رویت ہلال تنازعہ: سوال در سوال سے عوام پریشان

صفدر امام قادری

 ایسا نہیں ہے کہ رمضان کے چاند پر یہ کوئی پہلی بار تنازعہ قائم ہوا ہے۔ عید ہی نہیں عید الضحیٰ جس میں غور و فکر کے لیے دس دن کی گنجائش ہوتی ہے، وہاں بھی بار بار اختلافات ہوئے اور کبھی کسی نے اٹھائیس روزے رکھے اور کسی نے انتیس، کئی بار یہ گنتی اکتیس تک بھی پہنچی ہے۔ ایک بار بقرعید کے سلسلے سے یہ اعلان بھی کرنا پڑا کہ دو روز ہی قربانی ہو کیوں کہ ایک دن دیر سے چاند کا اعلان ہوا تھا۔ خلاصہ یہ سمجھا جائے کہ ہزاروں کمیٹیوں اور لاکھوں کی تعداد میں علما اور مفتیانِ عظام کی موجودگی کے باوجود عام مسلمانوں میں واضح اختلافات ، تنازعات، مسلکی تشدد کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں اور رہ رہ کر صورت حال قابو سے باہر ہونے لگتی ہے۔

 اصولی طور سے یہ بات بہت معقول لگتی ہے کہ ایک خطے میں چاند ایک ہی روز نظر آئے گا اور اس اعتبار سے وہاں رمضان اور عید کی تاریخیں یکساں طور پر متعین ہوں گی۔ عام طور پر ایسا نہیں ہونے پر یہ بات سامنے لائی جاتی ہے کہ مسلمانوں کا آپسی اتحاد ٹوٹ رہا ہے۔ مگر عملی طور پر جب کشمیر سے کنیا کماری تک اور گجرات سے بنگال تک پھیلے وسیع و عریض ملک ہندستان پر غور کرتے ہیں تو کچھ جغرافیائی اور کچھ سائنسی حقائق بھی ہمارے پیش نظر آجاتے ہیں ۔ مذہبی معاملہ تو شروع سے آخر تک ہے اس لیے چاند کے سوال کو مذہب کے اصول و ضوابط سے زیادہ دور لے جاکر نہیں غور و فکر کیا جاسکتا۔

  جغرافیائی پہلو سے جب چاند کے بننے (Formation)   کے سلسلے سے وقت کا تعین اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے پورب سے پچھم کے علاقوں میں چاند کے دیکھنے کے اوقات میں خاصا فرق ہوسکتا ہے۔ اسی وجہ سے کبھی سعودی عرب یا خلیج کے ممالک میں جس روز عید منائی گئی ، اس کے اگلے دن ہندستان یا پاکستان میں اس کی نوبت آئی۔ نہ جانے کیوں یہ عام اصول بنتے ہوئے سنا گیا کہ عرب اور ہندستان میں عید اور روزے کے معاملے میں ایک دن کا فرق ہوتا ہے۔ یہ دلیل بار بار اتنی شدت کے ساتھ پیش کی جاتی ہے کہ عام لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں ۔ آدھے جھگڑے کی جڑتو صرف یہی مفروضہ ہے کیوں کہ لوگ یہ پتا کرنے لگتے ہیں کہ عرب میں اگر آج روزہ رکھا گیا تو ہندستان کے لوگ اگلے روز روزہ رکھیں گے۔ جب کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ محض ڈھائی گھنٹے کا فرق ان دونوں ممالک کے وقت میں موجود ہے۔

 ہندستان کی جغرافیائی تکثیریت کا احساس کیجیے اور جب مون سون کی آمد آمد کا مرحلہ ہو تو ننگی آنکھوں سے چاند کا نظر آنا آسان نہیں ۔ ممکن ہے چاند کے ہونے کے باوجود کئی ریاستوں میں چاند نہ دیکھا جاسکے۔ ایسے ہی مرحلے میں نزاکتیں پیدا ہوتی ہیں کہ جہاں چاند نظر آیا ، اس کی شرعی اعتبار سے شہادت لی جائے اور پھر ایک بڑے حلقے کو اس میں شامل کرتے ہوئے رویت کا اعلان کیا جائے۔ یہیں ایک بڑا مسئلہ اور پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے مذہبی اداروں میں اعلان کرنے سے قبل بڑے پیمانے پر صلاح و مشورہ اور بحث و حجت کے بجائے نیوز چینلوں کی طرح ’’سب سے پہلے ہم نے اعلان کیا‘‘کا انداز نظر آتا ہے۔ اب جب ایک بڑے حلقے کو صلاح و مشورہ میں شامل کیے بغیر آپ نے اعلان کردیا تو اس کے نتائج برداشت کرنے پڑیں گے۔ سب سے مشکل مرحلہ شہادت کا ہے اور وہ اصولی ہے۔ جدید وسائل کی موجودگی کے باوجود جرائم پیشگان کی نئی نئی تکنیکیں بھی آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں ۔ سائبر کرائم کی دنیا اتنی وسیع ہے کہ موبائل پر کسی شخص یا کسی مختصر حلقے سے کوئی اطلاع آجائے تو وہ کس قدر مستند اور بااعتبار ہے، اسے بہ نظرِ توجہ دیکھنا چاہیے۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ انتیس شعبان اور انتیس رمضان کے موقعے سے دارالقضاء یا اسی طرح کے متعلقہ اداروں کے سب سے اعلا عہدے داران موجود نہیں ہوتے۔ اب مرکزی سطح پر جب ذمے داران کی قلت ہوگی تو فیصلوں کے اعلان میں بھی دس قباحتیں پیدا ہوں گی۔ سب سے بڑا مسئلہ ضلعی سطح کے اداروں سے پیدا ہوتا ہے جو مرکزی اداروں سے زیادہ جلد فیصلے عوام تک پہنچا دیتے ہیں ۔ ایسے فیصلوں سے گائوں گائوں میں جھگڑے پیدا ہوئے اور ہماری بٹی ہوئی قوم اور بھی بٹنے کے لیے مجبور ہوئی۔

 سوشل سائٹ کے زمانے کی دنیا میں ہر کس و ناکس کے پاس زبان ہے اور وہ ہر معاملے میں اپنی بات پیش کرنا چاہتاہے۔ سب سے زیادہ دشواری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب چاند کے سلسلے سے مذہبی اور جغرافیائی پیچیدگیوں سے بے خبر قوم ایسے مسئلوں پر اپنی بات کہنے کے لیے سامنے آجاتی ہے۔ نشانہ اکثر مذہبی ادارے اور علماے کرام ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر عوام کا غصہ اور اختلاف کی لَے دونوں نادرست اور ناموزوں نہیں ہوتے اور مذہبی جماعتوں ، اداروں اور علماے کرام سے اس مرحلے میں ایسی تسامحات سرزد ہوجاتی ہیں جن کے لیے طنز و طعن لازم ہوجاتا ہے۔ اسی میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو تمام حقائق اور عملی پہلوئوں سے بے پروا بڑی معصومیت کے ساتھ یہ سوال قائم کرتا ہے کہ اتحادِ بین المسلمین وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے اور اسی کے مطابق سب کو عمل کرنا چاہیے۔ بھوک اورجہالت سے لڑنے کے لیے اگر اتحادِ بین المسلمین کی بات کی جائے تو ایک بات ہوتی ہے مگر آج تک اس پہلو سے کوئی مہم نہیں چلائی جاتی۔ رمضان اور عید کا چاند ایک روز اُگا لیا جائے یا کسی جذباتی مسئلے پر یہ معصوم سا نعرہ دے کر باقی سوالوں کو اندھیرے میں ڈال دیا جائے، یہ اتحادِ بین المسلمین نہ ہوکر ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی اور تماشہ ہے۔

ہر شہر اور ہر صوبے میں مسلمانوں کے نام پر جو چھوٹے بڑے ادارے کام کررہے ہیں اور لاکھوں ، کروڑوں اور بعض کا ٹرن اوور عربوں میں ہے، وہ سارے لوگ اتحادِ بین المسلمین کے نمونے کے طور پر شعبان میں ہی ایسی کوئی کمیٹی کیوں نہیں بنالیتے جن میں اگر ایک شہر میں ایک ہزار ادارے ہیں تو تمام کے سربراہان شامل ہوں اور انتیس شعبان اور پھر اسی طرح انتیس رمضان کو وہ ہزار لوگ اس شہر میں ایک مقام پر بیٹھ کر اس فیصلے کو انجام دیں ۔ جب امارت شرعیہ یا مسلم پرسنل لا بورڈ پانچ لاکھ لوگوں کو پٹنہ کے گاندھی میدان میں مذہبی اور سیاسی مقاصد کے لیے جمع کرسکتا ہے تو ہر سال چاند کے جن مسئلوں پر ہم ایک دوسرے کا سر پھوڑنے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں ؛ کم سے کم اس سے تو نجات مل سکے گی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی ادارے سیاسی اداروں کی طرح چلنے لگے ہیں اور نمود و نمائش اور چودھراہٹ کا جوش اتنا زیادہ ہے کہ مختلف مذہبی اور مسلکی حلقوں کے بیچ صلاح و مشورہ کرنے میں انھیں پریشانی ہوتی ہے یا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اپنے حلقے سے کچھ تقسیم کرنے جیسا ہے۔ اسی لیے اتنی جلدی میں اعلان کرنے کا یہ انداز سامنے آیا جس کی وجہ سے خلفشار پیدا ہوگیا۔ جب تک ہر شہر یا صوبے کے مرکز میں سو اور ہزار علما ایک جگہ بیٹھ کر تمام مسلک کے لوگوں کے ساتھ ایسا فیصلہ نہیں کریں گے، مسائل میں اضافہ ہی ہوگا۔

  اب دنیا بدل چکی ہے۔ علماے کرام یا امیرِ شریعت یا کسی شخص کے فیصلے سے نااتفاقی کی صورت میں دوچار دس آوازیں ضرور سامنے آئیں گی۔ جمہوری نظامِ حکومت میں رہتے ہوئے ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سارے لوگوں کی اسی انداز سے تربیت ہوئی ہے۔ سوالوں کے جواب کے بدلے اگر کوئی یہ کہنے لگے کہ آپ اپنے علماے کرام کا اکرا م نہیں کرتے یا آپ مسلمانوں میں نفاق پیدا کررہے ہیں تو یہ سمجھ جائیے کہ آپ حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔ یہ ضرور ہے کہ مذہبی معاملات پر مذہبی علم سے عاری افراد کو فیصلہ کن گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے مگر ایسے لوگوں کے دل کو جو ٹھیس پہنچتی ہے ، اس کا تدارک کون کرے گا؟سوال آخر آخر مذہبی اداروں اور علماے کرام کے پالے میں ہی پہنچتا ہے۔ رمضان کی آمد پہ تو مسلمانوں میں آپسی تنازعات بہت رہے مگر اس بار عید میں پھر ایسی کوئی چپقلش موسم کی خرابی کی وجہ سے نہیں ، علماے کرام کی بے اعتدالی کی وجہ سے سامنے آئی تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پانی سر سے اونچا ہورہا ہے اور ہندستان کے عوام طرح طرح کی مذہبی دکان داریوں کے خلاف گول بند ہونے لگیں گے۔ ایسے مشکل دن کو ٹالتے رہنا ضروری ہے اس لیے بڑے مذہبی اداروں کو روادارانہ انداز اور جمہوری طریقۂ کار کے ساتھ پوری شفافیت لاتے ہوئے کام کرنے کی تیاری شروع کردینی چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔