زعفرانیت کا عروج اور مسلمانوں کیلئے مخلصانہ پیغام

محمد صابر حسین ندوی

’’لاتھنوا ولا تحزنوا وأنتم الأعلون ان کنتم مؤمنین‘‘(آل عمران:۱۳۹)

 عالم اسلامی کی چودہ سوسالہ تاریخ طاغوتی طاقتوں اور ربانی مظاہروں ، فرعونیت اور وحدانیت اور حق و باطل کی کشمکش کا مظہر رہی ہے، اس نے کبھی عالمی برادری میں اخوت و ہمدردی اور پر چم للہی کا پھریرا ؛دنیا کے عظیم بر اعظوں میں اس شان سے لہرا کہ مد مقابل کے سامنے سر تسلیم خم کر نے اور اس کی حاکمیت و اطاعت تسلیم کر نے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تاچنانچہ علامہ اقبال کو کہنا پڑا:’’تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا‘‘؛تو وہیں اس پر وہ دور بھی آیا جہاں ہنگامہ تاتارکے زمانے میں ایک خاتون کسی مسلم کی گردن پر پورے اعتماد واطمینا کے ساتھ تلوار پھیر دیتی، اس وحشیانہ حملہ کا اندازہ اس سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ معروف مورخ ابن اثیر کو بھی اس واقعہ کے نقل کرنے پر برسوں تردد رہا وہ لکھتا ہے ’’یہ حادثہ اتنا ہولناک اور ناگوار ہے کہ کئی برس تک اس پس و پیش میں رہا کہ اس کا ذکر کروں یا نہ کروں ، ابھی بھی بڑے تردد وتکلف کے ساتھ اس کا ذکرکر رہاہوں۔

یہ وہ حادثہ عظمی اور مصیبت کبری ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی، اس واقعہ کا تعلق تمام انسانوں سے ہے لیکن خاص طور پر مسلمانوں سے ہے، اگر کوئی شخص دعوی کرے کہ ازآدم تا ایں دم ایسا واقعہ دنیا میں نہیں پیش آیا تو یہ کچھ غلط دعوی نہ ہوگا‘‘(الکامل ابن اثیر:۱۳؍۔ ۳، ۲۰۲)، مؤرخ ابن کثیر تاتاریوں کی خوں آشامی پرلکھتے ہیں :’’بغداد میں چالیس دن تک قتل غارت کا بازار گرم رہا۔ ۔ ۔ بازاروں اور راستوں پر لاشوں کے ڈھیر اس طرح لگے تھے کہ ٹیلے نظر آتے تھے، ان لاشوں پر بارش ہوئی تو صورتیں بگڑ گئیں ، اور سارے شہر میں تعفن پھیلا، جس سے شہر کی ہوا خراب ہوئی اور سخت وبا پھیلی جس کا اثر ملک شام تک پہونچا اس ہوا اور وبا سے بکثرت مخلوق مری، گرانی، وبا، اور فنا تینوں کا دوردورا تھا‘‘(البدایہ ولنھایہ)۔ ایسے میں بسااوقات یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اب اسلام کا دم واپسیں ہے۔

غالباً عہد حاضر میں بھی عالمی پیمانے پر مسلمانوں کی بے وقعتی ودرماندگی اور فکر کشی بھی اسی زمانے کی یاد ہے، بالخصوص ہندوستان میں زعفرانی طاقتوں کا عروج، طغیانی وسرکشی کی حد تک قانون وضوابط کی بے توقیری اور ملک کے گوشہ گوشہ میں فتح وکامرانی کے نشہ نے اسے اظہر من الشمش کردیا ہے، ہر طرف خوف و ہراس اور ناامیدی و یاس کے گھنے بادل منڈلا رہے ہیں ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک ڈکٹیٹر شپ کی راہ پر برق رفتاری سے گامزن ہے، جو اپنے ساتھ ملک کی باہمی رواداری و محبت کو پامال کرنے پر آمادہ ہے اوربقول بعض صدی سے قبل جمہوریت کے خاتمہ کی تیاری ہے۔ تاریخ کے اس فیصلہ کن لمحہ میں صرف مسلم ہی وہ قوم ہے جو ڈوبتے کیلئے تنکے کا سہارا بن سکتی ہے، اسی کے پاس ’’أعلون‘‘ کا وہ تمغہ ہے جو تاریک ترین دور میں بھی شمع کا کام کرسکتی ہے، اسی کے پاس سرچشمہ ہدایت اور ’’لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ‘‘کا پیغام جاویداں ہے ؛جو نیم مرگ انسان اور انسانیت میں نئی روح اور خشک رگوں میں ابلتا خون دوڑادے، اسی کے پاس نصرت واعانت کا وہ مژدہ ہے جو تن تنہا میدان کارزار میں ہلچل مچادے، اسی کے پاس صدائے حق اور تکبیر مسلسل کی گرمی اور جوش وولولہ ہے؛جوباطل پرستوں اور فرعونی طاقتوں کے دانت کھٹے کردے۔

 خبردار۔ ۔ !خوف صرف خدا کااور حکومت صرف خدا کی ہے، ایسے موقع پر تم اپنے مصادر اصلیہ کی طرف لوٹ آو، دین کی حقانیت، سیاسی شعور، ہمت و حوصلہ کی نئی روح پھونک دو، زعماء ومفکرین اور جماعتیں متحدہ محاذ قائم کریں ، دین پر اعتماد، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور شعائر اسلام کی پاسداری کرتے ہوئے ہمہ گیر بیداری کی کوشش کرتے ہوئے تاریخ اسلامیہ کو گھر گھر پہونچائیں ۔ سن لو۔ ۔ !ناامیدی کفر ہے، ایمان کے مغائر اور شیطانی حربہ ہے؛جو کہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے’’ان الشیطان للانسان عدو مبین‘ ‘ (یوسف: ۶ ۲۳)، اگر تم سمجھتے ہوکہ اسلام اور مسلمان دوسروں سے کمتر، کمزور اور پرزہ رائیگاں ہیں، تو خدا کی قسم !وقت ہے کہ اپنے ایمان کا جائزہ لو، اور’’أنتم الأعلون‘‘ کی تفسیر یں پڑھواور غور کرو!۔

 وہ کیا بات تھی کہ جہاں مسلمانوں کو اچک لئے جانے کا خطرہ درپیش ہوتا ؛لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے عالم کو زیر پا کرنے کی بات کرتے، متحدہ عرب کا ڈیرہ مدینہ منورہ کے مقابل حملہ آور ہونے کو بیتاب ہوتا، قرآن کریم کے مطابق ان کی آنکھیں پتھرا گئیں تھیں ، کلیجہ منھ کو آگیاتھا’’اذ جاؤکم م فوقکم ومن اسفل منکم واذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر وتظنون باللہ الظنونا ‘‘(احزاب :۱۰، ۱۱)اور ہر پل ایسا لگتا کہ اسلام اور مسلمانوں کا قلع قمع اور نیست و نابود کی سازشیں کام کرگئیں ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے میں بھی مغرب و مشرق، قیصر وکسری اورشام کو جوتیوں مین رکھنے کی بات کرتے(سیرۃ ابن ہشام:۲؍۲۱۹ش)، نان شبینہ کو محتاج اصحاب صفہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم آتے تو انہیں فارس وروم کے فتح کی خوشخبری سناتے’’کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخرج علینا فی الصفۃ وعلینا الحوتکیۃ فیقول:لوتعلمون ماذخر لکم ماحزنتم علی مازوی عنکم ولیفتحن لکم فارس والروم‘‘(احمد:۴؍۱۲۸، ابو نعیم فی الحلیہ:۲؍۱۴)۔ اسی طرح حضرت ابوبکر ؓکی خلافت میں منکرین زکات، مرتدین کی گہماگہمی اور آپسی انتشار، اسلام اور مسلمانوں کے خاتمہ کا پتہ دیتی اور ایسا محسوس ہوتا کہ یہ دین آمنہ کے لال کے ساتھ ہی دفن ہوجائے گاایسے میں آپؓ فرماتے ہیں ’’أینقص الدین واأنا حی‘‘(مرقاۃ۔ ۔ کتاب المناقب:۶۰۳۴)اور فتنہ پروروں کی بیخ کنی کرنے اور فتنہ پروروں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔

 جہاں حق ہے وہیں باطل ہے، شیطان ہے تو اللہ رب العالمین بھی ہے، جہالت علم سے، تاریکی روشنی سے پہچان رکھتی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ایمانی حمیت و غیرت، روحانی تقویت اور سیاسی فہم وادراک پیدا ہو، اولیں سرچشموں سے وابستگی اور محاسبہ الہی کا خطرہ پیدا ہو، چنانچہ سیدی حضرت مولانا علی میاں ؒ فرماتے ہیں :’’عالم اسلام اپنے مد مقابل پر صرف اسی صورت میں غلبہ حاصل کر سکتا ہے کہ وہ اپنے حریف سے ایمان میں فائق ہو، زندگی کی محبت اس کے دل سے نکل چکی ہو، خواہشات نفسانی کے بند سے آزا دہو چکاہو، اس کے افراد شہادت کے حریص ہو ں ، جنت کاشوق ان کے دل میں چٹکیاں لیتا ہو، دنیا کافانی مال ومتاع ان کی نگاہ میں وقعت نہ رکھتا ہو، اللہ کے راستے کی تکلیفیں اور مصیبتیں ہنسی خوشی برداشت کرتے ہوں ، دراصل ایک خدا ناشاس منکرآخرت کے مقابلہ میں مؤمن کا یہی امتیاز ہے، اور اسی بنا پر اس سے یہ توقع کی گئی ہے کہ اس میں برداشت کی طاقت زیادہ ہوگی‘‘(انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال اثر:۳۳۱)۔

 اسی طرح جناب اسراراحمد صاحبؒ کے الفاظ میں :’’بنا بریں وقت کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ ایک زبردست علمی تحریک ایسی اٹھے جو سوسائٹی کے اعلی ترین طبقات یعنی معاشرے کے ذہین ترین عناصر کے فکر ونظر میں انقلاب برپا کردے۔ ۔ ۔ ۔ اور انہیں مادیت والحاد کے اندھیروں سے نکال کر ایمان ویقین کی روشنی میں لے آئے اور خدا پرستی وخود شناسی کی دولت سے مالا مال کردے۔ خالص علمی سطح اسلامی اعتقادات کے مدلل ثبات اور الحاد و مادہ پرستی کے پرزور ابطال کے بغیر اس تحریک کا سر ہونا ناممکن ہے، ۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ موجودہ دور میں فاصلے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں اور پوری نوع انسانی ایک کنبے کی حیثیت اختیار کرچکی ہے، لہذا علمی سطح کا تعیین کسی ایک ملک کے اعتبار سے نہیں بلکہ پوری دنیا کے اعلی ترین معیار کے مطابق کرنا ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(مسلمانوں کا عروج زوال:وجاہت علیDleelpk.com)۔

الغرض ہونا یہ چاہئے کہ ہم پھر سے پہلی اسلامی دعوت کے اصول و طریقہ کار کے مطابق مسلمانوں کو ایمان کی دعوت اور اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آخرت کے عقیدہ کی پوری طاقت کے ساتھ دوبارہ تبلیغ وتلقین کی جائے، وہی اعتماد واعتقاد بحال کیا جائے، اور اس کے لئے وہ سب راستے اختیار کئے جائیں جو اسلام کے ابتدائی داعیوں نے اختیار کئے تھے، اور عصر جدید کے وسائل وذرائع سے بھی بھرپور استفادہ کیا جائے، اور یہ اعتقاد رکھا جائے:۔

 نہ ہو ناامید، ناامیدی زوال علم و عرفاں ہے

امید مرد مؤمن ہے خدا کے رازدانوں میں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔