روزہ رکھنے، صبر کرنے اور شکر ادا کرنے والا اللہ کوپسند ہے!

محمد ہاشم قادری مصباحی    

اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان فرمایا:وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن(القرآن، سورہ الذاریات، آیت 56) ترجمہ: اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اسی لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں ۔اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ انسان کی پیدائش اور اس کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اسلام کا اصل مقصد انسان کی پوری زندگی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت بنادینا ہے۔اسے اپنی زندگی کے ہر معاملے میں ہمیشہ اور ہر وقت یہ دیکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کس چیز میں ہے اور اس کا غضب اور ناراضگی کس چیز میں ہے۔ اللہ کی ناراضی سے انسان کو ایسے بچنا چاہئے جیسے آگ کے انگارے سے بچتاہے۔ جو حکم اللہ نے دیا ہے اس پر چلنا چاہئے اور جس طریقے کو اس نے نا پسند کیا اس سے کوسوں دور بھاگنا چاہئے۔ جب انسان کی زندگی اس سانچے میں ڈھل جائے تب وہ سمجھے کہ وہ اللہ کی بندگی میں لگا ہے۔

  روزے کا بنیادی مقصد مومن کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے۔ اگر پہلے سے ہے تو اس کو اور زیادہ کرنا ہے ۔ تقویٰ جتنا عام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے اتنا ہی عالم یا ولی اللہ،اللہ کے نیک بندوں کے لئے بھی ضروری ہے۔ تقویٰ کی کوئی حد یا انتہا نہیں ۔ زندگی کے ہر لمحہ اور موت تک مومن کو تقویٰ وپرہیزگاری پر عمل پیرا رہنا چاہئے۔ قرآن کریم میں تقویٰ کا لفظ پندرہ بار آیا ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات سب کی بنیاد تقویٰ ہے۔ تقویٰ کیا ہے ؟مختصرلفظوں میں یہ کہ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے کوئی عمل کرنا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے خوف سے کوئی ناپسندیدہ کام چھوڑ دینا۔ جس چیز کا جی چاہے اگر وہ اللہ کے حکم کے خلاف ہے تو صبر کرے اور اس کو چھوڑ دے۔مصیبتوں اور تکلیفوں میں صبر کا دامن پکڑے رہنا تبھی تو اللہ نے اتنی بڑی خوشخبری سنائی کہ صبر کرنے والوں کے میں ساتھ ہوں ۔ (القرآن سورہ بقرہ، آیت 153)ترجمہ: اے ایمان والو!صبر اورنماز سے مدد چاہو ۔ بے شک اللہ صابروں کے ساتھ ہے(کنزالایمان)صبر اور نماز کے ذکر سے اللہ تعالیٰ نے ان بڑے بڑے نیک کاموں کو ذریعہ نجات بنانے کا حکم دیاہے۔

حدیث پاک میں سرکار حضور  ﷺ فرماتے ہیں :مومن کی کیاہی اچھی حالت ہے کہ ہر کام میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اسے راحت ملتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے تو بے پناہ اجروثواب پاتاہے۔ اور صبر کرتا ہے تو بھی اجر پاتاہے۔ اور اپنے کاموں میں صبر اور نماز سے مدد لینے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے راستہ بتا دیا۔ آقا ﷺ کو جب کوئی غم ہوتا تو آپ نماز شروع کردیتے۔ صبر دو طرح کا ہے۔حرام اور گناہ کے کام کو چھوڑ دینا۔حرام کاموں میں جو لذت ہے اس کو نہ حاصل کرکے دور رہنا ،صبرکرنا ۔اللہ کے ناپسندیدہ کاموں سے دور رہنا۔ دوسرے دکھ مصیبت پر صبر کرنا ۔اوربھی صورتیں ہیں ۔ صبر کرنے پر ہر حال میں بے شمار فوائد ہیں دنیا و آخرت دونوں میں ۔

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا ،صبر کرنے والے کہاں ہیں ؟وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلے جائیں ۔ کچھ لوگ اٹھ کر جنت کی طرف بڑھیں گے۔ فرشتے انہیں دیکھ کر پوچھیں گے کہ کہاں جارہے ہو؟ یہ کہیں گے جنت میں ، فرشتے کہیں گے ابھی تو حساب بھی نہیں ہوا ہے۔ صابر کہیں گے ہاں ، حساب سے پہلے ہی۔ فرشتے پوچھیں گے آخر آپ لوگ کون ہیں ؟ جواب دیں گے ہم صابر لوگ ہیں ، اللہ کی فرمانبرداری میں لگے رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہے، مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔ فرشتے کہیں گے پھر تو ٹھیک ہے ،بے شک تمہارا یہی بدلہ ہے اور تم اس لائق ہو،جاؤ جنت میں ، خوب مزے کرو، اچھے کاموں کا اچھا ہی انجام ہے۔رب فرمارہا ہے: اِنَّمَا یُوْفِی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَاب(القرآن، سورۃ الزمر، آیت 10)ترجمہ: صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔نماز اور روزہ صحیح صفت پیداکرنے والی عبادت ہے۔ ہر زمانے میں تمام پیغمبروں کی شریعت میں فرض تھی اور اعلان خداوندی بھی کہ لعلکم تتقون تاکہ تم متقی بن جاؤ۔رمضان متقی و پرہیزگار بنانے کے لئے ہی آتاہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو آقا ﷺ یہ دعا مانگتے تھے۔ اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان (شعب الایمان) اے اللہ ہمارے لئے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادے۔ یعنی ہماری عمر اتنی بڑھادے کہ ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہوجائے۔

آپ غور کریں کہ رمضان المبارک آنے سے دو مہینے پہلے ہی رمضان کا انتظار اور اشتیاق ہورہاہے اور اسے پانے کی دعا ہورہی ہے۔ یہ تو وہی کر سکتاہے جس کو رمضان المبارک کی قدروقیمت معلوم ہو۔ روزے کا مقصد ہے کہ انسان کے اندر اللہ کی فرمانبرداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا جائے اور انسان کے اندر جو خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں اسے دور کر دیا جائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: ہر چیز کے لئے کوئی نہ کوئی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ہے اور بدن کی صفائی ستھرائی کا ذریعہ روزہ ہے۔(ابن ماجہ) اسی تقویٰ کو حاصل کرنے کے لئے روزے فرض ہوئے تاکہ گناہوں سے پاک و صاف ہوکر اللہ کا شکر ادا کرے اور اللہ نے شکر ادا کرنے پر بھی اجر دینے کا اعلان فرمایا اور فرمایا تم میری یاد اورشکر ادا کرنے سے غافل نہ ہو۔ فَاذْکُرُ وْنِی اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُ وْلِیْ وَلَا تَکْفُرُوْن۔(القرآن، سورۃ البقرہ، آیت 152) ترجمہ: تم میری یادکرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو۔(کنزالایمان) ارشاد ہورہا ہے مجھے یاد رکھو میری یاد میری عبادت سے غافل نہ ہو او ر میری نعمتوں کا شکر بھی ادا کرتے رہو ۔ شکر ادا کرنے میں کوتاہی اور غفلت سے کام نہ لو۔ شکر ادا نہیں کروگے تو گرفتار عذاب ہوجاؤگے اور تم سے نعمتیں چھین لی جائیں گی اور اگر ہماری عبادت کرتے رہوگے اور شکر ادا کرتے رہوگے تو نعمتوں کی بارش کروں گا ، خوشحال اورنہال کردوں گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ سے عرض کرتے ہیں کہ اللہ تیرا شکر کس طرح ادا کروں ؟ارشاد ہوتاہے مجھے یاد رکھو، بھولو نہیں ۔

اللہ کو یاد رکھنا شکر ہے بھول جانا ناشکری بلکہ کفر کے قریب ہے۔ حسن بصری رحمتہ ا للہ علیہ کا قول ہے کہ جو شخص اللہ کو یاد کرے اس کو وہ زیادہ دیتا ہے اور ناشکرے کو عذاب دیتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ رب کو یاد کرو ضروری احکام بجا لاؤ اللہ تمہیں نعمتوں سے مالا مال فرمائے گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کو یاد کرنا بہت بڑی چیز ہے ۔ روزہ انسان کے اندر یہ خوبیاں پیدا کرتا ہے ۔صبر و شکر ، تقویٰ وغیرہ وغیرہ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طرح سے روزے رکھنے اور صبر و شکر سے رہنے کی توفیق رفیق دے ۔ آمین ثم آمین!

تبصرے بند ہیں۔