رکھ سکے اب بھی نہ گر اپنی صفوں میں اتحاد 

سمیہ فرحین عبدالمجیب

(جامعۃ الصفۃ الاسلامیۃمرکز اسلامی،اورنگ آباد )

اپنے جذبات وفکر کے اظہار کے لیئے چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ساتھ جس نازک موضوع کے تذکیرے کی خاطر آج قلم اٹھایا ہے وہ ہے ہمارا  ’’مسلم اتحاد‘‘  اتحاد اور یک جہتی ایک بہت بڑی طاقت ہے جس کی قو ت اور عدم موجودگی کی منفی صورتوں کا بھی مشاہدہ ہم زندگی کے ہر مرحلے پر کرتے ہیں۔

اسی سے تہذیبیں وجود پذیر ہوتی ہیں اور قومیں تقویت پاتی ہیں۔ جب یہ بنتا ہے تو فضائیں خوشگوار ہو جاتی ہیں اور بگڑتا ہے تو اس سے منفی اثرات سماج کے لیے زہر کا کام کرتے ہیں اور مضبوط سے مضبوط قوم کو کمزور بنا دیتے ہیں جس کی تنبیہ اللہ اپنی کتاب میں اسطرح کرتے ہیں  :

’’اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑجاؤ اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی، اور صبر کرو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘

مذکورہ آیت کا جائزہ اگر ہندوستان کے موجودہ حالات میں لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا کی مختلف قسم کے مسلکی فِرقی و جماعتی اختلافات کی وجہہ سے مسلمان اپس میں دشمن بنے بیٹھے ہے جو ہماری کمزوریوں کا باعث ہے  اور جس کے سبب ہم قوم و ملت کے درپیش ملکی مسائل نظر انداز کرنے لگتے ہیں۔

دورِ حاضر کے ملکی مسائل سے تو آپ سب واقف ہی ہیں۔ ملک میں برسرِ اقتدار بی ۔جے۔پی۔ حکومت اپنی ناکامیوں  پر پردہ ڈالنے کے لئے کسی نہ کسی طرح مسلمانوں پر تشدد کر رہی ہے اور کسی نا کسی مسلمانوں پر ظلم کرکے مسلط ہونا چاہتی ہیں۔ چاہے وہ بابری مسجد کا مسئلہ ہو یا پھر طلاق ثلاثہ بل کا اسی کے ساتھ ساتھ کہی لوجہاد، گھرواپسی، گائے ماتا کی ہتیا، بھارت ماتا کی جئے اور پاکستان بھجوانے کی باتیں بھی بار بار بکاؤ چینلوں کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ چند گؤرکشکوں نے تو مقدس گائے کی ہتیا کو اتنا لہوں دیا کہ محمد اخلاق کے قتل سے شروع ہوئی یہ فرقہ وارانہ سازش آج تک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے اور اس جانور کی وجہہ سے اب تک سینکڑوں مسلم نوجوان اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

ہمارا ملک ساری دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہی وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مذاہب کے ماننے والے ہنسی خوشی ایک گلدستے کی مانند رہتے ہیں۔ اسی ملک میں تقریباً 1700؍ زبانیں بطور مادری زبانیں بولی جاتی ہیں۔ 125؍ کروڑ کے اس ملک میں تقریباً 6؍ ہزار ذاتیں پائی جاتی ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب اسلام، عیسائیت، ہندو وغیرہ کے ماننے والے ہندوستان میں موجود ہیں۔ اسی لئے ہمارے ملک کے دستور نے بھی تمام فرقوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو آزادی فراہم کی ہے اور سب کے درمیان بھائی چارہ اور امن وامان ہمارے دستور کی روح کہا جاتا ہے ایک ایسے ملک کا خواب دکھاتا ہے جس کی بنیاد تمام شہریوں کے درمیان اخوت، مساوات عقیدہ و عبادت ،خیال کی آزادی، سماجی و معاشی و سیاسی انصاف جیسی اعلیٰ انسانی اقداروں پر ہے۔

دستور کی دفعہ 25؍ میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے اور اس کی پیروی کرنے اور اس کی تبلیغ کر مساوی حق ہے پھر بھی بر سر اقتدار حکومت بی۔جے۔پی۔ انگریزوں کے ایجنڈے  Divide & Role  پر عمل کر رہی ہیں اور ہندوستان کے ہندو اور مسلمانوں کو بانٹ کر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگریزی کرکے اکثریتی طبقہ کو اپنی جانب راغب کررہی ہے اس سیاسی جماعت کے ہاتھ تو ہمیش ہی سے خون میں رنگے ہوئے ہے۔

چاہے  1992ء ہو، گجرات فسادات یا گودھر ٹرین حادثہ، عشرت جہاں انکاؤنٹر ہو یا سیراب الدین فرضی انکاؤنٹر ،احسان جعفری کا بہیمانہ قتل، گؤرکشک کے نام پر محمد اخلاق جیسے کئی بے قصوروں کا قتل ہو یا ماب لانچنگ کا شکار ہوئے محمد عظیم جیسے معصوموں کا قتل سبھی میں انہی کے ملوث ہونے کے ثبوت منظر عام پر آچکے ہیں۔

مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوئی،نا انصافی ہوئی مگر مسلمان خاموش  رہے۔  بہر کیف صحیح موضوع کی طرف یاد دہانی کراتی ہوں  ’’مسلم اتحاد‘‘ ۔

آپ سبھی نے دیکھا ہے کہ کوپرڈی عصمت دری کیس اور مراٹھا ریزوریشن کے لیے مراٹھا سماج کے لوگوں نے احتجاج کرکے پورے مہاراشٹر میں تاریخ رقم کی ہے اُن کا باہمی اتحاد ہی وجہہ ہے کہ وہ اپنے حقوق کی خاطر لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئے مسلمانوں کے لیے افسوس کی بات ہے کہ ہماری عائلی زندگی میں مداخلت ہماری شریعت میں مداخلت ہمارے پرسنل لاء میں مداخلت کی کوشش پر بھی امید سے کم احتجاج درج کیا گیا۔ قوم کو درپیش درجنوں مسائل ہیں جو ہم سے باہمی اتحاد کا تقاضہ کرتے ہیں مگر افسوس ہم کبھی ان مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں ہوئے۔

مراٹھا سماج کے لوگ لاکھوں کی تعداد میں سڑک پر اُترے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کردکھایا جس سے پورے ملک میں پیغام چلا گیا اور مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ مراٹھا ریزوریشن کے لیے مجبور ہوئے اور انھیں ریزوریشن حاصل ہوا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ مراٹھوں سے زیادہ مسلمان مہاراشٹر میں موجود ہیں۔ اگر مسلمان بھی متحد و سنجیدہ ہوکر اپنے مطالبات رکھے تو یقینا سرکار کو گھٹنے ٹیکنے پڑ یں گے۔

ایک بات یہ بھی ہے کہ مسلمان اگر سنجیدہ ہوبھی جائے تو مسلمانوں کے پاس منصوبہ بندی اور قیادت نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ماننے کی صفت بھی نہیں ہے۔ سب کے سب اپنے آپکو قائد اعظم سمجھتے ہیں۔ اسی لئے جب تک مسلمان اپنے مسائل کو نہیں سمجھیں گے، تب تک اسی طرح ظلم و زیادتی اور مذہب کے نام پر مار کھاتے رہیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان سب سے پہلے یکسوئی کے ساتھ اپنے مسائل کو سمجھے اور پھر انھیں حل کرنے کے لیے آپس میں متحد ہو جائیں آج ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہم کسی ایک کی بات پر ساتھ آنے سے گریز کرتے ہیں کسی نے کہا تھا "چار مسلمان ایک جگہ جبھی اسکتے ہے جب پانچویں کا جنازہ کاندھے پر ھو ” مراٹھوں کے تو مذہب میں دخل اندازی نہیں ہوتی تھی مگر اپنے حقوق کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر آئے، یہاں تو ہمارے مذہب ہمارے اسلامی حقوق کو نشانہ بنایا جارہا ہیں۔ ہمارے مسائل ایک ہیں، مگر ہم میں وہ اتحاد نہیں کہ اسد ضرورت قوم کو لاحق ہے۔ ہمارے لئے سوچنے کا مقام یہ ہے کہ جو مسلک ہمارا مسئلہ بنے ہوئے ہیں جو ہمارے اتحاد کے آڑ آرہے ہیں،  شرپسندوں نے کبھی ان مسلکوں کی بنیاد پر ہمیں نشانہ نہیں بنایا ہے۔ ظلم تو صرف مسلمان کے حصہ میں آیا ہے۔ اسی لئے ہمیں چاہئے کہ مسلکوں اور جماعتوں کے تصاد کو بلائے طاق  رکھتے ہوئے سنجیدگی سے قوم کے مسائل پر غور و فکر کریں اور کچھ عمل تیار کریں ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کر پائے گی۔

تبصرے بند ہیں۔