رویتِ ہلال ۔ ایک تحقیقی جائزہ (قسط -آخری)

مولانا حافظ کلیم اللہ عمری مدنی

(ز) فتاوی علمائے حجاز وہند : 
1۔ اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، ھیءۃ العلماء کی قرار داد نمبر 2، تاریخ 13 ؍ 8؍1392 ھ
سوال نمبر 3686 :کیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ والے سعودی عرب کی رؤیت پر چاند دیکھے بغیر روزہ رکھ لیں؟
جواب: سپریم علماء کونسل کی طرف سے اس سلسلے میں ایک قرارداد منظور ہوچکی ہے، جس کا مضمون یہ ہے : (1) چاند کے مطالع کا اختلاف یقینی طورپر حسّاًوعقلاّ معلوم ہے ۔ اختلاف صرف اس مسئلہ میں ہے کہ مطالع کا اعتبار ہوگا یا نہیں (2) اختلاف مطالع کا اعتبار یا عدم اعتبار ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور اس بارے میں وسعت ہے۔اور جو اختلاف موجود ہے وہ ان علماء کی طرف سے ہے جو اس باب میں اختلاف کا حق رکھتے ہیں ۔ اور یہ اجتہاد اسی قسم کا ہے کہ اگر مجتہد نے حقیقت کو پالیا تو دوگنا ثواب پائے گا، ورنہ صرف ایک اجر کا مستحق ہوگا۔ دونوں فریقوں کا استدلال بھی ایک ہی جیسے نصوص سے ہے اور وہ ہیں: قرآن مجید کی آیت:یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الأَھِلَّۃِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (سورۂ بقرہ ؍189 ) اور حدیث نبوی صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہ(بخاری ومسلم )
لجنۃ دائمۃ نے بہت سے اعتبارات کا خیال کرتے ہوئے اور یہ سوچ کر کہ اس مسئلہ میں اختلاف کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے برے نتائج کا خطرہ ہو، کیونکہ اس دین کو ظاہرہوئے 14سوسال ہوگئے، لیکن آج تک کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا جس میں امت محمدیہ نے ایک دن کے لئے بھی کسی ایک جگہ کی رؤیت پر اتفاق کرکے عمل کیا ہو، اسی وجہ سے سعودی سپرم علماء کونسل یہ بہتر سمجھتی ہے کہ اس بارے میں اب تک جو عمل چلا آرہا ہے اسی کو باقی رکھا جائے اور اتحاد رؤیت کے موضوع کو بلا وجہ نہ چھیڑا جائے ۔ ہرمسلم ملک کو اس بات کا اختیار ہو کہ وہ اس بارے میں اپنے علماء کی رائے سے کوئی فیصلہ کرسکے ۔ اس بارے میں علماء کے دو اقوال میں سے جس کو چاہیں اختیار کرلیں، کیونکہ ہر فریق کے پاس اس کے موقف پر دلیل موجود ہے ۔
(3)۔رؤیت ہلال کو حساب فلکی سے ثابت کرنے کے معاملے میں کتاب وسنت اور علماء کے اقوال کی روشنی میں علماء کونسل اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ علم نجوم کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ رسول اللہ اسے صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُوؤیَتِہ(بخاری ومسلم ) کے مضمون کی کئی حدیثیں مروی ہیں، اس بناپر علم نجوم کے حساب کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ وباللہ التوفیق۔
]عبدالعزیز بن باز (صدر)، عبداللہ بن قعود (رکن)، اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، ریاض[
2۔ سوال نمبر 1266 ۔کیا اپنے شہر کے مسلمانوں کی مخالفت ،روزہ رکھنے اورعید منانے میں جائز ہے؟
جواب : الحمدللہ رؤیت کا ثبوت ملنے کی صورت میں ان پر واجب ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ روزہ کھیں اور ان کے ساتھ ہی عید منائیں ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے: ’’ صُوْمُوْا لِرُوؤیَتِہِ وَاَفْطِرُوْالِرُؤیَتِہِ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاأکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ۔۔۔ ‘‘(بخاری ومسلم ) یعنی روزہ کی ابتدااور انتہا مجرد آنکھ سے چاند دیکھنے یا ایسے آلات سے دیکھنے پر جو چاند دیکھنے میں آنکھ کے لئے معاون ہوں، کرنا چاہئے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : روزہ اس دن ہے جب تم سب روزہ رکھوگے اور عید الفطر اس دن ہے جب تم سب عید مناؤگے اور عید الاضحی اس دن ہے جس دن تم سب عیدالاضحیٰ مناؤگے۔40؂
3 ۔ شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری ؒ کا فتوی ہے:
’’ کسی مقام میں رمضان یا شوال کا چاند دیکھا گیا تو اس مقام رؤیت سے دور مشرق میں واقع دوسرے مقام والوں کے لئے ان کی رؤیت اس وقت معتبر ہوگی جبکہ ان دوسرے مقامات کے مطالع مقامِ رؤیت کے مطلع سے مختلف نہ ہوں۔ مقام رؤیت سیدور مشرق میں واقع بلاد وامصار کے حق میں مغربی مقام کی رؤیت کے اعتبار وعدم اعتبار کے معاملے میں اتحاد واختلافِ مطالع کا لحاظ ضروری ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے مدینہ میں شام (جومدینہ سے شمال مغرب میں واقع ہے ) کی رؤیت کا اعتبار بظاہر اس لئے نہیں کیا تھا کہ مدینہ کا مطلع ’مطلعِ شام‘ سے مختلف ہے۔ بعض علمائے فلکیات کا کہنا ہے کہ پانچ سو میل کے قریب کی مسافت پر مطلع مختلف ہوجاتا ہے۔ بنابریں ہندوستان کے کسی مغربی مقام کی رؤیت اس کے مشرقی حصے مثلا بہار وبنگال کے حق میں معتبر نہ ہوگی۔‘‘41؂
4 ۔ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حکم شرعی گواہی اور رؤیت پر موقوف ہے۔ لہٰذا اہل مکہ کی رؤیت ساری دنیا کے لئے ناممکن ہے ،یہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کا بھی موقف ہے۔ فرمانِ الہی: فَالآنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَاکَتَبَ اللَّہُ لَکُمْ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتَّی یَتَبَیَّنّ لَکُمُ الْخَیْطُ الأبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوْا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ۔ (سورۃ البقرۃ: 187) اور فرمان رسولﷺ : اِذَا اَقْبَلَ الَّیْلُ مِنْ ھَا ھُنَا وَاَدْبَرَ النَّھَارُ مِنْ ھَاھُنَاوَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ اَفْطَرَ الصَّاءِمُ۔(بخاری: 1954، مسلم: 1100)یہ حکم ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے عام ہے۔ اسی طرح فرمان الہٰی: فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ۔ اور فرمان رسولﷺ: اِذَارَأیْتُمُوْاہُ فَصُوْمُوْا وَاِذَارَأیْتُمُوْہُ فَاأفْطِرُوْا ، یہ حکم عام ہے۔ یہی قول کہ ایک مقام کی رویت دوسرے مقام کے لیے مستلزم نہیں ہے، فکر صحیح اور قیاس صحیح کے مطابق راجح ہے۔توقیتِ شہری کا قیاس توقیتِ یومی پر ممکن ہے۔42؂
5 ۔جامعہ دارالسلام عمرآباد کا فتوی برائے سیدشاہ امیر الحق قادری سرقاضی دارالسلطنت میسور ، 19 ؍10؍1950
سوال: کیا حیدرآباد دکن کی رؤیت کو پورے ہندوستان کے لئے تسلیم کیا جاسکتاہے؟
جواب: نماز عیدین کے متعلق ایسا انتظام قائم کرنا کہ تمام روئے زمین پر ایک ہی تاریخ اور ایک ہی روزمیں عیدین کی نماز ادا کی جائے، قطعاً ناممکن ہے، اس لئے کہ اختلاف مطالع کی وجہ سے مشرق ومغرب کی تاریخ اور دنوں میں فرق ہونا ضروری ہے۔ صاحب ’تصریح‘ نے تحریر کیا ہے کہ ہر وہ مغربی ملک جو کسی مشرقی ملک سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع ہے (1600 KM ، دنیا کا محیط چوبیس ہزارمیل ہے) دونوں کے طلوع وغروب میں ایک گھنٹے کا فرق واقع ہوتا ہے۔ اس حساب سے قطبین کے علاوہ تمام آفاق مائلہ میں 24 گھنٹے کا فرق ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں تمام روے زمین پر ایک ہی دن اور ایک ہی تاریخ میں نماز عید کی ادائیگی ناممکن ہے۔ علاوہ ازیں زمین کے مدوّر ہونے اور آفتاب کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے کرۂ زمین پر اوقات بھی یکساں نہیں ہوسکتے ۔ کسی مقام پر صبح کا وقت ہوتا ہے تو کسی مقام پر ظہر کا اور کہیں مغرب کا تو کسی مقام پر عشاء کا ،ایسی حالت میں ایک ہی تاریخ کا تعین ناممکن ہے۔ وہ تجارتی جہاز جو مشر ق سے مغرب کی طرف سفر کرتے ہیں انٹرنیشنل لائن (IDL) پر پہنچ کر اپنی تاریخ میں ایک دن کا اضافہ کرلیتے ہیں اور وہ جہاز جو مغرب سے مشرق کی طرف سفرکرتے ہیں اس لائن پر پہنچ کر اپنی تاریخ میں ایک دن کم کرلیتے ہیں۔ پس مذکورہ بالا تشریح کے مطابق تمام کرۂ زمین میں نماز عید ایک ہی روز اور ایک ہی تاریخ میں قطعاً ادا نہیں ہوسکتی ۔ باقی رہا یہ سوال کہ تمام ہندوستان میں ایک ہی دن میں نماز عید ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ تو یہ کچھ مشکل معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ ہندوستان کے مشرقی ومغربی شہروں میں تقریبا پونے دوگھنٹوں کا فرق واقع ہوتا ہے۔ لہٰذا ادائیگئ نماز کے لئے ایک ہی وقت کا تعین اگر نہیں کیا جاسکتا تو کم از کم ایک ہی تاریخ کا پورے ہندوستا ن میں تعین کیا جاسکتا ہے اور یہ امت مسلمہ کے اتحادِ عمل ویگانگی ، مقاصد شان توحید کے لئے فی الواقع ایک مفید ومؤثر مظاہرہ ہوگا ۔ قال اللہ تعالی : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمَیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا (سورۂ آل عمران ؍103 ) صاحبِ درِّمختار کا یہ قول ’یَلْزَمُ اَھْلَ الْمَشْرِقِ بِرُؤیَۃِ الْمَغْرِبِ‘ صرف ایک ملک کے باشندوں کے لئے ہے، ورنہ اگر پوری زمین کے لئے لیا جائے تو قطعا صحیح نہیں ہوگا۔مشاہدہ شاہد ہے کہ اگر کبھی مدراس میں 29کا چاند دیکھا گیا ہے تو اس کے شمال میں اور مغرب میں ایک ہزارسے زاید میل کے فاصلہ پر بھی اسی روز 29کا چاند دیکھا گیا ہیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہلال کا طلوع تمام ہندوستان میں ایک ہی روز ہوتا ہے، گوکسی مانع کی وجہ سے بعض مقام پرنظر نہ آسکے، پس تمام ہندوستان میں ایک ہی روز عید کی نماز ادا کی جاسکتی ہے اور اس کے انتظام کے لئے وہی صورت بہتر ہوسکتی ہے جو سوال میں درج ہے۔یعنی حیدرآباد دکن کی رؤیت کو ہندوستان کے لئے تسلیم کرکے بذریعہ ریڈیو اعلان عام کردیا جائے۔ واللہ اعلم۔۔۔
کتبہ: عبید الرحمن عاقل رحمانی استاذجامعہ دارالسلام عمرآباد
الجواب صحیح : غضنفر حسین شاکر نائطی ، عبدالواجد عمری رحمانی ،محمدنعمان اعظمی ، عبدالسبحان اعظمی عمری (غفراللہ لھم)
حرفِ آخر : 
مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں شریعت ایسے اصول اور قواعد بتاتی ہے جس میں لوگوں کے لئے سہولت ہو اور وہ بغیر کسی مشقت و حرج کے اس پر عمل کر سکیں، کیونکہ احکام شریعت سہولت پر مبنی ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ (البقرۃ:185)
اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے روزے کے سیاق میں ہی ساری امت سے فرمایا کہ شریعت کے احکام پر عمل کرنے میں سہولت مقصود ہے۔اور نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے: اَلدِّیْنُ یُسْرٌوَ لَنْ یُشَادَّ الدِّیْنَ اَحَدٌ اِلاّٰغَلَبَہُ 43؂ یعنی یقیناًدین آسان ہے جو دین میں بے جاسختی کرتا ہے۔ دین اس پر غالب آجاتا ہے۔ یعنی انسان مغلوب ہوجاتاہے اور دین پر عمل ترک کردیتا ہے۔ اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ بنی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : ہَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ قَالَھَا ثَلاَثًا۔44؂ اپنی طرف سے دین میں سختی کرنے والے ہلاک ہوگئے ۔ آپ ﷺ نے 3 مرتبہ یہ ارشاد فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا : تم دین میں غلو کرنے سے بچو، پچھلی قومیں دین میں غلو کرکے ہلاک ہوگئیں۔45؂
احادیث شریفہ میں رؤیت بصری (آنکھ سے دیکھنے کو ) ہی کو معتبر مانا گیا، نہ کہ محض وجود ہلال (New Moon) کو، جسے غیر مرئی چاند کہا جاتا ہے، کیونکہ مرئی چاند دیکھنے میں ہی ساری امت کے لیے سہولت اور آسانی ہے۔ اگر غیر مرئی چاند کو معیار تسلیم کیا گیا تو یہ بات چند مخصوص افراد ہی کو معلوم ہوسکے گی اور اکثریت کے لیے اس کا دیکھنا محال ہوگا اور یہ تکلیف مالا یطاق ہوگی۔ روزہ رکھنے اور روزہ نہ رکھنے کے لیے رؤیت ہلال کو سبب تسلیم کرنے کی صورت میں جہاں رویت ہوگی وہاں روزہ کا حکم ہو گا اور جہاں رویت نہ ہوگی وہاں روزہ کا حکم نہیں ہوگا۔ یہ قاعدہ کلیہ پوری دنیا والوں کے لیے ہے۔ جس علاقہ کے مسلمانوں نے چاند نہیں دیکھا ان کے علاقے میں رؤیت ہوئی ہی نہیں تو رمضان کا مہینہ آیا ہی نہیں، وہ روزہ کیوں رکھیں؟ محض کسی ایک جگہ کی رؤیت کو سارے دنیا کے مسلمان تسلیم کرلیں تو یہ قیاسِ فاسد ہے۔
روزہ اور عید غالب اکثریت کے ساتھ ہی معتبر ہے۔عیدین اجتماعیت کاسبق دیتی ہیں۔ اسلامی عبادت میں اجتماعیت کا تصور موجود ہے۔ تنہا ایک آدمی چاند دیکھ کر عید اپنے طور پر نہیں مناسکتا، بلکہ اسے عید الفطر اورعید الاضحی کی نمازوں کی ادائی کے لیے لوگوں کی غالب اکثریت کی موافقت ضروری ہے۔ دوچار افراد کا جماعت سے الگ ہو کر روزہ شروع کردینا یا عید منانا نہ روزہ ہے نہ عید ہے۔ اسی لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے حدیث ’’ صَوْمِکُمْ یَوْمَ تَصُوْمُوْنَ وَفَطْرِکُمْ یَوْمَ یَفْطِرُوْنَ۔ (ابو داؤد)کے بارے میں فرمایا کہ بعض اہل علم نے اس حدیث کی یہ تشریح کی ہے: ’’اِنَّمَا مَعْنیٰ ھَذَا الصَّوْمُ وَ الْفَطْرُ مَعَ الْجَمَاعَۃِ وَ عِظَمِ النَّاسِ‘‘۔ 46؂ یعنی روزہ اور عید جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ ہی معتبر ہے ۔
بلاشبہ مسجد حرام، جو اسلامی ممالک بلکہ سارے عالم کے مسلمانوں کے لئے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ قبلہ بھی ہے، لیکن وہاں کی رؤیت کو اتحاد امت کا ذریعہ سمجھنا شرعاً غلط ہے، کیونکہ رؤیت ہلال کے لئے سب سے اہم رکاوٹ اختلاف مطالع ، اختلاف رؤیت اورجغرافیائی حیثیت وغیرہ ہے۔ اتحاد امت کے لئے بنیادی ضرورت یہہے کہ امتِ محمدیہ تمام فقہی ، گروہی اور مسلکی اختلافات سے بالا تر ہوکر عقیدہ کی بنیاد پرمتحد ہو۔ اخوت ایمانی کومضبوط سے مضبوط تر بنائے۔ اتباع سنت کے ساتھ ساتھ شرکیہ امور سے کلی طورپر اجتناب کرے۔ اس سے امت کی وحدت کوتقویت پہنچے گی، نہ کہ صرف ایک ہی دن میں سارے عالم میں عید منانے سے وحدت قائم ہوگی۔ عید مسلمانوں کے لئے عبادت اور شکر کا ایک طریقہ ہے، جو صرف رؤیت بصری پر ہی منحصر ہے ۔ یہ عیدیں کرسمس اور دیپاولی کی طرح کوئی میلہ یا تہوار نہیں ہے کہ وقت سے پہلے ہی تقویم کے ذریعہ اس کا اعلان کردیا جائے اور نہ یہ ممکن ہے کہ شمسی تاریخوں کی طرح قمری تاریخوں کا کیلنڈربنایا جائے ۔ اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ رؤیت ہی کی بنیاد پر کوئی مہینہ 29کا اور کوئی مہینہ 30کا ہوگا۔اور یہ کس مہینہ میں 29اور کس مہینے میں 30کا ہوگا اس کی تحدید نہیں کی گئی ۔امت مسلمہ میں یہ اختلاف قدیم ہے۔ اس پر باربار مسلسل کوششیں کی گئیں، ملکی اورمقامی سطح پرسیمینارمنعقدہوئے، لیکن علمائے امت کا چودہ سوسال سے عدم اتفاق خود اس بات پر دلیل ہے کہ ایک شہر کی رؤیت تمام عالم کے لئے ناممکن ہی نہیں، بلکہ امر محال ہے۔ رؤیت ہلال میں عالمی وحدت پیدا کرنے کی کوشش رسول اکرم ﷺ کی صحیح احادیث،علماء محققین، حنفیہ ومالکیہ وشافعیہ وحنابلہ اور علم ہیئت جدیدہ اور جغرافیہ جدیدہ کے خلاف ہے۔
جب عالم اسلام میں نمازوں کے اوقات میں فرق و تفاوت کو وحدت کے منافی نہیں سمجھا جاتا تو رؤیت ہلال کے حساب سے الگ الگ دن عیدیں اور رمضان کے آغاز کو عالم اسلام کی وحدت کے منافی کیوں سمجھا جارہا ہے ۔ یہ نظریہ سرے سے غلط ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ دیگر اسلامی ممالک روزہ رکھیں اور عید منائیں۔ رؤیت ہلال کا مسئلہ قدرت کی جانب سے مقررکردہ نظام ہے۔ اس میں انسان بے بس ہے اور وہ شریعت کا پابند ہے۔ ہمیں چاہئے کہ فکر ونظرکو شریعت کے تابع بنائیں، نہ کہ اپنے بنائے ہوئے افکارونظریات کو صحیح ٹھہرانے کے لئے شریعت سے دلائل جمع کرنے کی کوشش کریں۔
اضافہ از ادارہ
اس موضوع پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ایک قیمتی اور موثر تحریر ذیل میں درج کی جارہی ہے۔ انھوں نے ایک موقع پر عیدالفطر کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا:
’’بعض حلقے یہ خیال بڑے زور شور سے پھیلارہے ہیں کہ عید اسلامی اتحاد کا ایک اہم نشان ہے۔ اس لیے تمام مسلمانوں کی عید لازماً ایک دن ہونی چاہیے۔ ان میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی عید ایک دن ہو اور کچھ دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ پاکستان کے تمام مسلمانوں کی عید تو ایک ہی دِن ہونی ضروری ہے۔ لیکن در حقیقت یہ فکر و نظر کی غلطی ہے۔ دین سے ناواقفیت کی بنا پر ایسی باتیں کی جارہی ہیں اور یہ باتیں زیادہ تر وہ لوگ کررہے ہیں جو رمضان کے روزے تو نہیں رکھتے، مگر عید کے معاملے میں اسلامی اتحاد کی انھیں بڑی فکر ہے۔
اِن حضرات کو پہلی غلط فہمی تو یہ لاحق ہے کہ عید اُن کے نزدیک کرسمس یا ہولی یا دیوالی کی طرح کوئی تہوار ہے یا پھر یہ کوئی قومی جشن ہے جسے مسلمانوں کے قومی اتحاد کا نشان بنایا گیا ہے۔ حالاں کہ دراصل عید کا تعلق ایک عبادت سے ہے جو رمضان کے آغاز سے شروع ہوتی ہے اور رمضان کے خاتمہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے شکر کے طو رپر دورکعت نماز پڑھ کر ختم کی جاتی ہے۔ شریعت کے صریح احکام کی روٗ سے اِس عبادت کا آغاز اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک قابل اطمینان طریقہ سے یہ معلوم نہ ہو کہ رمضان شروع ہوچکا ہے اور اس کا اختتام بھی اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ایسے ہی قابل اطمینان طریقہ سے یہ علم نہ ہوجائے کہ رمضان ختم ہوچکا ہے۔ قرآنِ مجید کا صاف حکم ہے کہ:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ۔۔۔ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ۔ (البقرہ:185) ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے ۔۔۔ پس تم میں سے جو شخص اِ س مہینے کو پائے (یا اِس میں موجود ہو) وہ اس کے روزے رکھے۔ ’’
یہ آیت قطعی طور پر اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ رمضان کا مہینہ جب سے شروع ہو اور جب تک وہ رہے ، ہر مسلمان کو اس کے روزے رکھنے چاہئیں اور اِس مہینیکے روزوں کی تکمیل کیے بغیر کسی عید کا ہر گز کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں اصل چیز مسلمانوں کا اتحاد نہیں ہے، بلکہ ماہ رمضان کا اختتام ہے، جس کا اطمینان حاصل کرنا عید کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ اب یہ خیال رہے کہ رمضان ایک قمری مہینہ ہے، جس کا انحصار رویتِ ہلال پر ہے اور اِس کے بارے میں نبی ﷺ کی واضح ہدایت موجود ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی روزے ختم کرو۔ لیکن اگر مطلع صاف نہ ہو تو تیس روزوں کی تعداد پوری کرو، اِلاّ یہ کہ دو قابلِ اعتماد گواہ یہ شہادت دیں کہ اُنھوں نے چاند دیکھا ہے۔ حضور ﷺ نے اس ارشاد میں دو باتیں صاف متعین فرمادی ہیں: ایک یہ کہ رویت کی شہادت اُس وقت درکار ہوگی جب کہ مطلع صاف نہ ہو، دوسرے یہ کہ اِس صورت میں خبر نہیں، بلکہ دو عادل گواہوں کی شہادت پر رویت کا فیصلہ کیا جائے گا اور شہادت کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ تار یا ٹیلیفون یا ریڈیو پر نہیں ہوسکتی، اس کے لیے گواہوں کا سامنے موجود ہونا ضروری ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی عید ایک دن ہونی چاہیے وہ تو بالکل ہی لغو بات کہتے ہیں۔ کیوں کہ تمام دنیا میں رویت ہلال کا لازماً اور ہمیشہ ایک ہی دن ہونا ممکن نہیں ہے۔ رہا کسی ملک یا کسی ایک بڑے علاقے میں سب مسلمانوں کی ایک عید ہونے کا مسئلہ تو شریعت نے اس کو بھی لازم نہیں کیا ہے۔ یہ اگر ہوسکے اور کسی ملک میں شرعی قواعد کے مطابق رویت کی شہادت اور اس کے اعلان کا انتظام کردیا جائے تو اس کو اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ مگر شریعت کا یہ مطالبہ ہرگز نہیں ہے کہ ضرور ایسا ہی ہونا چاہیے اور نہ شریعت کی نگاہ میں یہ کوئی برائی ہے کہ مختلف علاقوں کی عید مختلف دنوں میں ہو۔
خدا کا دین تمام اِنسانوں کے لیے ہے اور ہر زمانے کے لیے ہے۔ آج آپ ریڈیو کی موجودگی کی بنا پر یہ باتیں کررہے ہیں کہ سب کی عید ہونی چاہیے، مگر آج سے ساٹھ ستّر برس پہلے تک پورے برِّ صغیر ہند تو درکنار، اس کے کسی ایک صوبے میں بھی یہ ممکن نہ تھا کہ 29؍ رمضان کو عید کا چاند دیکھ لیے جانے کی اطلاع سب مسلمانوں تک پہنچ جاتی۔ اگر شریعت نے عید کی وحدت کو لازم کردیا ہوتا تو پچھلی صدیوں میں مسلمان اِس حکم پر آخر کیسے عمل کرسکتے تھے؟ پھر آج بھی اس کو لازم کرکے عید کی یہ وحدت قائم کرنا عملاً ممکن نہیں ہے۔ مسلمان صرف بڑے شہروں اور قصبوں ہی میں نہیں رہتے۔ دور دراز دیہات میں بھی رہتے ہیں اور بہت سے مسلمان جنگلوں اور پہاڑوں میں بھی مقیم ہیں۔ وحدتِ عید کو ایک لازمی شرعی حکم بنانے کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان ہونے کے لیے ملک میں صرف ایک ریڈیو اسٹیشن کا ہونا ہی ضروری نہ ہو، بلکہ ہر شخص کے پاس یا ہر گھر کے لوگوں یا مسلمانوں کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بستی میں ایک ریڈیو سیٹ یا ایک ٹرانزسٹر بھی ضرور ہو، ورنہ وہ اپنے شرعی فرائض ادا نہ کرسکیں گے۔ کیا یہ آلات بھی اب دین کا ایک لازمی جزء قرار پائیں گے؟ خدا کی شریعت نے تو ایسے قواعد مقرر کیے ہیں جن سے ہر مسلمان کے لیے ہرحالت میں دینی فرائض ادا کرنا ممکن ہوتا ہے۔ اُس نے نماز کے اوقات گھڑیوں کے حساب سے مقرر نہیں کیے کہ گھڑی ہر مسلمان کے لیے اُس کے دین کا ایک جُز بن جائے، بلکہ اُس نے سورج کے طلوع و غروب اور زوال جیسے عالم گیر مناظر کو اوقاتِ نماز کی علامت قرار دیا، جنھیں ہر شخص ہر جگہ دیکھ سکتا ہے۔
اِسی طرح اُس نے روزے شروع اور ختم کرنے کے لیے بھی رمضان اور شوال کے چاند کی رویت کو علامت قرار دیا ہے جو عالم گیر مشاہدے کی چیز ہے اور ہر مسلمان ہر جگہ چاند دیکھ کر معلوم کرسکتا ہے کہ اب رمضان شروع ہوا اور اب ختم ہوگیا۔ اگر وہ اس کی بنیاد جنتری کے حساب کو قرار دیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہر مسلمان کے لیے یا تو فلکیات اور نجوم کا علم حاصل کرنا فرض ہوجاتا، یا جنتری اُس کے دین کا ایک جز بن جاتی جسے پاس رکھے بغیر وہ فرائض دینی ادا نہ کرسکتا اور اگر وہ یہ حکم دیتا کہ ایک جگہ کی رویت سے ساری دنیا میں یاروئے زمین کی ایک ایک اقلیم میں روزے شروع اور ختم کرنا فرض ہے تو خبر رسانی کے موجودہ ذرائع کی ایجاد سے پہلے تو مسلمان اس دین پر عمل کرہی نہیں سکتے تھے۔ رہا ان کی ایجاد کے بعد کا دَور تو اس میں بھی مسلمانوں پر یہ مصیبت نازل ہوجاتی کہ چاہے انھیں روٹی اور کپڑا میسّر نہ ہو، مگر وہ مسلمان رہنا چاہیں تو اُن کے پاس ایک ٹرانزسٹر ضرور ہو۔‘‘ ] تفہیمات، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، 1999ء، جلد چہارم، ص147۔150[
حواشی و مراجع
1؂ الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، ج 2، ص 296
2؂ الملخص الفقہی:1/262۔263
3؂ المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم، الامام الفقیہ ابو العباس القرطبی 3/141
4؂ المنجد، ص1133
5؂ رؤیت ہلال کا مسئلہ اور اس کا حل ، شمس پیر زادہ ، ص 9
6؂ رؤیت ہلال ،غازی عزیر ص 306
7؂ ابو نعیم، ابن عساکر، بحوالہ تیسیر الرحمن ص:105
8؂ بحوالہ رؤیت ہلال غازی عزیر: ص 254
9؂ احسن البیان: ص562
10؂ حوالہ بہ تصرف احسن البیان:ص 1241
11؂ بخاری: 1808، مسلم :1080
12؂ لسان العرب ، ج12ص443
13؂ بخاری، 1814، مسلم1080
14؂ بخاری، مسلم
15؂ جامع الترمذی :802، صححہ الالبانی
16؂ مسلم87.1، ابوداؤد 2832 ، ترمذی 293، نسائی:4/131۔ مسند احمد:2790
17؂ سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ، جنوری۔ مارچ 1992، ص 61
18؂ الاسئلۃ والاجوبۃ الفقہیۃ … عبدالعزیز المحمد السلیمان۔2/136
19؂ العلم المنشور فی اثبات الشہور للسبکی، بحوالہ توحید بدایۃ الشہور القمریہ للشیخ السایس، ص:943
20؂ فتاویٰ، 25/108 21؂ شرح صحیح مسلم، 2؍204
21؂الف المجموع مع شرح المھذب للنووی 6/300،شرح صحیح مسلم: 2/204
22؂ عون المعبود،6؍455 23؂ جامع ترمذی: 693
24؂ تحفۃ الأحوذی:2؍36 25؂ سنن النسائی، حاشیہ السندی، 2؍131
26؂ صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر1916،3؍205
27؂ بحوالہ رؤیت ہلال، غازی عزیر، ص : 156
28؂ شرح السنۃ ، 6؍ 245 ۔ 246 29؂ تمام المنہ ؍ص: 398
30؂ مجموع الفتاوی علی ھامش خلاصۃ الفتاوی 1؍255۔256 بحوالہ جدید فقہی مسائل ص82
31؂ بدایۃ المجتھد 1؍287۔288 32؂ المغنی لابن قدامہ: 3؍87
33؂ المجموع 6؍300۔المسائل الفقھیۃ التی انفرد بہ الامام الشافعی من دون اخوانہ من الأئمۃ۔لابن کثیر ص :117
34؂ الاستذکار لابن عبد البر10؍30 ، الجامع لأحکام القرآن 2؍295
35؂ مسلم ،بابُ لا اعتبارَ بکِبَرِ الھلالِ وصغرِہِ، موسوعۃ فقہ عبداللہ بن عباس، د؍رواس قلعجی، ص 480
36؂ سبل السلام :151 37؂ سبل السلام :ص156
38؂ رؤیت ہلال کا مسئلہ اور اس کا حل، ص 13
39؂ دلیل الطالبین شرح ریا ض الصالحین، 1 ؍137
40؂ ابوداؤ د 2324 ، ترمذی 967 وصححہ الالبانی ؒ فی صحیح الترمذی 561 اللجنۃ الدائمۃ للبحوث والافتاء ، 10؍94 شیخ محمد صالح المنجد
41؂ بحوالہ رمضان کے فضائل واحکام ، ص 8 ۔ 9
42؂ فتاوی علماء البلد الحرام للشیخ سعد بن عبداللہ البریک، ص: 231
43؂ بخاری 44؂ مسلم
45؂ نسائی 46؂ فتاویٰ 25/115
47؂ تیسیرالکریم الرحمن فی تفسیرکلام المنان، ص:700

تبصرے بند ہیں۔