زمزم : حقیقت، فضیلت اور احکام و مسائل

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

اللہ عزوجل نے کچھ مقامات اور جگہوں کو نہایت بابرکت اور مقدس بنایا ہے، جس میں تمام مساجد کے بشمول خصوصا حرم مکہ ومدینہ اور مسجد اقصی کے باعظمت مقامات ہیں، خصوصا حرم مکہ سے متعلق جگہوں اور مقامات میں ایک ’’بئر زمزم ‘‘ ہے، جس کی حقیقت اور جس کا تقدس ہر مسلمان کے یہاں مسلم اور قابل قبول ہے۔

زم زم کی حقیقت:

زم زم مسجد حرام میں موجود مشہور اور با عظمت کنویں کا نام ہے، کعبہ شریف اور اس کے مابین تیس ذراع کافاصلہ ہے، یہ ’’مقام ابراہیم ‘‘ کے جنوبی سمت میں اس طرح واقع ہے اس کے شمال مغرب کا حصہ اٹھارہ میٹر کی دوری پر حجر اسود کے محاذات میں واقع ہے۔

’’زمزم‘‘ کانام زمزم اس کے پانی کی کثرت کی وجہ سے پڑا، ایک قول یہ بھی ہے کہ ’’زم زم‘‘ اور ’’زمزوم‘‘ کے معنی ہی کسی بھی چیز کی کثرت کے آتے ہیں، اورا سکی ایک وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ یہ پانی چونکہ’’اکٹھا اور مجتمع ‘‘ ہے اس لئے اس پر زمزم کا اطلاق کیا گیا، چونکہ جس وقت یہ پانی بہنے لگا تو حضرت ہاجرہ نے اس پانی سے فرمایا: ’’ زمزم‘‘ یعنی اکٹھے ہوجا، اس طرح یہ پانی یکجا اور اکٹھا ہوگیا، اس لئے اس کا نام ’’زمزم‘‘ پڑگیا، ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جس وقت یہ پانی نکل پڑا اور داہنے اور بائیں جانب بہنے لگا، تو حضرت ہاجرہ نے اس پانی کو اس کے اطراف مٹی سے اکٹھا کیا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’ اگر تمہاری ماں حضرت ہاجرہ نے اس پانی کا احاطہ نہ کیا ہوتا تو یہ مکہ کی وادیوں کو بھر دیتا‘‘۔ (مرآۃ الحرمین: ۱؍۲۵۵)

زمزم کی تاریخ :

مورخین کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ’’زمزم‘‘ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی ماں نے سیرابی حاصل کی تھی، لیکن اس پانی کے ابلنے اور نکلنے کی وجہ کے سلسلے میں مؤرخین کا اختلاف ہے، اس سلسلے کی مشہور روایت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور اپنے دودھ بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر بیت اللہ آئیں اور ان کو یہیں کچھ کھانا اور پانی کے ساتھ چھوڑ دیا، جب کھانا پانی ختم ہوچکا تو حضرت ہاجرہ اپنے بیٹے کو چھوڑ کر صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا کی جانب دوڑنے لگی، مدد کے لئے آواز دینے کی غرض سے انہوں نے صفا ومروہ کے سات مرتبہ دوڑ لگائے، حضرت اسماعیل علیہ السلام چیخنے چلانے اور اور اپنی ایڑیوں کو زمین پر رگڑنے لگے،  ان کے پیروں کے نیچے سے پانی کا چشمہ ابل پڑا، جب حضرت ہاجرہ نے وہاں کسی کو نہ دیکھا تو اپنے بچے پر بھیڑیئے کے خوف سے اس کے پاس لوٹ آئیں، تو دیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدموں کے نیچے سے پانی رس رہا ہے، حضرت ہاجرہ اس پانی کو روکتے ہوئے کہنے لگیں ’’زم زم‘‘ ۔ (فضائل مکہ وحرمۃ البیت الحرام : ۹۴)۔

’’زم زم‘‘ کے احکام:

فقہاء نے حجاج اور معتمرین کے لئے زم زم کے پانی کے پینے کو مستحب قرار دیا ہے، چونکہ نبی کریم ﷺ نے ’’زم زم‘‘ کے پانی کو پیا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں : ’’میں نے نبی کریم کو کھڑے ہونے کی حالت میں ’’زم زم‘‘ پلایا ہے عاصم کہتے ہیں کہ حضرت عکرمہ نے یہ قسم کھائی تھی کہ اس وقت آپ ﷺ اونٹ پر سوار تھے۔ (بخاری : باب ما جا ء فی زمزم، حدیث : ۱۶۳۷)۔ اور ایک روایت میں فرمایا : ’’ أنھأ طعام طعم، وشفاء سقم‘‘ ( یہ کھانے والے کے لئے کھانا اور پینے والے کے لئے شفاء کا سبب ہے ) (مسند الطیالسی: ۶۱) مسلم کی روایت میں ہے :’’ یہ مبارک پانی ہے، اور کھانے والے کے لئے کھانا ہے‘‘۔ (مسلم :باب من فضائل أبی ذر، حدیث: ۲۷۳)

اس لئے جس کے لئے زم زم میسر ہو وہ اسے خوب سیرا ب ہو کر پیئے، چونکہ اس سلسلے میں حدیث مبارک ہے : ’’ آیۃ ما بیننا وبین المنافقین أنھم لا یتضلعون من ماء زمزم‘‘ ( ابن ماجۃ:باب الشرب من ماء زمزم) ہمارے اور منافقین کے مابین ایک نشانی یہ ہے کہ وہ زمزم سیراب ہو کر نہیں پیتے۔

’’زم زم ‘‘پینے کے آداب:

’’زم زم‘‘ پینے کے کچھ آداب ومستحباب ہیں جس کا فقہاء نے تذکر ہ کیا ہے :

۱۔ قبلہ رخ ہو کر پیئے

۲۔ ’’بسم اللہ کہہ‘‘ کر پیئے

۳۔ تین سانس میں پیئے

۴۔ اور خوب آسودہ ہو کر پیئے

۵۔ فراغت پر ’’الحمد للہ ‘‘ کہے

۶۔ ہر گھونٹ پینے پر خانہ کعبہ کو دیکھے۔

۷۔ کچھ پانی اپنے سر، چہرے اور سینے پر چھڑکے۔

۸۔ دنیا وآخرت کے اپنے مطلوب کے لئے دعا کرے

اس سلسلے میں ایک ایک اثر مروی ہے حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر فرماتے ہیں کہ : میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک شخص آیا تو آپ نے فرمایا: کہاں سے آئے ہو؟ اس نے کہا : ’’زم زم‘‘ کے پاس سے، فرمایا: زم زم مناسب انداز میں پیا ہے،  اس نے کہا : کیسے ؟ فرمایا: جب تم زم زم پیو تو قبلہ رخ ہوجاؤ اور اللہ عزوجل کا نام لو، اور تین سانس میں زم زم پیو، اور اس سے خوب آسودہ ہو کر پیو اور فراغت پر ’’الحمد للہ ‘‘ کہو۔

اور ہر گھونٹ  پر خانہ کعبہ کو دیکھے، کچھ پانی اپنے سر، چہرے اور سینے پر چھڑکے، اور دنیا وآخرت کے اپنے مطلوب ومقصود کے لئے خوب دعا کرے، اور زم زم پیتے وقت یوں کہے ’’اے اللہ ! آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ : ’’ زم زم ‘‘ کا پانی پینے پر نیت سے مقصود ومطلوب حاصل ہوتا ہے، میں اسی لئے زم پی رہا ہو، پھر اپنی دنیا وآخرت کی مراد ومطلوب کو ذکر کرے، اور اس سلسلے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جو دعا کی تھی وہ دعا بھی کرے۔

’’ الَّلُھُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ عِلْمًا نَافِعُا، ورِزْقًا وَاسِعًا وشِفَاء منْ کُلِّ دَاء ‘‘( اے اللہ میں آپ سے علم نافع، رزق واسع، اور ہر بیماری سے شفا طلب کرتا ہوں ) (الاختیار لتعلیل المختار : فصل دخول مکۃ: ۱؍۱۵۶، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق: باب الإحرام: ۲؍۱۹) ( أحکام الحرمین المکی والمدنی فی فقہ الإسلامی: ۱۱۹)

زم زم کا پانی مطلب اور مقصد کی بر آری کے لئے کہیں بھی پیا جائے تو مؤثر ہے، خواہ حرم مکی میں یااس کے علاوہ دیگر مقامات پر، اگر زم کا پانی پینے والا اپنے علاوہ کسی کی نیت سے پیئے تو بھی مقبول ومطلوب ہوگی۔ مثلا اگر کوئی شخص پنے بیٹے یا بھائی وغیرہ کی نیت سے زم زم پئے تو وہ اس کے مقصد کے بر آوری کے مؤثر ہوگا۔ ( نہایۃ المحتاج: ۳؍۳۰۹)

حمیدی سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں سفیان بن عیینہ کے پاس تھا، انہوں نے یہ حدیث’’ ماء زمزم لما شرب لہ‘‘ سنائی ایک شخص مجلس سے اٹھا پھر لوٹ کر آیا اور کہنے لگا: ابو محمد ماء زمزم کے سلسلے میں آپ نے جو حدیث بیان کی کیا وہ صحیح نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، اس نے کہا:ابھی میں نے اس نیت سے ایک ڈول پانی پیا ہے کہ آپ مجھ سے ایک سو احادیث بیان کریں، تو اس سے حضرت سفیان نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، وہ شخص بیٹھ گیا تو حضرت سفیان نے اس کو سو حدیث سنائیں۔

حضرت عبد اللہ بن مبارک ماء زمزم کے پا س آئے فرمایا: ابن المؤمل نے ابو الزبیر سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ ماء زمزم لما شرب لہ‘‘ اے اللہ میں اس پانی کو قیامت کے پیاس سے بچاؤ کے لئے پیتا ہوں ( فتح القدیر: ۲؍۱۸۹)

زم کھڑے ہوئے کر پیئے یا بیٹھ کر؟

فقہاء نے فرمایا ہے کہ زم زم بھی عام پانیوں کی طرح بیٹھ کر پینامسنون ہے اور جس حدیث میں کھڑے ہوکر پینے کاتذکرہ ہے، وہ بیانِ جواز پر محمول ہے، چونکہ اس سے پہلے بخاری کی روایت کے حوالے حضرت عکرمہ کا قول گذرا کہ نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہو کر زم زم کا پانی نہیں پیا تھا آپ تو سواری پر سوار تھے۔ (بخاری : باب ما جا ء فی زمزم، حدیث : ۱۶۳۷)

زمزم ساتھ لانا :

فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ ’’زم زم‘‘ کو حرم مکی سے لایا جاسکتا ہے، پھلوں کی مثل، کیوں کہ یہ ختم ہونیوالی شیء نہیں ہے ( رد المحتار: ۲؍۶۲۵) کیوں کہ مریضوں کے لئے شفا کا باعث ہے، ترمذی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ مکہ سے زم زم کا پانی لاتیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بتلاتیں کہ آپ زمزم کا پانی مکہ سے لاتے اور بعض دیگر روایتوں میں یہ بھی منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ زم زم کا پانی لاتے اور اس کو مریضوں اور بیماروں پر چھڑکتے ’’ وکان یصب علی المرضی ویسقیھم‘‘ (التاریخ الکبیر للبخاری: ۳؍۱۸۹)  اورایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس پانی سے حضرت حسن وحسین کی تحنیک یک ( رد المحتار: ۲؍۶۲۵، دار الفکر، بیروت) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت سہیل بن عمرو سے ’’زم زم‘‘ کا پانی بطور ہدیہ کے طلب کیا ( مجمع الزوائد : باب فی ماء زمزم، حدیث: ۵۷۰۸)

زم زم سے پاکی کا حصول:

زم زم کے پانی سے استنجاء اور نجاست حقیقی کو کپڑے یابدن سے زائل کرنا مکروہے، بلکہ بعض علماء نے تو اس کو حرام قرار دیا ہے، البتہ پاک اعضاء پر وضو اور غسل کیا جاسکتا ہے  ( رد المحتار: ۲؍۶۲۵، دار الفکر، بیروت) بلکہ بعض نے تو اس طرح وضو اور غسل کو مستحب کہا ہے، احناف نے جنبی اور محدث کے لئے اس پانی سے غسل کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے (ارشادالساری شرح مناسک ملا علی القاری: ۳۲۸)

الغرض یہ کہ زمزم کا پانی نہایت بابرکت اور محترم پانی ہے، یہ فضیلت وبرکت کا حامل ہے، نبی کریم ﷺ نے اس پانی کو ’’مبارک‘‘ ’’غذا‘‘ اور ’’شفا‘‘ فرمایا ہے:

حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ خیر ماء علی وجہ الأرض ماء زمزم، فیہ طعام من الطعم، وشفاء من السقم‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۱؍۱۱) روئے زمین کا سب سے بہتر پانی زم زم ہے، یہ بھوکے کے لئے کھانا اور مریض کے لئے شفاء ہے، اس پانی کے پینے کی وجہ سے انسان کو کھانے سے استغناء حاصل ہوجاتا ہے اور اسے بیماری سے شفاء حاصل ہوجاتی ہے، حضرت ابو ذر غفاری کا اس سلسلے میں واقعہ منقول ہے کہ وہ نبی کریم کے پاس تشریف لائے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں وہ پہلا آدمی تھا جس نے اسلام کے طریقہ کے مطابق آپﷺکو سلام کیا میں نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ پر سلام ہو، آپﷺنے فرمایا تجھ پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمتیں ہوں، پھر آپﷺنے فرمایا تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا میں قبیلہ غفار سے ہوں۔ ۔ ۔ ۔ آپ ﷺنے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا تو یہاں کب سے ہے میں نے عرض کیا میں یہاں تین دن رات سے ہوں آپﷺنے فرمایا تجھے کھانا کون کھلاتا ہے میں نے عرض کیا میرے لئے زمزم کے پانی کے علاوہ کوئی کھانا نہیں ہے پس اس سے موٹا ہوگیا ہوں یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بل مڑ گئے ہیں اور میں اپنے جگر میں بھوک کی وجہ سے گرمی بھی محسوس نہیں کرتا آپ ﷺ فرمایا یہ پانی بابرکت ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھی بھر دیتا ہے ’’إنھا مبارکۃ‘‘ ( مسلم: باب من فضائل أبی ذر رضی اللہ عنہ، حدیث: ۲۴۷۳)

اور ایک روایت میں اس کو ’’شراب الأبرار‘‘ ( صالحین کا پانی ) فرمایا گیا، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : نیکو کاروں کے مصلی پر نماز پڑھو اور صالحین کا پانی پیو’’ صلوافی مصلی الأخیار، واشربوا من شراب الأبرار‘‘ حضرت ابن عباس سے دریافت کیا گیاکہ نیکوکاروں کا مصلی کیا ہے تو فرمایا : میزاب کے نیچے، اور دریافت کیا گیا کہ ’’ صالحین کا پانی ‘‘ کیا ہے تو فرمایا : زمزم( أخبار مکۃ للأزرقی: ذکر فضل زمزم وما جاء فی ذلک : ۲؍۵۲، دار الاندلس، بیروت)

زمانہ جاہلیت میں بھی یہ پانی نہایت متبرک اور مقدس شمار ہوتا تھا، لوگ اپنے بچوں اور عیال کو لا کر یہاں پانی پلاتے، اور زمانہ جاہلیت میں اس پانی کو ’’شباعۃ‘‘ (سیراب کرنے والا) کہا جاتا تھا۔ (تہذیب الأسماء واللغات: ۳؍۱۳۹)۔

زم زم نہایت متبرک اور محترم پانی ہے، خود بھی پیئے، خوب آسودہ ہو کر پیئے، آداب کی رعایت کے ساتھ پیئے، مریضوں اور بیماروں کو پلائے اور مقصد کی بر آوری کی نیت سے پئے، خود کے لئے دعا کرے دوست واحباب کے لئے بھی دعا کرے اور اور زمزم کا پانی لا کر دوست واحباب کو بطور ہدیہ عنایت بھی کرے۔

تبصرے بند ہیں۔