زندگی بے بندگی شرمندگی

ریاض فردوسی

اس دن جب کہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔ (ان سے کہا جا ئے گا کہ) آج بشارت ہے تمہارے لیئے جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہی ہے بڑی کامیابی۔ (سورہ الحدید۔ آیت۔ 12)

روشنی جو کچھ بھی ہو گی، صالح عقیدے اور صالح عمل کی ہو گی۔ ایمان کی صداقت اور سیرت و کردار کی پاکیزگی ہی نور میں تبدیل ہو جائے گی جس سے نیک بندوں کی شخصیت جگمگا اٹھے گی جس شخص کا عمل جتنا تابندہ ہو گا اس کے وجود کی روشنی اتنی ہی زیادہ تیز ہو گی اور جب وہ میدان حشر سے جنت کی طرف چلے گا تو اس کا نور اس کے آگے آگے دوڑ رہا ہو گا۔ اس کی بہترین تشریح قتادہ کی وہ مرسل روایت ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کا نور اتنا تیز ہو گا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تک پہنچ رہا ہو گا، اور کسی کو نور مدینہ سے صنعاء تک، اور کسی کا اس سے کم، یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہو گا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا۔ (ابن جریر)۔ بالفاظ دیگر جس کی ذات سے دنیا میں جتنی بھلائی پھیلی ہو گی اس کا نور اتنا ہی تیز ہو گا، اور جہاں جہاں تک دنیا میں اس کی بھلائی پہنچی ہو گی میدان حشر میں اتنی ہی مسافت تک اس کے نور کی شعاعیں دوڑ رہی ہوں گی۔ یہاں ایک سوال آدمی کے ذہن میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے۔ وہ یہ کہ آگے آگے نور کا دوڑنا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر نور کا صرف دائیں جانب دوڑنا کیا معنی؟ کیا ان کے بائیں جانب تاریکی ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک شخص اپنے دائیں ہاتھ پر روشنی لیے ہوئے چل رہا ہو تو اس سے روشن تو بائیں جانب بھی ہو گی مگر امر واقعہ یہی ہو گا کہ روشنی اس کے دائیں ہاتھ پر ہے۔ اس بات کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوذر اور ابوالدرداء نے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا اَعرفہم بنورھم الذی یسعیٰ بین ایدیھم و عن اَیمانہم و عن شمائلہم میں اپنی امت کے صالحین کو وہاں ان کے اس نور سے پہچانوں گا جو ان کے آگے اور ان کے دائیں اور بائیں دوڑ رہا ہو گا (حاکم، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ)۔

عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث

مومن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے   

  ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ     

غالب وکار آفریں، کار کشا، کارساز

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’اللہ کے خوف اور ڈر سے مومن بندے کی آنکھوں سے کچھ آنسو نکلیں اگر چہ وہ مقدار میں بہت کم مثلاً مکھی کے سر کے برابر (یعنی ایک قطرہ ہی کے بقدر) ہوں پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر پہنچ جائیں تو اللہ تعالی اس کے چہرے کو دوزخ کی آگ کے لئے حرام کر دے گا۔ (مشکوٰۃ شریف)۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک روز خطبہ دیا اللہ کی حمد و ثنا کے بعد موت اور قبر کا تذکرہ فرمایا کہ قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ قبر ہر روز یہ اعلان کرتی ہے کہ میں تاریکی کا گھر ہوں میں کیڑوں کا گھر ہوں میں وحشت کا گھر ہوں اس کے بعد ایک دن آنے والا ہے جس میں بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور بڑے حواس باختہ ہو جائیں گے اور ہر حمل والی اپنا حمل ڈال دے گی اور تم لوگوں کو مست دیکھو گے حالانکہ وہ مست نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب سخت ہوگا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ رونے لگے (آپ کے چہرے پر آنسو بہنے لگے) اور آپ کے ارد گرد تمام مسلمان رونے لگے۔ (کنزالعمال)

حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کاش میں مینڈھا ہوتا میرے گھر والے مجھے ذبح کرتے پھر میرا گوشت کھا لیتے اور میرا شوربہ پی لیتے۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کاش میں ایک ٹیلے پر پڑی ہوئی راکھ ہوتا جسے آندھی اڑا لے جاتی۔ حضرت شداد بن اوس انصاری رضی اللہ عنہ جب بستر پر لیٹتے تو کروٹیں بدلتے رہتے اور ان کو نیند نہ آتی وہ یوں فرماتے اے اللہ جہنم نے میری نیند اڑا دی ہے پھر کھڑے ہو کر نماز شروع کر دیتے اور صبح تک نماز میں مشغول رہتے۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم

دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں و ہ طوفان

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’سو کیا (ایسے خوف کی باتیں سن کر بھی) تم لوگ اس کلام الٰہی سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور خوف (خدا اور عذاب الٰہی کے خوف سے) روتے نہیں ہو‘ تو صحابہ اتنا روئے کہ آنسو ان کے چہرے پر بہنے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کے رونے کی ہلکی ہلکی آواز سنی تو آپ بھی انکے ساتھ رو پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رونے کی وجہ سے ہم بھی رو پڑے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ کے خوف سے روئے گا وہ آگ میں داخل نہیں ہو گا۔ اور جو گناہ پر اصرار کرے گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور اگر تم گناہ نہ کرو (اور استغفار کرنا چھوڑ دو) تو اللہ تعالی ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریں گے (اور استغفارکریں گے) اور اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے گا۔ (حیاۃ الصحابہ)

کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے

وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی

مٹا یاقیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے

وہ کیاتھا؟ زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلمانی

حضرت ابو ہریر ہ ؓ سے روایت ہے‘فرماتے ہیں ‘ رسول اللہ  ﷺنے فرمایا: ’’اللہ (تبارک و تعالیٰ) قیامت کے دن اِرشاد فرمائے گا‘ اے آدمؑ کے بیٹے میں بیمار ہوا تو نے میری مزاج پرسی نہ کی۔ بندہ عرض کر ے گا‘ اے پروردگار ِ (کائنات سبحانہ وتعالیٰ) میں تیری عیادت کیسے کرتا‘تو تو جہانوں کا پروردگار ہے؟ تو رَبِّ ذوالجلال والاکرام فرمائے گا‘ کیا تجھے خبر نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تو نے اُس کی بیمار پرسی نہ کی‘ کیا تجھے خبر نہیں کہ اگر تو اُس کی عیادت کرلیتا تو مجھے اُس کے پاس پاتا‘‘۔ (مسلم‘ مشکوٰۃ‘ مرقاۃ‘ الترغیب والترہیب)

اِسلام محبت، اخوت‘بھلائی‘صداقت‘اِخلاص‘اِیثار وقربانی، خیر خواہی اور ہمدردی والا مذہب ہے۔ یہ مذہب اور اس کے ماننے والے دشمنیوں کو محبتوں میں تبدیل کرنے والا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔

حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک علاقے کے گورنر تھے اس وقت امیر المومنین شہر کی جامعہ مسجد میں جاتے اور عام لوگوں سے گورنر کی بابت پوچھتے تھیکے لوگوں تمھیں گورنر سے کوء شکایت تو نہیں ؟

جب حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت سعید بن عامر کی بابت لوگوں سے پوچھا کہ گورنر سے کوء شکایت تو نہیں تو لوگوں نے جواب دیا چار شکایتیں ھیں

 تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے گورنر کو بلایا اور فرمایا چار شکایتیں ھیں لوگوں کو آپ سے؟

(1) پہلی یہ کہ آپ لوگوں سے فجر کے وقت نہیں ملتے اشراق کے وقت ملتے ھیں۔ حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میری بیوی جس نے تیس سال میری خدمت کی اب بیماری کی وجہ سے معزور ہوگئی ہے، میں صبح نماز پڑھ کر اپنی بیوی کو ناشتہ بنا کر دیتا ہوں اسکے کپڑے دہوتا ہوں، اسکی نجاست صاف کرتا ہوں اسلیے دیر ہو جاتی ہے لوگوں سے ملنے میں، ابھی جب لوگوں نے پہلی شکایت کا جواب سنا تو انکے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

دوسری شکایت یہ ہے کہ آپ ہفتے میں ایک دن ملتے نہیں لوگوں سے؟

سعید بن عامر بولے میں اسکا جواب ہرگز نہ دیتا اگر پوچھنے والے آپ نہ ہوتے بہرحال بتا دیتا ہوں میں گورنر ضرور ہوں لیکن بہت غریب ہوں۔  میرے پاس یہی ایک جوڑا کپڑوں کا ہے، جسے میں ہفتے میں ایک دن دھوتا ہوں پھر سوکھنے تک میں اپنی بیوی کے کپڑے پہنتا ہوں اسلیے لوگوں کے سامنے نہیں آتا۔ اس دن یہ سن کر عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ  رونے لگے اور سعید بن عامر ؓکے بھی آنسو جاری ہوگئے۔  تیسری شکایت یہ کہ آپ رات کو ملتے نہیں ؟

سعید بن عامر رضی اللہ عنہ بولے دن سارا مخلوق کی خدمت کرتا ہوں میری داڑھی سفید ہوچکی ہے مطلب یہ کہ کسی وقت بھی مالک کا بلاوا آسکتا ہے اس لیے پوری رات اس رب زوالجلال کی عبادت کرتا ہوں کہیں دن حشر کو رسوا نہ ہوجاؤں۔

چھوتھی شکایت ان لوگوں کی یہ ہے کہ آپ بے ہوش کیوں ہوجاتے ہیں۔

سعید بن عامر رضی اللہ عنہ بولے چالیس سال کی عمر میں اللہ کی توفیق سے اسلام کی روشنی سے میرا دل منور  ومجلیٰ ہوا۔  ان چالیس سالوں کے گناہ یاد کر کے روتا ھوں کیا پتا میرے مالک مجھے بخشے گا بھی یا نہیں بس خشیت الہی سے میں بے ھوش ھو جاتا ھوں اے عمر رضی اللہ عنہ ان شکایتوں کے نتیجے میں جو میری سزا بنتی ہے۔ سنا دے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگا لیا۔ اللہ کے حضور سیدنا عمر ؓ کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھے مولیٰ تو نے مجھے بہترین ساتھی عطافرمائے ہیں، تیرا شکر اور احسان ہے۔ .

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

خودی کی جلوتوں میں مصطفائی

خودی کی خلوتوں میں کبریائی

زمین و آسمان و کرسی و عرش

خودی کی رو میں ہے ساری خدائی

امام احمد بن حنبل ؒنے کتاب الزاہد میں نوف البکالی سے روایت نقل کی ہے.

نوف البکالی کہتے ہیں کہ ایک مومن آدمی اور ایک کافر آدمی دونوں مچھلی کا شکار کرنے لگے۔ پس کافر آدمی نے اپنا جال پھنکا اور اپنے دیوتا کانام لیا تو اس کا جال مچھلیوں سے بھر گیا. پس مومن آدمی نے اپنا جال پھنکا اور اللہ کا نام لیا لیکن اس کے جال میں مچھلی نہیں آئی. نوف البکالی کہتے ہیں کہ یہ دونوں شام تک شکار میں مصروف رہے لیکن کیفیت یونہی رہی. پھر آخر کار مومن شخص کے جال میں ایک مچھلی پھنس گئی.

پس اس نے اسے اپنے ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اچھل کر پانی میں کود گئی.پس مومن واپس ہوا لیکن اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور کافر واپس ہوا لیکن اس کا تھلیلا مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا.پس مومن کے فرشتہ کو مومن کی اس بے بسی پر افسوس ہوا.اس نے اللہ سے عرض کیا اے میرے رب تیرا مومن بندہ جو تجھے پکارتا ہے وہ اس حال میں واپس جارہا ہے کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اور تیرا کافر بندہ اس حال میں واپس جاریا ہے کہ اس کا تھیلا مچھلیوں سے بھرا ہوا ہے. پس اللہ تعالی نے مومن کے فرشتے کو مومن کا گھر جنت میں دکھلایا اور فرمایا کہ میرے اس مومن بندے کو جنت کے اس گھر کے مقابلے میں دنیا کی مفلسی کچھ نقصان نہیں دے گی۔ اور کافر کا گھر آگ میں فرشتے کو دکھلایا اور فرمایا.کیا کافر کو اس کامال جو دنیا میں اسے حاصل ہوا ہے اس عذاب عظیم سے بچاسکتا ہے؟فر شتے نے عرص کیا اے میرے رب ہرگز نہیں۔

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم جہاں اور جس حال میں ہو (خلوت میں ہو یا جلوت میں، آرام میں ہو یا تکلیف میں ) خدا سے ڈرتے رہو۔ (اور تقویٰ تمہارا شعار رہے) اور ہر برائی کے پیچھے نیکی کرو وہ (نیکی) اس (برے) کو مٹا دے گی اور اللہ کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آو?‘۔ (ترمذی، احمد)

حضرت ابوشریح خزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔ (صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر178)

محبت اور شفقت اسلام کے دو انتہائی زریں اصول ہیں۔ مسلمان عالمی امن کے سب سے اعلی نمائندے ہیں۔  وہ اس عظیم احساس کو لے کر چلتے ہیں جو ان کی روح کی گہرائیوں تک پہنچا ہوا ہوتا ہے۔

مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر

ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

(تفسیر ابن عباسؓ، تفسیر ابن کثیر، تلخیص مولانا مودودی، کلیات اقبال، اور دیگر مضامین سے ماخوذ)

تبصرے بند ہیں۔