سچ بولو

افتخار راغبؔ

جھوٹے کا انجام برا ہے سچ بولو

سچّائی کا سر اونچا ہے سچ بولو

دل میں ہر دم خوف ہے سچ کھل جانے کا

یوں جینا بھی کیا جینا ہے سچ بولو

سچ بولو جھوٹے کی صورت کیسی ہے

سچّے کا چہرہ کیسا ہے سچ بولو

جھوٹ نہ جانے کتنے رنگ بدلتا ہے

سچ پہ کسی کا رنگ چڑھا ہے سچ بولو

جیون کیا ہے آندھی میں اِک ریت کا گھر

کتنے پل قائم رہنا ہے سچ بولو

ﷲ دیتا ہے عزّت بھی ذلّت بھی

جھوٹی شان میں کیا رکھا ہے سچ بولو

باطل کی پہرے داری میں بھی راغبؔ

سارا عالم بول رہا ہے سچ بولو

تبصرے بند ہیں۔