روداد سفر حج (دوسری قسط)

سہیل انجم

جب 2006 میں فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد میں نے سفرنامہ لکھا اور اس کو ’’پھر سوئے حرم لے چل‘‘ نام سے کتابی شکل میں شائع کیا تو اس کے اجرا کے موقع پر مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک دعائیہ نام ہے اور ان شاء اللہ سہیل انجم کو پھر سوئے حرم جانے کی سعادت نصیب ہوگی۔ اس واقعہ کے دس سال بعد میں پھر سوئے حرم چلا اورفروری 2017 میں عمرہ کی ادائیگی کی۔ لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ جلد ہی اس دیار کی ایک بار پھر زیارت نصیب ہوگی۔ حج 2018 کے لیے فارم پر کر دیا گیا تھا اور یہ خیال تھا کہ دو تین سال کے بعد منظوری ہوگی۔ جب قرعہ اندازی کا نتیجہ نکلا تو اس میں ہمارا نام نہیں تھا۔ ہماری درخواست ویٹنگ لسٹ میں تھی اور نمبر تھا 256،257  اور 258۔ ہم خاموش ہو گئے۔ مگر رمضان المبارک کے آخری ایام میں حج کمیٹی سے فون آیا کہ آپ کی درخواست منظور ہو گئی ہے۔ گویا اللہ تعالی نے بہت جلد اپنے گھر کا طواف اور حج کرنے کا موقع مرحمت فرما دیا۔ اس طرح ہم اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ حج بیت اللہ شریف کے لیے نکل پڑے۔ 18 جولائی کی صبح ساڑھے چھ بجے مدینہ ایئرپورٹ پر اترے۔ ضروری کاغذی کارروائیوں کے بعد ہوٹل طیبہ السلام میں ہم لوگوں کو لے جایا گیا۔ ہم جس سعودی طیارے سے آئے ہیں اس میں کل 410 حجاج کرام تھے۔ جن میں دہلی کے بمشکل پچاس ساٹھ لوگ ہوں گے باقی سب مغربی یو پی کے تھے۔ بہر حال ہمیں طیبہ السلام ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ یہ ہوٹل مسجد نبوی کے باب السلام کی طرف ہے اور یہاں سے بمشکل پانچ منٹ میں مسجد نبوی پہنچا جا سکتا ہے۔ ہوٹل میں سامان وغیرہ رکھ کر اور غسل کرکے مسجد نبوی کی طرف چلے۔

ہمارا انتظار یہاں ہمارے ایک عزیز مولانا شعیب محمد اسلم کر رہے تھے۔ وہ جامعہ اسلامیہ سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور مسجد نبوی میں اردو مترجم بھی ہیں۔ انھوں نے ہم تین لوگوں کے لیے کوشش کرکے ہوٹل میں الگ کمرہ بک کرا دیا تھا۔ وہ ہم لوگوں کو لے کر مسجد نبوی پہنچے۔ یہاں یہ ذکر بھی مناسب ہوگا کہ مدینہ ایئرپورٹ پر جھارکھنڈ کے ایک طالب علم مولانا عبد الرحمن شہاب الدین ملے جو جامعہ اسلامیہ سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ ایئرپورٹ پر ڈیوٹی پر ہیں اور حاجیوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ انھوں نے ہمارے ساتھ بڑا تعاون کیا۔ بہر حال شعیب محمد اسلم کے ساتھ ہم لوگ مسجد نبوی آئے اور عصر، مغرب اور عشا کی نمازیں ادا کیں۔ اسی دوران یعنی عصر کی نماز سے ذرا قبل انھوں نے مسجد میں واقع اپنے مکتب میں لے جا کر ہماری ملاقات مکتب کے منیجر ابو منصور فارس الجربا سے کرائی۔ انھی کے دفتر میں عصر کی نماز ادا کی گئی۔ اس کے بعد انھوں نے ہم سے بہت سی باتیں کیں۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ شخص ایک صحافی ہے تو ان کی دلچسپی بڑھ گئی۔ وہ عربی میں سوال کرتے ہم اردو میں جواب دیتے۔ شعیب مترجم کی خدمت انجام دیتے رہے۔ اس ادارے سے سات زبانوں میں جمعہ کا خطبہ لائیو نشر ہوتا ہے جن میں اردو زبان بھی ہے۔ جلد ہی مزید تین زبانوں میں بھی ترجمہ نشر ہوگا۔ حج و عمرہ سیزن میں یہاں سے دس زبانوں میں عازمین و معتمرین کا استقبال کیا جاتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد جناب ابو منصور فارس الجربا نے مسجد نبوی کی سیر کرائی اور مسجد کے بارے میں بہت سی معلومات فراہم کیں۔ مثال کے طور پر کس کس صحابی کا گھر کہاں ہوا کرتا تھا۔ اللہ کے رسول جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تو ان کی اونٹنی کہاں بیٹھی تھی۔ اللہ کے رسول کا گھر کہاں تھا۔ ازواج مطہرات کے حجرے کہاں تھے۔ کس طرح اہل مدینہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر ان کے قدموں میں اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیے تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔

اس کے بعد وہ ہم لوگوں کو لے کر باب السلام کی جانب سے ریاض الجنہ کی طرف گئے۔ ان کی ہدایت پر وہاں تعینات سیکورٹی والوں نے قنات ہٹا کر ہم لوگوں کو ریاض الجنہ میں داخل کیا۔ ادھر سے عام لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ انھوں نے ہمیں محراب نبوی کے پاس بٹھا دیا۔ وہیں پاس سے ہی مسجد نبوی میں امامت کی جاتی ہے۔ ہم بالکل مصلے سے متصل تقریباً ایک گھنٹے تک بیٹھے۔ پھر وہاں سے نکل کر قبر مبارک کی طرف گئے اور ایک بار پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا۔ یہیں ہماری ملاقات ایک پاکستانی عالم دین جناب ثناء اللہ سے ہوئی۔ وہ بھی مسجد نبوی میں اردو مترجم ہیں۔ انھوں نے ہندوستان و پاکستان کے بارے میں جہاں بہت سی باتیں کیں وہیں دونوں ملکوں کے مابین دوستانہ رشتوں کے قیام کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔

19 جولائی کی شام کو جامعہ سنابل کالندی کنج اوکھلا نئی دہلی کے ایک سابق طالب علم ممبئی کے مولانا جاوید ندیم ملے۔ وہ بھی جامعہ اسلامیہ سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ انھوں نے اگلے روز یعنی 20 جولائی کو تاریحی زیارت کا پلان بنایا۔ اگلے روز نماز فجر کے بعد ہم لوگ ان کی گاڑی سے مدینہ کی تاریخی زیارت کو نکلے۔ انھوں نے کئی ایسے مقامات دکھائے جو عام طور پر حجاج نہیں دیکھ پاتے۔ انھوں نے بہت ہی قابل قدر معلومات بہم پہنچائیں۔ انھوں نے خندق کا پورا علاقہ دکھایا اور بتایا کہ کہاں کہاں اللہ کے رسول خندق کا معاینہ کیا کرتے تھے، کہاں آپ نے دعائیں کیں اور کہاں کیا کیا ہدایتیں دیں۔ وہیں ایک بڑی چٹان آگئی تھی اور جو ٹوٹ نہیں رہی تھی۔ اللہ کے رسول نے ایک کلہاڑی لی اور ضرب لگائی تو چٹان ریزہ ریزہ ہو گئی۔ سلمان فارسی مسجد جہاں واقع ہے وہاں صحابہ کرام بیٹھ کر اللہ کے رسول کے ساتھ میٹنگ کیا کرتے تھے کہ کتنا کام باقی ہے کتنا ہوا۔ وغیرہ وغیرہ۔ حضرت سلمان فارسی کے مشورے پر ہی خندق کھودی گئی تھی۔ اس لیے اس یادگار کو باقی رکھنے کے لیے یہاں ایک مسجد تعمیر کرا دی گئی جو سلمان فارسی کے نام سے منسوب ہے۔ یہاں اوپر پہاڑی پر چوکی بنی ہوئی ہے۔ یہاں اللہ رسول نے صحابہ کرام کو تعینات کیا تھا تاکہ وہ دیکھیں کہ کفار مکہ کا لشکر کہاں تک پہنچا۔ اس کے پیچھے ایک اُطم تھا یعنی چھوٹا قلعہ جہاں آپ نے خواتین کو بحفاظت رکھا تھا۔ تھوڑا الگ ہٹ کر پہاڑی پر ایک جگہ آپ نے بیٹھ کر دعائیں کی تھیں۔ وہاں ایک مسجد بنا دی گئی ہے۔ لیکن چونکہ لوگ وہاں پہنچ کر بدعات و خرافات میں لگ جاتے تھے اس لیے اس کو بند کر دیا گیا ہے۔ وہاں پہنچنے کے لیے طویل زینے بنائے گئے ہیں۔ یہاں بہت سی چھوٹی چھوٹی مسجدیں تھیں جن کو ختم کرکے ایک بڑی مسجد ’’مسجد خندق‘‘ تعمیر کر دی گئی ہے۔

اسی طرح جاوید ندیم نے یہودی سردار کعب بن اشرف کا قلعہ دکھایا جس کے صرف نشانات باقی ہیں۔ اب اس جگہ کو تاروں کی دیورا سے گھیر دیا گیا ہے۔ وہ کنواں بھی دیکھا گیا جس کا نام بیئر غرس ہے۔ اللہ کے رسول نے صحابہ کو ہدایت دی تھی کہ میری وفات کے بعد اس کنویں سے پانی لا کر غسل دیا جائے۔ انھوں نے وہ وادی دکھائی جہاں شراب حرام ہونے کے بعد پھینکی گئی تھی اور شراب ندی کی مانند بہنے لگی تھی۔ احد پہاڑ پر بھی گئے اور جنگ احد کا میدان دیکھا جہاں سید الشہدا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے اور جہاں صحابہ کی ایک غلطی کی وجہ سے مسلمان جیتی ہوئی جنگ ہار گئے تھے۔ خالد بن ولید کی جنگی دوراندیشی نے جو کہ اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے، مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ 70 سے زائد صحابہ کرام شہید ہوئے تھے۔ آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے، آپ زخموں سے چور ہو گئے تھے اور وہیں پہاڑ پر ایک جگہ آپ آرام فرما ہوئے تھے۔ مسجد قبا بھی گئے جہاں گھر سے وضو کرکے آنے اور دو رکعت نماز ادا کرنے کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے۔ وہاں دو رکعت نماز ادا کی گئی۔

 مسجد قبا کے پاس ایک بازار لگتا ہے جس میں بیشتر دکاندار خواتین ہوتی ہیں۔ یہیں کچھ کم عمر لڑکے اور لڑکیاں دوڑ دوڑ کر  سامان فروخت کرتے ہیں۔ یہ لوگ در اصل افغان ہیں۔ جب افغانستان پر سوویت روس نے حملہ کرکے قبضہ کر لیا تھا تو بہت سے افغان ترک وطن کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ سعودی عرب کی حکومت نے ان لوگوں کو اپنے یہاں پناہ دی تھی اور مسجد قبا کے نزدیک ایک بڑے قطعہ آراضی پر ان کو بسایا تھا۔ اس کے بعد سے وہ لوگ یہیں سکونت پذیر ہیں۔ یہاں یہ معلوم ہوا کہ سعودی حکومت نے کم از کم چھ ملکوں کے مسلم متاثرین کو پناہ دی ہے جن میں سب سے زیادہ مراعات برما کے پناہ گزینوں کو حاصل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ مظلوم ہیں۔ ہم نے کچھ چوراہوں پر نوجوانوں کو چمیلی کے پھولوں کے گجرے بیچتے دیکھے۔ ہمیں دہلی کے چوراہوں کی یاد آگئی۔ ہم نے مولانا جاوید ندیم سے وضاحت چاہی تو انھوں نے بتایا کہ در اصل یہ لوگ یمنی پناہ گزیں ہیں۔ حکومت نے دوسرے ملکوں کے جن مسلمانوں کو پناہ دی ہے یہ ان میں نئے شہری ہیں جو جنگ یمن سے متاثر ہیں۔

یہاں سے تھوڑی مسافت پر مسجد جمعہ ہے۔ یہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جمعہ ادا کی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قبا کی تعمیر کے بعد مدینہ روانہ ہوئے تو اس جگہ کے مسلمانوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا اور کہا کہ آپ نے قبا کے مسلمانوں کو مسجد تفویض کی ہے ہمیں بھی کچھ مرحمت فرمائیے۔ وہ جمعہ کا دن تھا۔ آپ نے وہاں نماز جمعہ ادا کی۔ غالباً وہ پہلی نماز جمعہ تھی۔ اس کی یاد کو باقی رکھنے کے لیے وہاں ایک مسجد تعمیر کی گئی جو اب مسجد جمعہ کے نام سے معروف ہے۔

ہم نے ایک بار پھر مسجد قبلتین دیکھی اور دوسرے بہت سے مقامات کی بھی زیارت کی۔ زیارت سے واپسی کے بعد مسجد نبوی میں نماز جمعہ ادا کی۔ اب مسجد میں حجاج کی بھیڑ بڑھنے لگی ہے۔ ہم 18 جولائی کو پہنچے تھے اور آج 22 جولائی ہے، ان چار دنوں میں لوگوں کی زبردست آمد ہوئی ہے۔ خود ہندوستان سے اب تک تیس ہزار سے زائد حاجی مدینہ پہنچ چکے ہیں۔ جمعہ کی نماز کے وقت بہت پہلے ہی مسجد بھر گئی۔ ذرا تاخیر سے آنے والوں کو یا تو کھلے صحن میں جگہ ملی یا پھر چھت پر۔ ہم بھی چھت پر گئے۔

 21جولائی کو جاوید ندیم نے شام کو کھانے پر مدعو کیا۔ یہ ان کی محبت تھی۔ واپسی پر احد کے پاس سے گزرے تو وہاں کا منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت نے احد پہاڑ پر چاروں طرف سے جو کہ سات کلو میٹر لمبا ہے، لائٹوں کا انتظام کیا ہے۔ چاروں طرف سے پہاڑ پر فوکس ڈالا جاتا ہے جس کی وجہ سے پورا پہاڑ نظروں میں آجاتا ہے۔ ایسی تیز روشنی کہ پہاڑ پر جائیں تو ایک ایک ذرے کو دیکھ سکیں۔ پہاڑ کی دو جانب حکومت نے پارک بنائے ہیں۔ یعنی پہاڑ کو کاٹ کاٹ کر اسے مسطح کیا گیا ہے، وہاں بیٹھنے کی جگہیں بنائی گئی ہیں، داخلی دروازہ بنایا گیا ہے اور دروازے کے پاس بینچ وغیرہ نصب کی گئی ہیں۔ آس پاس ہرے بھرے درخت اور پھولوں کی کیاریاں ہیں۔ پہاڑ پر یہ ہریالی بہت لطف دیتی ہے۔ دن میں احد پہاڑ اتنا خوبصورت نہیں لگتا جتنا کہ رات میں لگتا ہے۔ لیکن عام حجاج اس کی زیارت رات میں نہیں کر پاتے۔ ہم جاوید ندیم کی مہربانیوں سے اس دیدہ زیب منظر سے لطف اندوز ہو سکے۔ اسی موقع پر انھوں نے جامعہ اسلامیہ بھی دکھائی۔ رات میں داخلی دروازے کے علاوہ سارے دروازے بند تھے۔ اس لیے کچھ دور جا کر واپس ہو لیے۔ وہاں کتابوں کا اے ٹی ایم دیکھا۔ یعنی اگر آپ کو کوئی کتاب لائبریری میں جمع کرنی ہے تو آپ اس میں ڈالیں وہ اسے قبول کر لے گی۔ ہم اس سے قبل کامعہ اسلامیہ ٹہل چکے ہیں۔

مسجد نبوی میں تمام نمازوں کے بعد دروس ہوتے ہیں، کلاسیں چلتی ہیں اور تعلیم دی جاتی ہے۔ اب مسجد نبوی کے نام سے ایک کلیہ مسجد نبوی یعنی مسجد نبوی کالج بھی کھولا گیا ہے جس کے تحت کئی فیکلٹیز ہیں۔ جن میں قرآن، حدیث، فقہ، تفسیر اور دوسری فیکلٹیز ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ عشا کی نماز کے بعد بھی جگہ جگہ طلبا کتابیں لیے بیٹھے ہیں اور یاتو درس میں شامل ہیں یا از خود مطالعہ کر رہے ہیں۔ (باقی آئندہ)

تبصرے بند ہیں۔