں را فاش کن … نکتہ شرعِ مبیں را فاش کن

علامہ اقبال خوش قسمتی سے ایک ایسے باپ کی اولاد تھے کہ جن کے والد محترم نے انہیں زمانۂ طالب علمی ہی میں یہ سبق دیاکہ قرآن مجید تدبر اور تفکر کا سبق دیتا ہے  دانا باپ نے دانش مند بیٹے کو یہ بھی سمجھایا کہ یاد رکھو کہ قرآن مجید پڑھنے ہی سے نہیں دل کے راستے سے بھی سمجھ میں آجاتا ہے اسے پڑھو تو یوں سمجھو کہ جیسے قرآن مجید تمہارے دل پر نازل ہورہا ہے۔

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

فارسی اور اردو میں قرآن مجید کی عظمت اور اہمیت پر علامہ اقبال کے بے شمار اشعار ہیں ۔ اردو کا یہ شعر اکثر و بیشتر واعظین اور مقررین پڑھتے ہیں  ؎

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر

تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

مفسر قرآن حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے اپنے تفسیر ترجمان القرآن میں لکھا ہے کہ

’’یہ صورت حال فی الحقیقت مسلمانوں کے عام دماغی تنزل کا قدرتی نتیجہ تھا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ قرآن کی بلندیوں کا ساتھ نہیں دے سکتے، تو کوشش کی کہ قرآن کو اس کی بلندیوں سے اس قدر نیچے اتار لیں کہ ان کی پستیوں کا ساتھ دے سکے۔‘‘  ؎

خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں            (علامہ اقبالؒ)

علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد نے قرآن کے تعلق سے جو باتیں مسلمانوں کیلئے کہی ہیں وہ بہت زیادہ ہیں ان سب کو اس چھوٹے سے مضمون میں سمونا مشکل ہے۔ مولانا ماہر القادری نے ’’قرآن مجید کی فریاد ‘ ‘کے عنوان سے جو باتیں عرض کی ہیں اس سے ان دو بڑے بزرگوں کے مافی الضمیر کی ترجمانی ایک حد تک ہوجاتی ہے۔

اتنی باتیں قرآن سے متعلق لکھنے اور سمجھانے کی ضرورت اس لئے آن پڑی ہے کہ رمضان کا مہینہ آنے والا ہے۔ ہم مسلمان اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ رمضان کا نزول رمضان کے مہینے میں ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھ کر مسلمان ہر سال اس کی سالگرہ مناتے ہیں ۔ رمضان کے روزے کی اہمیت بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ

’’جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار اور اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔ ‘‘(سورہ بقرہ، آیت:185)

صاحب تفہیم القرآن نے اس آیت کی تشریح میں فرمایا ہے کہ:

’’یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے، بلکہ انہیں مزید براں اس عظیم الشان نعمت ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ٹھہرایا گیا ہے، جو قرآن کی شکل میں ، اس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانشمند انسان کیلئے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگر ہوسکتی ہے، تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کیلئے زیادہ سے زیادہ تیار کرے، جس کیلئے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔ قرآن ہمیں اس لئے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دنیا کو اس پر چلائیں ۔ اس مقصد کے لئے ہم کو بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذانزولِ رمضان کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے اور صرف اخلاقی تربیت ہی نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ خود اس نعمت قرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے۔ ‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے ’’تدبر قرآن‘‘میں مذکورہ آیت کی تشریح میں لکھا ہے کہ:

’’اس عظیم نعمت کی شکر گزاری کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو روزوں کیلئے خاص طور سے فرمادیا تاکہ بندے اس میں اپنے نفس کی خواہشات اور شیطان کی ترغیبات سے آزاد ہوکر اپنے رب سے زیادہ سے زیادہ قریب ہوسکیں اور اپنے قول و فعل ، اپنے ظاہر و باطن اور اپنے روز و شب ہر چیز سے اس حقیقت کا اظہار و اعلان کریں کہ خدا اور اس کے حکم سے بڑی ان کے نزدیک اس دنیا کی کوئی چیز بھی نہیں ہے۔

غور کرنے والے کو اس حقیقت کے سمجھنے میں کوئی الجھن نہیں پیش آسکتی کہ خدا کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عقل ہے اور عقل سے بھی بڑی نعمت قرآن ہے اس لئے کہ عقل کو بھی حقیقی رہنمائی قرآن ہی سے حاصل ہوتی ہے یہ نہ ہو تو عقل سائنس کی ساری دوربینیں اور خردبینیں لگا کر بھی اندھیرے ہی میں بھٹکتی رہتی ہے اس وجہ سے جس مہینے میں دنیا کو یہ نعمت ملی وہ سزاوار تھا کہ وہ خدا کی تکبیر اور اس کی شکر گزار ی کا خاص مہینہ ٹھہرادیا جائے تاکہ اس نعمتِ عظمیٰ کی قدر و عظمت کا اعتراف ہمیشہ ہمیشہ ہوتا رہے۔ اس شکر گزار اور تکبیر کیلئے اللہ تعالیٰ نے روزوں کی عبادت مقرر فرمائی جو اس تقویٰ کی تربیت کی خاص عبادت ہے جس پر تمام دین و شریعت کے قیام و بقا کا انحصار ہے اور جس کے حاملین ہی کیلئے درحقیقت قرآن ہدایت بن کر نازل ہوا ہے جیسا کہ اس سورہ کی بالکل پہلی ہی آیت میں اس نے خود یہ حقیقت واضح فرمادی ہے۔ ذٰ لِـکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (یہ آسمانی کتاب ہے، اس کے آسمانی ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے، یہ متقیوں کیلئے ہدایت بن کر نازل ہوئی ہے) گویا اس حکمت قرآنی کی ترتیب یوں ہوئی کہ قرآن حکیم کا حقیقی فیض صرف ان لوگوں کیلئے خاص ہے جن کے اندر تقویٰ کی روح ہو اور اس تقویٰ کی تربیت کا خاص ذریعہ روزے کی عبادت ہے اس وجہ سے رب کریم و حکیم نے اس مہینے کو روزوں کے لئے خاص فرمادیا جس میں قرآن کا نزول ہوا۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن اس دنیا کیلئے بہار ہے اور رمضان کا مہینہ موسم بہار اور یہ موسم بہار جس فصل کو نشوونما بخشتا ہے وہ تقویٰ کی فصل ہے۔ ‘‘

مولانا صدر الدین اصلاحیؒ صاحب اپنی تفسیر ’’تیسیر القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:

’’یہاں سے وہ حکمت بے نقاب ہورہی ہے جس کی بنیاد پر رمضان کا مہینہ روزے کیلئے مخصوص اور منتخب کیا گیا۔ ہر نعمت شکر گزاری چاہتی ہے۔ نعمت جتنی ہی بڑی ہوگی شکر یہ بھی اسی مناسبت سے بڑا ہوگا۔ انسان پر اس کے محسنِ حقیقی نے سب سے بڑی نعمت جو نازل کی ہے وہ اس کی یہ کتاب (قرآن) ہے، انصاف اور اصول کا تقاضا ہے کہ اس نعمت کا اس کے شایانِ شان شکرانہ اداکیا جائے۔ بندے کا شکر انہ تو معلوم ہے کہ بندگی کے سوا کچھ نہیں ۔ پس نعمت قرآنی کا شکرانہ یہ ٹھہرایا گیا کہ اس مہینے میں جس میں یہ نعمت بخشی گئی، مہینے بھر کا روزہ رکھا جائے، وہ روزہ جس کی قدر و منزلت کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا، جس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’ہر نیکی کا کئی گنا بدلہ دیا جائے گا، یہاں تک کہ بعض نیکیوں کا بدلہ سات سو گنا تک پہنچ جائے گا، سوائے روزے کے کہ کسی کو کچھ اندازہ نہیں کہ میں اس کا کیا بدلہ دوں گا (یا میں ہی اس کا بدلہ ہوسکتا ہوں )۔‘‘

سورہ القدر میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی قدر و قیمت اور اہمیت سے مسلمانوں کو آگاہ کیا ہے۔

’’ہم نے اس (قرآن ) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں ۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوعِ فجر تک۔‘‘

’’حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کا نزول انسانیت کیلئے عظیم الشان خیر کی حیثیت رکھتا ہے اور انسان کیلئے اس سے بڑی کوئی خیر نہیں ہوسکتی۔ اس لئے فرمایا گیا کہ وہ رات جس میں یہ قرآن مجید نازل ہوا ہے ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ دوسرے لفظوں میں پوری انسانی تاریخ میں کبھی ہزار مہینوں میں بھی انسانیت کی بھلائی کیلئے وہ کام نہیں ہوا ہے جو اس ایک رات میں ہوا ہے۔ ہزار مہینوں کے لفظ کو گنے ہوئے ہزار نہ سمجھنا چاہئے بلکہ اس سے بہت بڑی کثرت مراد ہے۔ چنانچہ اس رات میں ، جو اپنی بھلائی کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے، جس آدمی نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس سے لو لگائی اس نے بہت بڑی بھلائی حاصل کرلی۔ کیونکہ اس رات میں بندے کا اللہ کی طرف رجوع کرنا یہی معنی تو رکھتا ہے کہ اسے اس رات کا پورا پورا احساس ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان پر یہ کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اپنا کلام نازل فرمایا۔ اس لئے جس آدمی نے اس رات میں عبادت کا اہتمام کیا گویا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اس کے دل میں قرآن مجید کی صحیح قدروقیمت کا احساس موجود ہے۔

l’’ جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ محروم ہی رہ گیا۔‘‘(حدیث)

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اس رات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے کھڑا نہیں ہوتا تو گویا اسے قرآن مجید کی اس نعمتِ عظمیٰ کا احساس نہیں ہے جو اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اتاری تھی۔ اگر اسے اس بات کا احساس ہوتا تو وہ ضرور رات کے وقت عبادت کیلئے کھڑا ہوتا اور شکر ادا کرتاکہ اے اللہ! یہ تیرا احسانِ عظیم ہے کہ تو نے مجھے قرآن جیسی نعمت عطا فرمائی ہے۔ بے شک یہ بھی تیرا احسان ہے کہ تو نے مجھے کھانے کیلئے روٹی اور پہننے کیلئے لباس عطا فرمایا۔ لیکن تیرا اصل احسان عظیم مجھ پر یہ ہے کہ تو نے مجھے ہدایت دی اور دین حق کی روشنی دکھائی۔ مجھے تاریکیوں میں بھٹکنے سے بچایا اور علم حقیقت کی وہ روشن شمع عطا کی جس کی وجہ سے میں دنیا میں سیدھے راستے پر چل کر اس قابل ہوا کہ تیری خوشنودی حاصل کرسکوں ۔ پس جس شخص کو اس نعمت کی قدر و قیمت کا احساس ہوگا وہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کیلئے کھڑا ہوگا اور اس کی بھلائی لوٹ لے جائے گا۔ لیکن جو شخص اس رات میں ادائے شکر کیلئے خدا کے حضور کھڑا نہیں ہوا وہ اس کی بھلائی سے محروم رہ گیا اور درحقیقت ایک بہت بڑی بھلائی سے محروم رہ گیا۔ ‘‘

’’رمضان المبارک کی جو برکتیں اور خصوصیات اس کی پہلی رات کو ظہور میں آتی ہیں ان سب کا ظہور رمضان کی ہر رات میں بد ستور جاری رہتا ہے۔

اجتماعی روزے کا مہینہ قرار دے کر رمضان سے شارع نے یہی کام لیا ہے۔ جس طرح آپ دیکھتے ہیں کہ ہر غلّہ اپنا موسم آنے پر خوب پھلتا پھُولتا ہے اور ہر طرف کھیتوں پر چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی طرح رمضان کا مہینہ گویا خیر و صلاح اور تقویٰ و طہارت کا موسم ہے۔ جس میں برائیاں دبتی ہیں ، نیکیاں پھیلتی ہیں ، پوری پوری آبادیوں پر خوف خدا اور حب خیر کی روح چھا جاتی ہے اور ہر طرف پرہیز گاری کی کھیتی سر سبز نظر آنے لگتی ہے۔ اس زمانہ میں گناہ کرتے ہوئے آدمی کو شرم آتی ہے۔ ہر شخص خود گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے کسی دوسرے بھائی کو گناہ کرتے دیکھ کر اسے شرم دلاتا ہے۔ ہر ایک کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کچھ بھلائی کا کام کرے، کسی غریب کو کھانا کھلائے ، کسی ننگے کو کپڑا پہنائے، کسی مصیبت زدہ کی مدد کرے۔ کہیں کوئی نیک ہورہا ہو تو اس میں حصہ لے۔ کہیں کوئی بدی ہورہی ہو تو اسے روکے۔ اس وقت لوگوں کے دل نرم ہوجاتے ہیں ، ظلم سے ہاتھ رک جاتے ہیں ، برائی سے نفرت اور بھلائی سے رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ توبہ اور خشیت و انابت کی طرف طبیعتیں مائل ہوتی ہیں ۔ نیک بہت نیک ہوجاتے ہیں اور بد کی بدی اگر نیکی میں تبدیل نہیں ہوتی تب بھی اس جلاب سے اس کا اچھا خاصا تنقیہ ضرور ہوجاتا ہے۔ غرض اس زبردست حکیمانہ تدبیر سے شارع نے ایسا انتظام کردیا ہے کہ ہر سال ایک مہینہ کیلئے پوری اسلامی آبادی کی صفائی ہوتی رہے، اس کو اوور ہال کیا جاتا رہے، اس کی کایا پلٹی جائے اور اس میں مجموعی حیثیت سے روحِ اسلامی کو از سرِ نو زندہ کردیا جائے۔

سکتہ کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں ۔ اگر آئینہ پر کچھ دھندلاہٹ پیدا ہو تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے، ورنہ اس کی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا امتحان لینا ہو تو اسے رمضان کے زمانہ میں دیکھئے۔ اگر اس مہینہ میں اس کے اندر کچھ تقویٰ ، کچھ خوفِ خدا، کچھ نیکی کے جذبہ کا ابھار نظر آئے تو سمجھئے ابھی زندہ ہے۔ اور اگر اس مہینہ میں بھی نیکی کابازار سرد ہو، فسق و فجور کے آثار نمایاں ہوں اور حِس مردہ نظر آئے تو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھ لیجئے۔اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس ’’مسلمان‘‘ کیلئے مقدر نہیں ہے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا کہ

’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘ (البقرہ: 185)

اس سے معلوم ہوا کہ یہ وہ رات ہے جس میں پہلی مرتبہ خدا کا فرشتہ غارِ حرا میں نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر آیا تھا۔ وہ ماہِ رمضان کی ایک رات تھی۔ اس رات کو شب قدر کہا گیا ہے اور سورہ الدخان میں اس رات کو مبارک رات فرمایا گیا ہے۔

’’ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔ ‘‘(الدخان:3)

 قرآن مجید کا نزول رمضان کے مہینے میں اور اس کی کسی ایک رات میں جسے شبِ قدر کہتے ہیں بالکل ثابت ہے۔ لہٰذا رمضان کی فضیلت قرآن سے جوڑ دی گئی ہے۔ رمضان آتے ہی قرآن کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ جولوگ قرآن کو رمضان کے مہینے میں تلاوت کرتے ہیں ، یاد کرتے ہیں اور اس کے معنی و مطالب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، غور و فکر سے کام لیتے ہیں ، اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے میں لگے رہتے ہیں اور دوسری زندگیوں کو قرآن کی طرف مائل کرتے ہیں اور ان کا تعلق اللہ سے مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حقیقت میں رمضان کے روزوں سے فائدہ زیادہ سے زیادہ اٹھاتے ہیں اور جو لوگ رمضان میں قرآن سے بے نیاز رہتے ہیں ، قرآن کو اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ رمضان کسی طرح گزار لیتے ہیں اور تھوڑی بہت ان کی زندگی بھی بدلی ہوئی نظر آتی ہے اور رمضان کے بعد پھر اپنی زندگی کو پہلی جیسی زندگی بناکر جیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے پر نہ تو رمضان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور نہ ہی قرآن کا اثر معاشرے پر پڑتا ہے۔ اس نکتے کو مسجد کے اماموں اور واعظین کرام کو بیان کرنا چاہئے تاکہ قرآن ہماری زندگی میں رچ بس جائے اور قرآنی معاشرے کا وجود نظر آنے لگے ۔معاشرے میں قرآن چلتا پھرتا دکھائی دے جس طرح صحابہ کرام ؓ کی زندگی میں قرآن چلتا پھرتا دکھائی دیتا تھا۔ قرآن کو لوگ چھو سکتے تھے، قرآن کو محسوس کرسکتے تھے آج ہم دعاؤں اور تقریروں سے اس دور کو واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں ، کاش دل سے اور عمل سے واپس لانے کی کوشش کرتے۔

تبصرے بند ہیں۔