انسان اور زمین کی حکومت(قسط 41)

رستم علی خان

چنانچہ حضرت یونس نے فرمایا کہ میں ہی اپنے آقا سے بھاگا ہوا غلام ہوں پس مجھے اٹھاو اور سمندر میں ڈال دو- لیکن کشتی والے نہ مانے اور کہا کہ ایسا ہر گز ممکن نہیں ہو سکتا کہ ہم آپ کے چہرے کو دیکھتے ہیں جو نورانی ہے اور آپ ایک نیک بزرگ ہیں اور آپ تو لاشک ایک بابرکت وجود ہیں ہمارے لیے کشتی میں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ آپ ہوں- یقینا یہ کوئی اور ہی شخص ہے-

چنانچہ جب اور کوئی نہ اٹھا تو ان میں سے ایک نے مشورہ دیا کہ قرعہ اندازی کی جائے سو اس میں جس کا نام نکلے گا وہی اصل مجرم ہو گا اور اسے اٹھا کر سمندر برد کر دینا- چنانچہ سب کے نام الگ الگ پرچیوں پر لکھ کر یا کسی بھی طریقے سے قرعہ اندازی کی تو قرعہ فال جناب یونس علیہ السلام کے نام نکلا-

آپ نے پھر فرمایا کہ دیکھ لو قرعہ فال بھی میرے نام کا نکلا ہے پس یقین کرو میں ہی اپنے آقا کا بھاگا ہوا غلام ہوں پس مجھے اٹھا کر سمندر میں ڈال دو- لیکن وہ نہ مانے اور کہنے لگے کہ یہ یقینا غلطی سے ہوا ہو گا ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ آپ بھاگے ہوئے غلام ہوں- بلکہ آپ تو خود کسی عہد کے خلیفہ یا ولی نظر آتے ہیں سو یقینا ہم سے غلطی ہوئی ہم پھر قرعہ ڈالتے ہیں-

دوسری دفعہ بھی حضرت یونس کا نام ہی نکلا تب آپ نے کہا اب تو یقین ہو گیا- اب مجھے اٹھا کر سمندر میں پھینک دو تاکہ سب کی جان و املاک محفوظ رہے اور میری وجہ سے کسی کا ناحق نقصان نہ ہو جائے- لیکن وہ لوگ پھر بھی نہ مانے اور حضرت یونس کے بےحد اصرار پر بھی کہنے لگے کہ چلو ایک بار اور دیکھ لیتے ہیں پھر جو بھی فیصلہ آیا ہم اس پر قائم رہیں گے-

چنانچہ جب تیسری مرتبہ بھی حضرت یونس کا نام ہی نکلا تو وہ لوگ پھر سے اپنے ہی فیصلے کو غلط کہنے لگے اور حضرت یونس نے جب دیکھا کہ وہ لوگ پھر سے حیلے کر رہے ہیں اور کشتی اب قریب ہے کہ ڈوب ہی جائے تو آپ نے خود ہی اللہ کو یاد کیا اور سمندر میں چھلانگ لگا دی۔

جیسے ہی حضرت یونس نے سمندر میں چھلانگ لگائی اللہ تعالی نے ایک بڑی مچھلی کو حکم دیا کہ فورا حضرت یونس کو اپنے منہ میں لے لے اور خبردار نبی اللہ کو ہرگز ہرگز نہ نگلے بلکہ بس انہیں اپنے پیٹ میں رکھے اتنی مدت تک کہ جب تک اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہیں آ جاتا- چنانچہ مچھلی نے فرمانبرداری کا عہد کیا اور حضرت یونس کو اپنے پیٹ میں لے کر سمندر کی تہہ میں ڈبکی لگا گئ- اور بعض روایات میں ہے کہ جس مچھلی نے حضرت یونس کو نگلا تھا اسے آگے ایک اور بڑی مچھلی نے نگل لیا اور اس طرح حضرت یونس مچھلی کے پیٹ کے اندھیروں میں قید ہو گئے- واللہ اعلم الصواب اور مچھلی آپ کو سمندر میں لیے لیے پھرتی-
دوسری طرف بستی والوں کو جب حضرت یونس نے تین دن کی مہلت دی اور کہا کہ تین دن بعد عذاب آئے گا-

بعض روایات میں ہے کہ اس بستی میں کفر و شرک اور بت پرستی بھلے موجود تھی لیکن ان میں کوئی شخص جھوٹ نہ بولتا تھا- اور متعدد روایات میں ہے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ حضرت یونس علیہ السلام کبھی جھوٹ نہیں بولتے وہ جو بات کرتے ہیں سچ بیان کرتے ہیں- یہاں پر یہ بیان کرتے چلیں کہ انبیاء کی مخالفت ہمیشہ ان کی نبوت کی وجہ سے کی گئی- ورنہ اللہ کے تمام نبی سچے اور امانت دار رہے ہیں اور یہی انبیاء کا وصف اور پہچان رہی ہے کہ وہ صادق و امین ہوتے ہیں- اللہ کا پیغام پوری سچائی اور ایمانداری سے لوگوں تک پنہچاتے ہیں اور کوئی جھوٹ بدیانتی ان میں نہیں ہوتی نہ دنیاوی معاملات میں نہ دینی معاملات میں-

چنانچہ ان لوگوں کو یقین تھا کہ اگر یونس علیہ السلام نے عذاب کا کہا ہے اور اگر وہ بستی سے نکل گئے تو یقینا عذاب ضرور آئے گا- پس انہوں نے کہا کہ یونس کو دیکھو اگر وہ بستی میں ہی ہیں اور آج کی رات یہیں بسر کرتے ہیں تو اس کا مطلب کہ عذاب نہیں آئے گا اور اگر وہ بستی میں نہیں ہیں تو بس پھر سمجھ لو کہ ان کا وعدہ سچا ہے اور عذاب آ کے رہے گا۔

چنانچہ جب ان لوگوں نے بستی میں حضرت یونس کو نہ پایا تو لگے آپ کو ڈھونڈنے اور ہر جگہ دیکھا لیکن حضرت یونس کو کہیں نہ پایا-تب کہا انہوں نے کہ اب تو بس عذاب آ کر ہی رہے گا سو اس کی تیاری کرو- ادھر اللہ تعالی کو اپنے نبی کی بات رکھنی تھی تاکہ وہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یونس علیہ السلام جھوٹے تھے- سو جب صبح قریب ہوئی تو آسمان کے چاروں طرف سے ایسے گھنیرے بادل چھائے کہ ہر چیز کو دوبارہ اندھیرے میں ڈبو دیا- جب قوم کے لوگوں نے یہ دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ یہ بادل کوئی عام بادل نہیں ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجا گیا عذاب ہے-

چنانچہ وہ سب کے سب ایک کھلے میدان میں نکل آئے- اور اس انداز سے گریہ زاری کرنے لگے کہ سب نے پھٹے پرانے کپڑے پہن لیے- اپنے حال برے کر لیے- شوہر اپنی بیویوں سے الگ ہوئے یعنی مرد و زن الگ الگ ہو گئے- ماوں نے دودھ پیتے بچوں کو الگ کر دیا- مویشیوں اور جانوروں سے ان کے بچھڑے الگ کر دیئے گئے-

اب منظر یوں تھا کہ اس قوم کی ہر چیز رو رہی تھی اور گریہ زاری میں مصروف تھی- بچے ماوں سے الگ رو رہے تھے تو مائیں بچوں کو دودھ پلانا بھولی ہوئیں تھیں- شوہر کو بیوی کی ہوش تھی نہ بیوی کو شوہر کا پتا تھا- جانور اپنے اپنے باڑوں میں اپنے بچھڑوں کے لیے رو رہے تھے اور بےچین ہو ہو کر گھومتے تھے تو بچھڑے اپنی ماوں سے الگ بلبلا رہے تھے-اونٹ بھی بلبلاتے تھے ان کے بچے بھی، گائیں بھی رانبھتی ان کے بچھڑے بھی، بکریاں منمناتی اور ان کے بچے الگ منمناتے- اور قوم کے لوگ روتے اور دعائیں مانگتے4 اور اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگ رہے تھے جن کی وجہ سے ان پر وہ عذاب نازل کیا گیا تھا- اور عہد و پیمان کر رہے تھے کہ وہ حضرت یونس علیہ السلام اور ان کے رب پر ایمان لے آئے اور ہر بات جو حضرت یونس نے بیان فرمائی وہ ایمان لانے والے ہیں ہر اس بات پر- الغرض کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو خشک ہو- اور نہ کوئی زبان ایسی تھی جو چپ ہو- وہ سب کے سب یہاں تک کے ان کے جانور اور مویشی بھی رو اور بلبلا رہے تھے-

یہ ایک ایسا رقت آمیز منظر تھا کہ اگر کوئی پتھر سے پتھر دل بھی دیکھ لیتا تو خود پر قابو نہ رکھ پاتا اور ان کے ساتھ رونے دھونے لگتا- پھر کیسے ممکن تھا کہ اللہ جو کہ اپنے بندوں کو ستر ماوں سے بھی زیادہ پیار کرنے والا ہے اس کو ان کے اس حال اور آہ و زاری پر رحم نہ آتا- چنانچہ اللہ تعالی نے ان کی توبہ کو قبول کر لیا اور ان پر سے عذاب کو اٹھا لیا گیا- چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے؛
ترجمہ: پھر کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی کہ ایمان لاتی تو اسے اس کا ایمان نفع نہ دیتا، سوائے یونس کی قوم کے، جب وہ ایمان لائی تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے زلت کا عذاب دور کر دیا اور ایک مدت تک انہیں (فوائد دنیا سے) بہرہ مند رکھا (سورہ یونس)
روایات میں مذکور ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب کا ارادہ فرمایا جاتا تو سب سے پہلے ان کے لیے توبہ کا دروازہ بند کیا جاتا- لیکن قوم یونس وہ منفرد قوم تھی جن پر عذاب ظاہر کرنے کے بعد جب وہ ایمان لے آئے اور توبہ کر لی تو ان کی توبہ قبول کی گئی اور ان پر سے دنیاوی عذاب کو اٹھا لیا گیا- بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے-

اس چیز میں بھی علماء اکرام اور مفسرین کرام کی بہت بحثیں ہیں کہ آیا کے قوم یونس سے جو عذاب اٹھایا گیا وہ صرف دنیاوی زلت و رسوائی کا ہٹایا گیا یا آخرت کا بھی- بعضوں کے مطابق یہ صرف دنیاوی حد تک تھا آخرت میں ان کے عملوں کی سزا انہیں دی جائے گی- جیسا کہ قرآن میں ہے کہ "جب وہ ایمان لائی تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے زلت کا عذاب دور کر دیا” یعنی یہ صرف دنیا کی زندگی تک تھا کہ جب عذاب کو دیکھ کر ایمان لے آئے تو ان کی زندگی سے عذاب دور کر دیا گیا-اور بعض مفسرین کرام کے مطابق یہ دنیا اور آخرت دونوں کے لیے تھا کہ جب کوئی ایمان لے آتا ہے تو اسے اس کا ایمان دنیاوی زندگی میں بھی فائدہ دیتا ہے اور آخرت کی زندگی میں بھی اس کے لیے اکثیر انعامات ہیں-

البتہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے اور وہی بہتر جانتا ہے ساری حال و حقیقت جو ہو چکا جو ہو رہا اور جو قیامت تک ہونے والا ہے- الغرض قوم یونس سے اللہ تعالی نے ان کی توبہ کرنے اور ایمان لانے کی وجہ سے عذاب کو دور فرما دیا- ادھر حضرت یونس مچھلی کے پیٹ میں قید تھے۔

تبصرے بند ہیں۔