ٹیکنالوجی کے دور میں پامال ہو تی قدریں

حنا خان

(آکولہ مہاراشٹر)

موجودہ دور سائنس کا دور ہے۔ تعلیمی، معاشی، سیاسی، سماجی ہر میدان میں انسان نے اپنی صلاحیتوں کے جو ہر دکھائے ہیں۔ انسان کی خواہش آسمان چھونے کی ہے اور اس کی اسی خو اہش نےاسے چاند پر پہنچا دیا ہے۔ انسان پرانی روش کو چھوڑ کرایک نئے طرز پر اپنی زندگی گزار رہا ہے، اعلی سے اعلی تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہا ہے، لیکن اس کی ان تمام کوششوں اور کامیابیوں میں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ چھوٹ رہاہے۔

جی ہاں! زمانے کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کی خواہش نے اس کی بہت سی قدروں کو پامال کردیا ہے۔ آئیے جانیں کہ وہ کیا قدریں ہے جو صرف پامال ہی نہیں بلکہ ختم ہوتی جارہی ہیں-

اخلاقی گراوٹ:

بلاشبہ انسان بظاہر ترقی تو کررہا ہے لیکن اندرونی طور سے وہ پستی کی طرف بھی جارہا ہے۔ موجودہ دور کے انسان کے اخلاق نہایت ہی پستہ ہو چکے ہیں۔ غم و غصہ، حسد و تکبر، کے عنصر اس کے اندر پیدا ہو گئے ہیں۔

کسی کی ترقی دیکھ کر حسد کرنا، کسی پر غم و غصے کا اظہار کر نا جیسی برائیاں عام ہو گئی ہیں۔

تعلیم کے حصول کے بعد جتنی عاجزی و انکساری انسان کے اندر  آنی چاہئے وہ تو نہیں آئی، البتہ جتنی تھی وہ بھی فوت ہوگئی۔ حصولِ تعلیم کے بعد انسان  ایسا متکبر ہوا کہ خود کواہمیت دینے لگا اور سب سے اعلیٰ سمجھنے لگا، اپنی اصل کو ہی بھول گیا اور اس نے اپنے اخلاق کو تہ وبالا کر دیا۔

رشتوں میں دوری و ناچاقی:

جدید تعلیم و تکنالوجی نے انسان کو دور دراز کے انسان سے تو جوڑ دیا، لیکن اس سے وابستہ رشتوں سے دور کردیا۔ دن بہ دن رشتوں میں دوریاں بڑ ھتی جا رہی ہیں۔ انسان اپنی  ذاتی زندگی میں اس قدر مصروف ہو گیا ہے کہ اس کے متعلقین و رشتہ دار کس الجھن یا پرریشانی میں مبتلا ہیں اس بات کی اسے کوئی خبر نہیں۔ سوشل میڈیا(واٹس ایپ،فیس بک،انسٹاگرام وغیرہ) کا استعمال کرکے انسان دور دراز بیٹھے ایک انجان شخص سے اس کی خیر یت دریافت کر تا ہے، اس نے کھانا کھایا کہ نہیں یہ تک معلوم کر لیتا ہے۔ لیکن اس کے اپنے گھر میں ماں، بہن،بیوی، بیٹی، کس حال میں ہیں، انھوں نے کھانا کھا یا یا نہیں اس بات کی اسے قطعی پرواہ نہیں ہوتی، نتیجتاً ایک دوسرے سے شکایت وغصے کا تبادلہ ہوتاہے اور یہی شکایتیں رشتوں میں دوریاں پیدا کردیتی ہیں۔

تضیع اوقات:

"وقت” کی کوئی قیمت نہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ”اگر کوئی شخص اپنی زندگی بھر کی کمائی بھی صرف کرنے کے لیے تیار ہو جائے تو بھی وہ ایک گھنٹہ نہیں خرید سکتا، اس لمحہ کو واپس نہیں لا سکتا جو گزر چکا ہے”۔

آج کے اس تیز رفتار دور میں وقت کی قدر و قیمت تو اور بھی بڑھ گئی ہے، لیکن اس کے برعکس آج گھنٹوں ایسے برباد کیے جا رہے ہیں جیسے یہ کوئی بہت معمولی سی بات ہو۔ مرد ہو کہ عورت یا پھر بچے ہر کوئی وقت کو برباد کررہا ہے کبھی موبائل کے ذریعے تو کبھی ٹی وی کے۔  جہاں ایک لمحہ بھی ضائع کرنا انسان کے لیے ایک بڑا خسارہ ہے وہاں وہ گھنٹہ کیا بلکہ مکمل ایک دن بھی بڑے آرام سے برباد کر رہا ہے۔

بے شرمی و بے حیائی:

"شرم و حیا” اسلام کی خوبصورتی ہے، اسلام نے شرم و حیا کی تعلیم دی ہے، لیکن اس کے برعکس آج انسان نے شرم و حیا کو پس پشت ڈال کر بے شرمی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ اعلی سے اعلی تعلیم کے حصول کے لیے لڑکے لڑکیاں بڑے کالجز و یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ جہاں ہر مذہب و سماج کے طلبہ ایک ساتھ تعلیم حاصل کررہے ہو تے ہیں۔

ایسے میں جہاں مسلم طلبہ وطالبات کو اپنے مذہب و تعلیم کوپیش کرنا چاہئیے وہاں وہ اپنی تعلیم و تربیت کو بھول کر غیروں کے ماحول میں ڈھل جاتے ہیں،  شرم و حیا کا دامن قطعی ترک کردیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ بے شرمی کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔

لڑکیاں پردے کی عفت و عظمت کو تار تار کر رہی ہیں۔ اللّٰہ رب العالمین نے عورتوں کو دین اسلام میں نہایت ہی اہم مقام  عطا کیا ہے اور اس کی عصمت کی حفاظت کے لیے اسے پردہ میں رہنے کاحکم دیا ہے، لیکن افسوس کہ وہ پردہ میں خود کو قید و محصور سمجھنے لگی ہے۔ پردہ کی آڑ میں بے پردہ ہو کر خود کو دھوکہ دیتی ہیں۔

نقاب کے ذریعے خود کو ڈھانپتی نہیں بلکہ باقاعدہ طور سے خد و خال کو نمایاں کرتی ہیں۔ غیر محرم سے دوستی پیار و محبت فانی و وقتی عشق میں مبتلا ہو کر بے شرمی کی تمام حدیں توڑ دیتی ہیں اور اس  کے عشق میں مبتلا ہو کر اپنے والدین(جو کہ بے لوث محبت کے پیکر) ہو تے ہیں ان سے جھوٹ بولنا، انہیں دھوکہ دینا جیسی تمام برائیاں کر گزرتی ہیں۔ یہ تمام حرکتیں اس بات کا ثبوت  ہیں کہ اس تعلیم و تکنالو جی کے جدید دور میں شرم و حیا کا جنازہ بڑی دھوم سے نکل رہا ہے۔

 نفسا نفسی کا عالم:

اگر آج کے دور کو” نفسا نفسی” کا دور کہے تو بے جا نہ ہوگا۔کیوں کہ آج کا انسان خود کی ذات میں اس قدر مگن ہو گیا ہے کہ وہ ہر جگہ بس اپنا ہی فائدہ دیکھتا اور چاہتا ہے۔ ہر اس کام کو کرتا ہے جہاں اس کا اپنا ذاتی مفاد ہو۔ رشتہ دار، دوست واحباب پڑوسی کو تو جیسے وہ بھو ل ہی گیا۔ کس کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟ کون کس مصیبت میں ہے؟ ان تمام باتوں کو سوچنے کی جیسے اسے فکر ہی نہیں۔

حالانکہ یہ منظر تو قیامت کے دن رونما ہو نے والا ہے کہ جب تمام لوگ میدان عرفہ میں جمع ہوں گے اور کسی کو کسی کی خبر نہیں ہو گی، چاہے اس کے بغل میں اس کے ماں، باپ،بھائی بہن ہی کیوں نہ ہوں، وہ ان کی طرف سے مکمل طور سے غافل ہو گا۔

میدان حشر کی ہولناکی اس پر اس قدر طاری ہو گی کہ وہ ہر چیز سے بے خبر ہو کر صرف اور صرف اپنی خیر منا رہا ہو گا۔ مگر افسوس دنیا میں ہی یہ واقعات رونما ہو رہے ہیں، انسان ہر ایک رشتہ سے غافل ہو کر خود کی ذات میں مگن ہے۔ خود کی تکلیف، خوشی غرض ہر قسم کے جذبات جو اس کی خود کی ذات سے وابستہ ہیں وہ بس اسی کواہیمیت دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کی زندگی اس کی خود کی ذات میں سمٹ کر رہ گئ ہے- غرض انسان نے دور حاضر سے ہم آہنگی اختیار کرتے ہوئے تعلیم و تکنالوجی کے  میدان میں تو ترقی کرلی ہے لیکن وہ  انسانی اقدار کھو بیٹھا ہے، جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ خیر اب ضرورت ہے کہ نئی نسل کو اس نقصان سے بچایا جائے اس کےلیے سماج و خاندان کے بزرگوں کو عملی اقدامات کرنے کی  ضرور ت ہے۔ اس کام کے لیے سب سے پہلے والدین کو آگے آنا ہوگا، منصوبہ بند طریقے سے اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہوگی۔  جس طرح ہر چیز ایڈوانس ہوتی جا رہی ہے، اسی طرح نئی نسل بھی بہت ایڈوانس ہوگئی ہے۔ ایسے میں تربیت بھی اتنی ہی تندہی سے کرنی چاہئے۔

جو اقدار بچوں کو سکھانے ہیں، والدین پہلے خود اس کے حامل وپابند بنیں۔ کیونکہ بچے بڑوں کی نہیں سنتے وہ ان کی نقل کرتے ہیں۔ وہ اس کام کو نہیں کرتے جو انہیں کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، وہ اس کام کوکرتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کر تا ہوا دیکھتے ہیں۔ لہذا اس معاملے میں والدین کو بہت ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ چھٹی کے دن گھر میں فیملی اجتما عات ہوں، خاندان کے تمام افراد ایک جگہ جمع ہوکر ایک ساتھ کھانا کھائیں،  مزاح کریں، آپس میں تبادلہ خیال کریں۔ اس سے بچے رشتہ داروں و بزرگوں کی اہمیت و مراتب کو سمجھتے ہیں اور پھر وہ اس کو رواج دیتے ہیں۔

موبائل کا غیر ضروری استعمال:

جس طرح شو گر کی بیماری ہو تی ہے کہ یہ اپنے شکار کو آہستہ آہستہ اندرونی طور سے کمزور و لاغر کردیتی ہے اسی طرح موجودہ نسل کے لیے موبائل فون ایک خطرناک بیماری ہے جو اپنے شکار کو اندرو نی طور سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اس کی سوچنے سمجھنے کی صلا حیت، چستی پھرتی، صحت سب چھین لیتی ہے۔

لہذا والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مہلک مرض سے اپنے بچوں کو دور رکھیں۔ آج اگر گھر کے بچے موبائل فون سے واقف ہوئے ہیں تو صرف اس لیے کہ وہ جنم سے ہی اپنے والدین کے ہاتھوں میں اسے دیکھتے آرہے ہیں اگر بچہ کسی قسم کی ضد کرے،  یا والدین کو پریشان کرے تو وہ فوراً ہی اس کے ہاتھوں میں موبائل تھمادیتے ہیں جو کہ ان کی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی قدروں کو  بھی تباہ کر دیتا ہے۔

بیشک موبائل فون سائنس کی بہترین ایجادات میں سے ایک ہے، اس کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن سکّے کا دوسرا رخ بھی ہوتا ہے۔ سو والدین کو چاہئے کہ اس کے نقصانات سے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کریں۔  بچپن سے ہی انہیں موبائل فون سے دور رکھیں، ان کے سامنے خود بھی اس کا استعمال کم سے کم کریں۔ انہیں اس کے نقصانات سے واقف کروائیں اور جب انہیں اس کا استعمال کرنے کی ضرورت ہو تو اس کے صحیح استمعال کی طرف ان کی رہنمائی کریں۔ جیسے: بچوں کے لیے یو ٹیوب پرسبق آموز کہانیاں ہوتی ہیں، مختلف رنگ برنگی تصویروں کےساتھ ، گنتی، الفابیٹ سکھانے کا ایک موثر انداز ہوتا ہے۔ اسے دکھا سکتے ہیں لیکن اس کی اسکرین کو بچوں کی نازک آنکھوں سے دور رکھا جائے، بہت ہی اعتدال میں اس  کا استعمال کروایا جائے۔

 اسی طرح اسکول وکالج کے بچے اپنے پروجیکٹ وغیرہ کے لیے موبا ئل فون کے ذریعے اچھی مدد لے سکتے ہیں۔ اس طرح اور بھی بہت سے طر یقے ہیں جس کا  صحیح اور سودمند استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اسے صحیح انداز میں پیش کرے۔

تبصرے بند ہیں۔