زمینی خدا

محمد خان مصباح الدین

غالبا آزادی سے قبل کی یہ روداد ہے جو خاندانی روایت کے مانند مجھے اپنے باپ دادا کی زبانی حاصل ہوئی ہے مجھے آج بھی یاد ہے دادا مغرب کی نماز کے بعد  گھر کے سارے بچوں کو اکٹھا کر کے کوئی نصیحت آمیز افسانہ سنایا کرتے تھے اور یہ انکا معمول تھا,انکا سنایا ہوا ایک افسانہ مجھے آج بھی یاد ہے سردی کا موسم تھا گاوں میں چارو طرف خوف ناک سنٹا تھا, سب لوگ کھانے سے فارغ ہوچکے تھے,گھر کے بڑے اپنے اپنے بستر پر تھے اور سارے بچے دادا کے لحاف میں گھس کر انکا پاوں دبانے میں مقابلہ آرائی کر رہے تھے اور ایک دوسرے سے اچھا دبانے کا دعوی کرکے سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے,اس وقت دادا نے ایک واقعہ سنایا تھا جو آج بھی دل و دماغ پہ نقش ہے,بات یہاں سے شروع ہوئی کہ

‘ہمارے خاندانی بزرگ اپنے وارثوں کو اپنے ارد گرد بیٹھا کر یہ واقعہ ذکر کیا کرتے تھے کہ انکے دور میں ایک سفاک زمیندار ہوا کرتا تھا قدرت نے اسے بہت ساری نعمتوں سے ایک ساتھ سرفراز کیا تھا مگر وہ انسان کی شکل میں ایک پاگل حیوان تھا جس نے اپنی طاقت اور غرور کے نشے میں چور ہوکر کئی علاقوں کو اپنی زد میں لے رکھا تھا اور اپنی منشا کے مطابق سارے علاقے کو بیخ بنیاد سے اکھیڑ پھینکا تھا,انکی اینٹ سے اینٹ بجا دی, تمام علاقوں کی زمین جائداد نا جائز اور فرضی طریقے سے اپنے قبضے میں لے لیا اور جس طرح چاہا اپنی ملکیت سمجھ کر اسے صرف کیا,علاقے کا ہر شخص اسکا زرخرید غلام بن چکا تھا انکے لیے ہر صبح قیامت کی صبح ہوتی تھی,آخرت کے عذاب کی شدت اور اسکا ذائقہ انہوں نے اسی دنیا میں محسوس کر لیا تھا, صبح کی پہلی کرن ان کے لیے بھوک پیاس کی شدت کے ساتھ ساتھ نئے طرز کے ظلم کا پیغام لے کر آتی تھی,وہ اسبات کو تسلیم کر چکے تھے کہ وہ پیدا صرف اس لیے ہوئے ہیں تاکہ زمیندار کا ظلم سہہ سکیں اور انکے جسم زمیندار کے ہنٹر کا لقمہ بن سکے,اس لیے وہ تمام مظالم کو اپنا مقدر سمجھ کر مسلسل برداشت کرتے چلے آرہے تھے چنانچہ وہ ہر روز اپنا معاملہ قدرت کے سپرد کر کے صبح کی پہلی کرن کیساتھ زمیندار کے مقبوضہ علاقوں میں بھوکے پیاسے کام کرنے کے لیےحاضر ہو جاتے اور پورے دن ظالم ومغرورزمیندار ہاتھی پے سوار خود سب کی نگہبانی کرتا تھا,اور بے چارے مظلوم بھوک پیاس کی شدت کے باوجود اپنے کام میں مگن رہتے اور اگر کوئی شخص بھوک پیاس سے مجبور ہوکر سورج کی کرنوں کو اس امید سے بھی دیکھنے کی کوشش کرتا کہ کب شام ہوگی اور پانی کی بوندیں اسکا گلا تر کرینگی,ایسی صورت میں اگر زمیندار کی نگاہ اس پر پڑی تو سب سے پہلے چمڑے کے چابک سے اذیت دیتا اور ساتھ میں وقت مقررہ سے زیادہ کام کرنے کا حکم نامہ بھی سنایا جاتا,اسکا ظلم یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے غریبوں اور مظلوموں کی زمین اور باغات کے ساتھ ساتھ انکے گھروں کو توڑ پھوڑ کر,کاٹ چھانٹ کر اپنے لیے نزہت گاہیں بنا رکھی تھی,دریا اور نہروں کے رخ بدل کر اپنے گھر کی دہلیز سے انکا گزر کر رکھا تھا,وہ ایک گرگ سیاہ مانند تھا,اپنی ان کرتوتوں کو بڑے شان سےاقبال ونصرت کا نام بھی دیتا تھا,اسکی ہر حرکت مہیب رنگ تھی,جس دن کسی مزدور کے گھر بچہ پیدا ہوتا سب سے پہلے زمیندار اسکی قسمت کا فیصلہ لکھنے مزدوروں کے چوگھٹ پر پہنچ جاتا,تکبرانہ انداز اور زوردار لہجے میں سب کو مخاطب کرکے یہ اعلان کرتا کہ;جو آدمی رکاب میں پاوں رکھتا ہے اسے کاٹھی تک پہونچنا ھی پڑتا ہے,پھراپنے چہرے پر تکبرانہ ہنسی بکھیر کر اس بچے کیطرف دیکھ کر کہتا کہ ابھی اس نے رکاب میں پاوں رکھا ہے کاٹھی تک پہونچنا ابھی باقی ہے,میں دشت شاموں کا خواب یونہی نہیں دیکھتا,میں بلا کا زیرک ہوں اسی لیے میں نے تمہاری شاہراہوں کو کمین گاہوں سے سجا رکھا ہے تاکہ تمہاری ہر حرکت سے میں مانوس رہوں جسکی وجہ سے نہ تم بغاوت کے لیے سر اٹھا سکو اور نہ ہی آزادی کے خواب دیکھ سکو,کیونکہ میں اپنی ذاتی شان وشوکت کے مقابلہ تمہاری خوشیوں کو پرکاہ سے زیادہ نہیں سمجھتا.

زمیندار بھی اللہ کی پیدہ کردہ مخلوق میں سے ایک ادنی انسان ہی تھا اس لیے اسے بھی موت آنی تھی کیونکہ وہ اس دنیا کے اندر بقا کسی کو نہیں ,جوں جوں اسکے دن قریب آ رہے تھے,اور بڑھاپے کے آثار کے اسکے چہرے کی سلوٹیں ظاہر کر رہی تھیں , دھیرے دھیرے وہ عمر کے آخری مرحلے میں پہونچ رہا تھا مگر اسکے باوجود اسکی سفاکی دوسرے انسانوں کے تئیں کم نہیں ہوئی,نہ ہی اسکی فطرت میں کوئی تبدیلی آئی بلکہ وہ پہلے سے زیادہ سخت نظر آنے لگا,گویا وہ قانون فطرت سے بے خبر ہو,قبر کی جانب بڑھتے ہوئے اپنے قدموں کی آہٹ اسے سنائی نہ دے رہی ہو,سب سے غیر مانوس ہوکر دنیا کی رنگینیوں میں بد مست ہوتا جا رہا تھا,ہر شخص اسکی فضا میں گھٹن سی محسوس کر رہا تھا,ہر روز اپنی حرکتوں سے آسمان والے کو دعوت مبارزت دیتا تھا,آخر غضب الہی کب تک خاموش رہتی,دنیا کے بڑے بڑے ظالم شہنشاہوں کو ایک دن قدرت کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا اور انہین منہ کی کھانی پڑی لہذا اس زمیندار کی کوئی حیثیت,کوئی وجود ہی نہیں تھا قدرت کے سامنے, دونوں جہاں کے مالک نے اسکا بھی انتظام کرنا شروع کر دیا اور اسکی بربریت مکمل ہونے کو چلی.

ہوا یوں کہ زمیندار کو عمر کے آخری پڑاو میں سیاحت کا شوق پیدا ہوا اور وہ بھی سردی کے موسم میں برفیلے پہاڑوں اور وادیوں کا,ادھر غلاموں کو حکم ہوا کہ کجاوے کس دیئے گئے زاد راہ بھی تیار کر دیئے گئے زمیندار نے ساتھ میں نوجوان لڑکیوں کو بھی اپنا ہمسفر بنایا حریر وکتان اور عاج کی چیزیں بھی ساتھ رکھی گئی,اور پھر غلاموں کو روانگی کا حکم دیا گیا تمام غلام کوزنش بجا لائے اسطرح زمیندار کی سواری نیپال کے برفیلے پہاڑوں اور وادیوں کو ہدف بنا کر نکل پڑی چند دنوں کی مسافت طے کرنے کے بعد اپنی تمام آسائش کے ساتھ انہوں نے وہاں کے نواحی علاقے میں قدم رکھا مگر اس وقت سردی اپنے پورے شباب پر تھی وہاں کے باشندے اسکی زد میں آکر موت کا شکار ہو رہے تھے,ٹھنڈک نے قہر پرپا کر رکھا تھا,ہر طرف حیران کن خاموشی, عجیب وغریب سکوت کا عالم یہ پیغام دے رہا تھا کہ جیسے یہاں کی فضا نے برسوں سے کسی مخلوق کی آواز ہی نہ سنی ہو,جیسے برسوں یہاں کی زمیں انسانی قدموں کی لمس سے محروم رہی ہو چنانچہ اس خوفناک منظر کی آہٹ اور اس میں دبے ہوئے خطرات کا کھٹکا سب سے پہلے جانوروں نے محسوس کیا پھر زمنیندار کے غلاموں نے مگر زبان کھولنے کی ہمت کسی میں بیدار نہ ہوئی لیکن اس کیفیت کی منظر کشی زمیندار کی لونڈیوں نے کی اور زمیندار کو آنے والے خطرات سے آگاہ کیا کہ یہاں کی زمین ہی نہیں بلکہ سیر دریا بھی یخ بستہ ہے ہر طرف ژالہ باری کیوجہ سے دور دور تک زمین تو کیا اپنا وجود صاف طور پر نہیں دیکھائی دے رہا ہےاس لیے ہماری بہتری اسی میں ہے کہ ہم عقل کے ناخن لیں اس لیے آپ اپنے اور اپنے آباواجداد کی کی مرزبون میں واپس لوٹ چلیں اتنا سننا تھا کہ زمیندار کا طیش آسمان چھونے لگا,بڑھاپے کیوجہ سے آنکھوں کے لٹکے ہوئے پپوٹے اچانک پیشانی چھونے لگے,زمیندار کا ضد کرنا بھی لازمی تھا کیونکہ اسکا قصہ جو یہیں تمام ہونا تھا,چنانچہ زمیندار نے اپنی پرجوش آواز میں کہا کہ ہم موسم سے نہیں بلکہ موسم ہم سے چلا کرتے ہیں ,ہم وہ نہیں جو وقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر واپس لوٹ جائیں بلکہ ہم وقت کو واپس ہونے پر مجبور کر دیا کرتے ہیں اس لیے بلا چوں و چرا آگے بڑھو,سردی نے صرف غلاموں کو ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ہاتھ پاوں ثلج کر دیئے تھے چونکہ زمیندار کا حکم ماننا ہی غلاموں کا فرض عین تھا اس لیے آخری سانس پر بھی اسی کا حق تھا,سواری مجبورا آگے بڑھی لیکن پھر لونڈیوں نے زمیندار کو یاد دلایا کہ اتنا زور اچھا نہیں کیونکہ لوگ اپنی ضد کیوجہ سے حالات اور وقت کے ہاتھوں مجبور ہوکر مارے جاتے ہیں آپ نے جو نمدے کے خیمے نصب کیئے ہیں وہ بھی اس غضب کی سردی کا مقابلہ نہیں کر سکتے.

مگر دولت اور طاقت کے نشے میں وہ خود کو خدا سمجھ بیٹھا تھا راحت اندوری نے شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا;

لو بھی چلتی تھی تو وہ باد صبا کہتے تھے

پاوں پھیلائے اندھیروں کو ضیا کہتے تھے 

انکا انجام تجھے معلوم نہیں شاید

اور بھی لوگ تھے جو خود کو خدا کہتے تھے

زمیندار کی ضد اور قدرت سے زوز آزمائی ہی اسکی موت کا سبب بنی,تقریبا رات کا آخری پہر سردی اپنے پورے شباب پر تھی,ساتھ ہی ساتھ قدرتی ہواوں نے اپنا زور دے سردی کا مکمل ساتھ دیا,جسکی وجہ سے سردی میں بلا کی شدت جاگ اٹھی اور ایسی صورت میں زمیندار کی ساری خدائی بے سود ہوکر رہ گئی,اسکی ساری آسائش وزیبائش,اونی لبادے سب قدرت کے ایک چھوٹے سے نمونے کے سامنے بکھر کر رہ گئے,زمیندار اس بولتی سردی کی تاب نہ لاکر حالت نزع میں چلا گیا اور اسکی یہ حالت علاج سے باہر ہوتی گئی,مشیت الہی کے سامنے کس کو چارہ ہے,ہزارو جتن غلاموں نے کیا مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا, ایک مقوی عرق کشید کروایا گیا,اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا,جب زمیندار کو یقین ہو چلا کہ اب موت سے راہ فرار نہیں اور وہ صرف چند سانسوں کا مہمان ہے تو اسے اپنے سارے گناہ ایک ایک کرکے یاد آنے لگے,اسکی پلکوں کے بیچ پھنسے ہوئے آنسو ریگستان میں کسی کنوے کے مانند دکھائی دے رہے تھے,آنسووں نے بھی آخری وقت میں مکمل طور پر اسکا ساتھ نہیں دیا,چند لمحوں میں اسکی موت ہوگئی,مرتے وقت اسکی زباں پر آخری الفاظ تھے; ہائے میری دولت……..!

           زندگی موت تیری منزل ہے 

          دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں

اسکی موت سے مظلوموں کو بے حد خوشی ہوئی مگر اپنی زر اور زمیں چھن جانے کا دکھ بھی انہیں بہت تھا,اس سے قبل کہ زمیندار کی اولاد ظالم باپ کی روایت کو برقرار رکھتی کہ ہندوستان پر انگریز اپنے ناپاک قدموں کیساتھ پوری طرح مسلط ہو گئے اور اب دوسرا مرحلہ یعنی انکے نکالے جانے کا عمل سرگرم تھا جسکی وجہ سے سارے لوگ جذباتی,مرو یا مارو کی راہ پر عمل پیرا ہو چکے تھے اس جذبے کا فائدہ کافی حد تک ہوا کہ آزادی ملنے کے بعد پھر کسی زمیندار نے سر اٹھانے کی جرات نہ کی اسکے برعکس زمینداروں کا رویہ مزدور طبقہ کے تئیں مختلف ہوا کیونکہ انہیں احساس ہو چکا تھا کہ اب یہ لوگ آزادی کا مطلب سمجھ چکے ہیں اس لیے دوبارہ یہ لوگ کسی بھی طرح کا ظلم برداشت نہیں کرینگے اس لیے انکی ضبط کردہ جائیداد واپس کر دینا ہی زیادہ بہتر ہے_

  ہر شخص جل رہا ہے عداوے کی آگ میں

  اس آگ کو بجھا دے وہ پانی تلاش کر

  کردے سوار اونٹ پہ اپنے غلام کو

  پیدل ہی خود چلے وہ آقا تلاش کر

تبصرے بند ہیں۔